برین بھومِک بابو کنڈکٹر کی ہدایت کے مطابق ریل گاڑی کے کمپارٹمنٹ ’ڈی ‘ میں داخل ہوئے اور اپنی نشست کے نیچے اپنا سوٹ کیس رکھا ۔ انہیں سفر کے دوران اسے کھولنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن انہیں اپنا دوسرا چھوٹا والا بیگ کسی ایسی جگہ رکھنا تھا جہاں ان کا ہاتھ آسانی سے پہنچ سکے۔ اس میں ضرورت کی ایسی اشیاء جیسے کنگھی، بالوں کا برش ، ٹوتھ پیسٹ، ان کی شیونگ کِٹ ،راستے میں پڑھنے کے لیے ‘ جیمز ہیڈلے چیز ‘ کی ایک کتاب اور ایسی ہی بہت سی چھوٹی موٹی چیزوں کے ساتھ گلے کی خرابی کے حوالے سے گولیاں بھی شامل تھیں۔ اگر ریل گاڑی کے طویل سفر کے دوران سرد، ائیرکنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں ان کا گلا بیٹھ جاتا تووہ اگلے روز گا نہیں سکتے تھے ۔ انہوں نے جلدی سے ایک گولی منہ میں ڈالی اور اپنا بیگ کھڑکی کے سامنے والی چھوٹی میز پر دھر دیا۔
یہ دہلی کے لیے، پیش راہداری والی ایک ریل گاڑی تھی۔ اس کی روانگی میں فقط سات منٹ باقی تھے لیکن دوسرے مسافروں کا کہیں پتہ نہ تھا ۔ کیا انہیں اس گاڑی میں اکیلے ہی سفر کرتے ہوئے دہلی جانا تھا ؟ کیا وہ اتنے خوش قسمت ہو سکتے تھے ؟ اگر ایسا ہو جاتا تو یہ ان کے لیے عیش کی انتہا ہوتی ۔ یہ سوچ کر ان کے لبوں پر ایک گیت آ گیا ۔
انہوں نے کھڑکی سے باہر پلیٹ فارم پر موجود لوگوں پر نظر ڈالی ۔ دو نوجوان گاہے بگاہے اُنہیں دیکھ رہے تھے ۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ پہچانے گئے تھے ۔ اُن کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی ۔لوگ اکثر انہیں پہچان لیتے تھے کیونکہ وہ نہ صرف ان کی آواز سے واقف تھے بلکہ ان کی شکل بھی پہچانتے تھے ۔انہیں ہر ماہ کم سے کم چھ بار تو گانوں کی محفل سجانا پڑتی تھی ۔’آج رات برین بھومِک کو سُنیے ۔۔۔وہ نہ صرف نذرالسلام کے لکھے گیت گائیں گے بلکہ مشہورجدید نغمے بھی پیش کریں گے ۔‘ دولت اور شہرت ۔ ۔ ۔ دونو ں کھل کر بھومِک بابو پر برسی تھیں ۔
یہ الگ بات ہے کہ ایسا بس پچھلے پانچ برس میں ہی ہوا تھا ۔ انہیں اس سے پہلے بہت محنت کرنا پڑی تھی ۔ باصلاحیت گلوکار ہونا ہی کافی نہ تھا ۔ انہیں تگڑی پشت پناہی اور مناسب تعارف کی ضرورت تھی ۔ یہ 1963 میں ہوا جب بھولا دا ۔۔۔ بھولا بینر جی ۔۔۔ نے انہیں’اُنیش پلی ‘کے پوجا منڈل میں گانے کے لیے بلایا ۔ تب سے بھومِک بابو نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا ۔
اصل میں، وہ اب دہلی اس لیے جا رہے تھے کہ انہیں بنگال ایسوسی ایشن نے اپنے جوبلی جشن میں مدعو کر رکھا تھا ۔ وہ نہ صرف فرسٹ کلاس میں ان کے سفر کا خرچہ اٹھا رہے تھے بلکہ انہوں نے یہ وعدہ بھی کر رکھا تھا کہ دہلی میں ان کے قیام و طعام کا بندوبست بھی وہی کریں گے ۔وہ دہلی میں دو روز گزارنا چاہتے تھے ، پھر انہوں نے آگرہ اور فتح پور سیکری جانا تھا اور یوں ہفتہ بھر باہر رہ کر کولکتہ لوٹنا تھا ۔ اس کے بعد پوجا منڈل پھر سے شروع ہو جانے تھے اور اُن زندگی نے پاگل پنے کی حد تک مصروف ہو جانا تھا ۔
” جناب ،لنچ کے لیے کیا منگوانا پسند کریں گے ۔۔۔؟“
کنڈکٹر۔گارڈ دروازے میں نمودار ہوا ۔
” کھانے میں کیا کیا ہے ؟“
” آپ کو سبزی خور تونہیں ہیں ، یا ہیں ؟ آپ انڈین اور مغربی کھانوں میں سے کچھ بھی منگوا سکتے ہیں ۔ اگر آپ انڈین کھانا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس ۔۔۔ “
برین بابو نے لنچ کے لیے آڈر دیا اور جیسے ہی انہوں نے ’ تھری کاسل ‘ کا سگریٹ سلگایا ، ایک دوسرا مسافر کمپارٹمنٹ میں داخل ہوا ، اسی وقت گاڑی نے بھی سٹیشن سے باہر کی طرف رینگنا شروع کر دیا ۔
برین بابو نے آنے والے مسافر پر نظر ڈالی ۔ انہیں وہ کچھ شناسا سا لگا ؟برین بابو نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن ان کی مسکراہٹ فوراً ہی غائب ہو گئی کیونکہ دوسرے نے ان کی مسکراہٹ کا کوئی جواب نہ دیا تھا ۔ کیا انہیں غلطی لگی تھی ؟ اوہ ، خدایا ۔۔۔ کتنی خجالت آمیز بات ہے !وہ کسی احمق کی طرح کیوں مسکرانے لگے تھے ؟ ایسا ہی کچھ ان کے ساتھ پہلے بھی ایک بار ہو چکا تھا ۔وہ ایک بندے کی کمر پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے چِلائے تھے ، ” ہیل۔۔۔او ، تریدِبدا ! تم کیسے ہو ؟ اور جب انہیں پتہ چلا کہ وہ تریدِب ۔دا تھا ہی نہیں تو انہیں خجالت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بعد میں اس واقعہ کی یاد نے انہیں کئی روز تک بے چین رکھا ۔ خدا نے بھی بندے کو خجل کرنے کے لیے بہت سے پھندے لگا رکھے ہیں !
