(Last Updated On: )
صبح کی سیر ایک لت ہے ۔ اگر یہ لگ جائے تو چھٹتی نہیں ۔ میں کئی سالوں سے سیر کرنے کا عادی ہوں لیکن جب سے شوگر نے مجھے جکڑا میں سیر کرنے کا زیادہ رسیا ہو گیا تھا۔
میرا صبح جاگنے کا وقت میری چال اور اِس کا رِدھم ایک خاص طریقے سے سیٹ ہو گئے تھے ۔ تمام راستے درخت، موڑ اور اونچ نیچ میرے قدموں کو ازبر ہو چکے تھے۔ کئی درختوں سے میرا روزانہ مکالمہ بھی ہوتا تھا ۔ بہار کے دنوں میں کچھ درخت نئے پتے نکالتے جن کا رنگ پہلے گلابی سا ہوتا پھر وہ زردی مائل سبز ہوتے اور بعد میں سرسبز اور نوجوان نظر آنے لگتے ۔ ان میں ایک عجیب سی کوملتا اور ملائمت ہوتی جس کو میں چھُو کر محسوس کرتا اور جذب کرتا۔راستے میں کونو کے کُچھ بُوٹے جو اب درخت بن چکے تھے میری اُن سے گہری دوستی تھی جب ان کو لگایا گیا تھا تو ایک رات کو شدید طوفان آنے کی وجہ سے یہ جڑوں سے اکھڑ گئے ۔ میں نے ایک ایک کو سیدھا کر کے کھڑا کیا تھا اور دوبارہ ان کو زمین میں گاڑ کر اوپر سے گیلی مٹی ڈال کر اچھی طرح دبایا تھااور وہ سیدھے ایستادہ ہو گئے تھے۔اب میں روزانہ ان سے کلام کر کے آگے جاتا اور وہ بھی شکر گزاری سے جھومنے لگتے تھے۔
باغ کے مین گیٹ سے داخل ہوتے ہی لوگوں سے سلام دُعا شروع ہو جاتی ۔ کچھ کلاک وائیز چکر لگاتے تھے اور کچھ اینٹی کلاک وائیز۔سب سے پہلے ایک لمبے تڑنگے نوکیلی مونچھوں اور ملگجی فرنچ کٹ داڑھی والے کپتان صاحب سے ملاقات ہوتی تھی اُن کی شخصیت بارعب تھی، کالے ٹریک سوٹ کے بازوؤں اور ٹانگوں پر لمبی سنہری دھاریاں تھیں جو چلتے میں عجیب سی لہریں لیتی تھیں۔ شرٹ کے پیچھے بحری جہاز کے سٹیرنگ کا لوگو بنا ہوا تھا۔
میرا دِل کرتا کہ میں اُن سے بات کروں ۔ان کے بچھڑے ہوئے جہاز کا پتہ پوچھوں ۔ لیکن سمندری زندگی کے متعلق جاننے کا میرا شوق ادھورا رہ جاتا کیونکہ میرا ڈیڑھ قدم اُن کے ایک قدم کے برابر تھا۔ مجھ سے یہ فاصلہ ٹاپا نہ جاتا اور وہ خلاؤں میں گھُورتے ہوئے آگے نکل جاتے۔ بہت زیادہ دل فریب موسم اور نظارہ اُن کے رویے پر اثر انداز نہ ہوتا تھا ۔ وہ اپنے کسی گم گشتہ دور میں کھوئے چلتے جاتے۔تھوڑا آگے جا کر ایک پانچ رُکنی بھاری بھرکم لوگوں کا وفد مِلتا جس کا مرکزی کردار روشن چہرے والا ایک شخص تھا جس کا سلام لینے اور سلام کا جواب دینے کا انداز اتنا زور دار اور وارفتگی سے بھرا تھا کہ ہر بندہ اس سے سلام لینے میں پہل کرتا اور پھر اِس کے جواب کا مزہ لیتا وہ جواب میں اس زور سے وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ کہتا کہ فضا میں ارتعاش پیدا ہو جاتا جس کو دور تک محسوس کیا اور سنا جا سکتا تھا۔ باغ کے دوسرے سرے پر چلنے والے لوگوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ پھیل جاتی تھی۔ کچھ لوگ کار کی چابی ہاتھ میں لٹکا کر چکر لگاتے تھے۔
