(Last Updated On: )
”یار شبیرے…! وہ ناں …! وہ بلو باجی…!!!“
اِتنا کہِ کر مجی نے ایک لمحہ توقف کیا…! مگراُس ایک لمحے نے مجھے برسوں…! برسوں نہیں…! پوری چار دھائیوں پیچھے دھکیل دیا…!!!
اِس بارمجی کی آواز کسی بازگشت کی طرح میرے ذہن میں گونجی…!!!
”اکو بھائی…! اکو بھائی…! وہ ناں…! وہ بلو باجی…! بلو باجی آئی ہیں۔ ذرا جلدی سے اُن کا پان لگا دیجیے اور ایک ٹھنڈی یخ فانٹا کی بوتل بھی کھول کر دے دیں۔“
اکو بھائی کے چہرے پر قوس و قزح کے رنگ جگمگائے…!!!
میں اُن کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا تاکہ وہ مجھے بتائیں کہ اِن بلو باجی کے لیے کیسا پان لگانا ہے؟
اکو بھائی نے میری نگاہوں میں موجود سوال بھانپ لیا اور ایک بڑی ہی د ل فریب مُسکراہٹ چہرے پر سجائے بولے۔ ”تو ٹھہر جا شبیرے…! بلو کا پان میں خود اپنے ہاتھوں سے لگاؤں گا، تو ایسا کر برف والی پیٹی سے فانٹا کی ایک ٹھنڈی ٹھار بوتل کھول کر مجی کو دے دے۔“
اتنا کہہ کرمُسرت برساتے چہرے اور چمکتی ستارہ آنکھوں کے ساتھ اپنے وحید مراد کٹ بالوں کی ایک بڑی سی ہلالی چاند نما لٹ جو پیشانی پر لٹک کر آنکھوں کے سامنے ایک چلمن سی بنا رہی تھی کو گردن جھٹکتے ہوئے آنکھوں سے دور کیا۔ پان کی ٹوکری پر پھیلا سُرخ کپڑا اُٹھا کر تہہ در تہہ پڑے پان کے پتوں میں سے ایک قدرے بڑا سا تازہ پتہ مُنتخب کر کے چونے اور کھتے سے لتھڑی قینچی سے مخصوص انداز میں کاٹ کر کاونٹر پر بچھے کاغذ اور اُس پر رکھے چاندی کے ورق پر دھر دیا۔ بناء چونا اور کتھا لگائے انگلیوں کی مدد سے سیدھی کتری ہوئی باریک میٹھی چھالیہ اور کچی سونف کی ہلکی سی دو تہیں بچھا کر پتلے دھانے والی چھوٹی سی رنگین بوتل کا ڈھکن کھول کر گاڑھا خوشبو دار مواد ہاتھ جھٹک جھٹک کر چھڑکا جس سے بڑی ہی عمدہ خوشبو آ رہی تھی۔ بوتل کو دوبارہ ڈھکن لگا کر ساتھ ہی رکھی سگریٹ کی ایک پرانی ٹین کی چوکور ڈبیا اُٹھا کر کھولی جس میں سبزاِلائچیاں بھری ہوئی تھیں۔ بہت غور سے دیکھ کر ایک بڑی سی اِلائچی منتخب کرپان کے اُوپر ڈالی اور ڈبیا بند کر کے واپس رکھ دی۔ کچھ دیر توقف کر کے سوچتے رہے، پھر ڈبیا واپس کھول کر اُس میں سے مزید ایک اِلائچی لے کر دوسری کے برابر ہی رکھ دی اور نہایت ہی خفیف سی مُسکراہٹ کے ساتھ چہرے کو مطمئن انداز میں یوں ہلایا جیسے کہہ رہے ہوں کہ اب ٹھیک ہو گیا ہے۔ پان کو کاغذ میں مخصوص انداز سے لپیٹ کر تکونی سی شکل دے اُس کے آخری سرے کو چٹکی سے مروڑ کر باندھا اور مُسکراتے ہوئے بے تابی سے منتظر مجی کی طرف بڑھا دیا۔
”لے بھئی مجی…! اپنی بلو باجی کا سادہ سونف”خش بُو“، میٹھی سلی سُپاری اور”ڈبل لاچی“ والا سلیمانی پان…!“ اکو بھائی نے ”خش بُو“ اور ”ڈبل لاچی“ پر خاص زور دیتے ہوئے کہا۔
مجی نے ایک ہاتھ میں فانٹا کی بوتل تھام رکھی تھی اور دوسرے ہاتھ سے پان تیزی کے ساتھ اُچک لیا اور پلٹتے ہوئے بولا۔ ”حساب میں لکھ دینا۔“ اور دوڑ لگا دی۔
اُس روز اکو بھائی سارا دن زیرِ لب مُسکرا مُسکرا کرفلمی نغمات گنگناتے رہے۔ ویسے تو اُن کا برتاؤ گاہکوں کے ساتھ بہت دوستانہ سا ہی تھا مگر مجی کے جانے کے بعد تو جیسے اُنھیں خوش اخلاقی کا دورہ سا پڑا۔ دکان کے پاس سے گزرتے ہر محلہ دار کو پیشانی سے چھلکتی بالوں کی لٹ جھٹک جھٹک کر بھرپور مُسکراہٹ کے ساتھ باآوازِبلند پُکار کر سلام کرتے اور دکان میں آنے والے تمام گاہکوں کا خاص الخاص نام لے کر اُس کا خیر مقدم کرتے رہے۔
اب تو خیر سے اُس بات کو کوئی لگ بھگ چالیس برس کا عرصہ بیت چکا، مگر وہ ساری باتیں آج بھی روزِ اول ہی کی مانند یاد ہیں۔ مجھے اکو بھائی کے پاس کام پر لگے بہ مُشکل تمام کوئی ہفتہ بھر ہی ہوا ہوگا۔ اِ س دوران میں نے اکو بھائی کو اس قدر خوش اُس روز ہی دیکھا، پھر یہ بات میرے لیے ایک معمول بن گئی۔ یوں تو مجی دن میں دسیوں بار دُکان کے عین سامنے ایستادہ قدیم طرزِ و تعمیر والی رہائشی عمارت ”نور محل“ سے کسی نہ کسی باجی کا نام لے کر پان لینے آ دھمکتا مگر کسی اور کے تذکرے پر اکو بھائی کے چہرے اور مزاج میں وہ غیر معمولی تبدیلی نہ آتی جو ہرچار چھ ماہ بعد غیر متوقع طور پر ہونے والی ”بلو باجی“ کی آمد کے ذکر پر آ جایا کرتی۔
میری عمراُس وقت بس یہی کوئی تیرہ چودہ برس کی رہی ہوگی جب میں نے ”اکو بھائی پان شاپ“ پر بطور مددگاراپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔
اکو بھائی کی دُکان میرے اِسکول سے گھر آنے جانے والے راستے میں پڑتی اور میں روز ہی وہاں سے گزرا کرتا۔ اسکول گھر سے کوئی پانچ ایک میل کی دوری پر تھا۔ صبح اِسکول اور دوپہر واپس گھر بھی چل کر ہی جاتا۔ اکو بھائی کی دکان یوں بھی میرے لیے خاص اہمیت کی حامل تھی۔ وحید مراد کٹ بالوں والے اکو بھائی کی پان شاپ جس کی مختصر سی چار دیواری جا بہ جا فلمی اخبارات سے کاٹ کر چپکائی گئی فلمی اداکاراؤں کی تصاویر سے مزین تھی اور ہر وقت پاکستانی فلموں کے مشہور گیت بلند آواز میں بجا کرتے اور میں ٹھہرا سدا کا ”کن رسیا“…! بچپن سے ہی گھر پر موجود دادا ابو کے زمانے کے جہازی سائز ”مرفی رچرڈز“ ریڈیو پروقت بے وقت ریڈیو پاکستان کراچی سے نشر ہونے والے فلمی گیت سنتا دیکھ امی نے مجھے یہ خطاب دے رکھا تھا۔ وہاں سے گزرتے میرے قدم بے اختیار ٹھہر جاتے اور کچھ دیر اُن گیتوں کا مزا لیتا اور اگر جو کوئی گیت میری پسند کا ہو تو پھر گیت پورا ہونے تک وہیں کھڑا رہتا۔
