تحریر:کھنوت ہامسُن(ناروے)
اردو قالب:شگفتہ شاہ(ناروے)
میں شکاگو شہرمیں ٹرین کنڈیکٹر تھا۔اس سے پہلے میں ہالستادجانے والے راستوں پر گھوڑا گاڑی چلایا کرتاتھا،جو شہر کے وسط سے مویشی منڈی تک چلاکرتی تھی۔ہم سب لوگ جو راتوں کو ان راستوں پر گاڑیاں چلاتے تھے،وہاں گھومنے والےغنڈوں کی وجہ سےخود کو غیر محفوظ تصّورکیا کرتے تھے۔دراصل ہمیں ان غنڈوں پر گولی چلانے یا ان کی جان لینے کی بھی سخت ممانعت تھی،کیونکہ اس صورت میں محکمہ ریلوے کو ہرجانہ ادا کرنا پڑتا تھا؛میرے پاس تو سرے سے پستول ہی نہ تھا،اس لئے میں تو ایسی کسی کوشش میں کامیاب بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ویسے تو ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی ہتھیار ہوتا ہی ہے،سو میرے پاس بھی گاڑی روکنے کے لئے ایک آہنی سلاخ موجود ہو تی تھی،جوکسی بھی نازک گھڑی میں مددگار ثابت ہو سکتی تھی۔لیکن اسے بھی میں نے ایک بار سے زیادہ کبھی استعمال نہیں کیا ۔
َََ چند سال قبل جب میں کرسمس کے موقع پر رات کی ڈیوٹی انجام دیا کرتاتھا،تب بھی مجھے کبھی کسی ناخوشگوار واقعہ کاسامنا نہیں کرنا پڑا ۔لیکن پھر اچانک ایک شام آئرلینڈکے باشندوں کی ایک بڑی ٹولی مویشی منڈی سے برآمد ہوئی اور وہ سب ٹھس ٹھسا کر میری گاڑی میں بھر گئے، وہ نشے میں دھت تھےاور اس وقت بھی شراب سے بھری بوتلیں ان کے ہاتھوں میں موجود تھیں۔وہ گیت گارہے تھے اور ابھی انہوں نے کرایہ ادا نہیں کیا تھا کہ گاڑی آگے روانہ ہو گئی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ سال بھرہر روز محکمہ کو پانچ سینٹ صبح اور پانچ سینٹ شام ادا کرتے رہے ہیں،اس لئے اب کرسمس کے موقع پروہ کرایہ ادا نہیں کریں گے۔دیکھا جائے تو یہ کوئی ایسی نامعقول بات بھی نہیں تھی؛مگر میں محکمہ کی جانب سے کنڈیکٹروں کی ایمانداری کی جانچ پر تعینات کردہ جاسوسوں کے خوف سےانہیں بغیر ٹکٹ سفر کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔راستے میں ایک کانسٹیبل بھی ہماری گاڑی میں سوار ہو ا،چوں کہ ہماری گاڑی کھچاکھچ بھری ہوئی تھی،اس لئے وہ میرے پاس ہی کھڑا ہو گیا ،اورموسم اور کرسمس کے بارے میں دوچار باتیں کرنے کے بعد ٹرین سے اتر گیا۔میں اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ اگر میں کانسٹیبل سے شکایت کرتاتو وہ سب کے سب مسافر فوراً اپنا کرایہ ادا کر دیتے؛مگر میں خاموش رہا۔
’’آپ نے کانسٹیبل سے ہماری شکایت کیوں نہیں کی؟‘‘ ایک مسافر نے پوچھا۔
’’میں نے اس کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کی ،کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ شریف لوگ سفر کر رہےہیں۔‘‘میں نے جواب دیا۔اس پر کچھ مسافروں نے میرا ٹھٹّااڑایا،مگرچند ایک نے میری رائے سے اتفاق کیا اوروہ ساری ٹولی کا کرایہ ادا کرنے پر آمادہ ہو گئے۔
