شب زفاف آئی اور رخصت ہو گئی ۔اسے یوں لگا گویا چاند بجھ گیا۔وہ آیا ، اسے بھنبھوڑ کر دوسری کروٹ سو بھی گیا اور وہ تکیہ بھگوتی اپنے ان دنوں کو یاد کرتی رہی کہ جب کالج میں شکیل نے کس قدر محبت سے اسے لال گلاب دیا تھا لیکن اس نے اس کی قدر نہ کی۔اسے گلی کے نکڑ پر کھڑا شہباز یاد آیا کہ جس کی نگاہیں اس کے گھر کی سیڑھی پر گڑھی رہتی تھیں کہ کب وہ باہر آئے یا اس کی ایک جھلک ہی دکھائی دے۔اسے فاروق کی یاد آئی جو کالج میں اس کا سنیئر تھا اور نوٹس کے بہانے سے ہی اس کی کاپی میں رومانی اشعار لکھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا ۔ساری یادیں قصہءبارینہ بن چکی تھیں ۔
وہ اجڑی اجڑی اپنی عزیز از جان بہن کو یاد کر رہی تھی کہ کم از کم ایک بار اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ تو لیتی لیکن اس کی یہ سوچ تھی کہ چچا چچی کبھی اس کا برا کیوں سوچیں گے۔اتنے ناز سے اسے گود لے کر بڑا کیا تھا اور شادی وہی ہے دو اجنبی انسانوں کا میل اور پھر بچے۔اب یہاں چچا کیوں اتنے امیر و کبیر گھرانے کے لئے انکار کریں گے! بہ ظاہر اسے یہی خوشی تھی کہ وہ احتشام وِلا کی دہلیز پار کرے گی ۔کس قدر خوش نصیبی ہے کہ اب اسے جو وہ چاہے گی ، ملے گا۔
بہن نے کتنا ہی سمجھایا کہ صرف دروازے کی دراز سے ہی سہی ایک بار اسے دیکھ لے، جس کے نام اپنی زندگی منسوب کر رہی ہے پر اس نے مسکرا کر انکار کر دیا۔فنکشن ہآل میں بھی چہ میگوئیاں اس کی سماعت پر عجیب احساس پیدا کر رہی تھیں ۔دلہن دولہا جب اسٹیج کی زینت بنے تب کھل کر کچھ خواتین نے جوڑ نہ ملنے کی باتیں کیں مگر جب تک وقت گزر چکا تھا اور اس نے زندگی کے صاف ستھرے کاغذ پر اس کے نام کی مہر کو دو لفظوں میں قبول کر لیا تھا۔
کمرے میں گلابوں کی بھینی بھینی خوشبو نے اسے دو آتشہ حسن سے نواز دیا تھا ۔عاطف اپنے سوٹ میں مکمل دولہا تھا۔بہنیں ,بھابیاں نیگ اُتار رہی تھیں لیکن اسے یہ خوف کہ کہیں دلہن کی نظر اس کے منھ سے باہر آئے دانتوں پر نہ پڑے اس لئے منھ دکھائی کی خوبصورت انگوٹھی پہنا کر جلد از جلد فارغ ہو گیا۔نہ ہی دل جوئی ہوئی نہ ہی پیار و محبت کے وعدے ہوئے اور یوں ساری حسرتیں آرزو بن کر دل کے سنہری پنجرے میں پھڑھڑانے لگیں کہ اس قید بامشقت کو رومانہ نے خود قبول کیا تھا۔اس کی زندگی سے رومان شاید کہیں روٹھ گیا تھا۔
دوسری صبح اس کی جٹھانیوں نے خوب آؤ بھگت کی۔ساس واری جانے لگی پر جب دل کی کلی مرجھا جائے تب حیاتِ چند روز کی بساط پر ، دوبارہ سانسیں لینے والے مہرے پِٹ جاتے ہیں ۔چوتھی کے جوڑے پر بھی اس قبول صورت کا حسن آئینے کا گواہ بنا پر عاطف کی زبان اس کی خوبصورتی کے گن گا نہ سکی۔شب و روز کی کشتی سمندر میں ہچکولے کھاتی رہی اور وہ ڈوب ڈوب کر بھنور سے کسی طرح نکلتی رہی۔
