شیوا جی روڈ تقریبا" ڈیڑھ کلو میٹر لمبائی کی حدود تک پھیلے ہوئے ایک وسیع وعریض مارکیٹ کا نام تھا، جہاں چہار سو کُوشک اور ہمہ منزلہ عمارتیں ایستادہ تھیں اور بیچوں بیچ ایک کشادہ سڑک دور آگے تک نکل کرچلی جاتی تھی ۔ یہ دراصل ایک ریڈ ایریا تھا جو جسم کے کاروبار کےلئے کافی مشہور تھا ۔ یہاں کُھلے عام اور بلا کسی روک ٹوک کے جسم کی خرید و فروخت کا کاروبار ہوتا تھا نیز اس قسم کے کاروبار پر کوئی پابندی بھی عائد نہیں تھی بلکہ یہ کاروبار بلا ناغہ اور بلا کسی خلل کے شب و روز جاری رہتا تھا ۔ یہاں سڑک کے دونوں اطراف کھڑی کُوشک اور ہمہ منزلہ رنگ برنگی عمارتوں کی اُوپری منزلوں میں بسیار کوٹھے اور قحبہ خانے قائم تھے جہاں جسم فروشی کے علاوہ گانا بجانا بھی ہوتا تھا نیز رقص، شراب اور کباب کی محفلیں بھی آراستہ رہتی تھیں۔ سطحی منزلوں میں البتہ بے شمار دوکانیں قائم تھیں جہاں زیادہ تر سینٹری ساز و سامان اور گاڑیوں کے سپیر پارٹس یعنی پُرزے وغیرہ بیچے جاتے تھے ۔ دیگر انجنوں بشمول پانی کے پمپ وغیرہ اور اسی قسم کا دوسرا سامان بھی یہاں دستیاب رہتا تھا ۔ بڑے بڑےجنرل سٹور اور دیگر اسباب کی دوکانیں بھی یہاں موجود تھیں ۔ بڑا مصروف مارکیٹ تھا جہاں تِل دھرنے کو جگہ میسر نہیں رہتی تھی ۔ سڑک پر رنڈیوں کے گراہک کھُلے عام آوارہ اور دندناتے ہوئے پھرتے دکھائی دیتے تھے ۔ خود کوٹھوں کی زینت بنی رنڈیاں بھی سڑک پر اپنے کولھے مٹکاتی ہوئیں ادھر اُدھر گھومتی پھرتی رہتی تھیں، جہاں ان کے دلال اپنی عجیب وغریب وضع قطع کے ساتھ ہمہ وقت پان کھاتے ہوئے گراہکوں کے ساتھ تول مول کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔پان کی پیک اور رال ان کے منہ سے ایسے ٹپکتی تھی جیسے کسی بھیڑئیے کے منہ سے کسی تازہ شکار کا خون ٹپک رہا ہو ۔ خود رنڈیاں بھی اوپر دالانوں میں ایستادہ سڑک پر گزرنے والے راہ گیروں پر فحش فقرے کستی ہوئیں انہیں اپنی جانب راغب کرنے کی کوششوں میں لگی رہتی تھیں ۔ بڑی عجیب حرکتیں کرتی تھیں اور حُسن کی نمود و نمائش کرتی تھیں ۔ یہاں کافی رش لگا رہتا تھا اور بھانت بھانت کے لوگ نظر آتے تھے ۔ ضروری نہیں تھا کہ سارے لوگ کوٹھوں کے گراہک ہی رہے ہوں بلکہ ان میں دیگر کام کاج کی غرض سے آئے ہوئے لوگ بھی شامل رہتے تھے ۔
