آدھی رات ادِھر آدھی رات ادُھرجب سارا شہر سنا ٹے میں ڈوب جا تا ۔
جب ساری روشنیاں بُجھنے لگتیں گہرا اندھیرا چھانے لگتا تب ایک ویران قبرستان میں کچھ قبرنشین سر گو شیوں میں باتیں کرتےہو ئے نظر آتے
“السلام علیکم بھیا حضور ! ”
“وعلیکم ۔۔۔”نخوت سے جواب ملتا اوروہ بھی ادھورا ۔حالا نکہ اس سلام اور جواب ِ سلام کی کوئی اہمیت بھی نہ رہی تھی ۔
“یہ سارے پہرے دار کہاں غائب ہیں آج ؟؟ ہمارا حقّہ بھی تازہ نہیں کیا گیا “انھوں نے خیالی حقّے کی منال منھ سے لگا لی ۔
“بھیّا حضور یہ اُن کے آرام کا وقت ہے ۔ہم تو بس ۔۔۔” انھوں نے رات کی تنہائی اور اندھیرے میں قبروں پر نظر دوڑائی ۔کچھ موہوم سائے ہر قبر پر نظر آئے کچھ سرگوشیاں سنائی دیں ۔اور تب ہی بھیا حضور کی رعونت بھری آواز سے چونک کر ان کے سائے پر نظر ڈالی ۔
“آپ کو ہمیشہ اِن غریب فقیر لوگوں کی ہی فکر رہی ۔ اسی لئے کچھ بن نہ سکے ۔
وہ اپنے اسی کروفر سے قبر پر یوں استادہ تھے گویا راج سنگھاسن پر براجمان ہوں ۔
یوسف علی نرمی سے مسکرائے۔ اندھیرے کے اُس پار کہیں پرانے دنوں کی طرف دیکھنے لگے ۔یہ خاندانی قبرستان تھا ورنہ کہاں وہ اور کہاں بڑے بھیا۔
“آپ کو تو یاد نہیں ہوگا ۔کیا خوبصورت شامیں ہوتی تھیں ہماری ،آج امینہ بائی تو کل روشن آرا ۔مگر آپ کو کہاں فرصت تھی اپنی کتابوں سے جو کبھی ہماری محفل میں آتے ”
“بھیّا حضور وہ آپ کے شوق تھے اور کتابیں ہمارا شوق ۔”
“کیا دیا آپ کے شوق نے ؟ ایک معمولی زندگی گزاری آپ نے اور ہم ۔۔۔۔”
“جی ،سچ کہا آپ نے ،ہمارے نصیب میں آپ جیسی زندگی کہاں تھی ” ان کی آواز میں ٹوٹے ہوئے شیشے کی کھنک اور گہری اُداسی جھانک رہی تھی ۔
“آپ نے ہمیں اپنا خاندانی حق بھی نہ ملنے دیا ۔۔۔اور باقی چیزیں تو اضافی تھیں ”
“دیکھئے میاں ! حکومت کر نا ہماری قسمت میں لکھا تھا ،آپکو راستے سے نہ ہٹا تے تو کوئی اور ذریعہ بن جاتا ۔اور آپ کو بھی ہم نے کہاں ہٹا یا ؟ آپ تو بزدلوں کی طرح محل سے بھاگ نکلے تھے ۔”
“اگر ہم اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچا کر نہ نکلتے تو ہماری لاشیں نکلتیں اور خود کشی ہمیں منظور نہ تھی بھیّا حضور ! آپ نے تو حد ہی کر دی تھی ۔اگر ابّا حضور ہم کو ولی عہد بنا نا چاہتے تھے تو ہمارا کیا قصور تھا ؟ ”
“قصور آپ کا ہی تھا میاں ! آپ اتنے نیک اور فرمانبرداربن کرسامنے آتے تھے ۔۔۔۔”
“ہم نیک اور فرمانبردار بن کرنہیں آتے تھے بھیّا حضور !