کچھ خواتین سیر کرنے کے لیے بھی میک اپ کر کے آتی تھیں ۔ ایک محترمہ جن کے ابرو ہمیشہ کمان کی طرح تنے ہوتے اُن کے ہاتھ میں ایک سیاہ منکوں والی تسبیح ہوتی جسے وہ چلاتی رہتیں اور منکے گراتی رہتیں۔جب کوئی بندہ اُن کے پاس سے گزرنے لگتا تو وہ تسبیح والا ہاتھ آگے کو نکال کر ایک حدِ فاصل بناتیں پھر اُن کا ہاتھ تیزی سے منکے گرانے لگتا۔ ایک جوڑا ایک ہی رنگ کا ٹریک سوٹ پہن کر آتا ۔محترمہ دو قدم آگے چلتیں اور میاں صاحب پیچھے پیچھے فدویانہ انداز میں چلتے جاتے۔ بوہڑ کے دو بڑے درختوں کی محراب کے نیچے کونے میں ایک چوپال جمتی تھی۔ جس میں چار بابے اور ایک بابی جو محلے کی لیڈی کونسلر تھی ، براجمان ہوتے۔ ایک مولانا جو اپنی داڑھی کو حنا سے رنگ کے آتے تھے اُن کی شلوار ٹخنوں سے اوپر ہوتی تھی۔ اُن کی ٹانگیں بند بریکٹ جیسی تھیں۔ ایک ٹانگ میں کچھ لنگڑاہٹ تھی ۔ ہر قدم پر ایک جھٹکا سا لیتے وہ اس چوپال کے منتظم تھے۔ اس چوپال میں قہقہوں اور لطیفوں کی بھرمار ہوتی ۔ اماں وڈھی اپنے تبصروں اور چُٹکلوں سے ان بابوں کی خفی خواہشات اور تشنہ کام آرزوؤں کو اپنی بے باکی کا پنکھا جھلتی رہتی جس سے اُن کے جذبات اور بھڑکتے رہتے۔
ایک دیوقامت برقعہ پوش خاتون چلتے وقت اپنے بازوؤں کو پنکھے کی طرح چلاتی تھیں۔ا ُن کے پاس سے بہت بچ کر نکلنا پڑتا تھا۔
ذرا آگے ٹریک کا نصف دائرہ مکمل ہوتا تھا ۔یہاں پر دوسرا گیٹ تھا ۔ بہت لوگ اور شہر کے اُمراء اِدھر سے ہی آتے جاتے تھے۔ اس گیٹ کے پاس ایک مجمع لگا رہتا تھا ۔ مجمعے کے درمیان میں ایک منحنی اور کمزور جسم والا بابا ایک پلاسٹک کی کرسی پر براجمان ہوتا تھا۔ عورتیں ، مرد اور بچے بڑے ادب سے دونوں ہاتھ اُس کی طرف بڑھاتے اور وہ اُن کے ہاتھوں میں ٹافی دے دیتا۔
میں کافی دیر سے یہ پرشاد بٹتے دیکھ رہا تھا ۔ادھیڑ عمر کی عورتیں خاص طور پر بابا سے ہنسی ٹھٹھا کرتیں اور ٹافی بھی لیتیں ۔جب کوئی اسرار کرتی کہ میں آج دولوں گی، باباڈانٹتا مرجانی ایں ، وہ آگے سے کہتی میں کیوں مروں بابا، تم مرو۔ بابے میں میری دل چسپی کافی بڑھ گئی۔ ایک دن میں جلدی آ گیا ۔ بابا ٹافی کے پاس ابھی رش نہ ہوا تھا ۔چند لوگ بابے کے پاس کھڑے تھے ۔ میں نے غور سے دیکھا بابا کے کپڑے گھِس کر رنگ بدل چکے تھے ۔ کالر کی نوکوں سے بکرم اور توتڑے باہر آ گئے تھے ۔ ایک بہت پرانا اور فرسودہ ریکسین کا بیگ بابا کی جھولی میں دھرا تھا ۔ اس کی زپ کب کی ٹوٹ چکی تھی ۔کہیں کہیں پلاسٹک کے کچھ دندانے باقی رہ گئے تھے۔ بہت زیادہ استعمال سے اُس کے اوپرکا پلاسٹک اُتر گیا تھا اور نیچے سے سوتی کپڑا نکل آیا تھا۔میں نے آگے بڑھ کر بابا سے ہاتھ ملایا ۔ اُس کے ٹھنڈے استخوانی ہاتھ میں گوشت نام کو نہ تھا۔ اُس نے میرے ہاتھ میں ٹافی دے کر ہاتھ کو چھڑا لیا۔