اکو بھائی کی دکان پُرانے شہر کے قدیمی علاقے ”پرانا بازار“ کی ایک مخصوص گلی میں تھی۔ اُس گلی کے اِردگرد بلکہ کوسوں دور تک دیدہ زیب ڈیزائنوں سے مزین لوہے کی جالیوں سے بنائی گئی چوڑی بالکنیوں والی عمارتیں جنھیں ہندو سیٹھوں نے اپنے وسیع و عریض خاندان کے اراکین کے لیے بڑے ہی چاؤ سے قیامِ پاکستان سے بہت پہلے تعمیر کروایا اور جو اپنے دور کے طرز تعمیر کا اعلا نمونہ تھیں۔ اُوپر رہائش کی عرض سے لوگ آباد تھے اور نیچے قائم دُکانیں اجناس کے تھوک فروشوں کا شہر بھر میں سب سے بڑا مرکز تھیں۔ اکو بھائی والی گلی اور اُس کے اطراف کی تین چار ملحقہ گلیوں کو چھوڑ کر ساتھ کے سارے علاقے میں موجود تمام دُکانیں اُنہی تھوک فروشوں کی تھیں بلکہ دو چار تو اکو بھائی والی گلی میں بھی تھیں۔ سارا دن شہر بھرکے خوردہ فروش آتے اور اُونٹ و گدھا گاڑیوں کے علاوہ پک اپ اور ٹرکوں میں اجناس کی بوریاں لدھوا کر لے جاتے۔ صبح شروع ہونے والا یہ سلسلہ شام دیر گئے تک جاری رہتا۔
اکو بھائی کی دُکان کے اِردگرد اورعین سامنے والی عمارت کے نیچے بیشتر موسیقی کے پرانے سازوں مثلاً طبلہ، ہارمونیم، وائلن، سارنگی اورستاروغیرہ کی فروخت و مرمت کی فرشی نشستوں والی چھوٹی چھوٹی ڈربہ نما دُکانیں تھیں جن میں موجود تمام ساز ہر وقت دھول و گرد میں اٹے پڑے رہتے۔ اکثر کوئی کاریگر یا تو اُن کی مرمت کرتا نظر آتا یا پھر طبلے کی رسیاں، سارنگی، ستار یا وائلن کی تاریں کستا یا کسی بہت پُرانے ہارمونیم کی دھونکنی یا سیاہ و سفید کلوں کی مرمت کے بعد ساز کو بجا کر اُس کی ٹیونگ کرتا سُنائی دیتا۔ اکثر کام کرتے کرتے کسی کاریگر پر جب وجد کی کیفیت طاری ہوتی تو وہ بے اختیار مرمت شدہ ساز اپنی پوری فنکارانہ مہارت کے ساتھ چھیڑ کر کاریگر سے ایک ماہرِفن سازندے کا روپ دھار لیتا۔ اُس کی فنکاری نہ صرف چھیڑی گئی تانوں میں بولتی نظر آتی بلکہ اُس کے چہرے کے تاثرات، ادھ کھلی آنکھوں اور جسم کے دیگر اعضاء سے بھی چھلکتی دکھائی دیتی۔ میرے لیے وہ تمام مناظر اور موسیقی کی تانیں خاص دلچسپی کی حامل ہوتیں، گو کہ میں اُن میں سے کوئی بھی ساز بجانا نہ جانتا مگر قدرتی طور پر مجھے بچپن سے ہی موسیقی اور سازوں سے ایک عجب سا لگاؤ ہے۔
اُن میں سے اکثر دُکانیں پرانی فلموں کے موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے والے سازندوں کی تھیں جو کبھی اپنے دور کے نامور فلمی موسیقاروں کی سنگت میں مختلف ساز بجاتے رہے یا اُن معاونین کی تھیں جو اب اپنی عمرِ عزیز کے باقی ماندہ ماہ و سال یہاں پرانے سازوں کی فروخت اور مرمت کر کے بسر کر رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اُن میں اکثراپنے اصل نام کی بجائے ”اُستاد سارنگی“، ”اُستاد طبلہ“، ”اُستاد وائلن“ تو کوئی ”اُستاد ستار“ کے نام سے جانے پہچانے جاتے۔ چند ایک قدرے تجربہ کار اور کسی بڑے فلمی موسیقاروں کے معاونین اُوپر کے گھروں میں مقیم باجیوں کو موسیقی کی تعلیم دینے پر بھی معمور تھے۔ اِسی سبب خوردہ فروشوں کے اُس بڑے بازار میں قائم اِس کوچے کو ”بازارِ موسیقاراں“ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
ایک اور وجہ جو مجھے کشاں کشاں ”بازارِ موسیقاراں“ کھینچے لیے جاتی وہ تھی ”حبیب الیکڑیشن و ڈیکوریشن“ کی دُکان جس کے بورڈ پر دُکان کے نام سے عین نیچے”سول پروپرائیٹر: محمد حبیب“، جلی حروف میں لکھا رہتا۔
اُس دکان کا مالک محمد حبیب جسے لوگ حبیب بھائی کہِ کر پکارتے ایک بہت ہی منچلی شخصیت کا شوقین مزاج انسان تھا۔ اُس کا کام تو بجلی کے گھریلو آلات، بجلی کے بورڈوں اور لائینوں کی مرمت کے علاوہ شادی بیاہ والے گھروں کو برقی قمقموں کی رنگ برنگی جھالروں سے سجا سنوار کر بڑے گول منہ والے لاوڈ اسپیکر کرائے پر فراہم کرنا تھا جن پر شادی سے کئی روز پہلے سے ہی فلمی گیت بجنا شروع ہوجاتے اور سارا محلہ نہ چاہتے ہوئے بھی شادی کے اُس نغماتی جشن کا حصہ بن جاتا۔ جب بھی کوئی عوامی تہوار جیسا کہ عید، بقر عید، یومِ آزادی اور یومِ پاکستان کی چھٹی آتی، گلی میں بڑا سفید پردہ لگا پروجیکٹر پر پرانی پاکستانی فلم دکھائی جاتی اوراِس سارے پروگرام کا کرتا دھرتا حبیب بھائی ہی ہوتا۔ پروجیکٹر تو خود حبیب بھائی کا اپنا تھا جو کہ اُس نے”شیرشاہ“ کے علاقے کی بڑی کباڑی مارکیٹ سے خرید اُس کی مرمت کر کے قابلِ استعمال بنا لیا تھا اور فلم کی ریلوں کے ڈبے وہ بندر روڈ پر لائٹ ہاؤس سنیما کے اِدگرد عمارتوں میں قائم مقامی فلم تقسیم کاران کے دفتر جا کر گلی کے تمام دکانداروں کے چندے سے جمع شدہ رقم کے عوض ایک رات کے لیے اُونے پونے داموں کرائے پر لے آتا اور پھر نہ صرف ”بازارِموسیقاراں“ بلکہ اِردگرد کے محلوں کے مکین بھی چھٹی والے روز سے ایک رات قبل یا پھر عید کے دوسرے تیسرے روز رات گہری ہونے کے بعد سٹرک ہی پر چادریں بچھا کر مونگ پھلیاں پھانکتے مزے سے فلم دیکھتے۔ میں ٹھہرا موسیقی کی طرح سے فلموں کا بھی شیدائی۔ جیسے ہی مجھے پتہ چلتا کہ جیب بھائی فلاں فلاں فلم گلی میں پردہ پر چلانے والے ہیں، محلے کے دوستوں کو لے کرجا پہنچاتا اور جب تک پوری فلم دیکھ نہ لیتا گھر واپس نہ جاتا۔ایک روز اِسکول سے گھر جاتے ہوئے میں نے اکو بھائی کی دُکان پر ہاتھ سے لکھا ہوا ایک بورڈ دیکھا جس پر جلی حروف میں درج تھا:
”مددگار لڑکے کی فوری ضرورت ہے۔“
اُن دنوں گھر کے حالات کچھ اتنے اچھے نہ تھے۔ ابو کی ملازمت سے حاصل ہونے والی مختصر سی تنخواہ میں ہم دو بھائیوں، ایک بہن اور امی ابو کی گزربسر کے علاوہ کرائے کے اُس گھر جو کہ اکو بھائی کی دُکان سے کوئی تین ایک میل دور تھا، کا کرایہ ادا کرنا مُشکل ہو رہا تھا۔ بورڈ پڑھتے ہی میرے دل و دماغ میں پیسے کما کر امی کے ہاتھ پر رکھنے کی خواہش مچل اُٹھی۔
