“محلے میں جب کبھی اپنی سہیلیوں اور دوسری لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوتے ہوئے دیکھتی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتی، ایک نامعلوم سی شادمانی کے سنہرے فواروں سے اس کا پورا وجود بھیگ اٹھتا، آنکھ کی راہ خانۂ دل میں بل کھاتی ہوئی انبساط کی خوشنما لہریں آنسوؤں کے موٹے موٹے شبنمی قطروں کی شکل میں رخسار پہ لڑھک آتیں اور آخر کار دامن سے جذب ہو کر رہ جاتیں”۔
ہاں! اکثر خالی الذہن ہو کر شب دیجور کی تنہائی میں جب کبھی تصورات کے تیز دھاروں پہ وہ بہنا شروع کرتا تو یکا یک عالم رنگ و خیال کی دوسری انجانی دنیا میں پہنچ جاتا۔ دوسروں کی خوشی میں کوئی اتنا بھی خوش ہو سکتا ہے! وہ بسا اوقات یہی سوچ کر متحیر ہو جاتا کہ کیا کسی کا گھر بستے دیکھ کر یکا یک انسانی چہروں پہ پھیلنے والی دل آویز مسکراہٹ انسانی فطرت ہوتی ہے یا یوں ہی محض دکھاوا؟ آج ان بہروپیوں کی بھی تو کمی نہیں ہے نا، جن کے ظاہر و باطن میں برسوں کی مسافتیں حائل ہوتی ہیں۔۔۔ مگر، اگلے ہی لمحہ عبد اللہ اپنی فکر و نظر کی یہ تمام لڑیاں سطح ذہن پہ تاش کے پتوں کی طرح بکھرتا محسوس کرتا اور ایک مدھم سے خیال کے سہارے اس کی نظریں اپنی زندگی کی پندرھویں ویں بہاریں دیکھ لینے والی اکلوتی بیٹی”صائمہ” پر ٹک جاتیں۔ عبد اللہ سوچتا اور خوب سوچتا، خلوت و جلوت۔۔۔ہر جگہ صائمہ کے حوالے سے ہی وہ فکرمند رہتا کہ: ” کیا پتا میں صائمہ کا ہاتھ پیلا کرا پاؤں گا بھی یا نہیں! کیا عمر رواں اتنی وفا کرے گی کہ میں جیتے جی بیٹی کا گھر بستے دیکھ لوں! آخر وہ دن کب آئے گا جب شہنائیوں کی گونج میں کوئی شہزادہ میری خوابوں کی پری “صائمہ” کو اڑا لے جائے گا؟ ہاں! یہی تو میری کل کائنات ہے، ایک ہی تو میری پونجی ہے، جنت کی خوشبو، یہ پھول جیسی ننھی سی پری”۔
چھوٹو آٹھویں/ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ صائمہ انٹر کر کے اب کسی اچھے یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کی پلاننگ کر رہی تھی۔۔۔مگر وہ اپنی عمر کی اس سیڑھی تک پہنچ چکی تھی کہ جہاں حسن سیرت و صورت کا شہرہ سن کر ہنر مند لڑکیوں کو بہو بنانے کے لیے انتخاب کی نظریں تھکتی نہیں ہیں، بل کہ لڑکے والے تکتے رہتے ہیں اور موقع پاتے ہی ہاتھ مانگنے چلے آتے ہیں۔
صائمہ، اگرچہ بلا کی حسین نہیں تھی اور نہ ہی اسے پریوں کی خوب صورتی و جمال سے تشبیہ دی جا سکتی تھی۔۔۔مگر یہی کیا کم ہے کہ اب تک وہ حسن سیرت و پاکیزہ تعلیم و تربیت کی بھٹی میں پک کر کندن بن گئی تھی اور والدین کی نگاہ کیمیا اثر نے اسے ایک انمول رتن بنا دیا تھا۔ صائمہ فطرتاً کم گو واقع ہوئی تھی، خدا کی طرف سے طبعیت ہی ایسی ودیعت کی گئی تھی کہ جس میں متانت و سنجیدگی کوٹ کوٹ کر بھری پڑی تھی، وہ والدین کریمین کی عزت و تکریم اپنے لیے کسی تاج شاہانہ سے کم نہیں سمجھتی اور یہی وہ واحد وجہ ہے جس کے سبب وہ ان سے ایک لمحہ کے لیے بھی دور نہیں ہونا چاہتی۔