میں نے غور سے دیکھا تو بابا کے نیچے والی کُرسی کی پچھلی دونوں ٹانگیں موجودنہ تھیں بلکہ اُن کی جگہ دو موٹی ٹہنیوں کو رسی سے باندھ کر کرسی کو اُن پر کھڑا کیا گیا تھا ۔ میں مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔آگے صابر پہلوان سے سلام کا تبادلہ ہُوا۔ اس کا کام بڑے لوگوں اور شہر میں نئے آنے والے افسروں کو اپنی اردل میں سیر کروانا تھا۔اُس کو عورتوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سننے کا بھی چسکا تھا ۔ کوئی دو تین عورتیں باتیں کرتی چل رہی ہوتیں تو وہ کسی میزائل کی طرح اُن کے پیچھے ہو لیتا، وہ بے چاری تیزی سے چلنے لگتیں کہ اس ناگہانی مصیبت سے جان چھُڑائیں ۔ وہ بھی تیز ہو جاتا اگر وہ سُست رفتار ہوتیں تو وہ بھی سُست ہو جاتا۔ یہاں بہت سے لوگ ڈاکٹر کی ہدایت پر سیر کرنے آتے تھے۔ ایسے کم تھے جو ڈاکٹروں سے بچنے کے لیے آتے تھے۔ گرمیوں کا آغاز تھا ۔ شرینہہ کے درخت چینی سجاوٹی لالٹینوں سے اٹ گئے تھے۔ ہوا چلنے سے وہ جھولنے اور جھومنے لگتی تھیں۔ آگے ایک جوڑا جا رہا تھا ۔ ہینڈ فری کا ایک پیس عورت نے دائیں کان میں اور دوسرا مرد نے بائیں کان میں دبا رکھا تھا۔ دونوں قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے تھیے۔ میں ان کا رِدھم دیکھنے کے لیے ان کے پیچھے ہو لیا۔ عورت کے نتھنوں کے نیچے گہرا ٹائی نما گڑھا تھا۔ اس کے آخری سرے پر جہاں سے ہونٹ شروع ہوتا ہے وہاں ایک نارنجی رنگ کا موٹا تِل تھا۔ چلتے ہوئے سورج کی رو پہلی کرن اُس پر پڑتی تو وہ رنگ بدل لیتا۔
ایک دِن میں اور بابا اتفاق سے بیک وقت باغ میں داخل ہوئے۔ بابا اپنی پُرانی بدہیئت سائیکل پر جھُولتے ہوئے آ رہا تھا ۔ گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے ادب سے سر کو خم کیا اور بڑاگیٹ کھول دیا۔ جیسے ٹال پلازہ سے ای ٹیگE-Tagوالی کارزن سے گزرتی ہے۔ ایسے ہی بابا کی سائیکل بلا روک ٹوک نکلتی چلی گئی ۔یہ سائیکل مرزا کی بائیسکل کے قبیل کی تھی۔ مڈگارڈ ہل رہے تھے ۔کئی طرح کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اگلے ٹائر میں گومڑ تھا جس سے ہر چکر پر سائیکل جھٹکا لیتی اور مڈگارڈ کپکپاتا ۔ بابا پیدل چلنے والے لوگوں کے پاس سے نکلتا چلا گیا۔ ہر کوئی احترام سے اُسے راستہ دیتا ۔نصف چکر پُورا کر کے جب میں بابا کے پاس پہنچا تو وہ اپنا سنگھاسن سجا کر بیٹھ گیا تھا۔ اِکا دُکا لوگ اُس سے ٹافیاں لے کر آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ میں اُس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور سر کی جنبش سے اُسے سلام کیا۔ اُس نے میرے ہاتھ میں ایک ٹافی تھما دی۔
اتنے میں ایک موٹی عورت جس نے کافی زیور پہن رکھا تھا بابے سے سلام دُعا کرنے لگی۔ بابے نے حسبِ عادت کہا ، مرجانی ایں اتنے دن کہاں رہی۔وہ ترُنت بولی میں کیوں مراں، توں مر۔ بابے نے اُسے بھی ایک ٹافی تھما دی۔ میں آگے روانہ ہو گیا۔ میرے پاس بہت سی ٹافیاں جمع ہو گئی تھیں جنھیں میں ایک لکڑی کے ڈبے میں سینت کر رکھ دیتا تھا۔ شوگر کی وجہ سے میں یہ ٹافیاں صبح صبح نہ کھایا کرتا تھا۔ پھر کاروبار کے سلسلے میں مجھے چند ماہ کے لیے بیرونِ ملک جانا پڑا۔ واپسی پر چند روز زندگی کو معمول پر آنے میں لگ گئے۔