کئ بار اس نے ہمت مجتمع کر عاطف کی شکل کی طرف دیکھا ۔آگے کے دو بڑے بڑے دانت خواب میں بھی اس کا پیچھا کرتے رہے۔دبے لفظوں میں اپنی سب سے چھوٹی جیٹھانی کو عاطف کو ڈئنٹسٹ سے رجوع کرنے کی بات بھی کی لیکن ساس سسر کے دبدبے نے منھ کھولنے کی اجازت نہ دی۔احتشام وِلا میں احکام احتشام صاحب یا ان کے بڑے صاحب زادے کے جاری ہوتے۔ساس جو کہ سسر کی دوسری بیوی تھیں اور بڑی جٹھانی ان احکامات پر عمل در آمد ہوتیں یوں احتشام وِلا پر زخرف القول کا جادو چڑھا ہوا تھا۔
آخر ایک دن کسی طرح اس نے عاطف سے اپنے دل کی بات کہہ دی ۔
” تم مجھ سے کبھی اچھی طرح بات کیوں نہیں کرتے؟ ”
” کیسے بات کروں ؟ مجھ میں تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں۔ ” سر جھکائے وہ گویا ہوا۔
” کیوں آخر ایسی کیا بات ہے؟ ” جانتے بوجھتے رومانہ نے سوال کیا۔
” جیسے تم جانتی نہیں ۔” ہولے سے وہ بولا
” میرے یہ دانت میرے ازلی دشمن ہیں۔”
” یہ بھی کوئی بات ہوئی ۔۔آسان ہے ۔چل کر ڈینٹسٹ سے بات کرتے ہیں۔آج کے دور میں یہ کوئی اتنی معیوب بات بھی نہیں ۔بس بریسس Braces لگوا لینا۔دھیرے دھیرے اندر چلے جائیں گے۔وقت لگے گا پر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے ان دانتوں کے بارے میں پہلے ہی پڑھ لیا ہے اسے ” بک ٹیتھ buck teeth ” کہتے ہیں۔اگر یہ مشکل لگتا ہو تو نکلوا دیجئے۔آج کل مصنوعی دانت ایسے لگا دیئے جاتے ہیں جن پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔”
” اوہ! تو مجھ سے پہلے میری بنّو ریسرچ کر چکی ہے۔” پہلی بار اس نے مسکرا کر کہا اور وہاں رومانہ کے گال چناروں سے تمتمانے لگے۔
وہیں عاطف کے دل نے سرگوشی کی
” محبت اعزاز میں ملتی ہے بھیک میں نہیں ۔”
پھر یوں ہوا کہ آسمان اور زمین باہم مل گئے اور افق کی لکیرنے شب و روز کے فاصلوں کو سمیٹ دیا۔
رومانہ نے سرگوشی کرتے ہوئے اپنی بات رکھی
” ہاں میں نے پڑھا تھا کہ بچپن میں جب بچے انگوٹھا منھ میں رکھے رہتے ہیں یا جب دانت نکلنے پر بھی انگوٹھا لینا نہیں چھوڑتے یا جب دانت نکلنے پر دانتوں کو زبان لگاتے رہتے ہیں تب دانت اس طرح کے ہوجاتے ہیں۔ایسے وقتوں میں گھر کے بزرگ کی بار بار تنبیہہ انھیں اس فعل سے روکنے کی یاد دہانی کرواتی رہتی ہے۔ کیا آپ کو روکا نہیں جاتا تھا؟ ”
” چھوڑو ان باتوں کو۔اتنے دنوں کے بعد سرشاری کے لمحوں میں مجھے ڈوبا ہی رہنے دو۔مجھے اب کسی بات کی فکر نہیں۔”
