(Last Updated On: )
آج پھر خدا بخش اور بھگوان داس کے درمیان سانپ سیڑھی کی باڑی لگی ہوئی تھی ۔ بھگوان داس نے خدا بخش کو ایسی نظروں سے دیکھا گویا سانپ سیڑھی کے سارے سانپوں کا زہر اُس کی آنکھوں میں اُتر آیا ہو، جواب میں خدا بخش نے کوڑیوں کو اپنی مٹھی میں رول کر نیچے پھینک دیا اور پھر بھگوان داس کی طرف دیکھا ، گویا کہہ رہا ہو ۔۔۔’’ کیوں ۔۔۔ کردیا نا آخر چت تمھیں میں نے ؟‘‘
بھگوان داس نے سٹ پٹا کر پلکیں جھپکائیں ۔ ۔۔ ’’ بہت شاطر ہو بھائی۔ ‘‘
میں خدا بخش کا مہرہ ہوں اس لیے میرا نام اللہ رکھا ہے اور میرا یہ ساتھی بھگوان داس کا اور محض اسی وجہ سے اس کا نام رام اوتار ہے ۔ ہم دونوں میں بڑی دوستی ہے ۔ ہونا بھی چاہیے آخر ہم دونوں اس گول مرتبان میں ایک ساتھ ہی تو رہتے ہیں ، لیکن مجبوراً ہم دونوں کو ایک دوسرے کا مقابل بننا پڑتا ہے ۔ یہی بھگوان داس اور خدا بخش کی مرضی ہے ۔
آج جب ہم دونوں اس گول مرتبان میں بند تھے تو رام اوتار کہہ رہا تھا ، ’’ ہم دونوں اس روز روز کی بازی سے تنگ آگئے ہیں ۔ اپنی مرضی سے نہ کسی سیڑھی پر بیٹھ سکتے ہیں اور نا ہی آرام کر سکتے ہیں ۔ بس جب دیکھو یہ ہم دونوں کو کبھی کسی سانپ کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی کسی سیڑھی سے نیچے گرا دیتے ہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم دونوں اس گول مرتبان کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے بھاگ جائیں ۔ ‘‘
تب میں نے رام اوتار کو سمجھایا ، ’’ بھیا ہم اس گول مرتبان میں اپنی تمام تر شناختوں کے ساتھ زندہ ہیں ، اگر ہم اس مرتبان سے بھا گنے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو جائیں گے کہاں ؟ ‘‘ میری یہ باتیں سن کر وہ خاموش ہو گیا ۔
خدا بخش نے مجھے چھوٹی سیڑھی پر چڑھادیا ، اور میں رام اوتار سے پورے دو لائین اوپر تھا ۔ رام اوتار نے مجھے حسرت سے دیکھا تو میں نے اُسے دلاسہ دیا ، ’’ رام اوتار فکر نہ کرو ۔۔۔ میرے تیسرے خانے میں غرور بیٹھا ہوا ہے جونہی میں اُس کے خانے میںپہنچوں گا ، وہ مجھے بُری طرح سے نیچے پھینک دے گا ۔ اور میں بالکل تمہارے قریب آجاؤں گا ۔ ‘‘
بھگوان داس نے کوڑیاں رول کر اُنھیں نیچے پھینکا چار میں سے صرف دو کوڑیاں چت تھیں ۔ اُس نے رام اوتار کا کان پکڑا ، اور اُسے دو خانے آگے بڑھا دیا ۔ اب رام اوتار کی نظروں بائیں جانب ایک چھوٹی سی سیڑھی تھی ۔ وہ یوں نجھ سے اتنا قریب ہو چکا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے تھے ۔ میں نے رام اوتار سے کہا ، ’’ بھیا ایک ایک زمانے سے ہم دونوں ساتھ ہیں لیکن آج تک تم نے اپنے اُن تاثرات کا اظہار نہیں کیا جو تمہارے ذہن میں بھگوان داس سے متعلق ہیں ۔ آج تم مجھے اپنے اُن رازوں سے واقف کرا دو جسے تم صدیوں سے اپنے سینے میں چھپائے بیٹھے ہو ۔‘‘
میرا یہ جملہ سنتے ہی رام اوتار کی آنکھوں میں سات سمندروں کا اُبال پیدا ہوا ۔ گہرا نیلا پانی اُس کے چاروں طرف پھیلنے لگا اور طوفانی لہریں اُس کے آنکھوں کے ساحل سے ٹکرانے لگیں ۔ اُس نے مجھ سے پوچھا ،’’ اللہ رکھا ۔۔ اس طوفان کی آواز تم بھی سن رہے ہو ؟ ‘‘