میں جھجکتے ہوئے آگے بڑھا۔ اتفاق سے اُس وقت کوئی بھی گاہک موجود نہ تھا۔ میں نے اُن سے کہا کہ گر وہ چاہیں تو میں اِسکول کے بعد روزانہ آکے دُکان پر کام کر سکتا ہوں۔ وہ فوراًرضامند ہوگئے۔ میں نے جب یہ بات امی کو بتائی تو پہلے کچھ دیر تو وہ سوچ میں ڈوب گئیں پھر کہیں دُور خلا میں گھورتی ہوئی بولیں۔ ”اس طرح تو تیری پڑھائی کا حرج ہوگا۔“ مگر جب میں نے اُنھیں یقین دلایا کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا، بس آپ کسی طرح سے ابا کو سمجھ دیجیے گا تو وہ نہ صرف مان گئیں بلکہ انھوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر پہلے مجھے خوب دعائیں دی اور پھر دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا اُس میں چہرا تھام کر میری پیشانی چوم لی۔
اگلے ہی روز سے میں روزانہ اسکول سے واپس آنے کے بعد روکھی سُوکھی کھا کردوپہر تین بجے تک ”اکو بھائی پان شاپ“ پہنچ جاتا اور رات نو بجے تک پندرہ روپے دھاڑی پر کام کرتا۔ دُکان تو خیررات ایک دو بجے تک کُھلی رہا کرتی اور ویسے بھی اکو بھائی کی رہائش اپنی دُکان والی عمارت کی اُوپری منزل میں ہی تھی لہذا جب تک دھندا مندا نہ ہوتا وہ دُکان کھلی ہی رکھتے اور جب نیند آنے لگتی دُکان کو تالہ لگا کر اُوپر اپنے کمرے میں پڑ کر سو رہتے۔ اُن کے گھر والے آبائی شہر میں پُرکھوں کے پرانے مکان میں رہتے تھے۔ اکو بھائی اُنھیں خرچہ بجھوا دیا کرتے اور عید بقر عید جا کر مل آیا کرتے۔ مجھے وہ پورے نو بجے یہ کہِ کر چُھٹی دے دیتے۔ ”جا بشیرے…! اب سیدھا گھر جا، کچھ پڑھائی شڑھائی کر،پھر تجھے صبح سویرے اِسکول بھی تو جانا ہوتا ہے ناں۔“ یہ کہِ کر وہ مجھے دھاڑی کے پندرہ روپے تھما کر گھر روانہ کر دیتے۔
یہ تو پھر مجھے وہاں کام کرنے کے کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ وہ گلی علاقے بھر میں ”محلہء موسیقاراں“ کے نام سے جانی جاتی اور ”اکو بھائی پان شاپ“ کے عین سامنے ”نور محل“ نامی اُس قدیم عمارت کے اُوپری رہائشی حصے میں مختلف ناموں کی باجیاں اپنی اماؤں، بڑی باجیوں اور نانیوں کے ہمراہ رہائش پزیر تھیں جن کا کام گانا بجا تھا اور رات دیر گئے وہاں گائیکی کی فرشی محافل ہوتی اور تماشبین گاؤ تکیوں سے ٹیک لگا پان کی گلوریاں چباتے اُن کا گانا سنتے۔
بہرطور، اُس روز ”بلو باجی“ کے نام پر اکو بھائی کا وہ خوش گوار رویہ اورپان کی خصوصی تیاری دیکھ کر میں حیران سا رہ گیا اور سوچنے لگا کہ یہ بھلا بلوباجی ہے کون؟ اکو بھائی کا اس سے کیا تعلق ہے؟ اور وہ اُن کا نام سن کر اس قدر خوش کیوں ہو رہے ہیں؟
اُس دن کے بعد کم و بیش اگلے چار پانچ ماہ تک پھر دوبارہ میرے کانوں سے ”بلو باجی“ کا نام تو نہ ٹکرایا البتہ ایک دن میں نے مجی جو کہ میری عمر کا ہی تھا اور ”نور محل“ نامی اُس قدیم چالی نما عمارت جہاں اُوپر کی چاروں منزلوں پر قائم طویل برامدوں میں قطار اندر قطار کئی کمرے تھے، میں ہی کہیں کسی باجی کے پاس رہتا اور دوڑ دوڑ کر ساری ہی باجیوں کے کام کیا کرتا۔ دن میں کم و بیش بیسیوں بار کسی نہ کسی باجی کا پان لینے آتا سے دوستی گانٹھ کر معلوم کر ہی لیا کہ آخر یہ بلو باجی ہے کون…؟
اکو بھائی کے پاس کام سے لگے اب مجھے لگ بھگ کوئی تین چار ماہ تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ عید کے سبب اکو بھائی اپنے گھر والوں کے ساتھ عید منانے ہفتہ بھر کے لیے دُکان بند کر کے آبائی شہر چلے گئے تو ظاہر ہے کہ میں بھی فارغ ہی پھر رہا تھا۔ عید کے عین اگلے روز میری ملاقات مجی سے ہو گئی۔ میں نے مجی کو دیکھتے ہی اُس عید مبارک کہنے کے بہانے ایک بھرپور جپھی ڈالی۔ اکو بھائی کی طرف سے عیدی کے دیئے گئے چند روپے میری جیب میں تھے۔ میں نے مجی کو سامنے لگے تھیلے سے دہی بڑوں کی چاٹ کھلانے کی دعوت دی جسے اُس نے بڑی ہی خوش دلی کے ساتھ قبول کرلیا۔ لذید دہی بڑے کھانے کے دوران میں نے موقعہ پاتے ہی مجی سے پوچھ لیا۔
”یار مجید…! یہ بلوباجی کون ہے؟…!!!“
”کیا…؟“ ایک لمحے کے لیے مجی کا ہاتھ جس میں دہی بڑوں سے بھرا ہوا چمچ تھام رکھا تھا، ہوا میں جہاں تھا وہیں معلق اورچلتا ہوا منہ جامد ہو گیا۔ پھر حیرت اور بے یقینی کے تاثرات لیے منہ بناتے بولا۔ ”کیا تو واقعی بلو باجی کو نہیں جانتا…؟“
”قسم اللہ پاک کی مجھے نہیں معلوم کہ یہ بلو باجی کون ہے؟“
”چل تو پھر آج تجھے میں بلو باجی سے ملواتا ہوں۔ تو بھی کیا یاد کرے گا کہ کس سے پلا پڑا ہے۔“
ہم نے جلدی جلدی بچی ہوئی چاٹ ختم کی اورپھر مجی مجھے لے کر ایک کھٹارا سی بس میں سوار ہوا اور جیسے ہی بس صدر بازار پہنچی، مجی نے مجھے اُترنے کا اشارہ کیا۔ بس سے اُترتے ہی مجی تیز تیز چلتا ہوا ایک بہت بڑے سنیما گھر لے آیا جہاں عید پر ریلیز ہونے والی ایک نئی فلم لگی ہوئی تھی اور تماش بینوں کا ازدحام لگا ہوا تھا۔ میں مجی کی طرف حیرت ذدہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ وہ مجھے یہاں کیوں لے کر آ گیا ہے۔ اُس نے مُسکراتے ہوئے کہا۔ ”ابے…! اتنی حیرانگی کے ساتھ مجھے کیا ٹکر ٹکر دیکھ رہا ہے۔ دیکھ بے یہ رہی تیری بلو باجی…!“
میں نے حیران ہو کرکچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اِدھر اُدھر دیکھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا کہ وہاں بلو باجی کہاں اور کون تھی۔ ابھی میں اُسی گومگوں کیفیت میں تھا کہ مجی اپنا ہاتھ بلند کرکے سنیما کی عمارت پر نصب دیو ہیکل پبلسٹی بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ ”ابے گھامڑ…! یہ اِدھر اُدھر کیا دیکھ رہا ہے۔ یہ دیکھ…! یہ ہے بلو باجی…!!!
