یہ شہر کی مصروف ترین سڑک تھی۔ آدھا کلو میٹرتک سیدھی چلی جاتی تھی۔ اس کے اختتام پر چوراہا تھا جس پر سگنل لگا ہوا تھا۔سڑک کے ایک طرف مصروف بازار تھااوردوسری طرف ایک نجی اسپتال۔اسپتال سے متصل ایک ویران سا میدان تھا۔ اسپتال کی دیوار کے ساتھ کسی ٹھیلے والے کو کھڑے ہونے کی اجازت نہ تھی۔اس لیے پھلوں کے ٹھیلے اس میدان کی ٹوٹی پھوٹی دیوارکیساتھ کھڑے نظر آتے تھے جوانتظامیہ کی بے توجہی کا شکار ہو کر اب ایک اجڑے میدان کا نقشہ پیش کرہا تھا۔اس میں سارا دن کتے لوٹتے، شام کے وقت قریبی بستی کے بچے کھیلتے اور رات کو چرسی موالی کونے کھدروں میں بیٹھے اپناشوق پورا کرتے اور دیواروں کی آڑ لے کر رفع حاجت بھی یہیں کرلیتے۔
یہی وجہ تھی کہ میدان میں جو کبھی باغ تھا، ہروقت ایک ناگوار سی بو پھیلی رہتی تھی۔ اس میں لگے در خت تو کب کے سوکھ چکے تھے۔ صرف ایک پرانا در خت باقی تھا جو دیو ار کے دوسری طرف بھی جھک آیا تھا۔ دیوار کے ساتھ یہی ایک سایہ دا ر جگہ تھی۔
پہلے یہاں ایک اندھا فقیربیٹھاکرتا تھا۔اس کے مرنے کے بعد کافی دنوں تک یہ جگہ خالی رہی۔پھر ایک دن بابوایک عورت کو اپنے رکشہ میں بیٹھا کر لایا اور اس جگہ بٹھادیا۔
بابو اس ِ علاقے کا بدمعاش تھا۔ ٹھیلے والوں اورمانگنے والوں سے بھتا وصول کیا کرتا تھا۔پولیس میں اس کی اچھی خاصی جان پہچان تھی۔اس عورت کے ساتھ تین بچے تھے۔چھوٹا بچہ ماں کی چھاتی سے مسلسل چمٹا ہوا تھا۔دوسرا اجنبیت سے ڈرا ہوا ماں سے کی قمیص پکڑے ہوئے تھا، بڑی بیٹی بھی تقریباً سات برس کی تھی۔بچوں کے ساتھ وہ عورت خود بھی کچھ حیران پریشان ہی تھی۔ پھر شایدیہ سوچ کر کہ ’اب تو یہیں رہنا ہے‘ عورت نے درخت کے نیچے ایک میلا سا کپڑا بچھا یا اور اس پر شیر خواربچے کو لٹا دیااور خود بھی ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
عورت اور بچے تو اس قدر میلے تھے،لگتا تھا جیسے برسوں سے نہائے ہیں نہ کپڑے بدلے ہیں۔آتے جاتے لوگ اسے بھیک دینے جھکتے تو بدبو کابھبکا ان کی ناک سے ٹکراتا، وہ ناک پرہاتھ رکھ لیتے۔
عورت بہت دن سے و ہاں بیٹھی نظر آرہی تھی۔شام کو بابو اسے رکشہ میں بیٹھا کر کہیں لے جاتا اور صبح لا کر پھرٹھیے پر چھوڑ جاتا تھا۔سارا دن بچے ادھرادھر بھاگتے پھرتے اور گندگی پھیلاتے مگر بابو کے ڈر سے اسے کوئی کچھ نہ کہتا۔سوائے میونسپلٹی کی مہترانی کے جس کی ذمہ داری فٹ پاتھ کی صفائی ستھرائی تھی۔مہترانی لاکھ باتیں سناتی مگر وہ کوئی جواب دیتی، نہ بچوں کو گندگی پھیلانے سے منع کرتی۔
لڑکی کوئی سا ت سال کی ہوگی۔ ٹھیلے وا لوں کے پاس جاکر کھڑی ہو جاتی اورپھل خریدنے والوں کے آگے ہاتھ پھیلا دیتی۔ خریدار کبھی سکہ یا پھل اس کے ہاتھ پر ر کھ دیتے کبھی کسی ٹھیلے والے کا گلا سڑاپھینکا ہواپھل اٹھا لیتی اور وہیں بیٹھ کر کھانا شروع کردیتی۔کبھی کوئی اسے دھتکار دیتا،کبھی کوئی دھکا دے دیتا۔ پہلے پہل تو وہ روتی پیٹتی رہی،پھر اس سلوک کی عادی ہو گئی۔