اس سے اگلے سال کرسمس کے موقع پر میں کاٹیج اسٹیشن جانے والی ٹرین پر بطورِکنڈیکٹر تعینات کر دیا گیا۔میری زندگی میں ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ اب میری ٹرین دو اور کبھی کبھار تین ڈبوں پر مشتمل ہوا کرتی اور وہ زیرِزمین برقی تاروں کے ذریعے چلتی تھی۔اس شہر میں انتہائی مہذب لوگ بستے تھے اور مجھے اپنےہاتھوں پر دستانے چڑھا کران سے کرایہ وصول کرنا پڑتا تھا۔لیکن مسٔلہ یہ تھا کہ یہاں کوئی حیرت انگیز واقعہ رونما نہ ہونے کی وجہ سے آدمی جلد ہی ان بنگلوں میں بسنے والوں کو دیکھتے اورسنتے رہنے سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ۔
لیکن پھر۱۸۸۷ء میں کرسمس ہی کےروز ایک عجیب وغریب واقعہ رونما ہوا۔ان دنوں میں دن کی ڈیوٹی انجام دے رہاتھا۔
کرسمس کے روزدن کے پہلے پہر ہماری ٹرین شہر کی جانب رواں دواں تھی کہ اچانک ایک آدمی ٹرین پر سوار ہوا۔اس نے مجھ سے دو ایک باتیں کیں،مگر مجھے دوسرے ڈبے میں جانا تھا اس لئے میں اس سے گفتگو کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا؛ جب میں اپنی مخصوص نشست پر واپس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے انتظار میں کھڑا تھااور مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنا مدعا بیان کرنا شروع کر دیا۔وہ لگ بھگ تیس برس کا تھا۔اس کے چہرے کی رنگت زرد اور مونچھیں گھنی تھیں۔وہ نہایت خوش نما لباس زیبِ تن کئے تھا،مگر شدید سردی کے باوجود اس کے جسم پرگرم جیکٹ یا کوٹ نہیں تھا۔
’’میں جس حالت میں گھر بیٹھا تھا اسی حالت میں یہاں چلا آیا،دراصل میں اپنی بیوی کو متاثر کرناچاہتا ہوں۔ ‘‘ اس نے کہا۔
’’کرسمس کا تحفہ دے کر ،‘‘ میں نے اپنی رائےکا اظہار کیا۔
’’بالکل صحیح!‘‘اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
مگر یہ ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔یوں جیسے وہ کسی کومنہ چڑا رہا ہویا منہ کھول کر جمائی لے رہا ہو۔
’’تم کتنے پیسے کما لیتے ہو؟‘‘اس نے پوچھا۔
شمالی امریکہ میں یہ سوال پوچھنا کوئی عجیب بات نہیں تھی،سو میں نے بتا دیا کہ میں کیا کماتا ہوں۔
’’کیا تم مزیددس ڈالرکمانا چاہو گے؟‘‘اس نے پوچھا۔
میں نے ہاں میں جواب دیا تو اس نے اپنا بٹوا نکالا اور دس کا نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ وہ مجھے قابلِ بھروسہ آدمی سمجھتا ہے۔
’’مجھے کیا کرنا ہو گا؟‘‘میں نے پوچھا۔
اس نے میرے اوقاتِ کار دیکھنے کا مطالبہ کیااور کہا:’’تو آج تم آٹھ گھنٹے ڈیوٹی پررہو گے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اپنی ڈیوٹی کے دوران تمہیں میرا ایک کام کرنا ہو گا۔وہ ادھرمونرو سڑک پر ایک گڑھا ہے،جو زیرِزمین برقی تار تک پہنچنے کا راستہ ہے۔اس گڑھے پر ایک ڈھکن ہے،میں وہ ڈھکن اٹھا کر نیچے گڑھے میں اتر جاؤں گا۔‘‘