ابّا نے یہ خوبیاں ہم میں خود دیکھی تھیں ۔ہمیں کوئی لالچ نہیں تھا یہ ان ہی کا فیصلہ تھا ۔اور آپ نے بھی تو حد کر دی تھی ۔اب ہم اپنی زبان سے کیا کہیں ”
انھوں نے سر جھکا لیا ۔
“ہاں ہم نے حد کی تھی ۔ہمارے شوق تھے ۔تعلیم سے ہم دور تھے ۔ہم بازاری عورتوں کو گھر بلاتے تھے ہم ناچ رنگ پسند کرتے تھے ۔اور ابّا حضور ہمارے دشمن بن گئے ”
“اور آپ ہمارے ۔۔”
یوسف آبدیدہ ہوکر قبر سے اٹھ کر ٹہلنے لگے ۔انھیں یاد آگیا کہ کس طرح کسمپرسی کی حالت میں گھر سے بے گھر ہوئے تھے ،تما م واقعات ذہن کے پردے پر سرسرانے لگے ۔۔۔۔
“ہم آپ سے ان سب با توں کے لئے قطعی شر مندہ نہیں ہیں میاں ۔جو آپ کو ملنا تھا ملا جوہم نے حاصل کر نا تھا کیا ۔ ”
بڑے بھیا اب بھی اسی طرح پرغرور تھے ۔
قبرستان کے سنا ٹے کچھ اور بڑھ گئے ۔سوکھے پتّوں پر شبنم کا گر نا جاری رہا ۔۔۔ٹپ ۔۔ٹپ ۔۔۔پتّے اپنے سینوں پر شبنم کا وار سہتے رہے ۔کسما تے رہے ۔
اجڑی ریاستوں کے سینے میں نہ جانے کتنے راز دفن ہیں ۔
یہ بھی ایک طویل وعریض رقبہ پر مشتمل ریاست کی داستان ہے جہاں ظلم و ستم کے ساتھ کچھ معصوم رعا یا بھی تھی ۔
کچھ بے لوث درد مند انسان بھی تھے ۔جن کو اپنے لیئے نہیں اپنی رعا یا کے لیئے کچھ کر نا تھا ۔۔جو اسکول اور اسپتال بنواتے تھے ۔جو سڑکوں اور کھیتوں کے ٹیکس معاف کر دینا چاہتے تھے جو سب کو ساتھ لےکر چلنا چاہتے تھے ۔مگر زمانے کو یہ منظور نہ تھا ۔۔
ان کی یہ درد مند طبیعت ان کے لیے عذاب بن گئی ۔ان پر ستم توڑے گئے ۔
وہ سوچنے لگے۔
گھوڑا ہواؤں سے باتیں کر رہا تھا ۔۔ہر علاقے سے وہ اس تیزی سے گزر جاتا گویا ایک شرارا ایک پارہ ۔ابھی یہاں نظر آیا اور ابھی وہاں ۔
گھوڑا اور سوار دونوں دھول میں اٹ چکے تھے ۔
انھوں نے گھوڑے کا سر سہلاتے ہوئے ہمت دلا ئی اور اس نے اسی زور وشور سے اپنا سفر جاری رکھا ۔درختوں کی چھاؤں سے نکل کر جب سوار کڑی دھوپ میں آتا تو اپنا چہرہ گھوڑے کی ایال میں چھپا لیتا ۔اور گھوڑا اپنے مالک کی حالت محسوس کر کے درختوں کے جھنڈ کی تلاش میں سر گرداں ہوجاتا ۔سوار اللہ کے حضور سرجھکا کر شکر ادا کرنے لگتا کہ اس کے بچّے اور بیوی محفوظ جگہ پر ہیں ۔
آخر کا ر منزل نظر آنے لگی ۔ مسافر نے چہرے کی دھول صاف کی ۔
بلند وبالا آہنی پھاٹک کے دروازے پر کئی لوگوں کے ہجوم کے ساتھ راجہ صاحب خود موجود تھے ۔ایک ملازم نے ان کے سر پر چھتّر کا سایہ کیا ہوا تھا اور ایک ملازم مور کے پروں کا بنا ہوا پنکھا لئے ہوئے مسلسل ان کو جھل رہا تھا ۔
راجہ صاحب نے گھوڑے کو قریب آتے دیکھا تو خود آگے بڑھ کر داماد کو بازو کا سہارا دیکر اتارا اورپھر شانوں سے تھام کر سینے سے لگا لیا ۔کئی لمحے یونہی بیت گئے ۔
انھوں نے اپنے معطّر رومال سے ان کا چہرہ صاف کیا اور بازوں میں لےکر حویلی کے اندر کی طرف بڑھ گئے ۔
گھوڑے کے لئے پانی کا انتظام موجود تھا ایک ملازم محبّت سے اس کی صفائی میں لگ گیا ۔سامنے چنے کی بھیگی ہوئی دال اور اور گڑ کا ملیدہ لگا دیا گیا ۔
محل کے اندر بڑی بڑی سینیوں میں صدقے کا سامان نکالا جارہا تھا
اناج ،گوشت اور چاندی کے سکوّں سے بھری سینی یوسف علی خان کے سامنے آتی رہیں اور وہ انھیں انگلیوں سے چھو کر اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے جہاں خدمت گار ایک بڑے پیتل کے لوٹے میں پانی اور دوسرا تانبے کی سلفچی لیئے کھڑا تھا ۔وہ ہاتھ دھلا کر نرمی سے صاف شفّاف تولیہ سے مس کر تا ۔
راجہ صاحب نے اپنی آرام گاہ میں صاحبزادے یوسف علی خاں کو اپنے بستر پر جگہ دی اور خود پاس رکھے ایک طویل مخمل کے صوفے پر بیٹھ گئے ۔
“ہاں اب ہمیں یہ بتا ئیے کہ واقعہ کیا تھا ؟ آخر کس سبب سے صاحبزادے وقار علی خان نے یہ قدم اٹھا ؟ ”
