بّہلول پابانی اب سّتھر کی دہائی میں تھا اور عُمر کے باسٹھویں زینے پر ایستادہ تھا۔ اب پا بّہ دامن تھا اور شاذونادر ہی کہیں دُور جانے کےلئے پّا بہ رکاب رہتا تھا ۔ حالانکہ صحت اتنی بہتر اور مُستحکم تھی کہ اُس کی صحیح عُمر کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا تھا ۔لوگ اکثر اُس کی عُمر کا صحیح اندازہ لگانے میں دھوکہ کھا جاتے تھے اور اُسے چالیس پنتالیس کی عُمر سے زیادہ کا نہیں بتاتے تھے۔ بہلول پابانی خوب رو، جاذب نظر اور پُرکشش شخصیت کا مالک تھا۔ سنجیدہ اور پُر وقار ۔ چہرہ اب بھی جُھریوں سے بے نیاز تھا۔ کلین شیوڈ رہتا تھا اور اپنے کنگھے سے اپنے گھنے اور خوبصورت بالوں کے ساتھ ہمہ وقت چھیڑ خانیاں کرتا رہتا تھا۔
پابان کے اپنے آبائی علاقے سے، جسے وہ چالیس سال قبل چھوڑ چکا تھا، ایک دعوت نامہ موصول ہوتے ہی اُس کے رگ وپے میں مّسرتوں کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ وہ خوشی سے جُھوم اُٹھا اور اچانک خیالوں کی ترنگ میں آکر وادیء پابان کے پُرکیف مناظر میں کھو گیا۔ وادی پابان۔ قُدرت کے دلفریب نظاروں کی وادی ۔چشموں اور آبشاروں کی وادی۔ پہاڈوں اور برف پوش کوہساروں کی وادی۔ گُل و بُلبُل کی وادی۔ شعروادب کی وای اور اُس کی اور اُس کے دوستوں کی وادی۔ پابان ، جہاں اُس کا جنم ہوا تھا، جہاں وہ پّلا بڑا تھا اور جہاں اُس کا سارا بچپن گزُرا تھا۔ پابان سے اُس کا ماضی جُڑا ہوا تھا۔ اُس کی اُن گنت کہانیاں جُڑی ہوئی تھیں، وہاں اُس کی یادوں کے خزینے آباد تھے، جنہیں وہ اکثر اپنی تنہائیوں میں اپنے ماضی کے سّرد خانوں میں سے کُرید کُرید کے نکال کر لاتا تھا اور ایک فِلم کی طرح اپنے ذہن کے پّردہ سمین پر بکھیر دیتا تھا۔ کہانیاں، بےشمار کہانیاں، کھّٹی مِیٹھی، تلّخ و شیریں اور ناقابل فراموش۔
دعوت نامہ موصول ہوتے ہی کُچھ تیاریوں کے ساتھ وہ پا بہ رکاب ہوا۔ اپنا شہر چھوڑتا ہوا اور اپنی خُوبصورت جیپ گاڑی میں سوار ہو کر وہ پابان کےلئے چل پڑا اور پیہم کئی گھنٹوں کے صّبر آزما سّفر کے بعد، دُھول اور دُھواں اُڑاتا ہوا اور ایک پّہاڑی دّرے کو پھاندتا ہوا واردِ پابان ہوا ۔ پابان کی وادیوں میں داخل ہوتے ہی وہ کیف و سرور کی کیفیات سے دوچار ہوا ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بھینی مّعطر اور اُونچے دیوداروں کی خوشُبو سے رّچی بّسی پُرکیف ہواوں نے اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور تہِہ دل اُسے خوش آمدید کہا ۔ پہاڑی دّرے کی دائیں بائیں سّر سّبز چھوٹی بڑی ڈھلانوں پر موجود بندروں کی کئی ٹولیوں نے اُس کا دھیان اپنی طرف کھینچا تو اُس کا دل بلیوں اُچھلنے لگا ۔ رّفتہ رّفتہ ماضی کے گّرد آلود دّریچے کُچھ کُچھ نیم وا ہونے لگے اور دھیرے دھیرے دُھول جھاڑتے ہوے اور چِرچراتے ہوئے کُھلتے چلے گئے۔