صبح کا وقت تھا ۔ کھِلی ہوئی دھوپ تھی ۔ حسب معمول شیوا جی روڈ پر زندگی نے بھاگنا دوڈنا شروع کردیا تھا ۔ دوکانوں کے شٹر کھلنا شروع ہو گئے تھے اور کوٹھوں و قحبہ خانوں نے سجنے اور سنورنے کا آغاز کردیا تھا ۔ دکانیں کھُلنے اور دفتری اوقات ہونے کی وجہ سے ٹریفک کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی ۔گاڈیوں کے ہارن پہ ہارن بجنے سے خلاء میں ارتعاش پیدا ہورہا تھا ۔ ہر سو چہل پہل نظر آنے لگی تھی اور کاروبارِ حیات نے اپنی رفتار پکڑنی شروع کردی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلوری صبح صبح کوٹھا چھوڑ کر مارکیٹ چلی آئی تھی اور کچھ سازوسامان خرید کر اب واپس چلی جارہی تھی ۔اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک بیگ تھما ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ اپنے کھُلے ہوئے آوارہ بالوں کے ساتھ کھیلتی ہوئی ایک ادائے کافرانہ کے ساتھ آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔ مست اور خراماں خراماں۔۔۔۔ تبھی اچانک پیچھے سے آتی ہوئی کسی گاڈی نے اُسے ایک زوردار ٹکر ماری اور اُس کے ہوش اُڑادئیے ۔ اُس کےحلق سے ایک کریہہ الصوت چیخ نکل گئی۔ وہ اوندھے منہ سڑک پر آ گری اور اُس کے بیگ میں بھرا ہوا سامان دُور دُور تک بکھر گیا ۔
پلک جھپکتے ہی اِک بھِیڑ سی اکھٹے ہوگئی ۔ اُسے کچھ لوگوں نے اُٹھایا ۔وہ اُسے سنبھالنے لگے ۔ گلوری کافی خوفزدہ تھی ۔اُس کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا ۔ ہاتھوں اور بازوں پر بھی خراشیں آگئی تھیں جبھی شور شرابے کے بیچ کوٹھوں کے ملازم اور تعلق دار بھی اُمڈ کر چلے آ ئے ۔
"ارے کوئی ایمبولینس کےلئے فون کرو۔" کوئی چیخا ۔ " بھائی کوئی پانی تو لاو ۔" کوئی بولا ۔
"ارے ڈرائیور کو پکڑو ،کہیں بھاگنے نہ پائے ۔" کسی نے ہانک لگائی ۔ " گاڑی کا نمبر نوٹ کرو ۔" کسی نے بالغ نظر ہونے کا ثبوت دیا ۔
جبھی شور و غل کے بیچ کار کے ڈرائیور جو غالبا" گاڑی کا مالک بھی تھا اور جس نے گلوری کو ٹکر ماری تھی کو پکڑا گیا ۔
" اررررے۔۔۔ مہ۔۔۔ مہ۔۔۔۔ معاف کرنا ۔۔۔ بھائی ۔۔۔ معا۔۔۔۔ف۔۔۔۔ کرو ۔" وہ مارے ڈر کے خوفزدہ ہوکر ہاتھ جوڑنے لگا اور گِڑگڑانے لگا ۔
" ابے شالے ۔۔۔ پاگل ۔۔۔۔۔ دیوانے ۔" کچھ لوگ اُس پر ٹوٹ پڑنے ہی والے تھے کہ جبھی گلوری کی نظر اُس پر پڑی ۔ اچھا خاصا نوجوان تھا ۔ خوب رو اور لحیم شحیم ۔ سوٹ پہنے تھا اور گلے میں ٹائی بھی بندھی ہوئی تھی ۔ وہ گِڑگڑاتے ہوئے معافی مانگ رہا تھا ۔ گلوری کراہتے ہوئے اُسے خونخوار نظروں سے دیکھنے لگی ۔تھوڑی دیر وہ اُسے دیکھتی رہی، پھر اچانک وہ کچھ نرم سی پڑ گئی ۔ وہ کچھ سوچ بھی رہی تھی اور اس نوجوان کو غور سے دیکھ بھی رہی تھی ۔
" ٹھرو ۔۔۔۔۔ " وہ بولی ۔ " اسے جانے دو ۔۔۔ ۔"
" کیسے جانے دیں جی؟ اس نے سنگین جرم کیا ہے ۔" کوئی غُصے میں چیخا ۔