اب جو میں نے اُوپر لگے پبلسٹی بورڈ کو غور سے دیکھا تو وہاں مجھے فلموں کی ایک ہیروئن کی بہت بڑی پینٹنگ نظر آئی۔
مگر وہ تو حُسن آراء تھی…! اداکارہ حُسن آراء…!!!
حُسن آراء ایک نئی اداکارہ تھی جسے فلموں میں آئے ابھی تین چار سال ہی گزرے تھے اور وہ دھیرے دھیرے فلموں میں اپنی جگہ بنا رہی تھی۔ میں نے اُس کی ایک فلم امی ابو کے ساتھ سنیما میں دیکھی تھی۔ اُس زمانے میں بچوں کی میٹھی چھالیہ اور کھٹ مٹھوں کے پیکٹوں میں فلمی ہیرو ہیروئن کی رنگین تصاویر پر مبنی کارڈ برآمد ہوتے جنھیں لڑکے بالے بہت شوق سے جمع کرتے اور آپس میں اُن کا تبادلہ بھی ہوتا۔ میرے پاس بھی کافی سارے ایسے کارڈز جمع تھے جن میں چند ایک حُسن آراء کے بھی تھے۔ میں نے مجی کی طرف حیران کن نگاہوں سے دیکھا۔
”ابے دیکھ کیا رہا ہے…! یہی ہے بلو باجی…! اُس روز یہی تو آئی تھی وہاں محلے میں، اپنی امی سے اور بہنوں سے ملنے۔“
”سچ…!“ میں نے تذبذب کے ساتھ کہا۔ ”مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ فلموں کی اِتنی بڑی ہیروئن محلے میں آئے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو؟“
”بلو باجی جب بھی لاہور سے کراچی کسی فلم کی شوٹنگ کروانے کے لیے آتی ہے تو جس روز اُس کی کوئی شوٹنگ نہیں ہوتی، خاموشی سے برقعہ پہن کر ٹیکسی میں آ جاتی ہے۔ شام کو جب جانا ہوتا ہے تو اُسی طرح سے چُپ چاپ برقعہ اُوڑھ کر ٹیکسی میں بیٹھ کر چلی جاتی ہے۔“
”اچھا…!“ میں نے بے یقینی بھرے لہجے میں جواب دیا۔ اچانک ایک خیال بجلی کے کوندے کی مانند میرے ذہن میں لپکا۔ ”یہ بتا کہ تیرے پاس کتنے پیسے ہیں؟“ میں نے اپنی جیب سے اکو بھائی کی طرف سے عیدی میں ملے روپوں میں سے بچ رہنے والے دو روپے نکال کر اُس سے سامنے لہراتے ہوئے پوچھا۔ اُس نے میری بات سن کر اپنی جیبیں اُلٹنا شروع کر دیں اور کل پانچ روپے کی رقم جمع ہوگئی جو کہ سنیماکے نچلے درجے کا ٹکٹ بلیک میں لینے کے لیے کافی تھے۔ ہم نے حُسن آراء کی وہ فلم سنیما کے اسکرین کے عین ساتھ لگی بینچ پر بیٹھ کر دیکھی۔ فلم ختم ہونے پر جب ہم باہر آئے تب بھی مجھے یقین نہ ہوتا تھا کہ اداکارہ حُسن آراء ہی دراصل بلو باجی تھی۔
گھر پہنچ کر بھی میں سارا وقت بس اُسی سوچ میں غلطاں و پیچاں رہا۔ سونے کے لیے لیٹا تب بھی میرے ذہن میں مسلسل یہی سوال گردش کررہا تھا کہ واقعی شہر کے قدیمی علاقے کی اُس پرانی عمارت میں جہاں سے رات ڈھلے طبلے، سارنگی اور ہارمونیم کی صدائیں آنا شروع ہو جاتی ہیں، حُسن آراء جیسی خوب صورت اور چُلبلی ہیروئن کا تعلق وہاں سے ہو سکتا ہے۔
اب مجھے اکو بھائی کی واپسی کا شدت سے انتظار تھا کہ ساری دُنیا میں اب وہی تھے جو مجی کی بات کے سچ ہونے کی گواہی دے سکتے تھے۔
میں روز اِسکول سے گھر جاتے ہوئے بڑی حسرت سے ”اکو پان شاپ“ کی چھوٹی سی دُکان پر نصب پتلے و مختصر سے شٹرکوبند دیکھتا اور سوچتا کہ کب اکو بھائی واپس آئیں اور میرے تجسس کا خاتمہ ہو؟
غالباً اِاسکول کُھلنے کے کوئی چار پانچ روز بعد ایک روز حسبِ معمول میں اِسکول سے واپس گھر تھکے تھکے قدموں سے چلا جارہا تھا۔ جب دُکان والی گلی تک پہنچا تو میرے تھکے تھکے قدموں میں یہ دیکھ کر بجلی دوڑ گئی کہ دُکان کا وہ پتلا سا مختصر شٹر نہ صرف کھل چکا ہے بلکہ وہاں سے فلمی گیت بھی گونج رہے ہیں۔ میں دوڑتا ہوا پہنچا تو اکو بھائی بجتے ہوئے گیت کے بول گنگناتے کسی گاہک کا پان لگا رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اُن کی باچھیں کھل گئیں۔
”ابے جا…! جلد ی گھرجا اور کھانا کھا کر دوڑتا ہوا آ…!“
”جی اکو بھائی گیا اور آیا۔“ مگر سچ تو یہ تھا کہ جانے کا جی کس کافر کا چاہ رہا تھا۔ میرا تو جی چاہ رہا تھا کہ میں اُسی وقت اکو بھائی سے بلو باجی کے بارے میں پوچھ لوں، مگر میری ہمت ہی نہ ہو سکی اور میں تیز تیز قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چل دیا۔ گھر پہنچ کر جلد ی جلدی کھانا کھا کر نکلا اور گھر کی دہلیز سے جو دوڑ لگائی تو پان شاپ تک مُسلسل دوڑتا ہوا پہنچا۔ کچھ دیر سانس درست کیا اور پھر اپنے معمول کے کاموں میں جُت گیا۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ اکو بھائی سے کیسے پوچھا جائے۔ اچانک مجھے ایک ترکیب سوجھی۔
”اکو بھائی …! وہ ناں …! میں عید کے دوسرے دن…! وہ ہے ناں …! کیا نام ہے اُس نئی ہیروئین کا…! ہاں وہ ہے ناں حُسن آراء…! اُس کی نئی فلم صدر والے اوڈین سنیما میں دیکھنے گیا تھا…! قسم اللہ پاک کی بڑا مزا آیا…!!!“
”ابے سچ بول ریا اے بے لمڈے…! تو نے”حسرتیں“ دیکھی…؟ سچ بتا تجھے حُسن آراء کا کام کیسا لگا…؟“ اکو بھائی اپنی سیٹ کے عین عقب میں لگی چھوٹی سی شیشے کی الماری میں سگریٹ کے پیکٹ سجا رہے تھے، سب بھول کر میری طرف دیکھنے کر مُسکراتے ہوئے بولے۔
”بس اکو بھائی ٹھیک ہی تھی۔ ابھی نئی آئی ہے ناں، ذرا دیر لگے گی اُسے زرقا جیسی اداکاری کرنے میں۔“ میں نے جان بوجھ کر شانِ بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا اور پھر وہی ہوا جس کی مجھے توقع تھی۔ اکو بھائی کا کِھلا ہوا چہرا ماند سا پڑگیا اور ناراض سے لہجے میں بولے۔ ”ابے بشیرے تو ابھی کل کا لمڈا ہے، تو بھلا کیا جانے اداکاری کس چڑیا کا نام ہے۔ حُسن آراء بھلے ہی نئی ہے مگر زرقا سے کہیں بہتر اداکاری کرتی ہے۔“
”نہیں اکو بھائی، اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ کہاں اداکارہ زرقا اور کہاں یہ کل کی چھوکری حُسن آراء۔“