’’کیا آپ اپنی جان لینا چاہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں،سچ مچ میں نہیں،مگر میں ایساکرنے کا مکر کروں گا۔‘‘
’’اوہ،اچھا۔‘‘
’’آپ لوگ اپنی گاڑی روک کر مجھے باہرکھینچنے کی کوشش کریں گےاور میں مزاحمت کا اظہارکروں گا۔‘‘
’’جی بالکل ٹھیک،ایسا ہی ہوگا۔‘‘
’’شکریہ،اور تم شاید مجھے پاگل سمجھ رہے ہو ،مگرایسی کوئی با ت نہیں ہے، میں یہ سب دکھاوے کے لئے کروں گا۔میں اپنی بیوی پر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس کے لئے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔‘‘
’’کیا اس وقت آپ کی بیوی بھی ہماری ٹرین پر سوار ہوگی؟‘‘
’’جی ہاں وہ ڈرائیور والے ڈبہ میں سوارہوگی۔‘‘میں اس کی یہ بات سن کر دنگ رہ گیاکیوں کہ وہ ڈبہ ڈرائیور کے لئے مختص تھا،اور چاروں طرف سے کھلا ہونے کی وجہ سے سردیوں میں شاذونادرہی کوئی مسافر اس میں سوار ہواکرتا تھا۔
’’ وہ ڈرائیور والے ڈبہ میں سوارہوگی۔‘‘آدمی نے اپنی بات دہرائی۔’’میری بیوی نےایک خط میں اپنے محبوب سے ملنے کا وعدہ کیا ہواہےاوراسےبتایا ہے کہ وہ اس ڈبے میں سوار ہوگی،میں نے وہ خط پڑھ لیا ہے۔ ‘‘
’’جی ٹھیک ہے،لیکن میں آپ کو یاد دہانی کرا دوں کہ آپ کو بہت پھرتی سے ڈھکن اٹھا کر نیچے اترنا ہوگا، ورنہ دوسری ٹرین ہمارے سر پر پہنچ جائے گی،وہ ہمارے پیچھے صرف تین منٹ کے وقفے سےچلی آ رہی ہوتی ہے۔ ‘‘
’’میں یہ سب باتیں جانتاہوں۔ جب میں وہاں پہنچوں گا تو ڈھکن کھلا ہو گا،وہ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی کھول دیا جائے گا۔‘‘آدمی نے کہا۔
’’اچھا ایک بات اور، آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ آپ کی بیوی کس وقت ٹرین میں سوار ہو گی؟ ‘‘
’’مجھے بذریعہ ٹیلی فون اطلاع مل جائے گی،میرے لوگ اس پر نظر رکھے ہوں گے۔اور میری بیوی نے خاکستری رنگ کا چرمی کوٹ پہن رکھا ہوگا ،اس لئے وہ اسے با آسانی پہچان لیں گے۔وہ بے حد خوبصورت ہے،اوراگر وہ بے ہوش ہو جائے تو تمہیں اسے مونرو سڑک کی نکڑ والے دوا خانہ لے جاناہو گا۔‘‘
’’کیا آپ نے میرے ڈرائیور سے بھی بات کر لی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جی ہاں۔ میں نے اسے بھی دس ڈالر ادا کر دئیےہیں،لیکن میں چاہتا ہوں کہ آ پ دونوں آپس میں اس معاملہ پر تبادلۂ خیال نہ کریں ۔بلکہ آپ ایک دوسرے سے اس کا ذکر بھی نہ کریں۔ ‘‘
’’جی بہتر۔‘‘میں نے کہا۔
’’اور ہاں،نزدیک پہنچ کر تم بھی اگلے ڈبہ میں آ جانااور جب ٹرین مونرو سڑک کی جانب مڑ جائے تو تم چوکس رہنا۔پھرجونہی تمہیں میرا سر نظر آئے تو ڈرائیور سے کہہ کر ٹرین رکوا دینا۔ڈرائیور بھی تمہارے ساتھ مل کرمجھے گڑھےسے باہرکھینچنے کی کوشش کرے گا،جب کہ میرا اصرار ہوگا کہ میں مر جانا چاہتا ہوں۔‘‘