میں نے کہا ، ’’ ہاں بڑا گہرا طوفان ہے تمہاری آنکھوں میں ۔‘‘
تب اُس نے کہا ، ’’ یہی خوف مجھے کچھ کہنے نہیں دیتا ۔ جب بھی میں اس بھگوان داس کے خلاف اپنے سینے کا راز اُدلنے کی کوشش کرتا ہو ں میرے اندر کا طوفان باہر کی جانب اُمڈنے لگتا ہے اور مجھے ڈر ہونے لگتاہے کہ کہیںیہ طوفان اس سانپ سیڑھی کی بساط کو ، ان کوڑیوں کو ، تمھیں ، مجھے بہا نہ لے جائے ۔ ممکن ہے یہ میرا اپنا خیال ہو ؟ لیکن اس طوفان کے باعث میری زبان گنگ ہو جاتی ہے اور ذہن کے کسی گوشے سے آواز آتی ہے رام اوتار اپنے مالک کے بارے میں یہ تاثرات ۔۔۔؟ ‘‘
’’ لیکن رام اوتار ۔۔۔ بھگوان داس تمہارا مالک کب ہے ؟ وہ تو بس تم سے کھیلتا ہے ۔ تمھیں اپنی مرضی سے چلاتا ہے ۔ ‘‘ میں نے اُسے سمجھایا تو اُس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ، ’’ یہ سب کچھ میں نہیں جانتا ، البتہ میں اُس کا محکوم ہوں ۔ وہ میرا آقا ہے ۔ جو کبھی مجھے بخت کی سیڑھی پر چڑھاتا ہے اور کبھی سانپوں سے کٹواتا ہے ۔ ‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ جب اُس کے آنسوؤںکا سیلاب تھما تو اُس نے مجھ سے پو چھا ، ’’ اب تم بھی اپنے خدا بخش سے متعلق میں کچھ کہو ۔ ‘‘
نیں نے کہا ، ’’ رام اوتار تم نے کبھی آسمانوں کی سیر کی ہے ؟ ‘‘
رام اوتار نے جواب دیا ، ’’ یہ سانپ نگلنا چھوڑ دیں تو پھر میں اوپر بھی دیکھ سکوں گا ۔۔۔ لیکن کیا تم اوپر بھی دیکھتے ہو ؟ کیا تمھیں ان سانپوں کا خوف نہیں ہوتا ؟ ‘‘
’’ میں نے جواب دیا ، ’’ رام اوتار ۔۔۔پہلے میں بھی تمہاری طرح اِن سانپوں سے ڈرتا تھا لیکن ایک بار جب مجھے یہ محسوس ہوا کہ آسمان کی وسعتوں میں کوئی بڑی خوب صورت روشنی ہے جو بڑی شیتل ، چمکدار اور فرحت بخش ہے تو میں نے پہلی مرتبہ اِس روشنی کو چوری چوری دیکھا اور جب وہ روشنی میری آنکھوں میں اچھی طرح اُتر گئی تو رام اوتار پھر بڑا عجیب کرشمہ ہوا ۔ میرے دل سے خوف نام کی چیز کہیں گر گئی ، میں بلا خوف آسمانوں کی طرف دیکھنے لگا ، تب سے مجھے ان سانپوں کا خوف نہیں ہوتا اور ناہی وقتی طور پر ان سیڑھیوں سے گرنے ، یا اُنھیں پار کرنے کی خوشی ہوتی ہے ۔ البتہ مجھے اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ اگر کبھی میں نے اس خدا بخش کے خلاف زبان کھولی تو شاید آسمان کا عتاب مجھ پر نازل ہو جائے گا کیونکہ ساری کائنات میری آنکھوں میں بند ہے ۔ ‘‘ اور پھر میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں گویا کوئی چیز چھپا رہا ہوں ۔ میرے لبوں سے ایک سرد آہ نکلی ، ’’ رام اوتار ۔۔۔ ہم لاکھ اپنے جذبات کو چھپائیں ،لیکن یہ طوفان ایک نہ ایک دن ضرور آئے گا ۔۔۔ پتہ نہیں کب یہ میری یا تمہاری آنکھوں سے پھوٹ کر باہر بہنے لگے گا ! اس بازی میں یا اگلی بازی میں ، یا پھر بے شمار بازیوں کے بعد ۔۔۔لیکن یہ آئے گا ضرور ۔۔۔‘‘