" نہیں ۔۔۔ اس کی غلطی نہیں ہے ۔" گلوری کہتی ہوئی کراہنے لگی ۔ اُس پر اب غشی طاری ہونے لگی تھی۔ گلوری کے اصرار پر کار والےنوجوان کی گلو خلاصی ہوئی اور وہ بغلیں جھانکتا ہوا ایک طرف کو نکل گیا ۔ جبھی کہیں سے سائرن بجاتی ہوئی ایک ایمبولینس نمودار ہو گئی ۔ گلوری کو فوری طور پر ایمبولینس میں سوار کیا گیا ۔
گلوری کی چشم پھر اسپتال میں ہی وا ہوئی تھی ۔ نہ جانے کتنی دیر تک وہ اسپتال میں بیہوش رہی تھی اور اب دھیرے دھیرے ہوش میں آرہی تھی ۔ صحیح سالم تھی ۔ کہیں کہیں پر معمولی سے زخم اور خراشیں آئی تھیں، داہنی ٹانگ میں البتہ فریکچر ہوا تھا اور ایکسرے کے بعد اُس پر پلاسٹر بھی چڑھایا جا چکا تھا ۔ اس بابت ڈاکٹروں کی آراء تھی کہ معمولی نوعیت کا فریکچر ہے، دس پندرہ روز میں ٹھیک ہو جاے گا ۔
درد ضرور پورے اعصاب پر سوار تھا مگر شب بخیر گزر گئی تھی ۔نرس نے دیر رات گئے ایک انجکشن دیا تھا ۔ انجکشن لگنے کی دیر تھی کہ گلوری نیند کی گہری کھائی میں چلی گئی تھی ۔ پھر صبح کسی کے جگانے پر ہی اُس کی آنکھ کُھلی تھی ۔ کسی نے اُسے جھنجوڑ کر جگا یا تھا ۔
" کوئی صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں ۔" ایک نرس اُسے جگاتے ہوئی بولی تھی ۔
" اتنی صبح ۔" اُسے بڑا ناگوار گزرا تھا ۔ بُرا سا منہ بناتے ہوے ۔اُس نے اپنی دستی گھڑی کو دیکھا تھا ۔ " ابھی تو چھ ہی بجے ہیں ۔" کہتی ہوئی وہ اپنی آنکھیں ملّنے لگی تھی ۔ " کہاں ہے ۔۔۔ ؟" وہ اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی تھی ۔
" میں نے دروازے پر روک دیا ہے ۔ بھیج دوں کیا۔۔ ؟"
" ہاں ہاں ۔۔۔۔ بھیج دو ۔ کوئی اپنا ہی ہوگا ۔" گلوری کا سر اب بھی بھاری تھا اور اُس پر غنودگی بھی طاری تھی ۔
تھوڈی ہی دیر بعد وہی نوجوان نظر آیا،جس نے کل اپنی گاڈی سے گلوری کو ٹکر ماری تھی ۔ گلوری چونکتی ہوئی اُسے دیکھنے لگی ۔ وہ چوروں کی طرح دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا گلوری کے بیڈ کی طرف آرہا تھا ۔خاصا گھبرایا ہوا لگ رہا تھا اور خوفزدہ نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔ اُس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تھیلا بھی تھما ہوا تھا جو غالبا" پھل فروٹ وغیرہ کے اسباب سے لدا ہوا تھا ۔ تھیلے کے اُوپر پھولوں کا ایک خوب صورت گلدستہ بھی تھا ۔اب وہ نزریک پہنچ چکا تھا ۔
"سلام ممم۔۔۔۔ممم۔۔ محتر۔۔۔مہ ۔ مطلب آ آ آ ۔۔۔۔۔ داب ۔۔۔ نمسکار ۔۔۔۔۔ نمسکار ۔۔۔ ۔"