میں تھوڑی دیر سارے معاملے پر غور کرتا رہا ،پھرمیں نےاس سے کہا: ’’میں سوچ رہا تھا کہ آپ دوسروں کو اپنے معاملے میں شامل نہ کر کےاپنے پیسے بچا سکتے تھے۔اور خود ہی ڈھکن اٹھا کر گڑھے میں کھڑے ہو سکتے تھے۔‘‘
’’خدا کا نام لو!‘‘آدمی نے چیخ کر کہا۔’’میں وہاں کھڑا رہوں اور ڈرائیور میری طرف متوجہ ہی نہ ہو!آپ یا کسی اور فرد کو میری موجودگی کا علم نہ ہو سکےتوکیا ہو گا؟‘‘
’’ہاں، یہ تو آپ درست کہہ رہے ہیں۔‘‘پھر ہم دونوں نے ادھر ادھر کی دوچار باتیں کیں،آدمی آخری اسٹیشن تک میرے ساتھ رہا،اور جب ٹرین وہاں سےواپس مڑی تو بھی وہ میرے قریب ہی کھڑا رہا،اور مونرو سڑک کی نکڑ پر پہنچ کر اس نےپھر مجھے مخاطب کیا:’’وہ سامنے دوا خانہ ہے،اگر میری بیوی بےہوش ہو جائے تو تم اسے وہاں لے جانا۔‘‘اور پھر وہ ٹرین سے اتر گیا۔
اوہ خدایا،میں توامیر ہو گیا ؛ آنے والےدن میری زندگی کے خوشگوار دن ثابت ہوں گے!موسمِ سرما کی شدید ٹھنڈ سے بچاؤ کی خاطر میں نے اپنے سینے اور کمر پر اخبارلپیٹ لیاکرتا تھا،جو میری ہرجنبش پر کھڑکھڑاہٹ کی زور دار آواز پیدا کرتااور میرے دوست میرا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اب میرے پاس ایک موٹی چرمی جیکٹ خریدنے کی گنجائش ہو گی۔اگلی دفعہ جب میرے دوست کھڑ کھڑاہٹ کی آواز سننے کے لئے مجھے دھکا دیں گے تو انہیں مایوسی ہو گی ا ور میں انہیں اپنا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دوں گا۔
میں نے شہر کے دو اور پھر تین چکر لگائے؛لیکن کچھ رونما نہ ہوا،مگر چوتھے چکر پر کاٹیج نامی اسٹیشن سے ایک نوجوان خاتون ٹرین میں سوار ہوئی اور سیدھی اگلے ڈبےمیں جا کربیٹھ گئی۔وہ خاکستری رنگ کے چرمی لباس میں ملبوس تھی۔جب میں کرایہ وصول کرنے اس کے پاس گیا تو اس نے بہت غور سے مجھے دیکھا۔وہ بے حد دل کش اور جوان تھی،اس کی نیلی آنکھوں میں معصومیت کی جھلک نمایاں تھی۔بے چاری،آج اسے بھی سراسیمہ کر دینے والا ایک جھٹکا سہنا ہوگا،میں نے سوچا؛ لیکن اس سے جو چھوٹی سی غلطی سرزد ہوئی ہے،اب اس کی سزا تو اسےملنی ہی ہو گی۔میرے لئے تو اسےاحتیاط سے اٹھا کر دوا خانہ تک لے جانا ایک اعزاز کی بات ہو گی۔
ہم شہر کی جانب بڑھنے لگے۔
میں نے اپنی جگہ سے دیکھا کہ ڈرائیور نے اچانک ہی خاتون سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔وہ اس سے کیا باتیں کر سکتا ہے؟علاوہ ازیں اسے دورانِ فرائض مسافروں سے بات چیت کی اجازت نہیں تھی۔میں نے سخت حیرانگی کے عالم میں دیکھاکہ خاتون اپنی جگہ سے اٹھی اور ڈرائیور کی قریبی نشست پر جا بیٹھی،جہاں سے وہ اپنی جگہ پر کھڑا ٹرین چلاتے ہوئے،نہایت انہماک سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
