خود ایک عورت ہوکر اُسے عورت ذات سے سخت نفرت تھی ۔ اُسے عورتوں کے حقوق پر عورتوں کی لمبی چوڑی تقاریر اور واویلا پر بھی سخت اعتراض تھا ۔ وہ اسے مکاری سے تعبیر کرتی تھی اور حقیقت سے بعید گردانتی تھی ۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ عورت ذات ہی ہے جو عورت ہوکر بھی عورت کو جہنم رسید کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتی ، بلکہ ہر عورت کی بربادی کے پیچھے ایک عورت کا ہی ہاتھ ہے ، اس بات سے وہ کلی طور پر متفق تھی ۔ ایسی بُربادیوں کو لے کر اُس کے سامنے بیسیوں ایسے قصے کہانیاں اور مثالیں تھیں کہ جہاں ایک ساس نے ہی جہیز کی لالچ میں اپنی بہو کو زندہ جلایا تھا۔ بہو کو ذلیل کرکے گھر کی چوکھٹ سے باہر پھینکا تھا اور ظلم کے نِت نئے ریکارڈ قائم کئے تھے۔ پھر کہیں بہو نے بھی اپنی عورت ذات کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ساس سُسر کو خون کے آنسو رُلایا تھا ، کہیں عورت نے اپنے عاشق سے مل کر شوہر کو ، تو کہیں اپنے باپ کو بھی قتل کروایا تھا ۔ کوئی کسی کا پتی لے کر اُڑی تھی تو کوئی کسی کا بچہ لے کر ۔
خود نمرتا کو بھی اس حال کو پہنچانے والی ایک عورت ہی تھی ۔ یعنی اُس کی سوتیلی ماں رُکمنی دیوی ۔ اُسی نے اُسے سُکھن بائی کے کوٹھے تک اور اس حال کو پہنچایا تھا ۔ وہ بیچاری تو بڑی روئی دھوئی تھی ، گڑگڑائی تھی اور پاؤں پڑی تھی مگر اُسے بےخبری کی حالت میں بیہوش کرکے رکمنی دیوی نے سُکھن بائی کے کوٹھے تک پہنچا کر ہی دم لیا تھا ۔ آج کوٹھے پر اُس کا یہ چوتھا دن تھا اور وہ اپنی تقدیر کو کوستی ہوئی آنسو بہا رہی تھی ۔ بابو جی زندہ ہوتے تو یہ سب نہ ہوتا مگر ایک دن اچانک بابو جی گزر گئے تو نمرتا کی زندگی میں اندھیرا سا چھا گیا ۔ ماں تو بچپن میں ہی جب وہ صرف سولہ سال کی تھی اور دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھی داغِ مفارقت دے چُکی تھی ۔ بابو جی نے اُسے دونوں یعنی ماں باپ کا پیار دیا اور اُسے جوان کیا ۔ اب وہ ایم کوم تھی اور بہت آگے جانے کے خواب بُن ہی رہی تھی ، کہ اچانک بابو جی کا سورگباش ہوگیا ۔ بابو جی کے سورگباش ہوتے ہی قیامت ٹوٹ پڑی۔ رُکمنی دیوی کے تیور بدل گئے اور وہ اپنی اوقات پر اُتر آئی ۔ سوتیلا پن ایک زہریلے ناگ کی طرح پھن پھیلا کر نمرتا کے اردگرد کنُڈلی مار کر بیٹھ گیا اور وہ ایک خوفزدہ پنچھی کی طرح پھڑپھڑانے لگی ۔
پھر یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ وہ سُکھن بائی کے کوٹھے تک آن پہنچی ۔ سُکھن بائی کا کوٹھا کیا تھا، ایک اچھا خاصا کنجر خانہ تھا جہاں صُبح و شام جسم فروشی کا کاروبار ہوتا تھا اور بے بس و بیکس، ستم رسیدہ لڑکیوں کا جسم بِکتا تھا ۔ کنجرخانے میں کتنی بے یار و مددگار و بیکس لڑکیاں تھیں، یہ بتانا زرا مشکل تھا مگر ایک اچھی خاصی تعداد کہی جائے تو یقینا" صحیح تھا ۔ یہاں ہر مغلوب و بندی لڑکی کی اپنی اپنی ایک الگ کہانی تھی جو خون کے آنسو رُلاتی تھی ۔ کسی کو بھائی نے بیچا تھا ، کسی کو باپ نے ، کسی کو موسی نے ، تو کسی کو اپنے عاشق نے ۔ کسی نے کنجر خانے سے بھاگنے کی کوشش بھی کی تو سُکھن بائی نے پولیس کی مدد سے اسے واپس وہیں کنجر کھانے پہنچا دیا ۔ سُکھن نے کسی کو ہنٹر سے مارا، کسی کے بال کاٹے تو کسی کے ہاتھ پیر جلائے ۔ پچیس سالہ موسمی نے اپنے کیبن میں نمرتا کو اپنی رام کہانی سُنائی تو وہ دہل سی گئی اور تھر تھر کانپنے لگی ۔
" یہاں سے بھاگنے کا خیال بھی اپنے دل سے نکال دو ۔" موسمی سرگوشی کرتی ہوئی بولی ۔ " یہ لوگ بڑے ظالم ہیں ۔ یہ دیکھو ، میں بھاگی بھی تھی ، کیا حال کر دیا ہے میرا " اُس نے اپنی فراک کی آستیں اُوپر چڑھاتے ہوئے اپنا بازو دکھایا تو نمرتا سناٹے میں آگئی ۔ وہ خاصی خوفزدہ ہوئی، کیونکہ موسمی کے بازو پر جلے کے نشانات اب بھی صاف دکھائی دے رہے تھے ۔
" مگر پولیس ، میرا مطلب ہے ۔۔۔۔۔ ۔" وہ کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ موسمی نے اپنے لبوں پر اُنگلی رکھتے ہوئے اُسے خاموش کر دیا ۔
" نام مت لو اس نگوڑی پولیس کا ۔ مت ماری گئی تھی میری ، جو میں یہاں سے بھاگ کر پولیس کی مدد لینے گئی تھی ۔ پولیس والوں نے مجھے بڑی بے رحمی سے گھسیٹ کر پھر یہاں پہنچا دیا تھا ۔ پھر پوچھو مت ۔" اچانک موسمی کی آواز بھراگئی اور اُس کی آنکھیں چھلک آئیں ۔
" پلیز ۔۔۔۔ مت رو میری بہنا ۔" نمرتا کی روح تک کانپ گئی۔
" اِن لوگوں نے میرا وہ حال کیا کہ میں کہی دن بے ہوش رہی ۔ مجھے کہی دن بھوکا پیاسا رکھا، میرے ہاتھ پیر جلا دئیے اور مجھے بہت مارا پیٹا ۔" موسمی اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور پھُوٹ پھُوٹ کر رونے لگی ۔ نمرتا سر سے پیر تک ہِل گئی ۔
" مگر یہ تو ظُلم ہے ۔" وہ خوفزدہ نگاہوں سے موسمی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی ۔ جبھی موسمی ہچکیاں لیتی ہوئی پھر گویا ہوئی ۔
" چُپ چاپ پڑی رہو ۔ یہاں بغاوت کی سزا موت ہے ۔" موسمی دھیرے سے سرگوشیانہ انداز میں بولی ، مبادا کوئی سُن نہ لے ۔
" یہاں کوئیل نے ایک بار بغاوت کرنے کا حوصلہ دکھایا تھا مگر انجام بہت بُرا رہا۔ اب تک اُس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے ، زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ کسی کو کُچھ خبر نہیں ہے ۔"
" او مائی گارڈ ۔" نمرتا اور زیادہ سہم گئی ۔
" کل صُبح سے تمہارا دھندہ شروع ہوگا ۔ چُپ چاپ دھندے میں لگ جاو ۔"
" نہیں نہیں ۔۔۔۔۔ ۔" نمرتا نے ایک جُھرجھری سی لی اور کسمسانے لگی ۔
