بالکونی میں منڈلاتے سائے اور خون کے چھینٹے یخ بستہ رات میں آفاق کے پسینے چھڑوا رہے تھے۔
خوف سے گلا خشک ہو گیا تھا۔کمرے کا اندھیرا اور تنہائی رات کو اور خوفناک بنا رہی تھی۔
بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے گھپ اندھیرے میں وہ بستر میں سہم کر بیٹھا تھا کھڑکی کے پاس کوئی ڈھانچہ تھا جو اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔کبھی ایسا محسوس ہو کوئی بھٹکتی ہوئی آتمہ ،ڈھانچہ یا مردہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنے ہی والا ہے۔
دروازے کا اچانک سے ہلنا اسے بے ہوش ہونے کے قریب لا رہا تھا۔ چوڑیوں کی کھنکار اور پازیب کی آواز بھی ڈر میں اضافہ کر رہی تھی۔کمرے میں پڑی کرسی پر اسے کوئی بیٹھا محسوس ہو رہا تھا۔
زرا سی آہٹ پر اسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ کرائے کے مکان میں پہلا دن ہی اس کے لیے اچھا ثابت نہ ہوا۔ جیسا محلے کے چند لوگ بتاتے تھے اس سے کہیں زیادہ ہیبت ناک منظر تھا۔کمرے کی تاریکی ،خاموشی اورپراسراریت ایک وحشت ناک منظر پیش کر رہی تھی ۔
اچانک سے کوئی چھت کو گرانے کی کوشش کر رہا ہے یا بہت سی وزنی چیزیں چھت پر گر رہی ہوں ۔
چھت سےبھیانک آوازیں کمرے میں موجود آفاق کی روح کپکپانےمیں اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔
جتنی قرآنی آیت اسے یاد تھیں، اس نے پڑھ لیں پھر بھی آوازیں کسی طرح نہ رکیں۔روتے ،گڑگڑاتے ، دعا مانگتے اس نے رات کا وقت گزارا ۔پر ہمت نہیں تھی اٹھ کر باہر جاکر دیکھنے یا کسی سے مدد مانگنے کی۔
جیسے تیسے کر کے رات کا وقت گزرا۔
فجر کی نماز کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی پر ایک انجانا خوف اسے نیند میں بھی بےچین کررہا تھا۔ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
««««««««
آفاق محلے کی ایک دکان پر آکر بیٹھ گیا ۔رات کا منظر اسے بے چین کیے ہوئے تھے ۔
وہ رات کی ہولناکی کسی کو بتا بھی نہیں رہا تھا اور گھٹن سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔الجھے ہوئے سیاہ بال ،نشیلی بھوری آنکھیں جو رات بھر سو نہ سکیں اس کی رات کی داستان سنا رہی تھیں پر ستم ظریفی یہ کہ زبان سے اپنی روداد نہیں سنا سکتا تھا کہ رات کیسے انگاروں یا سولی پر گزری ۔
جن چار لوگوں نے مکان کی پراسراریت کے قصے بتائے تھے وہ بھی وہاں موجود تھے اور مالک مکان بھی کیوں کہ ان کے گھر بھی ساتھ تھے ۔
سب آفاق سے پہلے دن کی روداد سننا چاہ رہے تھے اور آفاق بس اتنا کہہ سکا کہ " سب ٹھیک تھا " ۔
اس کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ سب کچھ بتا سکتا۔ وہ چپ چاپ سب کی باتیں سنتا رہا ۔وہ یہ مکان چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ اس کے دفتر کے نزدیک سستا مکان یہ ہی تھا وہ سب کچھ بھول کے گھر واپس پہنچا تیاری کی اور دفتر کے لیے نکل گیا ۔وہاں بھی اسے رات والی باتیں یاد آرہی تھیں کیسے وہ اس عجیب سی رات کا سامنا کر کے یہاں بیٹھا تھا پر مارے دہشت کے وہ کسی سے کچھ کہہ نہ پا رہا تھا کام کے دوران وہ سب بھول گیا پر اچانک سے کوئی دوست آ کر بلاتا تو وہ خوف سے سہم جاتا جیسے رات والے کسی ڈھانچے یا مردے سے ملاقات ہو گئی ہو اگلا بندہ بھی ڈر جاتا کہ میں نے بلا کر شاید کوئی غلطی کی ہے۔
جیسے جیسے دن ڈھل رہا تھا شام کے دھندلکے پھیل رہے تھے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو رہی تھی ڈر سے کے ایک اوردل دہلانے والی خوفناک رات آنے کو ہے ۔
آفاق جیسے ہی گھر آیا ایک عجیب سی ویرانی تھی گھر میں پر اس نے کن اکھیوں سے دیکھا اور بھاگ کر کمرے میں جا گھسا۔ جیسے جیسے رات گہری ہوتی جارہی تھی ویسے ہی ماحول کی ہولناکی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ڈرتے ڈرتے کب نیند کی وادی میں چلا گیا پتہ ہی نہ چلا۔