بھگوان داس کی کوڑیوں نے رام اوتار کو بخت کی سیڑھی پر چڑھا دیا اور وہ مجھ سے بہت بلند ہو چکا تھا اور میں چھوٹے موٹے سانپوں کا شکار ہو کر بہت نیچے کہیں گر گیا تھا ۔ میرے زخموں سے گوشت کے جلنے کی بدبو اُٹھ رہی تھی ۔ میرا تمام لباس تار تار ہو چکا تھا ۔ میرے جسم کے پوشیدہ حصے کھلے عام دعوت ِ نظارہ دے رہے تھے ۔ کوڑیاں مجھ پر ہوس پرست نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں اور میں نے دیکھا میری اس بے بسی پر باوجود اس کے کہ ران اوتار بخت سیڑھی کی بلندی پر بیٹھا ہوا تھا ، خون کے آنسو رو رہا تھا کہ مقابل تو بہر حال طاقتور ہونا چاہیے ورنہ جیت کا مزہ کیا ؟ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ، ’’ اللہ رکھا ۔۔۔ میں تم سے کہتا نہ تھا کہ ان سانپوں سے خوف کرو ۔۔۔ لیکن تم نے میری باتوں کی پرواہ نہ کی اور آسمانوں کی بلندیوں کو دیکھتے رہے ۔۔۔ کہو اب کیا کرو گے ؟ ‘‘
میں نے اتنا آہستہ کہا کہ میری آواز صرف رام اوتار ہی سن سکے۔ میں نے کہا ، ’’ رام اوتار ! تم دیکھنا آسمانوں کی وہی ٹھنڈک ، وہی چاندنی اور وہی میٹھا نور ، میرے زخموں کو پھر سے مند مل کردے گا ۔ میں ایک بار پھر ان سانپوں سے نبرد آزما ہوکر تم تک ضرور پہنچوں گا ۔۔۔ بس ذرا میرے زخموں کو مندمل ہوجانے دو ۔ ‘‘
اب خدا بخش کوڑیوں کو بہت ہی ہوشیاری سے اُچھال رہا تھا اور میں آہستہ آہستہ مشکل خانوں کو پار کرتا ہوا اوپر کی جانب اُٹھ رہا تھا ۔ دونوں بازیگر خاموش اپنا کام کیے جا رہے تھے اور ہم دونوں مہرے بنا کسی احتجاج کے بنا کسی فکر کے آگے بڑھتے ہی جا رہے تھے ۔
آخرایک بار میں پھر رام اوتار کے مقابل آگیا ۔
اب ہم دونوں کو بہشت میں جانے کے لیے مساوی خانے درکار تھے ۔ دونوں کے سروں کے پاس چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں لٹک رہی تھیں لیکن ان سیڑھیوں تک پہنچنے سے پہلے دنوں کو ایک ایک بڑے اژدھے کا سامنا کرنا ضروری تھا اور دونوں اژدھے اپنے خطرناک جبڑے پھاڑے اُن کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ اُن کے جبڑوں سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اور آنکھوں سے چنگاریاں برس رہی تھیں ۔
بہشت کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ہمیں اندر آنے کی دعوت دے رہی تھیں۔ میٹھا مور کسی چشمے کی مانند اُبل رہا تھا ۔ میں نے رام اوتار کی طرف دیکھ کر کہا ، ’’ رام اوتار ! اب گھبرانا نہیں اب ہم اس بساط کی آخری منزل تک پہنچ چکے ہیں ۔ ہمت سے کام لو ۔ ‘‘
رام اوتار نے اپنی خوف زدہ آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ہاتھ اُٹھاکر مجپے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ اب بالکل نڈر ہو چکا ہے ۔
دونوں اژدھوں نے ہم دونوں کو دیکھ کر ایک بار پھر اپنی بھیانک زبانیں باہر نکالیں ۔ آگ کے گولے برسائے ۔بہشت کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے ہمیں اوپر آنے کا اشارہ کیا ، لیکن اس سے پہلے کہ ہم بہشت کی طرف پھلانگ جاتے یا اُن خونی اژدھوں کا نشانہ بن جاتے دونوں بازیگروں نے بازی یہ کہہ کر ختم کردی کہ ہٹاؤ پھر کبھی کھیلیں گے ۔
اور ہم دونوں مہرے بہشت اور اژدھوں کے درمیان لٹکتے ہوئے سوچ رہے تھے کیا یہی ہماری منزل ہے ؟
٭٭٭