جبھی کیبن کے دروازے پر ہوئی دستک نے دونوں کو چونکا دیا ۔ دونوں سنبھل کر بیٹھ گئیں اور دروازے کی طرف دیکھنے لگیں ۔ دروازہ کُھلتے ہی سُکھن بائی کا دیو قامت سراپا دکھائی دیا ۔ وہ ایک کالی موٹی بھینس کی طرح کمرے میں وارد ہوئی۔ بھاری بھرکم، بےہنگم جسامت، فربہ اور موٹے بھدے گال ، بڑی بڑی موٹی آنکھوں کی لمبی پُتلیوں میں کاجل کی بے تحاشہ پُتائی ، موٹے اور بدوضع ہونٹوں پر پان کی پیک کی خون جیسی لالی اور داہنے گال پر ایک بدوضع موٹا سا کالا تِل سُکھن بائی کی خوفناک شیطانی صُورت کا کھُلا اشتہار تھے ۔ وہ ایک قوی ہیکل چُڑیل لگ رہی تھی ۔ اُسے دیکھتے ہی نمرتا کی جیسے جان ہی نکل گئی ۔ وہ ڈری ڈری سی موسمی کے ساتھ جھٹ سے تعظیما" کھڑی ہو گئی ، کیونکہ موسمی نے اشارے سے اُسے ایسا کرنے کو کہا تھا ۔
" کیا ہورہا ہے موسمی ۔ ۔۔۔۔۔۔؟" سُکھن بائی موسمی کو مُخاطب کرتی ہوئی نمرتا کی طرف قہر آلود نظروں سے دیکھنے لگی ۔ " اسے سب سمجھایا نا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟" وہ اپنے دیدے سخت کرتی ہوئی کرخت لہجے میں بولی ۔
" جی جی رانیسا ۔ سب سمجھا دیا ۔" موسمی جلدی جلدی بولی، مبادا سُکھن بائی غُصہ نہ ہوجائے ۔
" اس چابک کے بارے میں بتایا نا ۔؟" وہ اپنے ہاتھ میں تھمے ہوئے چابک کی نمائش کرتی ہوئی تُرش روئی سے بولی ۔
" جی رانیسا ۔ پڑھی لکھی ہے ، سب سمجھتی ہے ۔"
" ہونہہ ۔۔۔۔۔۔ پڑھی لکھی ۔۔۔۔ ۔" سُکھن بائی طنزیہ بولی اور نمرتا کو گُھورنے لگی ۔ " تھوپڑا اچھا ہے ، چل جائے گی ۔ پورے تین لاکھ میں خریدا ہے ۔" وہ ایک زہریلی مُسکراہٹ کے ساتھ اپنے بھینس کے جیسے دیدے دائیں بائیں گُھمانے لگی ۔
تھوڑی دیر بعد وہ اپنے بھدے اور بھاری بھرکم کولہے مٹکاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تو نمرتا کا کلیجہ منہ کو آگیا ۔ وہ چنار کے خزانی پتوں کی طرح پیلی پڑ گئی ۔ اچانک وہ کھانسنے لگی اور تھر تھر کانپنے لگی ، جبھی موسمی نے اسے سہارا دیتے ہوئے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اب وہ اُسے دِلاسے دے رہی تھی ۔
دوسرے دن صُبح سُکھن بائی کے کوٹھے پر ایک بار پھر چہل پہل نظر آئی ۔ کوٹھے پر موجود لڑکیاں صُبح کی پوجا کے بعد سجنے سنورنے لگیں اور رنگ برنگی تتلیوں کی طرح اِدھر اُدھر پُھدکنے لگیں ۔ کُچھ کوٹھے کے دالانوں پر ہاتھ ہلاتی ہوئیں اور فحش فقرے کستی ہوئیں اپنے گراہکوں کو رجھانے کی کوشِشوں میں جُھٹ گئیں تو کچھ نیچے سڑک پر آکر گراہکوں کو پّٹانے لگیں۔ دوسری طرف نیچے سڑک پر پان چباتے ہوئے اور اس کی پیک کی پچکاریاں سڑک پر مارتے ہوئے بد صورت دلال گراہکوں کے ساتھ تول مول کرتے ہوئے نظر آئے ، چنانچہ جسم کی خرید و فروخت ہونے والی اس منڈی میں جسم بیچنے کا کاروبار حسبِ معمول شروع ہوا اور سُکھن بائی ہاتھ میں چابک تھامے اپنے کوٹھے کے کاروبار کی دیکھ ریکھ میں ہمہ تن مشغول ہوگئی ۔