برین بابو نے اُس بندے کو ایک بار اور دیکھا ۔ اس نے اپنے سینڈل اتار پھینکے تھے اور وہ ٹانگیں پھیلائے بغیر بیٹھا ’ السٹریٹڈ ویکلی ‘ کے تازہ شمارے کی ورق گردانی کر رہا تھا ۔برین بابو کو ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ جیسے انہوں نے اسے کہیں دیکھ رکھا تھا اور یہ نہیں کہ یہ چند منٹ پہلے کی بات تھی ۔ انہوں نے اس آدمی کی رفاقت میں طویل وقت گزارا تھا لیکن یہ کب ہوا ؟ اور کہاں ہوا تھا ؟ انہیں یاد نہ تھا ۔اس بندے کی بھنویں گھنی ، مونچھیں پتلی اور بال چمکیلے تھے ۔ اس کے ماتھے پر بالکل بیچ میں ایک ننھا مَسا بھی تھا ۔ ہاں ، یہ چہرہ یقیناً مانوس تھا ۔ کیا انہوں نے اس بندے کو تب دیکھا تھا جب وہ ’ سینٹرل ٹیلی گراف ‘ کے لیے کام کرتے تھے ؟ لیکن یہ بات تو یقینی تھی کہ یہ معاملہ یک طرفہ نہیں ہو سکتا تھا ؟ گاڑی میں بیٹھا ان کاہمسفر کسی طور پہچان کا عندیہ نہیں دے رہا تھا ۔
” لنچ کے لیے آپ کا آڈر ، جناب ؟ “
کنڈکٹر۔گارڈ دوبارہ نمودار ہوا تھا ۔ وہ ایک باوقار بلکہ ملنسار شریف آدمی لگتا تھا ۔
” اچھا خیر “ ، نووارد نے کہا، ” ہم لنچ کے بارے میں تو بعد میں بتائیں گے لیکن کیا پہلے مجھے چائے کا ایک کپ مل سکتا ہے ؟“
” یقیناً ، جناب “
” مجھے بس ایک کپ اور قہوہ درکار ہے ۔ میں دودھ کے بغیر چائے پینے کو ترجیح دیتا ہوں ۔“
نووارد کا یہ کہنا اپنا کام کر گیا ۔ برین بھومِک کو لگا جیسے اُن کی طبیعت خراب ہو رہی ہو ۔ انہیں اپنے معدے کے پاتال میں ڈوبنے کی سی کیفیت محسوس ہوئی ۔ پھر ایسا لگا جیسے ان کے دل کے پر نکل آئے ہوں اور وہ اڑ کر سیدھا ان کے گلے میں آ پھنسا ہو ۔ یہ اس بندے کی صرف آواز ہی نہ تھی بلکہ الفاظ بھی تھے جو اس نے خصوصی زور دے کر، دودھ کے بغیر چائے، کے الفاظ ادا کیے تھے ۔ برین بابو کے دماغ سے ساری بے یقینیاں ختم کرنے کے لیے یہی لفظ کافی تھے ۔ اب ہر یاد اُن کے دماغ میں پھر سے اُبلنے لگی ۔
برین بابو نے واقعی اس شخص کو پہلے دیکھا ہوا تھا اور وہ بھی ایسے ۔۔۔گویہ خاصا عجیب ہے ۔۔۔ اسی طرح کی گاڑی کے ایک ائیر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ ہیں ، جو دہلی جا رہی تھی ۔ وہ خود اپنے عم زاد ، شپرا ، کی شادی میں شامل ہونے کے لیے پٹنہ جا رہے تھے ۔ جانے سے تین روز قبل ہی انہوں نے گھڑ دوڑ میں سات ہزار سے کچھ زیادہ ہی رقم جیتی تھی ۔ وہ اس لیے فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کی عیاشی کے متحمل ہوسکتے تھے ۔ یہ نو سال پہلے ، 1964 ، کی بات ہے ، اور یہ واقعہ اُس وقت سے بہت پہلے پیش آیا تھا جب وہ ایک مشہور گلوکار بننے لگے تھے ۔ انہیں اس بندے کا خاندانی نام ہلکا سا یاد تھا ۔ یہ ’ چ ‘ سے شروع ہوتا تھا ؛ چودھری؟ چکرورتی؟ چٹرجی ؟ کنڈکٹر۔گارڈ چلا گیا تھا اور برین بابو نے یہ محسوس کیا کہ وہ اس بندے کے سامنے زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتے ۔ وہ اٹھے اور کوریڈور میں جا کر اتنی دور کھڑے ہو گئے کہ انہیں اپنا ہمسفر نظر نہ آئے ۔ یہ درست ہے کہ زندگی میں اتفاقات ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن یہ تو ناقابل یقین اتفاق تھا ۔
لیکن کیا ’ چ ‘ نے انہیں پہچان لیا تھا ؟ اگر نہیں تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی تھیں ۔ شاید اس کی یادداشت کمزور تھی یا پھر شاید برین بابو کے حُلیے میں ان نو برسوں میں بہت بڑی تبدیلی آ گئی تھی ۔ وہ کھڑکی کے باہر گھورتے ہوئے یہ یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ کونسی تبدیلیاں ہو سکتی تھیں ۔
وہ کافی موٹے ہو گئے تھے ، اس لیے ممکن تھا کہ ان کا چہرہ بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ بھر گیا ہو ۔اُن دنوں انہیں عینک نہیں لگی تھی ، اب لگاتے تھے اور اب ان کی مونچھیں بھی نہیں تھیں ۔ انہوں نے انہیں کب منڈوایا دیا تھا ؟ او ہاں ، یاد آیا ، یہ تو کوئی زیادہ پرانی بات نہ تھی ۔ وہ’ حضرا ‘ روڈ پر ایک سیلون میں گئے تھے ۔ نائی نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ اناڑی بھی تھا ۔ وہ ان کی مونچھوں کی تراش خراش کے دوران توازن اور ہم آہنگی برقرار نہ رکھ سکا ۔ برین بابو نے پہلے تو اس بات پر دھیان نہ دیا لیکن جب ان کے دفتر میں بکواسی بوڑھے لفٹ والے ، سُکھ دیو سے لے کر باسٹھ سالہ بوڑھے کیشئیر ، کشیو بابو تک نے ان پر بھپتیاں کسنی شروع کیں تو انہوں نے اپنی پیاری مونچھوں کو سرے سے ہی اڑا دیا ، ایسا لگ بھگ چار سال پہلے ہوا تھا ۔
تو ایسا تھا کہ انہوں نے اپنی مونچھیں گنوائیں ، گال بھر گئے اور عینک لگ گئی تھی ۔ انہیں جب اس کا کچھ یقین ہوا تو وہ اپنے کمپارٹمنٹ میں واپس لوٹ گئے ۔
ایک بیرا آیا اور اس نے چائے دانی اور کپ ’چ‘ کے سامنے رکھ دیا ۔ برین بابو کو کچھ پینے کی طلب ہوئی لیکن انہوں نے بیرے سے کچھ کہنے کی ہمت نہ کی ۔ ۔ ۔ اگر ’چ ‘ ان کی آواز پہچان لیتا تو کیا ہوتا ؟
برین بابو یہ بھی سوچنا نہیں چاہتے تھے کہ اگر ’چ ‘ نے انہیں پہچان بھی لیا تو وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ۔ بہرحال یہ سب تو اس بات پر منحصر تھا کہ ’ چ ‘ کس قسم کا انسان تھا ۔ اگر وہ انیمیش ۔ دا جیسا کوئی تھا تو برین بابو کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ ایک دفعہ بس میں انیمیش ۔ دا کو لگا کہ کوئی ان کی جیب کاٹ رہا ہے ، لیکن وہ شور مچانے کے حوالے سے اتنے شرمیلے تھے کہ انہوں نے ، ایک طرح سے ، جیب کترے کو اپنا بٹوہ ، جس میں دس روپے کے چار کڑکڑاتے نوٹ تھے ، خود ہی دے ڈالا ۔ انہوں نے بعد میں اپنے گھر والوں کو بتایا تھا ، ” بھری بس میں اس طرح کا ہنگامہ کھڑا کرنا جس میں میرا اپنا کردار اہم ہوتا ۔۔۔ نہیں ، میں اسے برپا ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا ۔“