” تمہیں نہ ہو مجھے تو ہے۔” اس نے اپنا مدعا رکھا۔ ” لوگ نہ جانے کیا کیا باتیں بناتے رہتے ہیں۔”
” ہاں! جانتا ہوں ۔چھوڑو ان باتوں کو، مجھے اب کوئی فکر نہیں کہ اب جانِ من نے مجھے اپنے من میں بسا لیا ہے۔”
” شروع دن سے ہی آپ میرے من کے سنگھاسن پر راج کر رہے ہیں, یہ آج کوئی نئی بات تو نہیں۔”
” پھر بتائیے کہ ان دانتوں پر کام کیوں نہیں کیا۔کیا یہ آپ کو اچھے لگتے ہیں ؟ اگر آپ کو پسند ہے تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ۔”
” اوہ! کیا بات ہے! یہ ہوتی ہے مشرقی بیوی کہ شوہر کی راضی پر راضی۔چلو آج بتاتا ہوں کہ ماضی کیا تھا! ”
” میں بھی ہمہ تن گوش ہوں فرمائیے ۔”
” وہ ہوا یوں تھا کہ میری امی ابو کی دوسری بیگم ہیں۔اب لمبے عرصے کے بعد میری پیدائش ہوئی تو ہر طرح سے میرے نازو نخرے اٹھائے جاتے رہے۔پھر ایک دن بیمار ہوا, بخار تھا کہ کچھ وقت کے لئے اُترتا اور پھر چڑھ جاتا۔ڈاکٹر, حکیم سبھی سے رابطہ کیا لیکن بات جہاں تھی وہی بنی رہی۔اب امی کے ٹوٹکے جو ان کے گاؤں کی خواتین نے بتائے تھے وہ شروع کئے۔کسی طرح بخار اُترا لیکن امی کے دل میں بات رہ گئی. انھوں نے منت مان لی کہ وہ مجھے دس برس تک مانگے کے کپڑے پہنائیں گی۔وہ گھر گھر جا کر کپڑے مانگ کر لاتیں۔زمین دار کی بیگم اس طرح کپڑے مانگنے جائے, خواتین کو اچھا نہیں لگتا اور وہ لاکر دے دیتیں تب بھی وہ نہ لیتیں بلکہ کہتیں کہ میں میرے راجو کے لئے تمہارے بچوں کی اُترن، مانگے کے کپڑے لینے خود آؤں گی۔جاؤ تم لوگ۔”
“اچھا! ایسی منت تو میں نے پہلی بار سنی لیکن اس سے دانتوں کا کیا تعلق ؟” اپنے چہرے پر آئی لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے اس نے کہا۔
” تعلق ہے۔پہلے سنو تو! پھر یہ ہوا کہ میرے ناز برادریاں بہت ہو گئیں۔انگوٹھا میرے منھ سے نکلتا اور رونا شروع ہو جاتا۔پھر اماں رونے نہیں دیتیں۔ایک ہاتھ کا انگوٹھا منھ میں دوسرے ہاتھ میں اماں کی اوڑھنی ۔دانت نکلنے لگے تب زبان لگا لگا کر یہ اور آگے آنے لگے۔دودھ کے دانت ٹوٹے لیکن بچپن کی عادت ساتھ ہی رہی۔اسکول جانے لگا تب بھی انگوٹھا منھ میں رہتا۔ٹیچرس کی تنبیہہ کے باوجود وہی کرتا جو میرا دل چاہتا کچھ شعور آیا اور دوستوں کے مذاق اڑانے پر انگوٹھے سے نجات مل ہی گئ پر جب تک پرمنٹ دانت آگےآ کر میرا حلیہ بگاڑ چکے تھے. ”
” جب دوستوں نے مذاق اُڑایا تب آپ نے اماں کو نہیں بتایا؟ ”