ہم حسبِ معمول مختلف اسٹیشنوں پر رکتے،سواریاں اتارتےاور نئی سواریاں چڑھاتے،شہر کی جانب رواں دواں تھے۔ہم مونرو سڑک کے قریب پہنچنے کو تھےکہ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ اس نوجوان ،سنکی آدمی نے بھی بہت سوچ سمجھ کرجگہ کا انتخاب کیا ہے۔مونرو سڑک کا یہ موڑ،ایک بے رونق جگہ ہے اور یہاں گڑھے میں اترتے ہوئے شاید ہی کوئی فرد اس کے اس فعل میں مخل ہو سکتا تھا۔پھرمجھے خیال آیاکہ میں نے بارہا محکمہ ریلوے کے ملازمین کو ان گڑھوں کے اپنی جگہ سے پیچھےہٹے ڈھکنوں کو واپس جگہ پر جماتے دیکھا ہے۔بہرحا ل اگر کسی کوکبھی یہ خیال سوجھے کہ وہ ان گڑھوں میں جا کھڑا ہو، تو آتی جاتی ٹرینیں اس کا قد کئی انچ کم کر سکتی ہیں؛اگلے ڈبہ کے نیچے نصب شدہ پنجہ،جو برقی تار تک پہنچتاہے،اس کا سرباآسانی تن سے جدا کر سکتا ہے۔
ٹرین کے مونرو سڑک کی طرف مڑنے سے پہلے ہی میں اگلے ڈبے میں پہنچ گیا۔اب ڈرائیور اور خاتون آپس میں محوِ کلام تو نہیں تھے،لیکن میں نے غور کیا کہ ڈرائیور نے خاتون کی طرف دیکھتے ہوئے سر کو اس انداز سے جنبش دی،جیسے وہ اس کی کسی بات سے متفق ہونے کا اظہار کر رہا ہو۔پھر اس نے سامنے کو نگاہیں جماتے ہوئے ٹرین کی رفتار تیز کر دی۔اس روز وہ لحیم شحیم پَیٹ نامی ڈرائیور ٹرین چلا رہا تھا۔
’’یہاں رفتارکم کر دیجئے!‘‘میں نے حسبِ معمول پیشہ وارانہ لہجے میں کہا۔جس کا مطلب تھا کہ ٹرین آہستہ چلائیے۔مجھے پٹری کے بیچوں بیچ کوئی چیز دکھائی دے رہی تھی،وہ انسانی سر ہی ہو سکتا تھاجو گڑھے سے باہر نکلا ہوا تھا۔میں نے خاتون کی جانب دیکھا ،اس کی نگاہیں بھی اسی نقطے پر مرکوز تھیں اور اس نے اپنی نشست کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔وہ توابھی سے ہی وقوع پذیرہونے والےممکنہ حادثہ کے خوف سے پریشان دکھائی دے رہی ہے،میں نے سوچا؛اور جب اسے معلوم ہو گا کہ مرنے کا خواہش مند اس کا اپنا شوہر ہےتو اس کی کیا حالت ہو گی؟
ڈرائیور نے ٹرین کی رفتار کم نہ کی۔میں چیختا چلّاتا رہا کہ گڑھے میں کوئی فرد موجود ہے،مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔اب سرواضح نظر آ رہا تھا،یہ وہی پاگل نوجوان تھاجو اپنا چہرہ دوسری سمت پھیرے،گڑھے میں سیدھاکھڑا تھا۔میں نے سیٹی منہ میں ڈالی اور گاڑی روکنے کا اشارہ دینے کی غرض سے اسےپوری شدت سے بجایا،ڈرائیور اسی تیز رفتاری سے ٹرین چلاتارہا ،صرف پندرہ سیکنڈ میں حادثہ رونما ہو سکتا تھا۔ میں نےزنجیر کھینچی اور بھاگ کر بریک پر جھپٹا،مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی،ٹرین رکنے سے پہلے ہی اس گڑھے کوپار کر چکی تھی۔