کیا یہ بندہ کچھ ایسا ہی تھا ؟ شاید نہیں ۔ اب انیمیش ۔ دا جیسے لوگ مشکل سے ہی ملتے تھے ۔ پھر یہ بھی تھا کہ اس بندے کی نظروں میں ایسا کچھ نہ تھا کہ برین بابو کو کچھ حوصلہ ہوتا ۔ اس کے بارے میں جو کچھ بھی تھا ۔۔۔ گھنی بھنویں ، موٹی بپھری ناک ، باہر کو نکلی تھوڈی ۔۔۔ سب یہ عندیہ دے رہے تھے کہ اس نے بالکل بھی نہیں جھجکنا تھا،اس نے اپنا بالوں بھرا ہاتھ بڑھانا اور برین بابو کا گلا دبوچ لیتے ہوئے کہنا تھا ؛ ” کیا تم وہی آدمی تو نہیں جس نے 1964 ء میں میری گھڑی چرائی تھی ؟ بدمعاش ! میں نو سال سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں ! اور آج میں تمہیں ۔۔۔“
برین بابو میں مزید سوچنے کا حوصلہ نہ تھا بلکہ اس ائیر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں ہوتے ہوئے بھی ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے ۔ انہوں نے اپنی برتھ پر خود کو پھیلایا اور اپنے بائیں بازو سے آنکھوں کو ڈھانپ لیا ۔ بندے کی آنکھیں ہی ہوتی ہیں جو دوسرے کو اوجھل کر دیتی ہیں ۔ اصل میں ’ چ‘ انہیں اسی لیے مانوس لگا تھا کہ انہوں نے اس کی نظر پہچان لی تھی ۔
وہ اب واقعات کو واضح طور یادکر سکتے تھے ۔یہ صرف ’ چ ‘ کی گھڑی چرانے کا معاملہ نہیں تھا ۔ وہ ہر وہ چھوٹی سے چھوٹی شے یاد کر سکتے تھے جو انہوں نے اپنی زندگی میں لڑکپن سے ہی چرائی تھیں ۔ ان میں کچھ تو بالکل ہی معمولی تھیں جیسے موکُل ماما کا بال پوائٹ پن ، یا اپنے ہم جماعت اَکشے کا سستا سا محدب عدسہ ، یا چھینی ۔ دا کا ہڈی سے بنا کف لنگز کا جوڑا ، جو ان کے کسی کام کا نہ تھا ۔اس نے انہیں ایک بار بھی نہ پہنا تھا ۔ان کو چرانے کی بس ایک ہی وجہ تھی ۔۔۔ بلکہ یہ بات دوسری تمام اشیاء پر بھی لاگو ہوتی تھی ۔۔۔ کہ وہ ان پر ہاتھ صاف کر سکتا تھا اور یہ کہ یہ سب دوسروں کی ملکیت تھیں ۔
بارہ سے پچیس سال کی عمر میں ، برین بھومِک نے بہت سے لوگوں کی لگ بھگ پچاس مختلف اشیاء اٹھائی تھیں اور اِن کا اپنے گھر میں ایک ذخیرہ بنا رکھا تھا ۔ بندہ اسے بھلا چوری کے سوا اور کیا نام دے سکتا ہے ؟ اُن اور ایک پکے چور میں بس ایک فرق تھا کہ چور اس لیے چوری کرتا ہے کہ چوری کا مال بیچ کر زندہ رہ سکے لیکن برین بابو ایسا عادتاً کرتے تھے ۔ کسی نے ان پر کبھی شک نہیں کیا تھا ، اسی لیے وہ کبھی پکڑے بھی نہ گئے تھے ۔ برین بابو جانتے تھے کہ ان کی یہ عادت ، اشیاء کو چرانے کی یہ عجیب سی مجبوری ، ایک طرح کی بیماری تھی ۔ ایک بار انہوں نے اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے اس کی طبی اصطلاح کے بارے میں بھی جانکاری حاصل کی تھی لیکن اب انہیں یہ یاد نہ تھا کہ یہ اصطلاح کیا تھی ۔
’ چ‘ کی گھڑی ، البتہ وہ آخری شے تھی جو انہوں نے چرائی تھی ۔ پچھلے نو سالوں میں انہوں نے ایسا کرنے کی ، اِس اچانک ابھرنے والی اور واثق خواہش کا سامنا نہیں کیا تھا ۔ انہیں یہ پتہ تھا کہ انہوں نے اپنی اس بیماری پر قابو پا لیا تھا اور وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے تھے ۔
’ چ ‘ کی گھڑی چرانے اور دوسری معمولی چوریوں کے درمیان ایک فرق بھی تھا ، وہ اس گھڑی کو واقعی میں حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ یہ سوئٹزر لینڈ کی بنی ایک خوبصورت سفری گھڑی تھی ۔ یہ ایک نیلے رنگ کی چوکور ڈبیا میں بند تھی اور جیسے ہی ڈبیا کا ڈھکن اٹھایا جاتا ، یہ اپنی جگہ قائم ہو جاتی ۔ یہ ایک الارم کلاک تھا اور اس کے الارم کی آواز اتنی مدھر تھی کہ بندہ اس کو سن کر جاگ جانے میں خوشی محسوس کرتا ۔
برین بابو اس گھڑی کو ، پچھلے نو سالوں سے ، تواتر کے ساتھ استعمال میں لاتے رہے تھے ۔ وہ جہاں بھی کہیں جاتے ، اسے ساتھ رکھتے ۔ آج بھی یہ گھڑی ان کے اس بیگ میں نیچے کہیں موجود تھی جو انہوں نے کھڑکی کے سامنے والی میز پر رکھا تھا ۔
” آپ کہاں جا رہے ہیں ۔“
برین بابو کو یہ سن کر زور کا جھٹکا لگا ۔ کمپارٹمنٹ میں بیٹھا دوسرا بندہ واقعی میں ان سے مخاطب تھا !
” دہلی “
” معاف کرنا ، کیا کہا آپ نے ؟“
” دہلی “
پہلی بار جب برین بابو نے اپنی آواز بدل کر بولنے کی کوشش کی تھی تو وہ اتنا آہستہ بولے کہ دوسرا بندہ انہیں ٹھیک طور پر سُن نہیں پایا۔
” کیا آپ کو یہاں زیادہ ٹھنڈ محسوس تو نہیں ہو رہی ؟ کیا اسی وجہ سے آپ کی آواز متاثر تو نہیں ہو رہی ؟“
” نہیں ، نہیں ، ایسا نہیں ہے ۔“
” یہ ہو سکتا ہے ۔ اصل میں ، اگر گرد کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں سادہ فرسٹ کلاس میں سفر کرنا ہی پسند کرتا ۔“
برین بابو نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالا ۔ وہ ’چ‘ کی طرف دیکھنا بھی نہ چاہتے تھے لیکن ان کا اپنا تجسس مجبور کر رہا تھا کہ وہ بار بار اسی سمت کی طرف دیکھیں جہاں ’چ ‘ بیٹھا تھا ۔ کیا ’چ‘ کے چہرے پر ایسے آثار تھے کہ وہ انہیں پہچانے کی کوشش کر رہا تھا ؟ نہیں ، ایسا نہیں تھا ۔ وہ پوری طرح شانت تھا ۔ کیا وہ ڈھونگ رچا رہا تھا ؟ کوئی راستہ نہ تھا کہ برین بابو یقین کر سکتے ، وہ اس بندے کے بارے میں ٹھیک سے ،کچھ زیادہ جانتے بھی تو نہ تھے ۔ پچھلی بار انہیں اپنے اس ہم سفر کے بارے میں اتنا ہی پتہ تھا کہ وہ دودھ کے بغیر چائے پیتا تھا اور اسے عادت تھی کہ وہ ہر سٹیشن پر اتر کر کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ خریدتا ۔ اُس کی اِس عادت کے باعث برین بابو کو بہت سی ذائقہ دار چیزیں کھانے کو ملی تھیں ۔