بس صاحب…! میرا یہ کہنا غصب ہو گیا۔ اکو بھائی تو ایسے ناراض ہوئے مانو جیسے میں نے خود اُن کی شان میں کوئی گستاخی کر دی ہو۔ ”ابے تو خود کل کا چھوکرا ہو کر حُسن آراء جیسی زبردست اداکارہ کو کل کی چھوکری کہہ ریا ہے۔ چل اپنا کام کر نہیں تو کھائے کا اُلٹے ہاتھ کا ایک کرارا جھانپڑ…!“
میں بظاہر خاموش ہو کر صاف صفائی میں مشغول ہو گیا مگر دل ہی دل میں اکو بھائی کو یوں کسمساتے دیکھ مُسکرا رہا تھا۔ مجھے کسی حد تک یقین ہو چلا تھا کہ مجی شاید ٹھیک ہی کہِ رہا تھا۔ اُس روز بلو باجی کے ذکر پر اکو بھائی کی باچھیں کیسے کھل اُٹھی تھیں اور آج حُسن آراء کے خلاف ذرا سی بات پر وہ کیسے آپے سے ہی باہر ہو رہے ہیں۔ مگر مجھے اکو بھائی کے منہ سے سن کر ہی یقین آ سکتا تھا۔ کچھ دیر تو میں خاموشی کے ساتھ اپنا کام کرتا رہا۔ جب محسوس ہوا کہ اکو بھائی کی ناراضی کم ہو گئی ہے تو کھنکارتے ہوئے اُس سے مخاطب ہوا۔
”اکو بھائی…! اکو بھائی…! وہ ناں …! اُس روز سنیما میں حُسن آراء کے حوالے سے تماش بین بڑی عجیب سی بات کر رہے تھے۔“
”کیسی بات…!“ اکو بھائی ساری ناراضی بھول کر چونک کر میری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
”چند تماشائی ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ حُسن آراء کا تعلق ”بازارِ موسیقاراں“ سے ہے۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟“
”ممکن…! ممکن کیوں نہیں بھلا۔ اَس دُنیا میں کیا ممکن نہیں؟“
”کیا مطلب، اکو بھائی؟“
”مطبل شطبل کا تو مجھ نہیں ملوم، مگر کہنے والا کہِ سچ ہی ریا تھا۔“
”کیا بات کر رہے ہو اکو بھائی…! واقعی…؟“ میں نے لہجے میں حیرت طاری کرتے ہوئے پوچھا۔
”ابے اُس اپنے یار مجی سے پوچھ لیو، تجھے حُسن آراء کا سارا کچا چٹھا بتا دے گا۔“
مجی کا نام سنتے ہی میرا ماتھا ٹھنکا مگر میں نے چہرے سے ظاہر نہ ہونے دیا۔ ”چھوڑو بھی اکو بھائی، اُس مجی کو کیا پتہ حُسن آراء کا۔ اُسے اپنی باجیوں کے پان، چائے اور ٹھنڈی بوتلوں سے فرصت ملے تب ہی اُسے فلمی ستاروں کا کچھ اتہ پتہ معلوم ہو نا۔“
”اُسے سب پتہ ہے۔ ابے یہ حُسن آراء اُس کی ایک اور باجی ہی تو ہے۔“
”کیا…!“ میں نے زور سے چلانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں بے…! اور نہیں تو کیا…! پوچھ لیو کبھی اُس سے کہ یہ بلو باجی کون ہے؟“
”چھوڑیں جی اُس مجی وجی کو، آپ ہی اصل بات بتا دیں ناں۔“
میری اِس بات پر اکو بھائی دکان سے باہر نور محل کی طرف دیکھنے لگے۔ اُن کی نگاہیں نور محل کی چوتھی منزل سے بھی اُوپر دور کہیں آسمانوں میں گھورنے لگیں۔ کچھ دیر یوں ہی خاموش کھڑا رہنے کے بعد ایک گہری سانس لے کر مڑے اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولے۔
”تجھے یاد ہے نا اُس روز مجی آیا تھا، اپنی بلو باجی کے لیے پان اور فانٹا کی بوتل لینے۔“
”ہاں ہاں اکو بھائی، آیا تھا، بالکل آیا تھا۔“
”تو پھر غور سے سن بشیرے…! وہی بلو ہی توہے اداکارہ حُسن آراء۔“
”کیا کہہ رہے ہیں اکو بھائی، یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟“
“کیوں ممکن نہیں، کیا یہ فلمی ستارے آسمانوں سے اُترتے ہیں۔ یہ سب بھی تیری میری طرح کے انسان ہی ہوتے ہیں۔ اُن کا بچپن بھی اِنہی گلی کوچوں میں گزرتا ہے۔“
”چھوڑیں اکو بھائی، آپ بس مجھے حُسن آراء کے بارے میں بتائیں۔“
”ارے بشیرے بس کیا بتاؤں، کل ہی کی تو بات لگتی ہے۔ میں جب اِسکول میں تھا تو میرا دل پڑھائی میں نہ لگتا۔ آٹھویں جماعت میں جو فیل ہوا تو ابا نے مجھے اپنے ساتھ اِسی پان شاپ جو انھوں نے میرے پیدا ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد میرے نام پر بنائی تھی پر اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا۔ اب میں روز ابا کے ساتھ یہاں آتا اور کام کاج میں اُن کا ہاتھ بٹانے لگا۔ حسن آراء اُس وقت چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی۔ صبح جب میں اور ابا دکان لگا رہے ہوتے تو وہ ”نور محل“ کی سٹرھیوں اُترتی اِسکول کی یونی فارم پہن کر اِسکول جانے سے قبل دکان پر ٹافیاں اور بسکٹ خریدنے آیا کرتی اور میری طرف دیکھ کر مُسکراتی۔“
”اوہ اچھا ……!اکو بھائی تو یہ بات ہے۔“ میں نے اکو بھائی کی طرف شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بس کیا بتاؤں بشیرے، حُسن آراء کی بھولی بھالی صورت اور اُس کے مسکرا کر دیکھنے نے مجھے گھائل کر دیا۔ میں روز صبح اُس کے آنے کا انتظار کرتا۔ وہ ہر روز آتی، اپنی ٹافیاں لیتی، مُسکرا کر میری طرف دیکھتی اور چل دیتی۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ چند سالوں میں حُسن آراء نے میڑک مکمل کرنے کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ پہلے کی طرح دکان پر روز نہ آتی، بس کبھی کبھی آتی اور ہمیشہ کی طرح مُسکرا کر دیکھتی مگر مجھ میں کبھی ہمت نہ ہوئی کہ میں اِشارتاً ہی اُس سے اپنے دل کا حال کہہ سکوں۔ بس پھر وہیں کالج میں اُسے کسی نے ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کا رستہ دکھایا اور پہلے اُس نے ایک ٹی وی ڈرامے میں چھوٹا سا رول کیا۔ اگلے ڈرامے میں اُسے ہیروین کے رول میں کاسٹ کر لیا گیا۔ ڈرامے کی کامیابی نے اُس پر فلموں کے دروازے کھول دیئے اور لاہور سے فلموں کے ایک بہت بڑے ہدایت کارنے فلم کا آفر دیا اور پہلی ہی فلم کی کامیابی نے اُسے کراچی سے لاہورپہنچا دیا۔“ اکو بھائی نے ایک گہری اور ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے بتایا۔