میں تیزی سے نیچےاترا،میرے دماغ میں ہلچل مچی تھی،مجھے صرف اتنا یاد تھا کہ میں نے ایک آدمی کو اس کی مزاحمت کے باوجود گڑھے سے باہر نکالنا تھا۔میں ڈبہ میں واپس آیا اور شدید پریشانی میں آگے پیچھے ٹہلنے لگا،ڈرائیور بھی بہت پریشان نظر آ رہا تھا۔اس نے ایک بے معنی سا سوال پوچھاکہ کیا گڑھے میں کوئی شخّص موجود تھا ؟اور گاڑی نہ رکنے کے سبّب اس پر کیا بیتی ؟جب کہ نوجوان خاتون بلند آواز میں پکاررہی تھی:
’’غضب ہو گیا!غضب ہو گیا!‘‘اس کا چہرہ یوں سفید پڑ گیا تھاجیسے جسم کا سارا خون نچڑ چکاہو۔وہ اب بھی نہایت اضطراب میں اپنی نشست کی پشت تھامے ہوئے تھی،مگر اس کے حواس بدستور قائم تھے۔تھوڑی دیر بعد وہ ٹرین سےنیچے اتری اور اپنی راہ چل دی۔
بہت سے لوگ جائے حادثہ پرجمع ہو چکے تھے؛اس بد قسمت شخّص کا سر ٹرین کے نیچے سے برآمد کر لیا گیاتھا،جب کہ دھڑابھی تک گڑھے میں ہی موجود تھا؛انجن کے نیچے لٹکتے پنجے نے اس کی گردن کو اپنے شکنجے میں کس کر سر دھڑ سے جدا کر دیا تھا۔ہم نے اس کے دھڑ کو گڑھے سے باہر نکالا۔ایک کانسٹیبل اس کے مردہ جسم کو لے جانے کے لئے جائے وقوعہ پرپہنچا،اس نے ایک کاغذ پر بہت سےلوگوں کے نام درج کئے،مسافروں نے میرے حق میں گواہی دی کہ میں نے سیٹی بجائی،زنجیر کھینچی اور بالآخر بریک لگا کر ٹرین روکی تھی۔علاوہ ازیں بعد میں ہمارے اپنے محکمہ کے لوگوں نے بھی اس واقعہ کی رپورٹ داخل دفتر کر دی۔
تھوڑی دیر بعدپَیٹ نے مجھ سے میراچاقو طلب کیا۔میں نےاس کی بات کا صحیح مطلب نہ سمجھتے ہوئےکہاکہ ایک حادثے کا رونماہوجانا ہی کافی ہے۔اس نے اپنی پستول نکال کرمجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی کسی حماقت کے لئے نہیں،بلکہ کسی اور استعمال کے لئے چاقو مانگ رہا ہے۔چاقو لینے کے بعد اس نے مجھے خدا حافظ کہا،اور بتایا کہ وہ اب اس ملازمت کو خیرباد کہہ دے گا؛یہ اس کے لئے ہمیشہ باعثِ آزار ہی رہی ہے،اور یہ کہ اب مجھےیہ ٹرین آخری اسٹیشن تک پہنچانی ہو گی،وہاں سے مجھے دوسرا ڈرائیور مل جائے گا۔ اس نے مجھے اچھی طرح سمجھا دیا کہ مجھے یہ ذمہ داری کیسے انجام دینا ہو گی۔میں نے چاقو اس کے حوالےکر دیا۔اس نے بتایا کہ وہ کسی محفوظ مقام پر پہنچ کر یونیفارم کےبٹن کاٹ کراسےاتاردے گا۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے روانہ ہو گیا۔
میرے پاس ٹرین کو آخری اسٹیشن تک لے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ہماری ٹرین کے پیچھے آنے والی دیگر ٹرینوں کی لائن لگ چکی تھی۔اور وہ ہماری ٹرین چلنے کی منتظر تھیں۔چونکہ مجھے پہلے سے ٹرین چلانے کا تھوڑا بہت تجربہ تھا،اس لئے میں نے اسے بخیروعافیت آخری اسٹیشن تک پہنچا دیا۔