تبھی ، برین بابو نے ’چ‘ کے کردار کی ایک اور پرت دیکھی تھی ۔ اس وقت وہ پٹنہ کے نزدیک پہنچنے والے تھے ۔ یہ وقت گھڑی کے معاملے سے براہ راست جڑا تھا ۔
وہ ’ امرتسر میل‘ پر سفر کر رہے تھے ۔ اِس نے صبح پانچ بجے پٹنہ پہنچنا تھا ۔ کنڈکٹر ساڑھے چار بجے آیا اور اس نے برین بابو کو اٹھایا ۔ ’چ‘ بھی آدھا جاگا ہوا تھا گو کہ اس نے سارا سفر طے کرکے دہلی جانا تھا ۔
پٹنہ پہنچنے سے صرف تین منٹ پہلے گاڑی نے اچانک بریک لگائی اور رُک گئی ۔ کیا وجہ ہو سکتی تھی ؟ کچھ لوگ پٹڑی پر ٹارچیں لیے دوڑ رہے تھے ۔ کیا کوئی سنجیدہ بات ہو گئی تھی ؟ بالآخر گارڈ آیا اور اس نے بتایا کہ ایک بوڑھا پٹڑی پار کرتے ہوئے گاڑی کے نیچے آ گیا تھا اور یہ کہ اس کی لاش ہٹاتے ہی گاڑی پھر سے چل پڑے گی ۔
’چ‘ یہ سن کر جوش میں آ گیا اور فوراً ہی اپنے سونے کے کپڑوں میں ہی ، اندھیرا ہونے کے باوجود گاڑی سے باہر کود گیا ۔ وہ پھر وہاں گیا جہاں حادثہ ہوا تھا اور دیکھا کہ اصل میں کیا ہوا تھا ۔ اس کی اس مختصر سی غیر حاضری میں ہی برین بابو نے ’ چ‘ کے بیگ سے وہ گھڑی نکال لی ، انہوں نے ’ چ‘ کو گزری رات میں اسے چابی دیتے ہوئے دیکھا تھا اور تبھی انہیں اِسے ہتھیا لینے کی تمنا ہوئی تھی لیکن مناسب موقع ملنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے تھے اس پر برین بابو نے خود کو تسلی دی کہ وہ اس گھڑی کے بارے میں بھول ہی جائیں تو اچھا تھا ۔ بہرحال موقع جب اچانک خود ہی سامنے آ گیا تو برین بابو خود پر قابو نہ رکھ سکے ۔ انہوں نے ’ چ‘ کے بیگ میں ہاتھ ڈالا ، گھڑی نکالی اور اپنے سوٹ کیس میں ڈال دی ۔ انہیں یہ سب کرنے میں پندرہ سے بیس سیکنڈ ہی لگے ہوں گے ۔ ’چ‘ اس کے پانچ منٹ بعد لوٹا تھا۔
”بہت ہی بھیانک حادثہ ! ایک بھکاری بیچارہ ، اس کا تو سر ہی دھڑ سے الگ ہو گیا ۔ مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آئی کہ آہنی چھاج ہوتے ہوئے بھی ایک انجن بندے کو یوں کیسے کچل سکتا ہے ۔ کیا اس چھاج کا یہ کام نہیں کہ وہ رکاوٹوں کو اطراف میں لڑھکا دے ؟“
برین بابو پٹنہ سٹیشن پر بحفاظت اتر گئے اور اپنے چچا سے ملے ۔ وہ جیسے ہی اپنے چچا کی کار میں بیٹھے اورجب یہ چلی تو اُن کے معدے کی گہرائیوں سے اٹھنے والی گھبراہٹ کا احساس بھی غائب ہو گیا ۔ ان کے دل نے ، ان سے کہا کہ بات یہیں ختم ہو گئی ۔ اب انہیں کوئی نہیں پکڑ سکتا ۔ ’چ‘ سے دوبارہ آمنا سامنا ہو ، اس کا امکان تو لاکھوں میں سے ایک کا تھا ، یا شاید اس سے بھی کم ۔
لیکن اُس روز کِسے معلوم تھا کہ سالوں بعد ، ایک ناقابل یقین اتفاق ، نے انہیں پھر سے ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرنا تھا ؟ ” اِس جیسا اتفاق ہی ہم بندوں کو توہم پرست بنا دیتا ہے ۔“ ، برین بابو نے سوچا ۔
” آپ دہلی میں رہتے ہیں ؟ ۔۔۔ یا کولکتہ میں ؟“ ، ’چ ‘ نے پوچھا ۔
اس نے پچھلی بار بھی بہت سارے سوال پوچھے تھے ، برین بابو کو یاد آیا ۔ انہیں ایسے لوگوں سے نفرت تھی جو دوستی کا ناٹک رچانے کی کوشش کرتے ۔
” کولکتہ “ ، برین بابو نے کہا ۔ ارے نہیں ! انہوں نے اپنی عام آواز میں جواب دیا ۔ انہیں احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا ۔
”یا خدایا ۔۔۔ یہ بندہ مجھے یوں کیوں گھور رہا ہے ؟ مجھ میں یوں دلچسپی لینے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ “ ، برین بابو کی نبض پھر سے تیز ہونا شروع ہو گئی ۔
” کیا آپ کی کوئی تصویر حال ہی میں اخباروں میں چھپی ہے ؟“
برین بابو کو احساس ہوا کہ سچ نہ بتانا احمقانہ بات ہو گی ۔ گاڑی میں دوسرے بنگالی مسافر بھی ہو سکتے تھے جو انہیں پہچان لیتے ۔اس بندے کو یہ بتانے میں کوئی ہرج نہ تھا کہ وہ کون تھے ۔ اصل میں اگر اس کو یہ بتا دیا جاتا کہ وہ ایک مشہور گائیک تھے تو شاید اُس کے لیے یہ مشکل ہو جاتا کہ وہ انہیں ، وہ والا چور سمجھے جس نے کبھی اس کی گھڑی چرائی تھی ۔
” آپ نے یہ تصویر کہاں دیکھی ؟“، برین بابو نے الٹا سوال داغ دیا ۔
” کیا آپ گاتے ہیں ؟“ ، ایک اور سوال پوچھا گیا ۔
” ہاں ، کچھ گا ہی لیتا ہوں ۔“
” آپ کا نام ۔۔۔؟“
”بیرندرناتھ بھومِک “
”او ، اچھا ۔ برین بھومِک ۔اسی لیے آپ مانوس سے لگ رہے ہیں ۔ آپ ریڈیو پر گاتے ہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ “
” جی “
میری بیوی آپ کی بہت پرستار ہے ۔ کیا آپ کسی محفل میں گانے کے لیے دہلی جا رہے ہیں ؟“
” جی “
برین بابو اسے کچھ زیادہ بتانا نہیں چاہتے تھے ۔ اگر سیدھے سادے ’ ہاں ‘ یا ’ نہ ‘ سے کام چل سکتا تھا تو زیادہ بات کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔
” میں دہلی میں ایک بھومِک کو جانتا ہوں ۔ وہ وزارت خزانہ میں ہوتے ہیں ۔ نیتِش بھومِک ۔ کیا وہ آپ کے رشتہ دار ہیں یا ایسا ہی کچھ ۔۔۔؟“
اصل میں نیتِش برین بابو کا پہلے ہاتھ کاعم زاد تھا وہ اپنے سخت نظم و نسق کے حوالے سے جانا چاہتا تھا ۔ انتہائی قریبی رشتہ دار ، لیکن ایسا نہیں جو ذاتی طور پر برین بابو کے ساتھ قریبی تعلق میں ہو ۔