مہترانی اسے دیکھ کر اس کی ماں سے کہتی:
”مرن جوگی! تیری چھوکری بڑی حریص ہے۔ایسی ندیدی چھوری کو تو مرجانا چاہیے۔اس دنیا میں تو اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔“
عورت اسے اس طرح اطمینان سے دیکھتی جیسے وہ اسے بددعانہیں …… دعا دے رہی ہو۔
وہ ایک بڑے سیاست دان کی بیگم تھیں اور اپنی سہیلی کی عیادت کو ا سپتال آئی تھیں۔ اُنہوں نے وہاں گاڑی رکوائی ……ڈرائیور پھل لینے اتر گیا۔ لڑکی بھی گاڑی کے پاس آکھڑی ہوگئی اورگاڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ادھ کھلی کھڑکی سے اندر جھانکنے لگی۔ اس کا قد اتنا ہی تھا کہ ایڑیاں اٹھا کر پنجوں کے بل اچک کر کھڑکی میں سے اندر دیکھنا پڑا تھا۔اس کے بال مٹی اور دھول میں اٹے ہوئے تھے۔وہ اپنی کیچڑ بھری آنکھوں سے انہیں تک رہی تھی۔اسے دیکھ کر بیگم صاحبہ کو ابکائی آنے لگی تھی۔ا نہوں نے منہ پر رومال رکھ کر اسے ہاتھ اور منہ کے اشارے سے ہش ہش کیاجیسے کسی کتے یا بلی کو بھگانے کے لیے کرتے ہیں۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئی توانہوں نے گاڑی کاشیشہ چڑھا لیا۔
لڑکی دوسری طرف آ کھڑی ہوئی۔اس طرف دروازہ کھول کرڈرائیور پھل رکھ رہا تھا اور لڑکی ندیدہ نظروں سے گاڑی کے اندر رکھے پھلوں کوتک رہی تھی۔
”اسے ادھر سے ہٹاؤ۔“بیگم صاحبہ نے ناک پر رومال رکھتے ہوئے کہا۔ ڈرائیور نے لڑکی کوپرے دھکیل کر دروازہ بند کردیااور خود گھوم کر اپنی جگہ چلا گیا مگر وہ دوبارہ قریب آگئی اورکھلی کھڑکی میں سے ہاتھ ڈال کر پھل اٹھانے لگی۔
اسے اتنا قریب دیکھ کر بیگم صاحبہ تقریباً چلاتے ہوئے بولیں ”گاڑی جلدی چلاؤ! بدبو سے میرا دم گھٹ رہا ہے۔“ڈرائیور نے حکم پر عمل کرتے ہوئے گاڑی چلادی۔
لڑکی آدھے دھڑ سے گاڑی کے اندر پھل اٹھانے کی کوشش کررہی تھی۔گاڑی چلتے ہی ایک چیخ بلند ہوئی اور وہ گھومتے ہوئے پشت کے بل گر پڑی اس کا سر زور سے فٹ پاتھ کے ساتھ ٹکرایا۔ سڑک پربھگڈر مچ گئی۔لوگ گاڑی کی سمت بھاگے۔ لڑکی کو اٹھا کر فٹ پاتھ پر ماں کے سامنے ڈا ل دیا۔
موقع نازک دیکھ کر ڈرائیور گا ڑی نکال کر لے جا چکا تھا۔ کسی نے کہا ’لڑکی کو اسپتال لے کر چلو۔‘
”کوئی جرورت نہ ہے۔اے چھوری تو مر چکی ہے۔“مہترانی نے اس کی ڈھلکی ہوئی گردن دیکھ کرکہہ دیا۔
اس دورا ن وہ عورت ایک بار بھی اُ ٹھ کرقریب نہیں آئی تھی۔
پولیس آگئی…… کارِروائی ہوتی رہی مگروہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھتی رہی۔اخبار، میڈیا، ایمبولینس سب آگئے۔ تصویریں بنتی رہیں۔ لاش لے کر ایمبولینس چلی گئی۔ وہ ایسے ہی گم سم بیٹھی دیکھتی رہی۔