” ہاں! بتایا نا ۔پر اب اماں کا مانگے کی اُترن کی منت راستے میں آئی اور کہہ دیا کہ میرا بیٹا جیسا ہے ویسے ہی رہے گا۔ آگے نکلے دانتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مرد بچہ ہے, امیر و کبیر خاندان کا چشم چراغ ۔آگے کوئی مشکل نہ ہوگی۔مجھے کالج جانے پر بھی دوستوں نے” بڑ دتتا ” کہہ کر طعنے دئیے پر میری نئی کار نے سبھی کے منھ بند کروادئیے۔”
” ابا نے بھی کچھ نہ کہا” تعجب سے وہ گویا ہوئی۔
” نہیں! وہ اور بڑے بھیا زمین کے چکروں میں پھنسے پڑے تھے۔کبھی کورٹ کے چکر کبھی زمینوں کے تو کبھی کاشت کے۔خیر جانے دو۔اب یہ کرتے ہیں کہ تم ٍڈینٹسٹ سے اپائنٹمنٹ لے لینا۔پھر سوچتے ہیں کیا کیا جائے! ”
اور دونوں کی محبتیں دانتوں سے پرے کسی زمینی جنت کی تلاش میں کھو گئیں ۔
اس نے ڈینٹسٹ سے اپائنٹمنٹ لیا اور ساری باتیں بتائیں۔اس نے بتایا کہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ اگلا اپائنٹمنٹ لے کر جب دونوں واپس لوٹے تب وِلا کے صحن ہی میں جیٹھ نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور دو قدم آگے بڑھے ہی تھے کہ” حور کے پہلو میں لنگور ” عاطف نے رومانہ کا ہاتھ کس کر پکڑ لیا مانو سارا غصہ ہتھیلیوں میں منتقل کر لیا ہو لیکن رومانہ نے وقت کو سمجھتے ہوئے کچھ نہ کہا اور اندر چلی گئی ۔
شب و روز گزرتے رہے ۔اگلے اپائنٹمنٹ پر دانتوں پر کچھ کام ہوا۔گھر میں کسی کو پتا نہیں چلا پر جس دن بریسس لگے گویا آسمان ہل گیا۔رومانہ کو لگا زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔اماں نے جو ہنگامہ کیا کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دی۔
” تم لوگوں کو پتا ہے یہ مان منت کا بچہ ہے، اسے جیسا اللہ نے بنایا ویسے ہی رہنا چاہئے ۔تم کو اس کے آگے کے دانتوں سے اتنا بیر تھا تو شادی ہی کیوں کی تھی؟ ”
اماں جھلاتی, بوکھلاتی یہاں وہاں گھوم رہی تھیں ” آنے دو اِن کو بتاتی ہوں سارا قصہ۔”
جٹھانی نے کچھ ساتھ دیا ” اماں! لیکن اس میں برائی کیا ہے؟ دھیرے دھیرے دانت سیدھے ہو جائیں گے۔”
” اری تمہیں کیا؟ کیا یہ پہلے ہم نہیں کروا سکتے تھے لیکن ہم نے نہ کیا۔منت کے بچے کو اس طرح کرنے سے پیر صاحب نے منع کیا ہے۔ کیا تم جانتی نہیں کہ ان کی کہی بات پتھر کی لکیر ہوتی ہے۔”
رات تو محبتوں کے سائے میں سکون سے بیت گئی لیکن یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی۔صبح ناشتے کی میز پر سبھی کے سامنے اس کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا ہی رہا تھا کہ سسر جی نے ہاتھ اٹھا کر خاموشی کا اشارہ کر دیا۔
” ٹھیک ہے تمہارا لاڈلا مانا کے منت مرادوں کا ہے لیکن بہو نے کچھ غلط تو نہیں کیا ”
” لیکن پیر صاحب!”