” نہیں ، میرا خیال ہے کہ میں انہیں نہیں جانتا ۔“
برین بابو نے فیصلہ کیا کہ انہوں نے اس بارے میں جھوٹ سے ہی کام لینا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ بندہ باتیں کرنا بند کر دے ۔ وہ اتنا کچھ کیوں جاننا چاہتا ہے ؟
اچھا ہے ۔کھانا آ گیا ۔ امید ہے کہ سوالات کی بوچھاڑ ، کم از کم کچھ دیر کے لیے تو تھمے گی ۔
اور پھر ایسا ہی ہوا ۔ ’ چ ‘ کو کھانا پسند تھا ۔ اس نے اپنے کھانے پر توجہ کی اور چُپ ہو گیا ۔ برین بابو اب نروس نہیں ہو رہے تھے لیکن وہ مکمل طور پر شانت بھی نہ ہو پائے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مزید بیس گھنٹے تو سفر کرنا ہی تھا ۔ یادداشت بھی ایک عجیب مظہر ہے ۔ کون بتا سکتا ہے کہ کوئی ننھی شے ۔۔۔ اشارہ ، حرکت ، نظر ، لفظ ۔۔۔ پرانی اوربھولی بسری یاد کو پھر سے زندہ کر دے ؟
مثال کے طور بِنا دودھ کے چائے ۔ برین بابو کو یقین تھا کہ اگر یہ الفاظ ’ چ‘ کے منہ سے نہ نکلے ہوتے تو انہوں نے اسے بالکل بھی نہ پہچانا ہوتا ۔ اسی طرح ، اُن کا کچھ کہا یا اُن کا کچھ کیا ، وجہ بن جائے اور ’چ ‘ انہیں پہچان لے ؟
ایسے میں سب سے بہتر یہی بات تھی کہ کچھ بھی نہ کہا جائے اور کچھ بھی نہ کیا جائے ۔ کھانا کھا کر برین بابو اپنی برتھ پر لیٹ گئے اور اپنے ’پیپر بیک‘ کے پیچھے منہ چھپا لیا ۔ انہوں نے جب پہلا باب ختم کر لیا تو انہوں نے سر گھمایا اور چوری سے ’چ ‘ پر نظر ڈالی ۔ لگتا تھا کہ وہ سو رہا تھا ۔’ السٹریٹڈ ویکلی‘ اس کے ہاتھ سے گر کر فرش پر پڑا تھا ۔ اس کا ایک بازو ان کی آنکھوں پر دھرا تھا اور جس انداز میں اس کی چھاتی اوپر نیچے ہو رہی تھی ، اس سے لگتا تھا کہ وہ گہری نیند میں تھا ۔ برین بابو نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔کھیت کھلیان ، درخت ، چھوٹے چھوٹے گھر ۔۔۔ بہار کا اُوسر( بنجر ) لینڈ سکیپ تیزی سے پیچھے کی اوّر بھاگ رہا تھا ۔ کھڑکیوں کے دوہرے شیشوں کی وجہ سے ریل گاڑی کے پہیوں کی آواز بہت ہی مدہم سنائی دے رہی تھی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے دور کہیں ، ایک سی مستقل تال پر ڈھول بج رہے ہوں : دھا ۔ دھنک ، نا ۔ دھنک ، دھا دھنک ، نا ۔ دھنک ۔ ۔ ۔
جلد ہی کمپارٹمنٹ میں اس دھمک میں ایک اور آواز کا اضافہ ہو گیا ۔ یہ ’ چ ‘ کے خراٹوں کی آواز تھی ۔
بین بابو میں خود اعتمادی پھر سے عودی اور انہوں نے نذرالسلام کا گیت گنگنانا شروع کر دیا ۔ ان کی آواز کچھ زیادہ بُری نہ تھی ۔ انہوں نے ایک بار گلا صاف کیا اور نسبتاً اونچی آواز میں گانے لگے لیکن انہیں فوراً ہی چُپ ہونا پڑا ۔
کمپارٹمنٹ میں کوئی اور بھی ایسی شے تھی جو شور کر رہی تھی اور اس کی ہی وجہ سے برین بھومِک خاموش ہوئے تھے ۔
یہ الارم والے کلاک کی آواز تھی ۔ ان کے بیگ میں پڑی سوئس گھڑی کا الارم نجانے کیسے بج اٹھا تھا اور یہ لگاتار بجے جا رہا تھا ۔
برین بابو کو لگا جیسے وہ ہاتھ پاﺅں ہلا نہ سکتے ہوں ، یہ خوف کے مارے منجمد ہو گئے تھے ۔ انہوں نے اپنی آنکھیں ’ چ ‘ پر گاڑ دیں ۔
اُدھر’ چ ‘ نے بازو ہلایا اِدھر برین بابوکا جسم اکڑا ۔
’ چ ‘ اب جاگ چکا تھا ۔ اس نے آنکھوں پر سے بازو ہٹایا ۔ ” کیا یہ گلاس تو نہیں ؟ کیا آپ اسے وہاں سے ہٹا سکتے ہیں ؟ یہ دیوار کے ساتھ ٹکرا کر تھرتھرا رہا ہے ۔“
برین بابو نے جیسے ہی گلاس کو دیوار کے ساتھ لگے چھلے سے نکالا ، شور تھم گیا ۔ انہوں نے اسے میز پر رکھنے سے پہلے اس میں موجود پانی پی لیا ۔ اس سے ان کا گلا کچھ بہتر ہوا لیکن اب ان کا دل نہ چاہا کہ وہ دوبارہ گائیں ۔
ہزاری باغ روڈ تک پہنچنے سے کچھ ہی پہلے چائے پیش کی گئی ۔ گرم چائے کی دو پیالیوں نے برین بابو کو سکون محسوس کرنے میں مدد دی ، ایسا بھی تھا کہ ’ چ ‘ کی طرف سے مزید متجسس سوال نہ کیے گئے تھے ۔ انہوں نے ایک بار پھر کھڑکی کے باہر دیکھنا شروع کر دیا اورمدہم آواز میں گنگنانا شروع کر دیا ۔ وہ جلد ہی بالکل ہی بھول گئے کہ وہ خطرے میں گھِرے ہوئے تھے ۔
’ گیا‘ سٹیشن آیا تو ’ چ ‘ پلیٹ فارم پر اتر گیا اور مونگ پھلی کے دو پیکٹ لے کر واپس آیا ، یہ غیر متوقع نہ تھا ۔ اس نے برین بابو کو ایک پیکٹ دیا ۔ انہوں نے مونگ پھلیاں مزہ لے لے کر کھائیں ۔
گاڑی جب سٹیشن سے نکلی تو سورج غروب ہو چکا تھا ۔ ’ چ ‘ نے بتیاں جلائیں اور کہا؛ ” کہیں گاڑی تاخیر تو نہیں کرے گی ؟ آپ کی گھڑی میں کیا وقت ہوا ہے ؟ “
برین بابو نے پہلی بار یہ نوٹ کیا کہ ’ چ ‘ کی کلائی پر گھڑی نہیں تھی ۔ اس پر وہ حیران ہوئے اور اپنی حیرانی کو چھپا بھی نہ سکے ۔ پھر انہیں یاد آیا کہ انہوں نے ’ چ ‘ کے سوال کا جواب نہیں دیا تھا ۔ انہوں نے اپنی کلائی گھڑی پر نظر ڈالی ۔ ” سات بج کر پینتس منٹ ہوئے ہیں ۔“ ، وہ بولے ۔
” تب تو ٹھیک ہے ، ہم کم و بیش وقت کے مطابق ہی جا رہے ہیں ۔“
”جی “
” میری گھڑی آج صبح ٹوٹ گئی ۔ یہ ’ ایچ ایم ٹی ‘ کی تھی ۔۔۔ بالکل درست وقت بتاتی تھی ۔۔۔ لیکن آج صبح کسی نے میرے بستر کی چادر کو ایسی درشتی سے کھینچا کہ گھڑی فرش پر گری اور ۔ ۔ ۔“
برین بابو اس پر کچھ نہ بولے ۔ گھڑیاں یا کلاک ، ان کا ذکر گلے بھی پڑ سکتا تھا ۔
” آپ کی گھڑی کس کی ہے ؟“ ، ’ چ ‘ نے پوچھا ۔
” ایچ ایم ٹی “
” کیا یہ درست وقت بتاتی ہے ؟“
” جی “
” اصل میں بات یہ ہے کہ میں گھڑیوں کے معاملے بدنصیب رہا ہوں ۔“