یقیناً حدِّ بلوغت میں قدم رکھتے ہی دنیا کے ہر والدین کو یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ بیٹیاں جلد از جلد بیاہ کر اپنا گھر بسا لیں، یہی وجہ ہے کہ ادھر چند برسوں سے عبداللہ نے اپنی کمائی کا کچھ حصہ بچا بچا کر صائمہ کی شادی کے لیے بھی رکھنا شروع کر دیا، صائمہ کے سگے ماموں، جو ممبئی میں رہتے ہیں، ابھی چند دنوں قبل ہی آبائی وطن لوٹے ہیں، ان کے جاننے والوں میں کسی ہونہار لڑکے کو رشتۂ ازدواج سے منسلک کروانے کی باتیں ہو رہی تھیں، کسی طرح اڑتی ہوئی یہ خبر صائمہ کے ماموں کو بھی لگ گئی، لڑکا چوں کہ پڑھا لکھا اور بر سر روزگار تھا، اس لیے اس نے اپنی صائمہ کے لیے منتخب کر لیا، حقیقت حال سے آگاہی کے بعد صائمہ کے والدین نے بھی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ ہاں! یہ معاملہ اتنی جلدی بازی میں طے پایا کہ صائمہ کو رشتے کی بات چلنے کی بھنک تک نہیں لگی۔ ویسے بھی ہماری مشرقی تہذیب میں لڑکیوں کو ان کی اپنی من پسند کے انتخاب کا زمام سونپا ہی کب گیا ہے، یہ تو بالکل ہی شریف گھرانوں کی علامت نہیں سمجھی جاتی کہ بیٹیاں خود والدین کی سامنے اپنی مرضی کا دو ٹوک اظہار کریں اور شریک حیات چننے کا فیصلہ اپنے سر لیں۔ ہاں! یہ والدین کی رضا پہ منحصر ہے کہ وہ کب، کہاں، کیسے اور کس کے ساتھ اسے بیاہنے پر تیار ہو جائیں، لڑکیاں ہمت کرکے اگر گارجین کی پسند ٹھکرا دیں تو پھر ایک زبردست بھونچال آجاتا ہے اور یہ ایسا جرم تصور کر لیا جاتا ہے کہ جس کا ازالہ شاید ہی ممکن ہو، بل کہ کبھی تو وہ ساری عمر اپنی پیشانی پہ ندامت و رسوائی کا یہی داغ لیے پھرتی ہیں۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا، لڑکے والے دوسرے ہی دن صائمہ کو دیکھنے کے لیے چلے آئے، صائمہ اپنی حیات میں آج پہلی مرتبہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی، مگر کسی غیر محرم کے سامنے کھڑی ہونے والی تھی، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے، بغیر اس کی مرضی کے زندگی کا یہ بڑا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے، ایک لاچار آدمی کو اپنی زندگی کا یہ فیصلہ لینے کا بھی اختیار نہیں، کیا ہر معاملے میں آنکھ بند کر کے والدین کی تابع داری لازم ہے، کسی کے ساتھ رہ کر پوری زندگی کا سفر تو ہمیں طے کرنا ہے، آخر ہم مشرقی لڑکیاں اس معاملے میں سفید و سیاہ کے مالک کیوں نہیں ہیں؟
آج صائمہ کے ذہنی اسکرین پہ یہ سارے سوالات پے در پے گردش کرنے لگے تھے، مگر افسوس کہ ایک مرتبہ پھر سماجی بندشوں اور عوام کے ایک خاص نظریے نے اس کے پاؤں میں توقف کی بیڑیاں ڈال دی اور وہ زبان نہ کھول سکی۔ صائمہ نے چاہا کہ وہ ایسے جبری رشتوں سے سر مو انکار کر دے مگر لاکھ ہمت جٹانے کے باوجود بھی انکار کا کوئی لفظ والدین و ماموں جان کے سامنے زبان پہ نہ لا سکی۔ اب دھیرے دھیرے وہ گزشتہ تمام مناظر ایک ایک کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگے جب صائمہ اپنی سہیلیوں کے ہاتھ پیلے ہوتے دیکھ کر پھولے نہیں سماتی اور چٹکیاں لے لے کر ہم جولیوں میں تفریح طبع کا سامان مہیا کرتی۔ تب تو میری زندگی اتنی کوفت بھری نہیں تھی،۔۔۔مگر اب اسے یہ احساس ہوا کہ یہ خوشی کا موقع کس قدر کرب ناک ہے، ہاں! ایک اذیت ناک مرحلہ۔۔۔جب دن کے اجالے میں جبری فیصلوں کا ایک بھاری بوجھ بیٹیوں کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے، کیا ہمارا معاشرہ اس قدر بے دست و پا ہے کہ اخلاق و تہذیب کے شائستہ حدود میں رہ کر وہ اپنا جیون ساتھی چننے کا جائز حق بھی فراہم نہیں کر سکتا؟، اُفف ففف، فف۔۔۔ہم سے یہ حق کیوں چھین لیا جاتا ہے؟ آخر زندگی کے یہ دو حسین پل بھی گونا گوں سوالات و جوابات کے مہیب سائے میں کاٹنے پہ ہمیں کیوں مجبور کیا جاتا ہے؟۔
شادی کو اب صرف پندرہ ہی دن رہ گیے تھے، اس لیے گزشتہ جمعہ ہی سے گھر بھر میں تیاریاں زوروں پر تھیں اور در و دیوار پہ رونقیں آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔عبداللہ کبھی بازار جاتا تو کبھی مختلف ضروریات کی تکمیل میں نوع بنوع پیشاوروں سے ملاقات کرتا تا کہ بیاہ کے دن کسی چیز کی کمی نہ رہ جائے۔ پرسوں سنیچر کی شام، عبداللہ تھکا ہارا اپنے کام سے واپس آیا ہی تھا، اسی وقت اچانک لڑکے والوں کا فون آ گیا، بعد علیک سلیک جانب مخالف سے جب بطور جہیز ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم کا مطالبہ اس کے پردہ سماعت سے ٹکرایا تو عبداللہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی، اسے یوں لگا جیسے سنہرے خوابوں کا کوئی شیش محل سنگ ریزوں میں تبدیل ہو رہا ہے اور اس سے فضا میں تحلیل ہونے والی ٹوٹنے بکھرنے کی مکروہ آوازیں رگ رگ میں ارتعاش کی لہریں پیدا کیے دے رہی ہیں، صائمہ اپنے والد کی حالتِ غیر دیکھ کر امر واقعہ سے واقف ہونے کی سعی کرنے لگی، والدہ ، ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا گلاس لیے دوڑتی چلی آئی۔ مسلسل دو/ تین دن تک ضروری دوا دارو کے استعمال کے بعد عبداللہ کی حالت میں قدرے بہتری آئی تو اس نے از سر نو ہمت جٹا کر کام دھام کرنا شروع کر دیا۔ اپنی کمائی کا کچھ حصہ جو اس نے بچا بچا کر رکھا ہوا تھا، جہیز کے نام پر دینے کے لیے تیار ہو گیا کہ کسی طرح صائمہ کا گھر بس جائے۔ مگر۔۔۔وہ کہتے ہیں نا کہ جس آدمی کو بیجا مال و دولت کی لالچ نے گھیر لیا ہو تو پھر یہ روگ کلیۃً فرو نہیں ہوتا بل کہ بڑی مشکلیں پیش آتی ہیں، دولت و شہرت کا پجاری یہ نہیں دیکھتا کہ مال و دولت کیسے اور کہاں سے آتی ہے، اسے تو بس ملنا چاہیے، اگرچہ وہ حرام ذرائع ہی سے کیوں نہ دست یاب ہو۔
عبداللہ نے جہیز کی رقم سے سمجھوتہ کرکے کسی طرح آگے بڑھنے کی کوشش ابھی کیا ہی تھا کہ اسے پھر دوبارہ ایک زوردار جھٹکا لگا، لڑکے والوں نے کسی کے توسط یہ خبر بھجوائی کہ نوشہ بابو کو ڈیڑھ لاکھ کی گاڑی بھی بطورِ جہیز دینا پڑے گی، اگر یہ مانگ پوری نہیں کرتے ہیں تو پھر ہم آپ کے یہاں شادی نہیں کریں گے۔