”ارے اکو بھائی یہ تو بہت بُرا ہوا۔ اُس کے فلمی ہیروین بننے نے آپ سے آپ کی محبت چھین لی۔“
”کہاں یار…! ایک تو مجھ شرمیلے میں اتنی ہمت ہی کہاں تھی کہ اُس سے اپنے دل کا حال کہہ سکتا اور اگر کسی طور کہہ بھی دیتا اور وہ فلموں میں نہ بھی جاتی تو ابا بھلا کب مجھے اُس سے شادی کرنے دیتا۔ اگر اُسے پتہ چل جاتا کہ میں حُسن آراء سے شادی کرنے کا خواہش مند ہوں تواُس نے تو مجھے جان سے ہی مار دینا تھا۔“ اکو بھائی منہ بسورتے ہوئے بولے۔
”پھر کیا ہوا، اکو بھائی؟“
”ہونا کیا تھا، حسن آراء فلموں میں مصروف ہوتی چلی گئی اور پھر ایک روز ابا نے میری شادی خاندان کی ایک لڑکی سے طے کر دی ۔کچھ دنوں بعد میری شادی ہوگئی۔ شادی کے ایک برس بعد اچانک ابا اللہ کو پیارا ہو گیا اور تب سے ہی میں اکیلا دکان چلانے لگا۔“ اتنا کہِ کر اکو بھائی اپنے کام میں مصروف ہوگے اورمیں سوچوں میں گم۔
وقت گزرتا رہا۔ میں یوں ہی اکو بھائی کے پاس اِسکول کے اوقات کے بعد جز وقتی کام کرتا رہا۔ میں نے ابھی میڑک کے امتحانات دیئے ہی تھے کہ اچانک ایک روز ابا کی بیماری کے سبب اُنھیں ملازمت سے جواب دے دیا گیا۔ ویسے بھی ابا کی بیماری کے سبب اب یہ ممکن بھی نہ رہا تھا کہ وہ مزید کام کر سکیں۔ میں نے اس بات کا ذکر اکو بھائی سے کیا۔ اکو بھائی نے مجھے کل وقتی ملازمت کی پیشکش کر دی جسے میں نے اُن کے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا۔ اب میں صبح سے لے کر رات دیر گئے تک پان شاپ پر ہی رہتا۔ اکو بھائی نے میری تنخواہ بڑھا کر اتنی کر دی تھی کہ اُس سے ہمارے گھر کا خرچ کسی نہ کسی طرح چل ہی جاتا۔
ایک دن مجی کی زُبانی پتہ چلا کہ حُسن آراء بہت جلد آنے والی عید منانے کے لیے”نور محل“آ رہی ہے۔ یہ سُنتے ہی اکو بھائی کا چہرا جیسے تازہ گلاب کے پھول کی طرح سے کھل اُٹھا۔ اُسی شام انھوں نے حبیب بھائی کو بلایا اور پوچھا کہ اس بار وہ عید کے موقعہ پر کون سی فلم پردے پر لگانے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ حبیب بھائی نے ایک پرانی فلم کا نام بتادیا۔ اکو بھائی نے کچھ دیر سوچتے رہے پھر مسکراتے ہوئے بولے۔
”یار حبیب چھوڑ…! اتنی پرانی فلم اور وہ بھی عید کے موقعہ پر، کیا خاک مزا آئے گا۔ میری مان تو حُسن آراء کی کی پہلی فلم تھی ناں ”محبت“، بس یار وہی چلا ئیواس بار۔“
اکو بھائی کی بات سُن کر اُس کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ آ گئی۔ کچھ دیر یونہی مسکراتا رہا اور پھربولا۔ ”حُسن آراء کے امیدواروں میں یہ ناچیز بھی شامل تھا۔ مگر اب اُس کے فلموں میں جا نے کے بعد میں نے تو ہار مان لی ہے مگر لگتا ہے اکو تو ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔“
”چھوڑ یار اِن بے کار باتوں کو۔ میری بات پر دھیان دے۔“
”ارے یار…!، وہ فلم…! وہ تو اپنے دور کی بے حد کامیاب اور سپرہٹ فلم تھی اُس کے لیے تو تقسیم کار ڈھیر ساری رقم مانگے گا۔“
یہ بات سن کر اکو بھائی کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔ ”پیسوں کی فکر نہ کر۔ میں ہوں نا۔ تو دوسرے دکانداروں سے چندہ اِکھٹا کر اور پھر جتنی رقم کم پڑ جائے وہ مجھ سے لے آ کر لے جائیو۔“
پھر جس رات گلی میں سفید پردہ لگا اور پروجیکٹر پر حُسن آراء کی فلم چلی تو جہاں ساری گلی والوں کے ساتھ آس پاس کے محلے والے جمع ہوئے اور ٹکٹکی باندھے فلم دیکھتے رہے وہیں ساری فلم کے دوران اکو بھائی کی نظر اُس بالکنی کی طرف ہی لگی رہی جہاں سے حُسن آراء حجاب کے پیچھے سے خود اپنی ہی فلم دیکھ رہی تھی۔ حیبب بھائی مُسلسل اکو بھائی کو دیکھ دیکھ کر زیرِ لب مسکراتا رہا۔
ایک روز میں نے فلمی اخبار میں خبر پڑھی کہ حُسن آراء نے مشہور فلمی ہیرو زاہد سے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کرلی۔ میں نے جب وہ خبراکو بھائی کو سُنائی تو اُن کے چہرے پر ایک عجب رنگِ ملال آ گیا اور اپنی پیشانی پر ایک ہتھڑ مار کر بولے۔ ”ہائے میرے اللہ…! اُف اس بے وقوف نے یہ کیا کر دیا۔“
”کیوں اکو بھائی ایسی کیا بات ہے؟“ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
”یہ زاہد تو بھنورا صفت انسان ہے۔ اس سے پہلے بھی فلموں سے وابستہ کئی اداکاراؤں سے شادی کر کے اُنھیں طلاق دے چکا ہے۔ ہر دوسرے روز اُس کے اسکینڈلز مشہور ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ حُسن آراء کے ساتھ بھی یہ ہی کھیل نہ کھیل ریا ہو۔“
”ارے نہیں اکو بھائی ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ ان دونوں کی جوڑی اِس وقت فلموں میں ہٹ جاری ہے۔ لگا تار تین چار فلمیں سُپر ہٹ ہو گئی ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ان کی شادی ان کی فلموں کی طرح سے بہت کامیاب رہے گی۔“
”اللہ کرے ایسا ہی ہو، مگر میرا دل نہیں مان ریا۔“
اور پھر اکو بھائی کے نہ ماننے والے دل کی بات سچ ہی ثابت ہوئی۔
شادی کے فوراً بعد ہی کئی زیرِ تکمیل فلموں کی جاری شوٹنگیں عین بیچ میں چھوڑ کر زاہد حُسن آراء کو ہنی مون کے لیے لندن لے گیا اور واپس آ کر چند ہی ہفتوں بعد طلاق دے دی۔
اکو بھائی کو جب یہ خبر ملی تو وہ بولا تو کچھ نہیں بس ایک اُداس سی مُسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر دکھائی دی۔ اگلے چند روزتو بس جیسے اُس نے جیسے چُپ شاہ کا روزہ رکھ لیا ہو۔بس چُپ چاپ گاہکوں کے پان لگاتا رہتا۔ ریڈیو بھی جو بند کیا تو پھر اگلے چند ہفتوں تک وہ مُسلسل بند ہی رہا۔ اُس سارے عرصے میں دکان پر عجب سی ویرانی چھائی رہی۔