برین بابو نے جماہی لینے کی کوشش کی تاکہ یہ ظاہر کر سکیں کہ انہیں اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ۔ان کے جبڑوں کے پٹھے مفلوج ہو گئے تھے ۔ وہ اپنا منہ بھی نہ کھول پا رہے تھے لیکن ان کے کان اپنا کام کر رہے تھے اور وہ مجبور تھے کہ ’ چ ‘ کا کہا سُنیں ۔
” میرے پاس ایک سوئس سفری گھڑی تھی وہ بھی سونے کی بنی ہوئی ۔ میرا ایک دوست اِسے جنیوا سے لایا تھا ۔ میں نے اسے بمشکل ایک ماہ ہی استعمال کیا تھا اور پھر جب میں ایک بار ریل گاڑی کے ذریعے ، اسی طرح کے ایک ائیر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں ، دہلی تک کا سفر کر رہا تھا تو سفری گھڑی میرے ساتھ تھی ۔ ہم اس کمپارٹمنٹ میں بس دو ہی تھے ۔۔۔ میں اور دوسرا ، ایک بنگالی ۔ آپ کو پتہ ہے کہ اس نے کیا کیا ؟ ذرا اس کی جرا ٔت دیکھیں ! میری غیر موجودگی میں ۔۔۔ جب میں شاید غسل خانے میں گیا ہوا تھا یا شاید کہیں اور ۔۔۔ اس نے مجھ سے میری سفری گھڑی چُرا لی ! دیکھنے میں وہ بالکل شریف آدمی لگتا تھا ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ خوش قسمت ہوں کہ اس نے سوتے میں مجھے قتل نہیں کر دیا ۔ میں نے اس کے بعد ریل گاڑی کا سفر ہی چھوڑ دیا ۔ میں نے اس بار بھی ہوائی جہاز پر ہی جانا تھا لیکن پائلٹوں کی ہڑتال نے میرا پلان چوپٹ کر دیا ۔۔۔“
برین بابو کا گلا خشک اور ان کے ہاتھ سُن ہو گئے ۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے یہ سب سن کر کچھ بھی نہ کہا تو یہ عجیب لگنا تھا ۔ درحقیقت یہ بہت ہی مشکوک ہو جاتا ۔ انہوں نے بھرپور کوشش کی اور خود کو بولنے پر مجبور کیا ۔
” کیا آپ نے ۔۔۔ اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی ؟ “
” ہاہا ! ’ چ ‘ ہنسا ، ”کیا کوئی چوری شدہ شے صرف ڈھونڈنے سے مل جاتی ہے بھلا ؟ لیکن میں ایک لمبے عرصے کے لیے یہ نہ بھول سکا کہ وہ بندہ کیسا دِکھتا تھا ۔ مجھے اب بھی وہ کچھ کچھ یاد ہے ۔ وہ نہ تو گورا تھا نہ کالا ، اس کی مونچھیں تھیں اور وہ قد میں کم و بیش آپ کے ہی برابر تھا لیکن بہت دبلا پتلا ۔ میں اگر اس سے دوبارہ مل پاﺅں تو میں اسے ایسا سبق سکھاﺅں کہ وہ ساری زندگی یاد رکھے ۔ میں آپ کو بتاﺅں ۔۔۔ میں کبھی ایک باکسر تھا ۔ لائٹ ہیوی ویٹ چیمپئن ۔ وہ بندہ خوش قسمت ہے کہ اس کا مجھ سے دوبارہ ٹاکرا نہیں ہوا ۔۔۔“
برین بابو کو اب اپنے ہمسفر کا نام یاد آ گیا تھا ۔ چکروتی ، پولک چکروتی ۔ حیرت کی بات تھی ! اس نے جیسے ہی باکسنگ کا ذکر کیا ، اسی لمحے ہی ان کے ذہن میں اس کا نام ایسے چمکا جیسے ٹیلی ویژن پر کوئی سرخی نظر آ گئی ہو ۔ پچھلی بار بھی پولک چکروتی نے باکسنگ کے بارے میں بہت باتیں کی تھیں ۔
انہیں اگر نام یاد بھی آ گیا تھا ، تو اس سے کیا فرق پڑتا تھا ؟ آخر یہ تو برین بابو ہی تھے جنہوں نے واردات ڈالی تھی ۔۔۔ اور اب ان کے لیے اپنے احساس ِجرم کامزید بوجھ اٹھانا ممکن نہ رہا تھا ۔ اگر وہ آگے بڑھ کر ہر شے کا اقرار کرلیتے تو کیا ہونا تھا ؟ اور پھر سفری گھڑی واپس کر دیتے تو بھی ؟ گھڑی جو اُس بیگ میں تھی ۔۔۔ اتنی قریب کہ بس ہاتھ ہی بڑھانا تھا ۔۔۔!
نہیں ، کیا وہ پاگل ہو گئے تھے ؟ وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے تھے ؟وہ ایک مشہور گویّے تھے ۔ وہ یہ اقرار کیسے کر سکتے تھے کہ وہ اتنا گر بھی سکتے تھے ؟ اس سے کیا ان کی ساکھ پر حرف نہیں آنا تھا ؟ اس کے بعدکیا لوگوں نے انہیں محفلوں میں گانے کے لیے مدعو کرنا تھا ؟ ان کے پرستاروں نے ان کے بارے میں کیا سوچنا تھا ؟ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ چکرورتی صحافی نہیں تھا اور اس کا تعلق میڈیا سے نہ تھا ۔نہیں ۔۔۔ اقرار کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
اور شاید اِس کی ضرورت بھی پیش نہ آتی ۔ شاید اس نے اُن کو خود ہی پہچان لینا تھا ۔ پولک چکرورتی انہیں عجیب نظروں سے جو دیکھ رہا تھا ۔ دہلی ابھی بھی سولہ گھنٹے کی دوری پر تھا اور بہت ممکن تھا کہ وہ اِس دوران پکڑے جاتے ۔ برین بابو کے دماغ میں اچانک ایک عکس دَمکا ۔۔۔ ان کی مونچھیں پھر سے نکل آئیں ، ان کے چہرے کی جلد بھی سکڑ گئی اور ان کی عینک بھی غائب ہو گئی ۔ پولک چکروتی اُن کے اُس چہرے کو سخت نظروں سے گھور رہا تھا جو نو سال پہلے اُن کا ہی تھا ۔ اس کی ہلکی بھوری آنکھوں میں پہلے تو حیرانی اُبھری اور پھر یہ آہستہ آہستہ غصہ بھری نظر میں بدل گئی ۔ اس کے ہونٹوں پر ایک ظالمانہ مسکراہٹ آئی ۔ ” آہا !“ وہ یہ کہتا سنائی دیا ، ” تم وہی ہو نا ، کیا تم وہی نہیں ؟ اچھا ہے ۔ میں اتنے سالوں سے تم پر ہاتھ ڈالنے کا منتظر تھا ۔ اب میں تم سے اپنا انتقام لوں گا ۔۔۔“
دس بجنے تک برین بابو کو اچھے خاصے بخار نے آ لیا جس کے ساتھ ان پر شدید کپکپی بھی طاری ہو گئی ۔ انہوں نے گارڈ کو بلایا اور اس سے ایک کمبل اور طلب کیا ۔ وہ پھر دونوں کمبل سر تا پاﺅں اوڑھ کر سیدھے لیٹ گئے ۔ پولک چکروتی نے کمپارٹمنٹ کا دروازہ بند کیا اور اندر سے چٹخنی لگا دی ۔ بتیاں بند کرنے سے پہلے وہ برین بابو کی طرف مُڑا اور بولا ، ” آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی ۔ میرے پاس کچھ پُر اثر گولیاں ہیں ۔۔۔ یہ لیں اور دو کھا لیں ۔ لگتا ہے کہ آپ ائیر کنڈیشنڈ کوچ میں سفر کرنے کے عادی نہیں ہیں ۔ “