” انھیں ہم سمجھا دیں گے۔ ”
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ
” چھوٹی امی! کچھ بھی ہو لیکن آپ نے اس باؤلے کے لئے چودھویں کے چاند کا خوب انتخاب کیا ہے۔” یہ کہتے ہوئے پراٹھا پلیٹ میں ڈالتی رومانہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہیں عاطف نے میز پر مُکّا مارا اور کرسی دھکیل کر رومانہ کا ہاتھ تھاما اور اپنے کمرے کی جانب غصے سے چل دیا۔
آئے دن اس طرح کے کچھ جملے دونوں کا سینہ چھلنی کرتے رہے اور آخر خوش خبری نے طعنوں کی ردا کو کچھ دنوں کے لئے اُتار پھینکا کہ رومانہ کی گود ہری ہونے والی تھی ساتھ عاطف کے دانت بھی کچھ اندر کی جانب جا رہے تھے۔بریسس سے تکلیف تو ہوتی تھی پر اپنی جان کی خوشی کے لئے اسے ہر طرح کی تکلیف منظور تھی۔
لیل و نہار نے کچھ اور پل چُرا لئے اور زندگی کا قافلہ ایک پل رُکے بغیر آگے کوچ کرتا رہا۔اب وہ دو نہیں تین بن چکے تھے ۔گو کہ روزمرہ کے معمولات میں سرمو فرق نہ تھا پھر بھی جیٹھ کے ذومعنی جملوں کی کاٹ رومانہ کے وجود کو چھلنی کرتی رہتی۔جھیل سی ساکن نظر آنے والی کے دل میں مدوجزر اٹھتے رہتے اور وہ اپنے عابد کو دیکھ دیکھ کر پرسکون ہونے کی کوشش کرتی رہی ۔
پھر وہ ایک دن اس کی زندگی کو تہہ و بالا کر گیا جب عاطف اپنے بھائیوں کے ساتھ عدالت کے لئے روانہ ہوا۔ اچانک رومال سے منھ پر آیا پسینہ صاف کیا اور اپنے آگے کے دانتوں میں اسے پکڑ لیا اس دوران ایکسلیٹر پر دباؤ زیادہ ہوا سامنے درخت تھا اور گاڑی بری طرح ٹکرا گئی ۔آگے بیٹھے دونوں سوار بری طرح زخمی ہوئے اور عاطف زخم کی تاب نہ لا کر دوسرے دیس کا باسی بن گیا۔رومال دانتوں ہی میں پھنسا رہ گیا۔
گھر میں کہرام مچ گیا۔رومانہ بس ٹک ٹک دیوار کو دیکھے جا رہی تھی۔وہ ہوش میں ہی کہاں تھی!!! کہ بچے کے رونے سے کچھ حواس لوٹے ۔ اب ماں اور بیٹے کا ماتم ساتھ ہی ہونے لگا کہ ساس نے داغا
” یہ منحوس بچہ ہے! اس کے آنے سے میرا بیٹا مجھ سے جدا ہوا اور یہ۔۔یہ عورت! میرے بیٹے کو مارنے میں آگے آگے رہی۔ان دانتوں نے ہی اسے موت کے گھاٹ اُتارا۔پیر صاحب نے منع کیا تھا لیکن یہ نہ مانی۔دیکھا اپنی ضد کا نتیجہ! کیا بچا اب ۔۔کچھ بھی نہیں ۔کیا کرے گی اب؟ کیسے گزارے گی اپنی راتیں؟ بتا؟؟” اور وہ بے تاب ہوگئیں ۔
رومانہ کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا اور وہ مسلسل انہی سوالوں کو سن سن کر ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی ۔
” اماں! وہ اتنی ہی زندگی لے کر آیا تھا،اس میں ان دونوں کو کیوں الزام لگا رہی ہیں ۔ان کی حالت تو دیکھئے اور اس طرح بار بار طعنے دینے سے کیا جانے والا واپس آئے گا یا تقدیر بدل جائے گی! اماں! اس طرح سینہ کوٹ کوٹ کر اسے بددعائیں نہ دیں۔کونسا سکھ وہ لکھا لائی ہے۔” جٹھانی نے روتے ہوئے کہا۔