وقت کا پہیہ یونہی چلتا رہا۔ اکو بھائی نے میری شادی اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ کروا دی۔ اب میں اکو بھائی کے ملازم سے…خیر ملازم تو انھوں نے مجھے کبھی سمجھا ہی نہ تھا، اُن کا داماد بن گیا۔
گزرتے وقت نے حُسن آراء کو فلموں کی صفِ اول کی ہیروین بنا دیا اوراُس کے اعتراف میں حکومت ِ وقت نے تمغہء حُسن کارکردگی بھی عطا کیا۔
پھر دھیرے دھیرے وہ وقت بھی آن پہنچا جب ہیروین، ہیرو کی اماں کے کرداروں میں نمودار ہونے لگی۔ ایک روز وہ لاہور کا بھریا میلہ چھوڑ کر کراچی واپس آ گئی۔ اُس نے کراچی کے انتہائی متمول رہائشی علاقے میں کوٹھی لے کر رہنا شروع کر دیا اور ”بازارِ موسیقاراں“ سے اپنی بوڑھی ماں، بڑی باجی اور اُس کے بچوں کو بھی اپنے پاس بلوا لیا۔
کچھ سال اور گزر گئے۔ اکو بھائی کی طبعیت کچھ خراب رہنے لگی تھی مگر پھر بھی وہ روز دکان ضرور آتے۔
ایک روز شام کے وقت مجی دکان پر آیا۔ اُس کے چہرے پر گہری اُداسی منڈھی ہوئی تھی۔ اکو بھائی نے اُس کے لٹکتے چہرے کو دیکھ کرجیسے بہت کچھ بھانپ لیا ہو۔ کچھ دیروہ مجی کے چہرے کو بہ غور دیکھتے رہے پھر جب رہا نہ گیا تو بولے۔ ”کیوں مجی کیا بات ہے، یہ تیرے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟“
”اکو بھائی…! وہ ناں …! وہ بلوباجی…!!!“
”ہاں بول ناں…! کیا بات ہے؟“
”وہ بلو باجی کی طبعیت بہت خراب ہے۔“
”ارے…! کیا ہوا اُسے…؟“ اکو بھائی نے بے چین ہو کر پوچھا۔
”بلو باجی کافی دنوں سے بہت بیمار ہیں اور بالکل اکیلی ہیں۔“
”اکیلی ہے…!کیا مطلب…؟“
”آپ کو نہیں معلوم؟“
”کیا نہیں معلوم؟“
”بلو باجی کی والدہ کا توچند سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ دوسال پہلے بڑی باجی بھی چل بسیں۔ اُن کے بچوں کو بلو باجی نے لاکھوں خرچ کر کے اعلا تعلیم دلوائی، اُن کی شادیاں کروائی، کاروبار لگوا دیئے۔ ماں کے مرتے ہی وہ بھی بلو باجی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اداکار زاہد سے اپنی شادی کے نا کام تجربے کے بعد انھوں نے دوبارہ شادی کرنے کا سوچا تک نہیں اور اپنی زندگی اپنی بہن کے بچوں کے وقف کر رکھی تھی۔ مگر انھوں نے بھی اُسے اکیلا چھور دیا۔ اب پچھلے دو برس سے وہ بالکل اکیلی صرف ملازمین کے ساتھ رہ رہی ہے اور پچھلے چھے ماہ سے نہ جانے انھیں کیا رُوگ لگ گیا ہے، بیمار ہو کر بستر سے جا لگی ہیں۔“
اکو بھائی کی بے چینی مجی کی باتوں سے مزید دوچند ہوگئی۔ کچھ دیر خاموش خلاؤں میں گھورتے رہے۔ پھر ایک گہری سانس لے کر بولے۔
”کیا میں حُسن آراء سے مل سکتا ہوں …؟“
اکو بھائی کی بات سُن کر لمحہ بھر کے لیے میں حیران سا رہ گیا۔ مجی کے چہرے پر بھی حیرت کے سائے لہرا رہے تھے۔
ایک روز اکو بھائی نے دکان سرِشام ہی بند کردی اور مجھے اپنے ساتھ لے کر رکشہ رکوایا۔ کچھ دیر بعد رکشہ ڈیفنس کالونی کے ایک بنگلے پر جا کر رُکا۔ مجی نے آ کرہمیں پہلے بیٹھک میں بٹھایا پھر کچھ دیر بعد کمرے میں لے گیا۔ جیسے ہی ہم کمرے میں داخل ہوئے وہاں کا منظر دیکھ میرا اور اکو بھائی کا سانس جیسے اٹک سا گیا ہو۔
سامنے بستر پر ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ دراز تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ ہمیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ بستر پر دراز وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ حُسن آراء ہے مگر سچ تو یہی ہے کہ وہ حُسن آراء ہی تھی۔ اُس کا یہ حال دیکھ اکو بھائی کے تو جیسے ہوش ہی جاتے رہے۔
ہم وہاں کچھ دیر خاموش کھڑے اُسے دیکھتے رہے۔ وہ بھی کھوئی کھوئی نظروں سے کبھی مجھے اور کبھی اکو بھائی کو د یکھے جا رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں چھائی ویرانیوں اور چہرے پر پھیلے کرب کو دیکھ کر بھلا کون یقین کر سکتا تھا کہ یہ وہی حُسن آراء ہے جو اپنے زمانے کی وہ ہیروین رہ چکی ہے جسے کبھی آہو چشم کہا گیا تو کبھی پری چہرہ۔ یہ وہی اداکارہ ہے جس کے فن کے اعتراف میں اُسے بے شمار ایوارڈز اور اعزازت سے کے ساتھ تمغہء حُسن کارکردگی کا حق دار گردانا گیا۔ فلم سازوں، ہدایت کاروں، چاہنے والوں اور مداحین کی قطاریں لگی رہتی اور آج اُسے کوئی پوچھنے والا تک نہیں۔
ہم اُس وقت چونکے جب مجی نے آگے بڑھ کر حُسن آراء کو اُٹھا کردو تکیوں کے سہارے بٹھا دیا پھرمسہری کے ساتھ لگی چھوٹی سی میز کی درازکھول کر ایک لفافہ نکالا۔ لفافہ دیکھ کر حُسن آراء کی ویران آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی۔ میں نے حیران ہو کر اکو بھائی کی طرف دیکھا مگر میری حیرت مزید دو چند ہو گئی کیوں کہ اکو بھائی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔
مجی نے لفافہ جہاں آراء کی طرف بڑھا دیا۔ اُڑی اُڑی سی گلابی رنگت کے پھولوں سے مزین اُس لفافے کو حُسن آراء نے فوراً جس تیزی کے ساتھ اُچک لیا وہ منظر دیکھ کرمجھے بہت حیرت ہوئی۔ حُسن آراء نے لفافہ کھول کر اس میں رکھا اُڑئی ہوئی گلابی رنگت کا تہہ کیا ہوا ایک کاغذ برآمد کیا۔ کاغذ کی تہوں کو کھول کر چند لمحوں کے لیے اُسے خالی خالی نظروں سے گھورتی رہی۔ پھر اُس کاغذ کو اپنے ناک کے یوں قریب لائی جیسے کچھ سونگھ رہی ہو۔ کچھ دیر وہ کاغذ کو یونہی سونگھتی رہی اور پھر اپنے لرزتے ہاتھ سے دھیرے دھیرے کاغذ کو دوبارہ تہہ کر کے لفافے میں واپس ڈال کر اکو بھائی کی طرف بڑھا دیا۔ اکو بھائی اپنی چھم چھم نیر بہاتی آنکھوں کے ساتھ اُس کی طرف بڑھے اور حُسن ٓراء کے کانپتے ہاتھ میں تھاما ہوا لفافے کا ایک سر چٹکی سے پکڑ لیا۔ کچھ دیر اکو بھائی حسن آراء کی آنکھوں میں جھانکتے رہے اور وہ لفافہ آہستہ سے اُس کے ہاتھ سے کھینچ کر مڑے۔ تھکے تھکے قدموں سے چلتے ہوئے میری طرف آئے اور مجھے لے کرباہر کی جانب چل پڑے۔