کہتے ہوے اُس نے اپنے ہاتھ میں تھما ہوا تھیلا ایک طرف رکھ دیا اور اس کے اوپر پڑا ہوا پھولوں کا گُلدستہ گلوری کی طرف بڑھا دیا ۔ وہ خاصا گھبرایا ہوا تھا ۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔ خاصا نادم بھی تھا اور کھُسیانا سا لگ رہا تھا ۔
" سلام ۔۔ آداب ۔" گلوری نے سلام کا جواب دیا اور گلدستے کی طرف اشارہ کرتی ہوئی اور " رکھدو ۔" کہتی ہوئی اسے ایک جانب رکھنے کا اشارہ کیا ۔ اب وہ اپنے بیڈ سے تھوڑا اوپر اُٹھتی ہوئی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور گاڈی والے نوجوان کو گھورنے لگی ۔
" جی ۔۔۔ دراصل ۔۔۔ میں اشھر اشعاری ہوں ۔۔۔ وہ کل۔۔۔۔ یعنی کہ ۔۔۔ ۔" وہ الفاظ جوڈنے کی کوشش میں اٹکنے لگا ۔ کیا کہے اُس کی سمجھ میں شاید نہیں آرہا تھا ۔
" کیا ۔۔ یعنی کہ ۔ تم وہی ہو، جس نے مجھے کل ٹکر ماری تھی اور مجھے شمشان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی ۔" جبھی گلوری تیز و تند لہجے میں بولی اور اُسے تیکھی نظروں سے گھورنے لگی ۔
" مم۔۔۔مم۔۔۔مہ ۔۔ معافی چاہتا ہوں ۔ ایسا ۔۔ ہے ۔۔ کہ۔"
وہ پھر ہکلانے لگا ۔" بیٹھئیے ۔۔۔۔۔ ۔" گلوری تیز لہجے میں بولی اور اُسے بیڈ کے قریب ہی رکھے ایک اسٹول پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
وہ بیٹھ تو گیا مگر کافی سہما سہما سا نظر آنے لگا ۔ شاید بہت شرمندہ تھا اور گلوری سے آنکھیں ملا نہیں پارہا تھا ۔اچانک اُس کے کُشادہ ماتھے پر پسینے کی گرم گرم بوندیں بھی نمودار ہونے لگیں تھیں۔ اُسنے جیب سے اپنا رومال نکالا اور پسینہ پونچھنے لگا ۔ گلوری بھی کافی سنجیدہ تھی اور ایک ٹک اُسے گھورے جا رہی تھی ۔
"میں بہت شرمندہ ہوں ۔ مجھے افسوس ہے گلوری صاحبہ۔۔۔ !!!۔" اشہر اشعاری نے گفتگو کےلیے تمہید باندھی ۔ جبھی گلوری بپھر گئی ۔
" اووو۔۔۔۔۔ ۔۔ گلوری صاحبہ ۔ یہ میں صاحبہ کب سے ہوگئی ۔اونہہ ۔۔۔۔ گلوری صاحبہ ۔ ویشیا ہوں میں۔۔۔۔۔ کوٹھے پر بیٹھتی ہوں اور جسم بیچتی ہوں۔ گلوری ہوں ۔ صرف گلوری ۔" اچانک گلوری کے چہرے پر درد و کرب کے آثار نمودار ہوگئے ۔ اشہر اشعاری اس ردِعمل سے اور بھی پریشان ہوگیا ۔
" مگر گلوری صاحبہ ۔۔۔۔۔ ۔" وہ ہچکچاتے ہوئے کچھ کہنے لگا ، جبھی گلوری نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔ " ابے چُپ ۔۔۔۔ تم سب ایک جیسے ہو ۔۔۔۔۔ ہمت ہے تو سنو ۔۔۔۔۔۔۔۔" اُس نے اشہر پر اپنی نظریں گاڑھتے ہوے کہنا شروع کیا ۔