چند روز بعد کرسمس اور سالِ نو کی درمیانی چھٹیوں کے دوران ایک شام میں شہرمیں گھوم رہا تھا کہ ریلوے اسٹیشن کے قریب پہنچنے پر میں آنے جانے والے مسافروں کی بھیڑ پر اک نظر ڈالنے کی غرض سے اسٹیشن کے اندر چلا گیا۔میں ایک پلیٹ فارم پر کھڑا تھا،جہاں ایک ٹرین جانے کوتیار کھڑی تھی کہ اچانک مجھے اپنے نام کی پکارسنائی دی،میں نے مڑ کر دیکھا،ٹرین کے پائیدان پر کھڑا ایک مسکراتا ہوا شخّص مجھے پکار رہا تھا۔یہ پَیٹ تھا۔مجھے اسےپہچاننے میں تھوڑی دیر لگی۔وہ شاندار لباس زیبِ تن کئےہوئے تھااور اس نے اپنی ڈاڑھی مونڈ ڈالی تھی۔
میں نے بھی اسے پکارا۔
’’ہش،اتنی اونچی آواز میں مت پکارو! اور ہاں،اُس سارے معاملے کا کیا بنا ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہماری تفتیش ہوئی تھی،تمہاری تلاش جاری ہے۔‘‘میں نے مختصرجواب دیا۔
اس نے کہا:’’میں تو مغربی علاقے میں جا رہا ہوں۔یہاں کیا دھرا ہے؟ایک ہفتے کے سات،آٹھ ڈالر،جن میں سے چار ڈالر تو رہائش پر خرچ ہو جاتے ہیں۔میں وہاں زمین خریدوں گا اور کھیتی باڑی کروں گا۔میرے پاس کافی رقم ہے،تم اگر ساتھ آنا چاہو تو ہم دونوں فریسکو نامی بستی کے قریب زمین کا کوئی زرخیر قطعہ خرید لیں گے۔‘‘
’’نہیں،میں یہاں ہی رہنا چاہتا ہوں۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’اوہ ہاں،یاد آیایہ رہا تمہارا چاقو۔ ادھار دینے کا شکریہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریلوے کے محکمہ میں آدمی کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ میں نے تین سال ملازمت کی اور آج سے پہلے ایک رہائش تک خریدنے کی گنجائش پیدا نہیں ہوسکی ۔‘‘
ٹرین نے سیٹی بجائی۔
’’اچھا،الوداع،اور ہاں سنو،اس آدمی نے جس پر ہم نے ٹرین چڑھا دی تھی،تمہیں کتنے پیسے دئیے تھے؟‘‘
’’دس ڈالر۔‘‘میں نے جواب دیا۔
’’مجھے بھی اس نے دس ڈالر ہی دئیے تھے۔اس نے اچھا معاوضہ دیا تھا،مگر اس کی بیوی اس سے کہیں زیادہ فیاض تھی۔‘‘
’’اس کی بیوی؟‘‘
’’ہاں،اس کی نوجوان بیوی۔میں نے اس سے سودے بازی کی تھی۔یہ کام ایک یادو ہزارمیں تو نہیں ہو سکتاتھا،وہ اپنے شوہر سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔یہ اسی کے دئیے ہوئےپیسے ہیں،جن سے آج میں ایک خوشحال زندگی کا آغاز کرنے جا رہا ہوں۔‘‘
اس نے اپنی بات مکمل کی اور ٹرین روانہ ہو گئی۔
(نارویجین زبان سے براہ راست اردو ترجمہ)
Original Title: Kvindeseir
Book: Livets røst, Hamsuns Beste Noveller
Written by:
Knut Hamsun (August 4, 1859 – February 19, 1952) was a Norwegian writer who was awarded the Nobel Prize in Literature in 1920. Hamsun's work spans more than 70 years and shows variation with regard to consciousness, subject, perspective and environment. He published more than 20 novels, a collection of poetry, some short stories and plays, a travelogue, works of non-fiction and some essays. (Wikipedia)