واپسی میں اکو بھائی کچھ دیر تورکشے میں خاموش بیٹھے خالی خالی نظروں سے باہر دیکھتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد اپنی قمیص کی جیب سے لفافہ نکالا اور اُس میں سے اُڑی اُڑی سی گلابی رنگت والے کاغذ کی تہیں کھول وقفے وقفے سے اُسے یوں سونکھتے جیسے وہ پرانا کاغذ نہ ہو کوئی تر و تازہ گلاب کا پھول ہو۔ میں حیرت سے اُنھیں دیکھے جا رہا تھا۔کچھ دیر تو اکو بھائی گھورنے کو نظر انداز کرتے رہے مگر جب میں انھیں مسلسل گھورتا رہا توانھوں نے وہ کاغذ مجھے تھما دیا اور خود رکشہ سے باہر دیکھنے لگے۔
مگر وہ تو ایک کورا کاغذ تھا…! اُس پر کچھ بھی نہ لکھا ہوا تھا…! ہاں البتہ کاغذ کے عین بیچوں بیچ ایک دھبہ سا لگا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے بہت پہلے کبھی اُس کاغذ پر تیل کا کوئی قطرہ گر پڑا ہو اور اب وہ بہت عرصہ گز جانے کے سبب ایک سیاہ دھبے میں بدل گیا ہو۔ میں نے کاغذ کو اپنے ناک کے قریب لا کر اُسے سونگھنے کی کوشش کی مگر وہاں ماسوائے پرانے کاغذ کی بو کے اور کچھ بھی نہ تھا۔
دُکان پہنچ اکو بھائی گم سم سے ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ میرا بڑا جی چاہ رہا تھا کہ میں اُن سے پوچھوں کہ یہ اِس گلابی لفافے اور اُس میں پڑے میلے سے پرانے کاغذ کا کیا معاملہ ہے، مگراکو بھائی کے لٹکے ہوئے چہرے کو دیکھ کر میری ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔ کافی دیر بعد میں نے اپنی جیب میں رکھے لفافے کو نکالا اور چہرے پر ایک سوالیہ تاثر کے ساتھ اکو بھائی کی طرف بڑھا دیا۔ اکو بھائی بناء کسی تاثر کے میری طرف دیکھتے رہے۔ پھر ایک گہری سانس کے کر بولے۔
”یار شبیرے …! میں نے تجھے یہ بات جان بوجھ کر نہیں بتائی تھی۔ آج بتاریا ہوں۔ میں نے یہ لفافہ اور اس کے اندر موجود گلابی کاغذ اس نیت سے خریدے تھے کہ اس میں اپنا حالِ دل لکھ کر کسی روز چپکے سے حُسن آراء کے حوالے کر دوں گا، مگر میری کبھی ہمت ہی نہ ہو سکی کہ میں اِس پر کچھ لکھ سکتا۔ ایک روز میں نے ابو کی عطر کی شیشی سے ایک بڑا سا قطرہ اس کاغذ کے بیچوں بیچ ٹپکا دیا اور کاغذ کو تہہ کر کے اس لفافے میں ڈال دیا۔ اگلے روز جب حسن آراء آئی تو میں نے اُسے اُس کی پسندیدہ ترین ٹافی کے ساتھ وہ لفافہ بھی اُسے تھاما دیا۔ اُس نے ایک دھیمی سی مُسکراہٹ کے ساتھ پہلے میری طرف دیکھا اور پھر لفافے کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے چل دی۔“ اتنا کہِ کر اکو بھائی نے ایک طویل خاموشی اختیار کر لی۔
وہ دن تو گزر گیا مگر اُس روز کے بعد ہر آنے والا نیا دن اکو بھائی کو مزید خاموش کرتا چلا گیا۔ وہ دکان پرخاموش بیٹھے بس حُسن آراء کے ویران گھر کی بالکنی کو تکتے رہتے۔ طبعیت تو اُن کی پہلے سے ہی نرم گرم رہتی تھی، خاموش تو وہ ویسے ہی رہنے لگے تھے مگر خاموشی اب پہلے سے کہیں زیادہ گہری ہوچلی تھی۔
اکو بھائی کو میں نے اتنا اُداس اور خاموش اُس سے پہلے اُس وقت دیکھا تھا جب ایک روز اچانک اُن کے پسندیدہ اداکارہ وحید مراد کی ناگہانی وفات کی خبر آئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں اُن پر ایک بے نام سی اُداسی چھائی رہی تھی۔ مگر پھر دھیرے دھیرے وقت نے اُن کے دل پر لگے اُس زخم کو بھی کسی نہ کسی طور بھر ہی دیا۔ مگر اس بار لگتا تھا تھا کہ اُن کو لگنے والا زخم دل پر نہیں بلکہ رُوح پر لگا تھا جیسے بھرنا وقت کے بس کی بات معلوم نہ ہوتی تھی۔
دھیرے دھیرے اُن کی نرم گرم طبعیت کچھ ایسی نرم پڑی کہ وہ اُن کا زیادہ وقت بستر پر گزرنے لگا۔ کچھ ہی عرصے بعد ایک رات اکو بھائی حُسن آراء کی آنکھوں میں چھائی ویرانیوں، چہرے پر پھیلے کرب اور اپنی خاموش محبت کو سینے میں سموئے خاموشی سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔
اکو بھائی کے جانے کے بعد گذشتہ چھے ماہ سے میں نے اب اکیلے ہی ”اکو بھائی پان شاپ“ کا انتظام و انصرام سنبھال رکھا ہے۔ اُن تمام واقعات کے بعد میرا جی بھی ہر وقت اُداس اُداس سا رہنے لگا، کسی کام میں جی نہ لگتا۔ اکو بھائی نے اپنی زندگی ہی میں گانے بجانا اور سننا تو چھوڑ ہی دیا تھا مگر اُن کے بعد میرا بھی جی گانے بجانے اور سننے میں نہ لگتا۔ میں جسے اماں ”کن رسیا“ کہہ کہہ کر ہر وقت چھیڑا کرتیں، خود اُس کن رسیے نے بھی ہمیشہ کے لیے گانے سننا چھوڑ دیا تھا۔
اور پھر اُس روز مجی سوجی ہوئی آنکھیں لیے میرے پاس آیا اور رقت آمیز لہجے میں بولا۔
”یار شبیرے…! وہ ناں…! بلو باجی…!!!“
اِتنا کہہ کر مجی نے ایک لمحے کا توقف کیا…!
اُس ایک لمحے کے توقف نے چالیس سالوں پر محیط ساری کہانی کو لمحہ بھر میں ذہن کے پردے پر کسی فلم کی مانند چلا دیا۔
مجی ایک گہری سانس لے کر بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ رقت آمیز آواز میں بولا۔
”یار شبیرے…! وہ ناں …! بلوباجی…! بلوباجی چلی گئیں یار…!!!
٭……٭……٭……٭……٭