نمرتا کے کیبن پر آہٹ ہونے اور کچھ آوازوں کے اُبھرنے کے ساتھ ہی نمرتا چوکنی ہوگئی ۔ اُس کا دل دھک سے رہ گیا ، اُس کے پورے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی اور وہ دروازے کی طرف دیکھنے لگی ۔جبھی کیبن کا دروازہ کھلا تو سُکھن بائی کا خوفناک چہرہ نظر آیا۔ اُس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا شخص بھی دکھائی دیا جس کی عُمر لگ بھگ پچاس برس کی رہی ہوگی ۔ اچھا خاصا تھا، خوش لباس ، لحیم شحیم ، لمبا اور توانا ۔
" یہ لو نواب دین نواب صاحب ۔ بلکل تازہ کلی ہے ۔ ابھی نتھ بھی نہیں اُتری ہے ۔ آپ کےلئے بطور خاص پیش ہے ۔ آرام سے مزے لوٹ لیجئے۔" کہتے ہوئے سُکھن بائی نے ایک زور دار کریہہ الصوت ، بھدا اور زوردار قہقہہ لگایا ۔
" اووووو ۔۔۔۔۔ بہت خوب ، ماشاءاللہ ۔ نوازش ۔ شکریہ ۔" نواب دین نواب جھومتے ہوئے خاصے خوش نظر آنے لگے ۔
یہ الفاظ بڑے تکلیف دہ تھے۔ نمرتا سناٹے میں آگئی ۔ کسی نے جیسے اُس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ گھول دیا ۔ جبھی سُکھن بائی کی کرخت اور گونجدار آواز نے اُسے ہلا کر رکھدیا۔
" اے چھوری، کوئی آنا کانی نہیں ۔ نواب صاحب ہمارے خاص مہمان ہیں اور خوش قسمت ہو تم ، کہ نواب صاحب تمہارے ساتھ بیٹھنے والے ہیں ۔ انہیں خوش کردینا ۔" سُکھن بائی نے زہر خند لہجے کے ساتھ قہر آلود نظروں سے نمرتا کو گُھورا ۔نمرتا کی گِھگی بندھ گئی ۔ جبھی سُکھن بائی کُچھ بڑبڑاتی ہوئی دروازے سے باہر چلی گئی۔ وہ چلی گئی تو نواب صاحب نے کیبن کا دروازہ اندر سے بند کرکے چٹخنی چڑھا دی ۔ مُڑتے ہوئے وہ خراماں خراماں نمرتا کی طرف بڑھنے لگے تو نمرتا سہمی ہوئی نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی ۔ ایک خوفزدہ پر کٹے شکار کی طرح سہمی اور التجائی نگاہوں سے وہ نواب صاحب کو رحم طلب نگاہوں سے دیکھنے لگی ۔ جبھی نواب کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ اچانک بوکھلا سی گئی۔ وہ حیران و پریشان آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اُسے دیکھنے لگی ۔اُس پر کپکپی طاری ہونے لگی ۔ جبھی وہ نواب الدین کے پیر پڑ گئی اور گڑگڑانے لگی ۔ اُس نے اب اُس کے پیر پکڑ لئے تھے ۔
" نہیں پلیز ۔۔۔۔۔۔ مُجھے بخش دو " وہ گڑگڑاتی رہی اور اب رونے بھی لگی ۔
" کیا ہوا چھوری ۔ لاحول ولا قوۃ ۔ نخرے نہیں ۔ میں نے تمہیں دو گھنٹے کےلئے خرید لیا ہے ۔" نواب نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور اُس کے بازو پکڑ لئے ۔
" ایک منٹ پلیز۔" نمرتا آہ وزاری کرتی ہوئی بولی ۔ پھر اُس نے جھٹ سے اپنے بلاوز میں ہاتھ ڈال کر ایک تصویر نکالی اور اپنے لرزتے ہاتھ سے یہ تصویر نواب صاحب کو تھمادی۔
" کیا ہے یہ ؟" نواب الدین نواب کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں تھمی ہوئی تصویر کو دیکھنے لگے ۔ وہ تھوڑی دیر تصویر کو دیکھتے رہے، جبھی اُس کے چہرے پر حیرت اور ناگواری کے ملے جلے اثرات نمایاں ہوگئے ۔ " اری کون ہے یہ ؟ اس کی صُورت تو میری صُورت سے کافی مشابہہ ہے ۔"