پیش منظر میں بندروں کی اُچھل کود کو دیکھتے ہی بندروں کے ساتھ بچپن میں کھیلی گئی آنکھ مچولی اور چھیڑخانیاں اِک دم اُس کی نِگاہوں کے سامنے سے گُھوم گئیں، ایسے جیسے کل کی بات رہی ہو ۔بندر آمنے سامنے ہوں اور اپنے دانت کٹکٹاتے ہوئے اور کلکاریاں مارتے ہوئے اُس پر حملہ کرنے والے ہوں ۔ یادیں اِک دّم تازہ ہوئیں تو اُسے وہ واقعہ بھی یاد آیا، جب ایک دن اُس نے اپنے دوستوں کی مدد سے بڑی مشکل سے ایک بندر کو پکڑ لیا تھا اور اُسے اپنے ہمراہ گھر لے کر آگیا تھا ۔ گھر پہنچتے ہی بّندر نے وہ اُودھم مچایا کہ سنمبالنا مشکل ہوگیا ۔ بندر نے گھر کا سارا سامان تہس نہس کر دیا اور کئی گھریلو خدمتگاروں کو زخمی بھی کردیا ۔ اس بات کو لے کر والد صاحب کافی خفاء ہوئے اور انہوں نے اُسے ڈانٹ پلا کر بندر کی گلو خلاصی کرائی۔
من موہک اور خوبصورت پّہاڈی دّرہ عبور کرتے ہی کُچھ دُور آگے وادئ پابان کے سّر سّبز و شاداب کھیتوں کا ایک لامّتناہی میدانی سِلسلہ شروع ہوا جو دُور آگے تک پھیلا ہوا تھا ۔ یہاں دّھان کے لہلہاتے کھیت نظر آئے جو اب پک کر تیار تھے اور جہاں پابان کے مرد وزن فصل کٹائی کے کام کاج میں جُٹے ہوئے نظر آئے ۔ ایک گہماگہمی کا ماحول نظر آیا اور دوُر دُور تک رنگین پوشاکیں پہنے مرد و زن قطار در قطار اپنے اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اور لوک گیت گاتے ہوئے نظر آئے ۔ جیپ گاڑی دُھول اور دُھواں اُڑاتی ہوئی آگے بڑھتی رہی اور بّہلول پابانی اپنے ماضی کے نِہاں خانوں میں تاک جھانک کرتا ہوا کہیں دُور تک نِکلتا چلا گیا ۔ دُور۔۔۔۔۔۔۔ وہاں تک ۔۔۔۔۔۔ جہاں وہ صرف چودہ یا پندرہ سال کی کم عُمر کا ایک معصوم سا خُوبصورت دِیہاتی لڑکا تھا اور آٹھویں یا نویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔
ستمبر، اکتوبر مہینے میں پُورے پابان میں فّصل کٹائی کے شروع ہوتے ہی اِسکولوں میں گرمائی تعطیلات شروع ہو جاتی تھیں ۔ گاوں کے اکثر بچے اِن ایام میں اپنے گھر کے مال مویشی گھاس چرانے کےلئے کھیتوں میں لے کر چلے جاتے تھے جہاں تازہ فّصل کٹی ہوتی تھی اور سّرسّبز و شاداب ہّری بّھری گھاس موجود رہتی تھی ۔ یہ بچے اپنی اپنی کِتابوں کے بّستے بھی ساتھ رکھتے تھے اور کھیتوں کی اُونچی نیچی مُنڈیروں پر سائے دار دّرختوں کے نیچے بیٹھ کر اپنا اسکولی تعلیمی کام ( ہوم ورک ) بھی کرتے رہتے تھے ۔ یہ لڑکے لڑکیاں گھر سے اپنا اپنا کھانا بھی ساتھ لے کر آتے تھے اور مال مویشی کی نِگہبانی کے ساتھ ساتھ گّپ شّپ اور کھیل کود میں بھی مصروف رہتے تھے۔ اکثر یہ لڑکے لڑکیاں گوٹیاں اور کنچے بھی کھیلتے رہتے تھے ۔