جنازہ اٹھاتے وقت بھی اسے ہوش نہ تھا کہ اوڑھنی کہاں ہے ! گھر کی ملازمہ نے سفاک نظروں کی تپش کو محسوس کیا اور دوپٹہ اس کے سینے پر برابر کیا پر وہ تو جنازے کے ساتھ دوڑی چلی جا رہی تھی! اوڑھنی پیروں تلے روندھتی چلی جا رہی تھی ۔کہاں خیال رکھتی! بڑی مشکلوں سے اسے جٹھانیوں نے پکڑ کر قابو کیا اور وہ سر دھنتے،پیروں کو سُکیڑے بیٹھی رہ گئی ۔کسی طرح اسے اس کے بیڈ روم میں لایا گیا پر بیڈروم تو اس سے روٹھ گیا تھا ۔ابھی تو عاطف کے لگائے پرفیوم کی خوشبو بھی ہوا میں تحلیل نہ ہوئی تھی۔ابھی تو وہ اس کے کپڑوں پر استری کر رہی تھی۔۔کیسے مان لے کہ وہ اب یہاں کبھی نہیں آئے گا۔من کو قرار تھا نہ جان میں تاب ہی رہی۔یوں لگا صبر بھی آنسوؤں کے ساتھ رخصت ہو گیا۔
کسی کے جانے سے شب وروز کی گردش تو نہیں رُکتی۔ایسے ہی طعنوں میں وقت سرکا اور عدت بیت گئی ۔پیر صاحب کے حکم پر ثواب کی نیت سے فاتحہ خوانی،یتیموں کو کھانا کھلایا گیا اور گھر کے بیوہ و یتیم کا کوئی پُرسان حال نہ تھا کہ وہ اب کیسے ہیں؟ ان کے غموں کا مداوا کم از کم دلجوئی سے کیا جا سکتا تھا پر دل جوئی، دل کی لگی بن گئی ۔فاتحے کے ختم ہوتے ہی دو جانب سے دو رنگین اوڑھنیاں ہوا میں لہرائیں اور سفید دوپٹے کو رنگ دار کر گئیں ۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ پیر صاحب کی آواز گونجی ” پہلی اوڑھنی کس کی بیوہ پر پڑی؟” اور دو سفاک ہاتھوں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ ” ٹھیک! آصف اب یہ تیرے حرم کی مکین ہوگی۔اس کا نکاح بیوہ کے ساتھ کر دیا جائے گا۔”
” لیکن میری اوڑھنی بھی بروقت اس پر اوڑھائی گئی ۔میں اس سے دست بردار نہیں رہوں گا۔یہ میری ہوگی۔”
” یہ صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ آصف کی بیوی نکاح کی اجازت نہ دے۔” بڑی جٹھانی کے ساتھ چھوٹی بھی کھڑی ہوئی ” ہم دونوں اس کی اجازت نہیں دیتے۔بے شک! یہ ہماری چھوٹی بہن کی طرح ہے۔یہ اگر چاہے تو ایسے ہی کوٹھی کی مکین بن کر رہے جیسے پہلے تھی اور بچہ ہماری جان ہے۔”
” آج دل کو یک گونہ سکون مل رہا تھا کہ یہ آڑے آگئی اور اس نے جٹھانی کےبالوں کو ہاتھ میں جکڑ کر کھینچتے ہوئے کوٹھی کے دروازے کا رخ کیا ” یہاں تیرا حکم نہیں،میرا حکم چلتا ہے۔سمجھی۔گھر میں رہنا ہے تو ماننا ہوگا ورنہ جا ۔” زور سے دھکے سے اسے چوکھٹ پر پھینک دیا گیا۔
” اچھا ! کیا اب اس عمر میں بھی ہم عورتوں کو دار صلیب کے تین پتھروں کے لئے تیار رہنا چاہئے؟ ”
” بھیا! میں ہوں نا! آپ بھابی کو ناراض نہ کریں۔”