" یہ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ میرے بابو جی ہیں ۔ بلکل آپ کی طرح ۔ آپ جیسے ۔ پلیز مجھے چھوڑ دیجئے ۔ پلیز ۔۔۔۔ میں آپ کی بیٹی جیسی ہوں ۔ رحم کیجئے۔۔۔۔۔۔" نمرتا بدقت تمام بولی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ " آپ میرے بابو جی جیسے ہیں ۔ پلیز ، مجھے چھوڑ دیجئے۔ مجھ پر رحم کیجئے۔" نمرتا کی حالت اور خراب ہونے لگی ۔
اچانک نواب صاحب جیسے سر سے پیر تک ہل گئے ۔ اُن کا سارا وجود جیسے لرز اُٹھا اور اب جیسے اُن پر رعشہ طاری ہوگیا ۔ اُن کی کشادہ پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہوگئیں ۔ چہرے پر اچانک پریشانی و ندامت کے آثار ترشح ہوگئے ۔" یا اللہ، مجھے معاف کردے۔" وہ زیرِ لب بڑبڑائے اور نمرتا کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ تبھی وہ اور زیادہ گھبرا گئے ۔نمرتا دھیرے دھیرے بیہوش ہورہی تھی اور اب گرنے ہی والی تھی کہ نواب صاحب نے اُسے تھام لیا ۔ " اوہ نووو۔۔ ۔" اُن کے منہ سے نکل گیا اور وہ جلدی جلدی نمرتا کی نبض ٹٹولنے لگے ۔ وہ بہت زیادہ گھبرا گئے ۔ انہیں لگا کہ جیسے نمرتا اب بس مرنے ہی والی ہو ۔ انہوں نے جلدی جلدی کچھ سوچا اور پھر اچانک نمرتا کو اُٹھاتے ہوئے اُسے اپنے چوڑے چکلے کاندھوں پر ڈال دیا ۔ اب وہ کیبن کا دروازہ کھول کر باہر آگئے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے اور پھر کچھ دور چل کر کوٹھے کی سیڑھیاں اُترتے ہوئے نیچے سڑک پر اپنی کار تک آگئے ۔ انہوں نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور نمرتا کو کار کی پچھلی سیٹ پر ڈال دیا ۔ دروازہ بند کرکے وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھ گئے ۔ انہوں نے گاڈی اسٹارٹ کی اور اب نکلنے ہی والے تھے کہ سُکھن بائی اپنے کارندوں کے ساتھ دوڑتی ہوئی چلی آئی۔ اُس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔
" یہ نواب صاحب، لڑکی کو کہاں لے جارہے ہیں آپ ؟" سُکھن بائی چیخنے چلانے لگی ۔
" لڑکی بے ہوش ہے ۔ اسپتال لے جارہا ہوں ۔
" ایسے کیسے لے جاسکتے ہیں نواب صاحب۔؟" سُکھن بائی چیخی ۔
" گھبراو نہیں ، لڑکی کی پوری قیمت ادا کروں گا ۔ "
کہتے ہوئے نواب صاحب نے زوں کی آواز کے ساتھ گاڈی نکال دی اور گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھنے لگی ۔ اچانک گاڑی کی رفتار تیز ہوئی اور گاڑی اپنی پوری رفتار سے دوڑنے لگی ۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ اسپتال پہنچے اور نمرتا کو طبعی عملے کی مدد سے اسپتال میں بھرتی کرایا گیا ۔ اب وہ ایک وارڈ میں بیڈ پر لیٹی ہوئی گہری گہری سانسیں لے رہی تھی اور قریب ہی بیٹھی ایک نرس اُس کی نگہداشت کر رہی تھی ۔ تھوڈی دیر بعد اُسے ہوش آیا تو وہ چونکتی ہوئی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
" میں کہاں ہوں ۔" وہ سیدھی ہوتی ہوئی بولی اور ادھر اُدھر دیکھنے لگی ۔ " یہ تو اسپتال ہے ۔" وہ بڑبڑائی اور حیران نظروں سے ادھر اُدھر دیکھنے لگی ۔