بہلول بھی صُبح صُبح اپنے کم سِن دوستوں اور ہم جماعتوں کے ہمراہ پابان کے اِن دوُر دُور تک پھیلے ہوئے کھیت کھلیانوں میں جاتا تھا اور غرُوبِ آفتاب تک اِن کے ساتھ رہتا تھا ، کھیلتا تھا اور مستیاں کرتا رہتا تھا ۔ وہ اکثر ایک سّر سّبز اور شاداب مُنڈیر پر ایک چھوٹے سے خُوبصورت چِنار کی چھاوں دار آگوش میں بیٹھا کرتا تھا اور اپنی کتابیں اُلٹتا پلٹتا ہوا اپنا اسکولی تعلیمی کام ( ہوم ورک ) شروع کر دیتا تھا ۔ اس دوراں اکثر ایک کم سِن لڑکی اُس کے پاس آکر اور اُس کے کچھ قریب بیٹھا کرتی تھی اور گُم صُم اُسے دیکھا کرتی تھی ۔
بّختاوری بڑی خُوبصُورت تھی ، سادہ ، معصُوم اور بھولی بھالی ۔ اُس کی سادگی اُس کے بھولے پن اور معصُومیت کو اور خوبصورت بناتی تھی اور سنگ مرمر میں تراشی ہوئی کسی خاموش دِلکش مورتی کے مشابہہ کرتی تھی ۔ وہ بہلول کے پاس آتی تو بہلول اُسے اِستفہامیہ نگاہوں سے تکنے لگتا تھا۔
" کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟" وہ پوچھتا۔
" جی ۔۔۔ کچھ نہیں ۔" وہ تھوڑی سی گھبرا جاتی۔
" پھر بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟" بہلول بڑی نرمی سے کہتا۔
" جی یہ ۔۔۔۔ بھُنے ہوئے مکی کے بوٹے اور تھوڈے سے اّخروٹ لائی ہوں ۔" وہ ہچکچاتی ہوئی بولتی۔
" اری واہ !!!! ۔۔۔۔۔۔ بیٹھو بیٹھو ۔۔۔۔ ۔" بہلول کی باچھیں کھِل اُٹھتیں۔
اس مُختصر سی گفتگو کے بعد بہلول بھُنے ہوئے مکی کے بوٹے اور اخروٹ کھانے کی مشق میں جُٹ جاتا تھا اور بھولی بھالی معُصوم بختاوری اُسے کِن انکھیوں سے پّیہم دیکھا کرتی رہتی تھی ۔ پھر کچھ باتیں بھی ہوتی تھیں، جو مختصر اور بِنا سر پیر کے ہوا کرتیں تھیں ۔
اچانک جیپ کے بریک چِرچِرائے اور گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رُک گئی۔ بہلول نے دیکھا کہ سامنےسڑک پر بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڈ آگے چل رہا تھا، جسے ایک چرواہا ہانکتا ہوا آگے لے جارہا تھا ، جّبھی اُس کے پیر اچانک بریک پر پڑ گئے تھے اور جیپ ایک جھٹکے کے ساتھ رُک گئی تھی۔ اب وہ ہارن پر ہارن بجا رہا تھا اورچّرواہا راستہ صاف کرنے کی نیت سے بھیڑ بکریوں کے ریوڈ کو سڑک کے ایک کنارے ہانکنے کی کوشش کررہا تھا۔ خیالات کا سِلسلہ اب ٹوُٹ چُکا تھا اور بہلول اب گاڑی کو آگے کی طرف لے جانے کی کوشِشوں میں لگا ہوا تھا ۔
پھر شام کو ہی وہ پابان کے مرکزی گاوں ماگوس پہنچا ۔ ایک ڈاک بنگلے میں قیام کیا اور رات وہیں پر بسرکردی ۔ وہ رات اُس نے کانٹوں پر گُزار دی ، کیونکہ رات بھروہ اپنےماضی کے دُھندلکوں میں اُلجھتا رہا ۔بیچ میں زراسی آنکھ لگی تو پابان کے کھیت کھلیان تک پہنچ گیا اور اپنے بے پرواہ بچپن کی کھٹی میٹھی یادوں میں جُھول گیا۔ من ہی من اُس نے فیصلہ لیا کہ وہ اِن کھیت کھلیان میں ضرور جاۓ گا اور اپنے بچپن کی دُنیا میں لوٹ جائے گا۔