برین بابو نے گولیاں نگل لیں ۔’ لگتا ہے کہ میری موجودہ حالت دیکھتے ہوئے پولک چکرورتی مجھے کڑی سزا دینے سے باز رہے گا ۔‘ ، انہوں نے سوچا ۔ ساتھ ہی انہوں نے ذہن میں یہ بھی طے کیا کہ وہ سفری گھڑی کو اس کے اصلی مالک کے سوٹ کیس میں کسی طور ضرور منتقل کر دیں گے ۔۔۔ اور یہ کہ ممکن ہوا تو انہیں یہ کام اسی رات سرانجام دینے کی کوشش کرنا ہو گی ۔ لیکن وہ اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتے تھے جب تک ان کا بخار اتر نہ جاتا ۔ ان کا جسم اب بھی کبھی کبھی کپکپا اٹھتا تھا ۔ پولک چکرورتی نے اپنے سر پر لگا مطالعہ کرنے والا لیمپ جلا لیا اور اس کے ہاتھوں میں ایک پیپر بیک کھلا ہوا تھا ۔ لیکن کیا وہ اسے پڑھ رہا تھا ، یا وہ بس صفحات کو گھورتا کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ؟وہ صفحہ کیوں نہیں پلٹ رہا ؟دو صفحے پڑھنے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے ؟
برین بابو نے اچانک یہ محسوس کیا کہ پولک کی آنکھیں کتاب پر گڑھی نہ تھیں بلکہ اس نے سر ترچھا کرکے انہیں دیکھنا شروع کر دیا تھا ۔ برین بابو نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ کافی دیر یونہی پڑے رہنے کے بعد جب انہوں نے کن انکھیوں سے پولک چکرورتی کی طرف دیکھا تو وہ ابھی بھی انہیں گھور رہا تھا ۔ برین بابو نے فوراً ہی اپنی آنکھیں جھٹ سے بند کر لیں ۔ ان کا دل کسی مینڈک کی مانند اچھلنے لگا جو گاڑی کے پہیوں کی تال سے مطابقت رکھتا تھا ۔۔۔ لب دھپ ، لب دھپ ، لب دھپ ۔
ایک ہلکی سی کلک سے برین بابو نے یہ جانا کہ مطالعہ کرنے والا لیمپ بجھا دیا گیا تھا اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ ایسا ہی تھا تو انہوں نے اس بار اپنی دونوں آنکھیں پوری کھولیں ۔ باہر کوریڈور کی روشنی دروازے کی درزوں سے اندر آ رہی تھی ۔ انہوں نے دیکھا کہ پولک چکرورتی نے اپنی کتاب میز پر اُن کے بیگ کے پاس رکھ دی ۔ پھر اس نے اپنی تھوڈی تک کمبل تانا ، ان کی طرف کروٹ لی اور آواز کے ساتھ جماہی لی ۔
برین بابو کی دل کی ڈھرکن آہستہ آہستہ اپنی عمومی رفتار پر واپس آ گئی ۔ کل ۔۔۔ ہاں کل صبح ۔۔۔ انہیں سفری گھڑی لازماً واپس کرنا ہو گی ۔ انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ پولک چکرورتی کے سوٹ کیس کو تالا نہیں لگا ہوا تھا ۔ وہ کچھ دیر پہلے گیا تھا اور سونے کے کپڑے پہن کر واپس آیا تھا ۔
برین بابو کے بدن کی کپکپی تھم گئی ۔ شاید ان گولیوں نے اثر کرنا شروع کر دیا تھا ۔ یہ کونسی گولیاں تھیں ؟ انہوں نے تو بس انہیں نگل لیا تھا تاکہ وہ وقت پر ٹھیک ہو سکیں اور دہلی کی محفل میں گانے کے قابل ہو سکیں ۔ وہ حاضرین محفل کی تالیوں اور داد سے محروم رہنا نہیں چاہتے تھے ۔ لیکن کیا انہوں نے گولیاں کھا کر عقل مندی کی تھی ۔ اگر ان گولیوں کا اثر ۔۔۔؟“
نہیں ، انہیں ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہییں ۔ دیوار کے ساتھ گلاس کے تھرتھرانے کا برا واقعہ ہی کافی تھا ۔ ظاہر تھا ، یہ سارے عجیب خیالات ان کے احساس جرم میں گھرے اور بیمار ذہن کا نتیجہ تھے ۔ انہیں اگلے روز تلافی کی راہ تلاش کرنا ہو گی ۔ ذہن کو صاف کیے بغیر ان کی آواز بھی نکھر نہیں سکتی تھی اور ان کی گائیکی نے بھی ناکام رہنا تھا ۔ بنگال ایسوسی ایشن ۔۔۔
اگلی صبح ، برین بابو چائے کی پیالیوں کی کھنک سے جاگے ۔ ایک بیرا ان کے لیے ناشتہ لے کر آیا تھا ؛ ڈبل روٹی ، مکھن ، آملیٹ اور چائے ۔ کیا انہیں یہ سب کھانا چاہیے ؟ کیا انہیں اب بھی بخار تھا ؟ ایسا نہیں تھا ۔ وہ بالکل ٹھیک تھے ۔ گولیاں کارگر رہی تھیں ۔وہ خود کو پولک چکرورتی کا مشکور محسوس کرنے لگے ۔
لیکن وہ کہاں تھا ؟ غسل خانے میں یا پھر کوریڈور میں ؟ جیسے ہی بیرا گیا ، برین بابو دیکھنے کے لیے باہر نکلے ۔ باہر کوریڈور میں کوئی نہ تھا ۔ پولک چکرورتی کو گئے کتنی دیر ہوئی تھی ؟ کیا انہیں اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے ؟
برین بابو نے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہا ، لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ انہوں نے اپنے بیگ سے سفری گھڑی نکالی اور جھک کر پولک چکرورتی کے سوٹ کیس کو برتھ کے نیچے سے نکالا ۔ اسی لمحے ان کا ہمسفر ایک تولیہ اور شیو کا سامان ہاتھوں میں لیے اندر داخل ہوا ۔ برین بابو نے سفری گھڑی کو اپنی دائیں مٹھی میں چھپایا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔
” آپ کیسے ہیں ؟ اب ٹھیک ہیں ؟“
” ہاں ، شکریہ ۔ ار۔۔۔کیا آپ اسے پہچانتے ہیں ؟“
برین بابو نے اپنی مٹھی کھول دی ۔ اس میں سفری گھڑی تھی ۔ ایک عجیب سا عزم اس کے ذہن پر حاوی ہو چکا تھا ۔ وہ چوری کرنے کی اپنی پرانی عادت پر عرصہ پہلے ہی قابو پا چکے تھے ۔ لیکن چُھپن چھپائی والا یہ کھیل کسی طور بھی دھوکہ دہی کے زمرے میں نہیں آتا تھا ؟ سارا تناﺅ ، ساری بےیقینی ، پریشانی کہ مجھے یہ کرنا چاہیے یا نہیں ، یہ مضحکہ خیز صورت حال ، معدے میں خالی پنے کا احساس ، سوکھا ہوا گلا ، تیزی سے ڈھرکتا دل ۔۔۔ کیا نقص طبع کی نشانیاں نہ تھیں ؟ ان پر بھی تو قابو پانا تھا ورنہ دماغی سکون کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا ۔
پولک چکرورتی نے ابھی اپنے کانوں کو تولیے سے رگڑنا شروع ہی کیا تھا ۔ سفری گھڑی کو دیکھ کر وہ ایک دم بُت ہو گیا ۔ تولیہ تھامے اس کا ہاتھ ابھی بھی اس کے کان پر جما تھا ۔