صبح کو میں نے اپنے بوٹ نکالے اور سیر کے لیے روانہ ہو گیا ۔ راستہ وہی تھا لیکن کچھ چیزیں بالکل نئی تھیں ۔کچھ عمارتیں جیسے زمین سے اُگ آئی تھیں۔ کئی درخت موسم کی شدت کی وجہ سے بدلے بدلے نظر آ رہے تھے ۔ میں باغ میں داخل ہوا تو سنبل کے بڑے درخت سے پرے لوہے کے جنگلے کے ساتھ وہ تسبیح والی عورت کھڑی تھی۔ جنگلے کی چوکور سلاخوں پر کہیں کالا روغن اور کہیں زنگ کے ذرات گٹھولیوں کی شکل میں اُبھر آئے تھے۔ اُس کے چہرے پر عجیب شکتی تھی ۔ میں اُس کے قریب گیا تو اُس کا گیان قائم رہا۔ وہ قبلہ رو کھڑی تھی ۔لمبی سیاہ تسبیح دونوں انگوٹھوں میں ڈال کر انگوٹھے چھاتی کے دونوں مراکز میں گڑو رکھے تھے۔تسبیح کی بنتی ہوئی تکون بڑھے ہوئے پیٹ پر ہاف تک آ گئی تھی اور سانس کی رفتار سے ہل رہی تھی۔ میرے تصور میں سوئمبر کا کوئی قدیم اکھاڑہ ابھر آیا ۔ جہاں وہ اپنے کسی خیالی اور پسندیدہ ہیرو کو بر مالا پہنانے جا رہی ہو۔ آگے ایک درخت نظر آیا جس کا سارا تنا کانٹوں سے بھرا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے وہ فقیر یاد آ گیا جس کا سارا جسم موہکوں سے بھرا تھا۔ اس درخت کی ساری شاخیں بڑے بڑے گلابی پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ وہ کسی پُرانے مصور کی تخیلاتی تصویر لگتا تھا۔ جب میں نصف چکر پورا کر کے بابا ٹافی والی جگہ پہنچا تو وہاں معمول سے بھی زیادہ بڑا مجمع تھا۔ لوگ گہری خاموشی اور جڑت کے ساتھ کھڑے تھے، ایک دوسرے سے پیوستہ ہو کر ۔میں اور آگے بڑھا ، لوگوں کے چہروں پر ملال اور رویوں میں افسردگی تھی ۔ تھوڑا زور لگا کر میں مجمعے کے اندر داخل ہو گیا تو عجیب منظر تھا۔ بابے کی جگہ پر ایک دس سالہ بچہ بیٹھا تھا جس کے نیچے پلاسٹک کی نئی کرسی تھی۔اُس کے کپڑے نئے تھے ، اُس کی جھولی میں نیا چمکتا ہوا بیگ دھرا تھا جس میں سے کتنی ٹافیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ عورتیں آہیں اور سِسکیاں لیتے ہوئے نمناک آنکھوں سے اس کے سر اور کندھوں پر ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ کوئی بھی اُس سے ٹافی نہ لے رہا تھا ۔ یک دم میرے اندر چھناکا ہوا اور میں نے اِدھر اِدھر استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ میرے پاس کھڑے ایک شناسا نے میرے قریب ہو کر بتایا یہ بابا جی کا پوتا ہے اور بابا نے اپنے بچوں کو وصیت کی تھی کہ میرے بعد یہ کام جاری رکھا جائے
میں نے خود کو مجمع سے باہر نکال لیا۔ میں بے خیالی سے بھاری قدموں چلتا گھر پہنچا اور لکڑی کے ڈبے سے ساری ٹافیاں نکال کر ان کو جھولی میں ڈالا ، پھر اُن کو ہتھیلیوں میں دبا کر آنسو بھری آنکھوں سے’بابا ٹافی‘ کا Bionic Chargeحاصل کرنے لگا۔
****
فرید احمد
فرید احمد