صُبح آنکھ کھُلی تو موسم خاصا خوشگوار تھا۔ سُورج کی کِرنیں چہار سو بکِھر رہی تھیں اور ڈاک بنگلے کی اُونچائیوں سے پُورے ماگوس اور پابان کے سُنہرے کھیت کھلیان نظر آرہے تھے۔ دُور حدِ نگاہ تک طلوعِ آفتاب کے پیش منظر میں دھان کی فصل کے سُنہرے کھیت کھلیانوں کا منظر بڑا ہی پُرکشس اور دل فریب تھا، ایسے جیسے ہر سُو سُنہری کِرنیں مّحوِ رقص ہوں۔ بہلول بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
دِن بھر وہ صادق سرمولا کے فرزند کی شادی میں مصُروف رہا ۔ صادق سرمولا اُس کا ہم عُمر تھا اور اُس کے بچپن کے قریبی دوستوں میں شُمار تھا۔ وہ صادق ہر فن مولا کے نام سے بھی مشہور تھا، کیونکہ وہ بڑا فعال اور متحرک تھا۔ شعروشاعری بھی کرتا تھا اور پُورے پابان میں خاصا ہردلعزیز بھی تھا۔ بہلول پابانی اُسے بہت پسند کرتا تھا مگر اکثراُس کی بدوضع پاپاخ سے بہت چِڑتا بھی تھا ۔ بہلول کو اُس کی پاپاخ پر سخت اعتراض تھا جو صادق ہر فن مولا ہمہ وقت اپنے سر پر پہنا کرتا تھا۔ خود صادق ہرفن مولا کا خیال تھا کہ قِبلہ مرزا غالب بھی پاپاخ پہنا کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اُسے بھی پاپاخ پسند ہے ۔
غروب آفتاب کے ساتھ ہی سُورج کا سفر مکمل ہوا۔ شام ڈھلنے لگی اور ٹھنڈی ہواوں نے سائیں سائیں کی دستاں کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ موسم خنک اورخاصا خوشگوار ہونے لگا ۔ بہلول پابانی نے موقع و محل کی مناسبت کو تاڑتے ہوئے پابان کے کھیت کھلیان کا رُخ کیا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ ماگوس اور پابان کے پُرکیف اور مسحُور کُن کھیت کھلیان میں تھا، جہاں اب مرد و زن قطار در قطار رنگ برنگی پوشاکیں پہنے فصل کٹائی کے کام و کاج میں مصروف تھے۔ کھُلے اور مہک بکھیرتے ہوئے وسیع و عریض کھیت کھلیانوں سے لوک گیتوں کی لے اور تال کی مُدھر و پُرکیف دستاں نے ایک روح پرور سماں باندھ دیا تھا۔ بہلول اِن پُرکیف مناظر میں کھو سا گیا۔ اب وہ اُس چنار والی مُنڈیر تک پہنچنا چہتا تھا جہاں وہ اکثر بچپن میں بیٹھا کرتا تھا۔
تقریبا" چالیس سال کا عُرصہ گزُر چکا تھا اور کھیتوں والی اُ ونچی مُنڈیر کا چنار اب بھی اپنی لحیم شحیم قدوقامت اور آن وبان کے ساتھ ایستادہ تھا ۔ اب وہ فیل مست تھا اور کافی پھل پھول چکا تھا ، نیز بڑا اور تناور ہو چکا تھا۔ شاخیں گھنی اور دُور دُور تک پھیلی ہوئیں تھیں۔ پتوں میں موسم خزاں کی مہندی لگ چکی تھی اور پتے کسی نئی نویلی دُلھن کے مہندی جیسے رنگے اور نقش کئے ہوئے ملایم ہاتھوں جیسے لگ رہے تھے۔ قریب پہنچتے ہی بہلول پابانی نے مُنڈیر والے چنار کو ایک بھرپور نگاہ سے دیکھا اور اس کے زمین پر پھیلے ہوئے تنے پر ایک مناسب جگہ منتخب کرتا ہوا بیٹھ گیا ۔ اپنے گردوپیش کا سرسری جائزہ لیا اور چنار کے گُداز اور خوبصورت تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہوگیا ۔ وہ تھک سا گیا تھا اور اب اطمینان سے تھوڑی دیر سستانا چہتا تھا۔ اچانک اُس نے ایک لمبی اور سّرد آہ بھری اور اپنی آنکھیں میچ لیں۔