ہائے!!! عبداللہ کے لیے یہ خبر کس قدر روح فرسا تھی، اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ایک لاکھ کی فراہمی کے بعد مزید ڈیڑھ لاکھ کی بھاری رقم کہاں سے برآمد کرے، ثانیے بھر کے لیے عبداللہ کو سوچ و فکر کی تمام راہیں مسدود ہوتی دکھائی دینے لگیں، وہ اپنے آپ کو ایسا زخم خوردہ محسوس کرنے لگا کہ جس کی مرہم پٹی اس مطلب پرست دنیا کے پاس نہیں ہو، دل کی امنگوں کا خون ہو کر رہ گیا اور تیز ہوا کے جھونکوں میں شاداب خوابوں کی تازہ پتیاں ایک ایک کر کے خزاں رسیدہ ہونے لگیں، یقیناً عبداللہ کا دل بیٹھا جا رہا تھا، آہستہ آہستہ عبداللہ کے وہ گزشتہ تمام شکوک وشبہات تقین کا چولا پہننے لگے تھے ، جو کبھی پیاری صائمہ کے حوالے سے اسے فکر مند کر دیا کرتے، اب سماج میں پھیلے شادی بیاہ کے غلط رسوم کی تباہ کاریوں کا اسے درست اندازہ ہوا اور ساتھ ہی جہیز کے نام پہ غریب چہروں پر لگنے والے بے رحم تھپیڑوں کی شدتِ ضرب اپنے دل میں بہت قریب سے محسوس کیا۔ صائمہ نے لڑکے والوں کی اس نیچ حرکت پہ اظہار افسوس کیا اور والد محترم کو اس رشتے سے انکار کے لیے خود ہی منانے لگی۔
آج دفتری چھٹی کے سبب لڑکے والوں کی طرف سے کچھ افراد شادی کی لین دین پکی کرنے کے لیے صائمہ کے گھر آئے تھے، عبداللہ نے برآمدے میں ہی بعمیق قلب مہمانوں کا استقبال کیا، کچھ دیر بعد سلسلہ گفتگو کا آغاز ہوا۔ صائمہ بھی اپنی والدہ کے ہم راہ پردے کی اوٹ باتیں سننے لگی، جہیز کی باتیں نکلیں، لڑکے والوں نے درمیان گفتگو جہیز کی رقم کو آپس میں راز رکھنے کی بات کہی کہ کسی کو اس کی خبر نہیں ہونی چاہیے، وثیقہ پہ پیسوں کا ہرگز کوئی تذکرہ نہیں ہوگا، یہ باتیں صرف ہمارے مابین ہی رہنی چاہیے، وغیرہ۔۔۔جب صائمہ نے دروازے کی داہنی پٹ سے ٹوہ لیتے ہوئے گفتگو کے اور چھور سے واقفیت حاصل کی تو وہ حیرت میں ڈوب گئ کہ آدمی اخلاق و کردار میں اتنا نیچے بھی کیسے جا سکتا ہے؟ عبداللہ اب بھی لڑکے والوں کے ساتھ بیٹھا تھا، وہ اپنی بیٹی کا گھر آباد کرنے کی فکر میں انکار کا ایک لفظ بھی اپنی زبان پر نہ لا سکا، وثیقہ بھی میز پہ ہی دھرا ہوا تھا اور ہر طرف ایک گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی، راز کی بات نے عبداللہ کو سکتے میں ڈال دیا، پل بھر میں سکوت کی چادریں تن گئیں، ہاں! ایک گہری و خاموش دنیا، جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کا چہرہ صرف اس لیے تک رہے ہوتے ہیں کہ شاید سامنے والا گفتگو کا تار چھیڑ دے۔ اسی اثنا میں دروازے کے پیچھے بیٹھی شریف صائمہ جرأت و ہمت کے ساتھ علم بغاوت لیے نکلی اور محفل پہ چھائی خاموشی، آنکھ جھپکتے ہی کافور کر گئی، آج فطرتاً ایک کم گو لڑکی نے بے جا رسم و راہ اور جہیز کے نام پر چلنے والی سماجی کالا بازاری کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے خود لڑکے والوں کے سامنے اپنی شادی کی منظوری سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی میز پر رکھے وثیقہ کو اٹھا کر اس لیے پھاڑ دیا کہ وہ ایسے لوگوں کے یہاں بہو بن کر ہرگز نہیں جا سکتی ہے، جو حسن اخلاق و کردار سے یتیم اور بے جا مال و دولت کے پجاری ہوں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...