رات کے پچھلے پہر رونے اور چیخنے کی آواز پر آفاق کی آنکھ کھل گئی کوئی اسے مدد کے لیے بلا رہا تھا اچانک سے وہ رونا اور چیخنا قہقوں میں بدل گیا۔کوئی آفاق آفاق کہہ کر مخاطب تھا پھر آخری جملوں نے اس کے رونگٹے کھڑے کر دئیے " جتنی جلدی ہوسکے تم یہ مکان خالی کر دو نہیں تو تمہیں بھی باقی آنے والے کرائے داروں کی طرح غائب کر دیں گے کے آنے والی نسلیں ڈھونڈتی ہی رہ جائیں گی۔"
باقی کا وقت سولی پرلٹکنے کے مترادف ہی گزرا ایک پل کو سکون نہ آیا ۔ صبح پھر حسب معمول وہ محلے کی دکان پر گیا سلام دعا کی ابھی وہ کچھ لینے ہی والا تھا کہ ایک آواز نے اسے چونکا دیا کہ
" یہ کرائے دار کیسے اتنے دن ٹک گیا"
وہ خاموشی سے وہاں سے نکل آیا۔۔۔۔
«««««««««
کتنے ہی دن ایسے ڈرتے ہوئے گزر گئے پر نہ تو کوئی اسے نقصان پہنچا رہا تھا نہ ہی کسی دوسری مخلوق کے وجود کا احساس ہوتا تھا وہم اور تخیل تھا جو آوازوں کی وجہ سے اس نے مردے اور ڈھانچے سوچ لیے تھے یا سچ میں اسے کچھ نظر یا سنائی دیا تھا۔
چھٹی کے دن وہ واپس گاؤں نہ جا سکا تو کچھ دیر چھت پر چلا گیا جہاں کچھ پرانے لوہے کے صندوق اور کچھ اینٹیں بکھری پڑی تھیں جیسے کسی نے جان بوجھ کر سامان پھیلایا ہو ۔آفاق کا ڈر تجسس میں بدل گیا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔
ایک دن دفتر سے واپسی پر آفاق کو کچھ دیر ہو گئی ۔
راستے میں قبرستان سے مختلف آنے والی آوازیں آفاق کے رونگٹے کھڑے کر رہی تھیں اس نے سر پٹ بھاگنے میں عافیت سمجھی پر اپنا نام سن کر جیسے کسی نے پاؤں میں بیڑیاں سی ڈال دی ہوں جو آگے بڑھنے ہی نہ دیں ۔جس سمت سے آواز آئی آفاق اس سمت چلا اور درخت کی اوٹ میں کھڑا ہو گیا۔وہ ہی چار دوست جنہیں مالک مکان اپنے جگری دوست بتاتا تھا وہ ہی آفاق کے مکان سے نکالنے کے منصوبے بنا رہے تھے ڈراؤنی اور عجیب آوازیں موبائل میں ریکارڈ کر کے۔۔۔
ایک دوست نے شائد شراب پی رکھی تھی جو بس مالک مکان کے خلاف بول رہا تھا
" کہ اگر یہ کرایہ دار نہ نکلا تو مالک مکان کو قتل کر کے وہ جگہ سستے داموں خرید لیں گے"۔
نشہ چیز ہی ایسی ہے کہ سب راز بھی افشا ہو جاتے اس میں اور کوئی کچھ کہتا بھی نہیں کہ بندہ ہوش میں نہیں ہے ۔
باتوں باتوں سے یہ بھی واضح ہو گیا تھا کہ مالک مکان نے ایک بار یہ جگہ غیر قانونی کاموں کے استعمال کے لیے ان دوستوں کو نہیں دی تھی۔یہ ہی وجوہات تھیں کہ دشمنی نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دئیے تھے۔
آفاق کو اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ کیسے اپنے ہی جگری یار جڑیں کاٹ رہے تھے کتنا مان تھا نہ مالک مکان کو اپنے دوستوں پر۔ اس نے محلے میں آتے ہی اپنے دوستوں سے ملوایا تھا۔ کیسے آستین کے سانپ ساتھ ساتھ پلتے رہتے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔دودھ پی کر بھی ڈستے ہی ہیں سانپ کی طرح یہ بے نسلی لوگ۔
نہ جانے کتنے ہی مالک مکان پر ایسے وار ہوتے ہوں گے ۔۔آستینیں جھاڑیں تو شاید اب سانپوں کے علاوہ کچھ نہ ملے ۔۔۔نہ جانے کتنے ہی مکان روز ایسے آسیب زدہ مکان کے نام سے مشہور ہوتے ہوں گے۔۔
کتنے ہی مالک مکان اپنی صاف نیتی سے اپنے احباب پر یقین کرتے ہوں گے اور وہ ہی احباب پیٹھ میں چھرا گھونپ جاتے اور پتہ بھی نہیں چلنے دیتے۔
واپس آتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کیسے اس نے ان چاروں دوستوں کی باتوں پر یقین کر لیا تھا ۔ کیسے اس نے تخیل میں جنات کا تصور کر لیا تھا۔
انسانی دماغ اکثر سنی سنائی بات پر یقین کر کے خود کو اس کہانی کا کردار بنا کر واقعہ کو لازمی دہراتا ہے،چاہے وہ ناول ہوں یا جنات کی کہانیاں۔
جیسے اس نے سنی ہوئی بات کو ذہن میں رکھ کر اس جگہ کے بارے رائے قائم کر لی ۔۔تخیل میں بھی وہ سب منظر دوڑتے جیسا کوئی ہمیں بتا دیتا کہ فلاں جگہ پر جنات کا بسیرا ہے یا فلاں جگہ اس انداز سے قتل ہوا تھا تو ویسا ہی منظر انسانی دماغ بنا لیتا ہے اور اکیلے ہونے پر ہر چیز پراسرار اور جنات کے سائے میں پڑی نظر آتی ہےایسے ہی اس نے بھی کھونٹی پر لٹکے کپڑے کو مردے سمجھا ،فرشی پنکھے کو ڈھانچہ ،کرسی کی آواز کو جنات کی حاضری ،کھڑکی کی آواز سے جنات کے جانے کو تصور کیے بیٹھا تھا