یوسف یوں خاموش رہے گویا اپنے آنسوؤں کو اندر دھکیل رہے ہوں ۔
“با با جان ! ناراض تو بھائی جان ہم سے ہمیشہ رہے ” وہ اپنی بھرّائی ہوئی آواز کو قابو میں کر تے ہوئے بولے ۔
خدا معلوم ان کو ہم سے کیا پر خاش ہے ۔ہم نے تو ان سے کبھی اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی ۔ابّا حضور کے گزر جانے کے بعد ان کے روّیے میں ہمارے لیے کچھ ذیادہ ہی تلخی آگئی تھی ۔
مگر وہ اس حد تک چلے جائیں گے کبھی سوچانہیں تھا ۔جیسا کہ ملازموں نے بتایا ۔۔اگر ہم اس وقت بستر پر موجود ہو تے ؟؟
ہم موت سے نہیں ڈرتے ۔
“مگر با باجان ۔۔میرا سارا خاندان تباہ ہوجاتا ۔ادھر یہ معصوم ۔۔۔”انھوں نے سامنے دالان میں کھیلتے ہوئے دونوں بیٹوں پر نظر کی ۔تو ان کی آنکھوں میں شفاّف پانی کی چمک راجہ صاحب نے محسوس کرلی ۔
“اور دوسری طرف ان کی اپنی اولاد ۔ پولیس والے مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ کوئی ایسا واقعہ ملے اور ہم سب کی بد نامی ہو ۔صرف بستر پر ایک گولی چلنے سے پولیس کا آنا جانا شروع ہوگیا ہے ۔”
“ملا زم ہمیں برا برخبر دیتے رہے ۔۔کس طرح ہم چھپ کر رہے اور کیسے آپ کے پاس آسکے ۔۔آپ کو کیا بتائیں ۔۔” وہ سر جھکا کر خا موش ہو گئے ۔
“خیر اب جو ہوا سوہوا ۔اب آپ ایسا کیجئے کہ ۔۔”انھوں نے اٹھکر الماری سے کچھ کاغذات نکا ل کر ان کی طرف بڑھائے
بسم اللہ کر کے یہاں جائیے اور اپنا علا قہ سنبھالیے ۔آپ لاوارث نہیں ہیں فرزندی میں لیا ہے آپ کو اس پورے علاقے پر حق ہے آپ کا ۔
یہ بات میں شروع سے آپ سے کہہ رہا ہوں ۔کیونکہ میں نے صاحبزادے کے تیور پہلے ہی دن سے بھانپ لیئے تھے ۔وقار علی خاں آپ کے والد کے بعد آپ کو برداشت نہیں کریں گے ۔حالانکہ محل اور باغات ۔کھیتوں پر آپ کا حق ہے وہ ہر صورت آپ کو ملنا چاہیئے ۔آپ چاہیں تو مقدمہ دائر کروا سکتے ہیں ۔مگر فی الحال میں آپ کو یہ رائے نہیں دونگا بلکہ یہ فیصلہ آپ کو خود ہی لینا ہوگا ۔
اس وقت آپ آرام کیجئے اس موضوع پر شام کو آپ سے بات ہوگی ۔
انھوں نے تعظیماً کھڑے ہوتے ہوئے یوسف کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر انھیں دوبارہ بٹھا دیا اور کمرے سے نکل گئے ۔
ہلکے آسمانی لباس میں خوشبوؤں سے معطّر زلیخا بیگم آئیں اور ان کے بازو وں پر اپنا سر ٹکا دیا ۔
۔وہ بے آواز رورہی تھیں اور یوسف کے پاس بھی کوئی الفاظ نہیں تھے ۔وہ خاموشی کی زبان میں ایک دوسرے کا غم بانٹتے رہے ۔
بچوّں کے چہرے پر وہ اپنا مستقبل دیکھتے رہے ۔
آخر کار انھیں راجہ صاحب کی بات ماننی پڑی اور ایک نئی جگہ استقلال کے ساتھ نئے مرحلے سر کرنے نکل پڑے ۔مگر اپنا گھر بار چھن جانے کا غم تھا جو انھیں اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا تھا ۔
وہ زیادہ نہیں جی سکے اپنے بچّوں کو جوان دیکھنے کی خواہش لیئے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
اس شہر ِ خموشاں میں رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی ۔دونوں کے پاس کہنے کو اب شاید کچھ نہیں بچا تھا ۔
تب وقار علی خان نے ان کی طرف نگاہ اور تجسس سے بولے ۔
“ایک بات بتائیے آپ کی قبر میں اتنی روشنی اور خوشبو کسطرح ہے ؟”
وہ سلام کر کے مسکرائے اور اپنی قبر کی جانب بڑھ گئے ۔
صبح ہونے والی تھی چڑیوں کی چہکار گونج رہی تھی ۔آہستہ آہستہ قبروں سے سائے غائب ہو رہے تھے ۔
وقار علی جھنجھلا کر اٹھے اور اپنی اجاڑ قبر کی طرف بڑھے ۔۔ان کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں ۔
ان کی قبر پر بے رونقی اور اندھیرا بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...