” چُپ رہ کمبخت! بڑی مشکل سے موقعہ ہاتھ آیا ہے،تو رخنہ مت ڈال،میں جانتا ہوں تیری نظر بھی شروع دن سے اس پر تھی۔”
” ارے چھوڑو اس کو! اس سے کہیں بہتر تم دونوں کو لا کر دوں گی۔یہ منحوس ہے منحوس! میرے اچھے بھلے بیٹے کو کھا گئی ۔”
وہ سبھی کی باتیں سن رہی تھی۔سوچ رہی تھی کہ یہ وقت دل جوئی کا ہونا چاہئے لیکن یہاں کیا ہو رہا ہے!!! کہ ایک دم وفور محبت سے سرشار ہو کر وہ چینخ اٹھی
” مجھے اُس سے عشق تھا عشق !!!! یہ ہے اور رہے گا۔اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔جانتے ہو عشق محبوب کی روح میں ملنے کا نام ہے۔عشق میں مادی جسم کی ضرورت ہوتی ہی نہیں ۔اس لئے چاہے وہ میرے سامنے ہو یا نہ ہو۔۔میری روح اس کی روح کے ساتھ رہے گی۔ البتہ محبت میں جسم کی طلب ہوتی ہے اور میں اُس سے ماورائی عشق کرتی ہوں! ماورائی عشق!۔۔لذت عشق تم کیا جانو ! محبوب سے دوری اور محبت کی سرشاری کا نام ہی لذتِ عشق ہے۔”
” یہ سب فلسفےہیں جب جسم کو بھوک لگے گی پھر کیا ہوگا؟ کہاں جائے گی؟ تجھے تو خوش ہونا چاہئے کہ تجھے گھر ہی میں سب مل رہا ہے۔لوگ تو اس بھوک کے لئے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں۔” ماں نے سینہ پیٹتے ہوئے اس معاملے پر روتے ہوئے کہا۔
” امی،ابو! میں ہمیشہ سے آپ کی عزت کرتی ہوں اور کرتی رہوں گی لیکن مجھے اتنا ہلکا نہ کریں کہ اپنی ہی نظروں سے گر جاؤں ۔مجھے فقط عزت چاہئے ۔ایک بیٹے کی بیوہ کی عزت! اور مجھے کچھ نہیں چاہئے ۔”
” اچھا! عزت چاہئے! عزت! جب آگے عزت کُھلے گی سب کے سامنے،جب یہاں وہاں جائے گی تب کونسی عزت کی بات ہوگی۔یہ نہیں ہو سکتا کہ تو ایسے ہی اس گھر میں رہے ۔یہاں تجھے ان دونوں سے کسی ایک کا بن کر رہنا ہوگا سمجھی۔”
” ابو مہربانی کیجئے! رحم! رحم! پلیز! یہ فیصلہ مجھے قبول نہیں ۔” دونوں ہاتھوں کو جوڑتے ہوئے اس نے تڑپ کر کہا۔
” پھر میرا فیصلہ بھی سن! یہاں ہماری مرضی چلتی ہے اور چلے گی۔اگر منظور نہیں تو نکل جا اپنے بیٹے کو لے کر اس گھر سے۔چلی جا۔” اور زور دار طمانچے کے ساتھ دروازے کی جانب دھکا دے دیا گیا۔
عین ممکن تھا کہ وہ بچے کے ساتھ گرتی کہ دو مضبوط ماں جائے ہاتھوں نے اسے تھام لیا۔” باجی! آپ کی شادی کے بارے میں چچا چچی سے بہت سنا تھا،ان دنوں میں روزگار کی تلاش میں کینڈا میں تھا۔ان پیروں ،فقیروں کے ساتھ ،جاہلوں کے ساتھ رہنا فضول ہے ۔ پتا نہیں کتنی ہی لڑکیاں ایسی جہالت کے ہتھے چڑھتی ہیں۔آپ فکرمند نہ ہوں ۔ابھی آپ کا بھائی حیات ہے۔یاد رکھئے ! یہ پیر آپ کی تقدیر نہیں بدل سکتے۔اللہ پر بھروسہ کیجئے نا کہ انسانوں پر !۔”
اور وہ دونوں کو سنبھالتے ہوئے احتشام ولا کی دہلیز پار کر گیا۔
https://web.facebook.com/photo/?fbid=6089434294456127&set=g.1610386969212513