یک سِنگھے
پہلا افسانہ؛ بیکری پردھاوا
( Bakery Attack , 1980 )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
ایک اقتباس
اصل میں ہم بھوک سے مر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہم نے خلاء کا ’ خالی پن‘ نگل لیا ہو۔ شروع میں تو یہ بہت چھوٹا تھا ، ایک ننھا ’ خالی پن ‘ جیسے ’ ڈو نٹ‘ کا سوراخ ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے دن گزرتا گیا ، اس کاا حساس ہمارے جسموں میں اس حد تک بڑھ کر اس نکتے پر پہنچ گیا جہاں سے بے پیندا ’ عدم وجودیت ‘ شروع ہوتی ہے ۔ہمارے معدوں کی گڑگڑاہٹ بھوک کے مقبرے سے ایک مقد س ’ بی جی ایم ‘ ( بیک گراﺅنڈ میوزک) کا کام سر انجام دے رہی تھی ۔
بھوک کیسے جنم لیتی ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہو گی جب ہم میں خوراک کی کمی ہو گی ۔ ہمارے پاس خوراک کی کمی کیوں ہوئی؟ کیونکہ ہمارے پاس اس کے بدلے میں دینے کو ’ زر‘ کی اکائیاں نہیں تھیں ۔ ایسا کیوں ہوا کہ ہمارے پاس بدلے میں دینے کے لئے ’ اکائیاں‘ نہ تھیں ؟ شاید اس لئے کہ ہم میں سوجھ بوجھ کی کمی تھی ۔ نہیں ، ہماری بھوک نے شاید ہماری سوجھ بوجھ کو براہ راست متاثر کیا تھا ۔
حقیقت میں اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
خدا ، مارکس اور جان لینن سب مر چکے ہیں ۔ ہم ہر طرح اورلحاظ سے ، بھوکے ہیں اور اس کے کارن ہم ایک جرم کرنے لگے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ بھوک کی وجہ یہ جرم ہم سے سرزد ہونے لگا ہے ، بلکہ یہ ’ جرم‘ ہی تھا جس نے ہمیں بھوکا دوڑنے پر مجبور کیا ۔ میں یہ کچھ زیادہ بہتر طور سمجھ نہیں پا رہا لیکن یہی ’ وجودیت ‘ تھی ۔
” میں برا بن جاﺅں گا “ ، میرے دوست نے مختصراً کہا اور میں نے اس کی تائید کی ۔
ہم نے دو دن سے پانی کے علاوہ اور کچھ نہ پیا تھا ۔ میں نے ایک بارسورج مکھی کا ایک پتا کھایا تھا کہ دیکھوں یہ کیسا ہے لیکن تب سے مجھے اشتہا نہیں ہوئی کہ میں اسے دوبارہ کھانے کی کوشش کروں ۔
یہی وجہ بنی کہ ہم باورچی خانے کی چھریاں لئے ’ بیکری‘ کی طرف گئے ۔ بیکری ’ خریداری مرکز‘ کے وسط میں گدوں کے ایک سٹور اور سٹیشنری کی ایک دکان کے درمیان تھی ۔ بیکری کا مالک پچاس سے اوپر کا ایک بوڑھا تھا ، وہ گنجا اور کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی تھا ۔ ۔ ۔ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