مہترانی نے اس سے کہا”اے! چھوری تیری نہ ہے۔ جرور تو کہیں سے اٹھا لائی ہے۔پولیس کو پتہ بتا دے۔اس کے ماں باپ اس کو رو لیں گے۔“ مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔
بابو نے بیان دیا کہ”میں گاؤں سے آ رہا تھا تو مجھے راستے میں بیٹھی ملی تھی۔ مجھے نہیں معلوم یہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے؟۔“بابو اپنا بیان دے کر روپوش ہو گیاتھاکیونکہ اُسے معلوم تھا پولیس کا دباؤ اُسی پر آنا ہے۔
پولیس نے عورت کو شیلٹرہوم بھجوادیا۔ وہاں پہلے سے موجود عورتوں نے اُسے دیکھ کر ناک بھوں چڑھایا۔ اتنی گندی اور میلی عورت اوراس کے گندے بچوں کے ساتھ وہ رہنے کو تیا ر نہیں تھیں۔
شیلٹر ہوم کی انتظامیہ نے سب سے پہلے اُن کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کیااور انہیں انسانوں میں رہنے کے قابل بنایا ۔تب جاکر عورتوں نے اُنہیں اندر رہنے کی اجازت دی۔ کچھ دن تووہ گم سم رہی۔ پھر رفتہ رفتہ ان میں گھل مل گئی۔
ایک دن اُوپر سے حکم آگیا کہ عورت کا بیان لینا ہے کہ لڑکی اپنی غلطی سے مری ہے،ڈرائیو ر کا کوئی قصور نہیں تھا۔ پھر ایک دن پولیس اُس کا بیان لینے آگئی۔
”ہاں مائی!اپنا نام بتا…… تیرا بیان لیناہے۔“
”مہارا نا م تو کوئی نہ ہے۔“ اُس نے اطمینا ن سے جواب دیا۔
”اور مائی تیرے بچوں کے نام کیا ہیں؟“
”نہ سائیں!ان چھوروں کے نام کوئی نہ ہیں۔“
”اور اُس مرنے والی لڑکی کا کیا نام کیا تھا؟“
”نہ سائیں نا……مہاری چھوری کا کوئی نام نہ تھا“۔وہ ہر سو ا ل کے جواب میں نہ نہ کرتی رہی۔
”کیوں میرا سر چکراتی ہے“۔پولیس انسپکٹر نے سر پر ہاتھ مارا۔”مائی! یہ تیری کوکھ کے بچے ہیں یا کسی اور کے ہیں؟۔اگر تیرے ہیں تو ان کا کوئی باپ تو ہوگا۔ سچ سچ بتا د ے ورنہ جیل میں ڈال دوں گا۔“
عورت کچھ دیر سوچتی رہی۔پھر جوکچھ اُس نے کہا۔اُس کے بعدکسی میں کوئی سوا ل کرنے کی ہمت نہ رہی تھی۔”سائیں! مہارے کو تومہار ے ماں پیو کا نہ پتہ کون تھے؟۔ جندگی میں جتنی راتیں گزری ہیں۔ اتنے مانڑو گزرے ہیں۔اتنے ٹھورٹھکانے گزرے ہیں۔ اب نہ مانڑو کے چہرے یاد۔نہ گنتی یاد۔ ا ب کیا یاد؟اس کوکھ میں کس کس نے بیج ڈالا؟۔۔۔ نام کون دیتا؟ ……“ پھر بڑی لجاجت سے بولی:
”ایک گزا رش کرنا تھی صاب جی!۔جند گی ما پہلی واری ٹھور ٹھکانا ملا ہے۔ مہارے کوادھر پڑا رہنے دواور گاڑی والے کو مہارا شکر گزا ری دینا ……وے اچھا کیا …… چھوری کو مار دیا…… ورنہ وہ بھی مہاری طرح سا ری حیاتی رُلتی اور بے نام بچوں کی ماں بن جا تی۔“…… وہ ہاتھ جوڑے زمین پربیٹھی تھی اور ہر طرف خاموشی تھی۔ .
(نشاط یاسمین خان کراچی پاکستان )
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...