تھوڑی دیر بعد کسی آہٹ نے ہی اُسے چونکا دیا تھا۔ قریب کوئی آہٹ ہوئی تھی۔ شاید کوئی اُس کے قریب تھا ۔ اُس نے بند آنکھوں سے اپنی من کی نظروں سے اندازہ لگا لیا ۔
" کون ہے جی۔۔۔۔۔۔ ۔؟" وہ نیم خوابی کی حالت میں بڑبڑایا۔
" جی۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ ۔؟" ایک ہچکچاتی اور گھبرائی ہوئی سی نِسوانی آواز اُبھری ۔ " کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟" وہ پھر بڑبڑایا ۔
" جی بُھنے ہوئے مکی کے بوٹے اور اخروٹ لائی ہوں ۔" کوئی دھیمی آواز میں بولی ۔ " ارے باپ رے باپ۔۔۔!!!!!! ۔"
ایسا لگا جیسے بہلول کو بجلی کا کوئی شدید جھٹکا لگا ہو ۔ وہ اِک دم سے اُچھل پڑا اور اپنی آنکھیں ملتا ہوا آواز کی سمت دیکھنے لگا ۔ سامنے ایک ادھیڑ عمر کی عورت نظر آئی جسکا چہرہ ڈھکا ہوا تھا مگر آنکھیں صاف نظر آرہی تھیں۔ سر کے کچھ بال بھی نظر آرہے تھے جن پر سے کہیں کہیں سفیدی جھلک رہی تھی ۔ ملگجے اندھیرے میں صُورت کچھ زیادہ نظر نہیں آرہی تھی مگر بہلول نے چالیس سال بعد بھی نو وارِد کو اپنی پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا ۔ یہ سو فیصدی بختاوری تھی ۔ بھولی سی، معصوم اور شرمیلی ۔۔۔۔۔۔۔ بہلول بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
" یہ لیجئے۔۔۔۔ مکی کے بُھنے ہوئے بوٹے اور اخروٹ لائی ہوں ۔"
اُس نے اپنے ہاتھ میں تھما ہوا تھیلا بہلول کے قریب رکھدیا اور جانے لگی ۔ بہلول کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ وہ تِلملا سا گیا۔ درد و کرب کی ایک شدید سی لہر اُس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔ وہ ہونقوں کی طرح بختاوری کو دیکھتا رہا، جو اب جا رہی تھی۔ وہ بل کھا کے رہ گیا۔
" مگر سُنئے تو ۔۔۔۔۔۔ ۔؟" وہ بدِقت کہہ سکا ۔
" نہیں شام ہورہی ہے ۔" وہ دھیرے سے بولی اور تیز تیز قدم اُٹھاتی ہوئی جانے لگی۔
بہلول کا دِل دھک سے رہ گیا ۔ وہ آگے کُچھ نہ کہہ سکا۔ اُسے جیسے لقوہ مار گیا۔ وہ بس جاتی ہوئی بختاوری کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور تب تک دیکھتا رہا، جب تک وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔ بخت ۔۔ا ۔۔۔ و ۔۔ر۔۔ ی ۔۔۔۔۔۔۔ بختاوری ۔۔۔۔۔۔۔ بختاوری ۔ ۔ ۔۔ وہ بڑبڑایا ، بڑبڑاتا رہا اور ۔۔۔۔۔ بڑبڑاتا رہا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