" گھبراؤ نہیں ۔ اب تم ٹھیک ہو" پاس بیٹھی ایک نرس نے اُسے مخاطب ہو کر کہا ۔ " تم بیہوش تھیں اور آپ کے بابو جی آپ کو ادھر لائے تھے۔"
" میرے ۔۔۔ ب ۔۔۔ ا ۔۔۔ بو ۔۔۔۔۔ جی ۔ مگر …… ۔" وہ کچھ پریشان سی ہوئی اور ادھر اُدھر دیکھتی رہی ۔ " ٹھہریے میں انہیں بھیجتی ہوں ۔" نرس کہتی ہوئی اُٹھ کر چلی گئی۔
تھوڑی ہی دیر بعد نواب الدین نواب آتے ہوئے دکھائی دیئے اور بیڈ کے قریب آکر ایستادہ ہوئے ۔ اچانک نمرتا پھر گھبرا گئی ۔ اُسے سب کچھ یاد آگیا ۔ "میں ۔۔۔۔ میں کوٹھے پر تھی نا ۔۔۔؟ " وہ حیران اور استفہامیہ نظروں سے نواب صاحب کی طرف دیکھنے لگی ۔ " اور سسٹر تو کہہ رہی تھی کہ میرے بابو جی مجھے یہاں لے کر آئے ہیں ۔ مگر میرے بابو جی کا سورگباش تو ڈیڑھ سال قبل ہوا ہے ۔"
" آپ گھبرائیے مت ۔ آپ کوٹھے پر بیہوش ہوئی تھیں اور میں آپ کو یہاں لے کر آیا تھا۔ اب آپ آزاد ہیں اور تھوڑی دیر بعد اپنے بابو جی کے گھر جانے والی ہیں ۔" نواب صاحب کہتے ہوئے اُس کے قریب آکر بیٹھ گئے .
" باب ۔۔۔۔ بو ۔۔۔۔۔جی ۔۔۔۔۔ کے گھر ۔" وہ کچھ حیران سی ہوگئی ۔
" مگر ۔۔۔۔۔ بابو جی۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔ ۔" وہ استفہامیہ نگاہوں سے حیران و پریشان نواب صاحب کی طرف دیکھتی رہی ۔جبھی نواب الدین نواب کے لبوں پر ایک فاتحانہ مُسکراہٹ دوڑ گئی ۔
" اری پگلی ، تمہارے بابو جی تو تمہارے سامنے کھڑے ہیں ۔ یہ دیکھو تمہارے بابو جی کی شکل مجھ سے کتنی ملتی جُلتی ہے ۔" کہتے ہوئے نواب صاحب نے جیب سے نمرتا کے بابو جی کی تصویر نکال کر اُسے تھما دی ۔ " تم نے تو میری آنکھیں کھول دیں بیٹی ۔ آج سے میں ہی تمہارا بابو جی ہوں۔" کہتے ہوئے نواب صاحب کی آنکھیں نیچے جھُک گئیں اور ان میں سے آنسو چھلک کر آئے ۔ نمرتا تصویر کو تھوڑی دیر دیکھتی رہی ،پھر اچانک نواب صاحب کی طرف ٹُکر ٹُکر دیکھنے لگی ۔ پھر تصویر کو غور سے دیکھا اور پھر نواب صاحب کو اک ٹک دیکھنے لگی ۔ اچانک وہ زور سے چیخی " بابو ۔۔۔۔ جی ۔۔۔ ی ۔۔۔۔۔ی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔" اور بے تحاشا نواب صاحب سے لپٹ پڑی ۔ وہ زار و قطار رونے لگی ۔ نواب صاحب نے شفقت سے نمرتا کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور اُس کا سر سہلانے لگے " میری بچی ۔ تم نے میری آنکھیں کھول دیں۔" وہ جذباتی ہوکر بولے ۔ اُن کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک دھار سی نکل گئی ۔ جبھی نمرتا پھر چیخی " با ۔۔۔۔۔ بو ۔۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔ ی ۔۔۔۔۔۔ ی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔" اور نواب صاحب کے ساتھ زور سے لپٹتی ہوئی زارو قطار رونے لگی ۔ بابو جی ۔۔۔۔۔ بابوجی ۔۔۔ بابوجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...