برین بابو بولے ، ” ہاں ، میں ہی وہ آدمی ہوں ۔ میں موٹا ہو گیا ہوں ، میں نے مونچھیں صاف کروا دی ہیں اور مجھے عینک بھی لگ گئی ہے ۔ پچھلی بار میں پٹنہ جا رہا تھا اور آپ دہلی ۔ یاد ہے کہ 1964 ء میں ایک بندہ ہماری گاڑی کے نیچے آ گیا تھا ؟ اور آپ جانکاری کے لیے باہر گئے تھے ؟ تبھی میں نے آپ کی غیر حاضری میں گھڑی اٹھا لی تھی ۔“
پولک چکرورتی کی آنکھیں اب سیدھے برین بابو کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھیں ۔برین بابو نے اُسے اندر سے ابال کھاتے دیکھا ؛ اس کی آنکھوں کی سفیدی مزید سفید ہو گئی تھی ، اس کے ہونٹ اس طرح کھلے جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں لیکن کہہ نہ پا رہے ہوں ۔
برین بابو بولتے رہے ، ” اصل میں نا ، یہ ایک بیماری تھی ، جس کا میں شکار تھا ۔ میرا مطلب ہے ، میں سچ مُچ کا چور نہیں ہوں ۔ اس بیماری کا ایک نام ہے ، یہ مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا ۔ خیر ، میں اب اس سے چھٹکارا پا چکا ہوں اور بالکل ٹھیک ہوں ۔ میں نے آپ کی سفری گھڑی کو ان نو سالوں میں خوب برتا ہے اور اب بھی میں اسے لیے دہلی جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ شایدہماری ملاقات یونہی ہونا تھی ۔۔۔ یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے ۔ ۔ ۔ ہے نا ؟ میں نے سوچا کہ میں اسے آپ کو واپس کر دوں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے خلاف کوئی ۔۔۔عناد۔۔۔ نہ رکھیں گے ۔“
پولک چکرورتی مری ہوئی آواز میں ’ شکریے ‘ کے سوا اور کچھ نہ کہہ سکا ۔ وہ اب بھی گھڑی کو گھور رہا تھا جو برین بابو نے اسے تھما دی تھی ۔ وہ اور کچھ بھی نہ بول پایا ۔
برین بابو نے اپنا ٹوتھ برش ، ٹوتھ پیسٹ اور شیو کا سامان اٹھایا ۔ پھر انہوں نے تولیہ لیا اور غسل خانے میں چلے گئے ۔ جیسے ہی انہوں نے دروازہ بند کیا ان کے منہ پر ایک گیت آ گیا ، انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان کی آواز میں سر ، تال اور لے ہر لحاظ سے مکمل طور پر بحال ہو چکی تھی ۔
انہیں دہلی پہنچ کر ’وزارت خزانہ میں این سی بھومک ‘سے رابطہ کرنے میں لگ بھگ تین منٹ لگے ۔ ایک گہری لیکن مانوس آواز ان کے کان میں ابھری ۔
” ہیلو “
” نتیش ۔ دا ؟ میں برین بابو ہوں ۔“
” اوہ ، تو تم پہنچ گئے ؟ میں شام میں تمہارا گانا سننے آ رہا ہوں ۔ تم تو اب ایک نامور شخصیت بن چکے ہو ، کیا ایسا نہیں ہے یار ۔ ایسا بھلا کون سوچ سکتا تھا ؟ خیر چھوڑو ، تم نے فون کس لیے کیا ہے ؟“
”ہاں وہ ۔۔۔ کیا تم کسی پولک چکرورتی نام کے بندے کو جانتے ہو ؟ وہ شاید تمہارے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا ۔ وہ باکسر بھی تھا ۔“
” کون ؟ وہ پرانا پِنچو ؟“
” پِنچو ؟“
” ہاں نا ، وہ جو شے دیکھتا تھا ، اٹھا لیتا تھا ۔ فاﺅنٹین پن ، لائبریری سے کتابیں ، کامن روم سے ٹینس کے ریکٹ ۔۔۔ اسی نے تو میرا پہلا رونسن کا لائیٹر چرایا تھا ۔ مضحکہ خیز بات تھی یہ ، کیونکہ ایسا نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں کسی شے کی کمی تھی ۔ اس کا باپ ایک امیر آدمی تھا ۔ اصل میں نا اسے ایک قسم کی بیماری تھی ۔“
” بیماری ؟“
” ہاں ، کیا تم نے اس بیماری کے بارے میں کبھی نہیں سنا ؟ اسے ’ کلیپٹومینیا ‘ کہتے ہیں۔ ک ۔ ل ۔ی ۔ پ ۔ ۔ ۔“
برین بابو نے ریسیور نیچے رکھ دیا اور اپنے کھلے سوٹ کیس کو گھورا ۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی اپنے ہوٹل میں پہنچے اور سامان کھول رہے تھے ۔ نہیں ، غلطی کا کوئی امکان نہ تھا ۔ ان کے سامان سے یقیناً کچھ اشیاء کم تھیں ۔ ’ تھری کاسل ‘ کے سگریٹوں کا پورا کارٹن ، جاپانی دوربین اور ایک بٹوہ جس میں پانچ پانچ سو کے نوٹ تھے ۔
کلیپٹومینیا ۔ برین بابو کو پہلے یہ لفظ بھول چکا تھا ، لیکن اب اس نے ہمیشہ ، ان کے دماغ میں کُلبلاتا رہنا تھا ۔
( یہ کہانی پہلی بار بنگالی میں 1973 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ اسے ‘ گوپا مجمدار’ نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور یہ ” The Collected Short Stories by Satyajit Ray ” میں شامل ہے ۔ اسے پینگوئن رینڈم ہاﺅس ، انڈیا نے 2012 ء میں شائع کیا تھا ۔
اب ستیہ جِت رے کے صد سالہ جنم دن کے حوالے سے نیٹ فلیکس نے ” Ray ” نام سے ستیہ جِت رے کی جن چار کہانیوں سے ماخوذ لگ بھگ گھنٹہ گھنٹہ بھر کی جو ویب فلمیں بنائی ہیں ان میں ایک اِس کہانی سے بھی ماخوذ ہے ؛ اسے ” ہنگامہ ہے کیوں برپا ” کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ اس سیریز کی تیسری فلم ہے ۔ ‘ ابھیشیک چوبے ‘ اس کے ہدایت کار ہیں اور ‘ منوج باجپائی ‘ نے اس میں مسافر علی ( اصلاً برین بابو ) کا کردار ادا کیا ہے جبکہ اسلم بیگ ( اصلاً پولک چکرورتی ) کا کردار ‘ گجراج رائو ‘ نے نبھایا ہے ۔ گو یہ فلم کہانی کے کافی قریب ہے اور کہانی میں ‘ بلیک مزاح ‘ اپنی جگہ موجود ہے لیکن فلم کو ‘ بلیک طنز ‘ بنانے کے لیے ‘ حکیم ‘ اور ‘کباڑئیے ‘ کے کردار اور ان سے جُڑے مکالمے خاصے ‘ اوپرے ‘ سے لگتے ہیں ۔ کلیپٹومینیا بیماری کا بگاڑا گیا نام بھی سطحی سا لگا ۔
یاد رہے کہ غزل ” ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے ” اکبر الٰہ آبادی کی ایک مشہور غزل ہے جسے مزید شہرت ہمارے مشہور گائیک غلام علی نے گا کر بخشی ۔ )
***
ستیہ جِت رے کا صد سالہ جنم دن ( 2 مئی2021 ء ) ۔ 2
۔ 2 – ( Satyajit Ray’s Birth Anniversary ( 2 May 2021
۔ ستیہ جِت رے
اردو قالب : قیصر نذیر خاور