آسام کے دور دور تک پھیلے ہوئے دلفریب پہاڑی سلسلے کی ایک پہاڑی کے دامن میں ایک خوبصورت گاؤں ہرپولی کے نام سے آباد تھا، جہاں گاؤں کے بیچوں بیچ ایک صاف و شفاف اور خوبصورت ندی بہتی تھی جو ہرپولا ندی کے نام سے مشہور تھی اور اسی ندی کے نام کی نسبت سے گاؤں کا نام ہرپولی پڑا تھا رات کو ندی بہنے کے شور کی آواز چہار سو جیسے موسیقی بکیھر دیتی تھی ۔ ایسے لگتا تھا جیسے ایک ساتھ بسیار جلترنگ بج اُٹھے ہوں ۔ ندی لوری سنا رہی ہو اور گاؤں کے لوگ دھیرے دھیرے گہری نیند کی آغوش میں چلے گئے ہوں ۔ چھوٹا سا گاؤں تھا اور سیدھے سادے لوگ ۔ یہاں کھیتی باڑی کا کام ہی ہوتا تھا اور لوگ اسی کھیتی سے اپنی گزر بسر کرتے تھے ۔ہرپولا ندی کے کنارے گاؤں کے ایک کسان پھول چند کا بھی مکان تھا، جہاں مکان کے ملحق ندی کے کنارے اُس کی ایک چھوٹی سی چکی بھی تھی،جہاں سے لوگ گیہوں اور مکی پیس کر آٹا لے جاتے تھے ۔ عمر رسیدہ پھول چند اس چکی کا کام کاج دیکھتا تھا جبکہ اُس کا جوان بیٹا نارنگ چند کھیتی باڑی کے کام کاج میں اُس کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔
ندی کنارے اس گھر میں ایک نوخیز دوشیزہ بھی رہتی تھی، جس کے خدوخال بڑے دلکش تھے ۔ وہ بڑی شوخ اور چینچل تھی ۔عمر یہی کوئی اُنیس، بیس برس کے لگ بھگ کی رہی ہوگی۔ نام کنچن تھا ۔ گھر اور گاؤں میں کانچی کے نام سے بھی پکاری جاتی تھی ۔ یہ پھول چند کی بیٹی تھی جس کی ماں درگا دیوی عرصہ قبل ہی پرلوک سدھار گئی تھی ۔نارنگ چند کی شادی ہوتے ہی گھر میں نئی نویلی دلہن روپالی بھی آگئی ۔ روپالی کے واردِ خانہ ہوتے ہی گھر کا چین و سکون چرمرانے لگا ۔ وہ شام و سحر اپنے سُسر پھول چند اور نند کنچن سے نبرد آزما ہونے لگی ۔ ایک روز اچانک پھول چند کا سورگباس ہوا تو گھر کی نکیل پوری طرح سے روپالی کے ہاتھوں میں آگئی ۔ اور یہیں سے کنچن کے بُرے دن بھی شروع ہوگئے۔ وہ کنچن کو ستانے کا ایک بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینے لگی ۔
پھول چند کو گزرے ابھی ایک بھی مہینہ نہیں ہوا تھا کہ روپالی نے نارنگ پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ۔
ایک شام وہ اپنے کمرے میں نارنگ کا سر دباتے ہوئے
کھُسر پُھسر کر رہی تھی اور کنچن کے خلاف زہر اُگل رہی تھی ۔
" سُنتے ہو جی ۔ کُچھ تو شرم کرو ۔گھر میں جوان بہن بیٹھی ہے۔ کچھ اُونچ نیچ ہوگئی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے ۔"
" ہاں ہاں ۔۔۔۔ دیکھ لیں گے ۔" نارنگ جوابی ہوا اور اپنے کان کُھجانے لگا ۔
" سُنو۔۔۔۔۔ دور گاؤں میں جہاں میری موسی رہتی ہے، گوپال گاشی نام کا ایک شخص رہتا ہے ۔ عمر زیادہ ہے تو کیا ہوا ۔۔ ۔ مال دار آدمی ہے ۔ وہ ایک موٹی رقم دینے کو بھی تیار ہے ۔ بات چلایئں ۔؟" " اچھ ۔۔۔۔ چھا ۔۔۔۔۔۔" نارنگ جوابی ہوا ۔
" ہاں ہاں ۔۔۔۔ جلدی کرو اور اس بلا کو گھر سے رخصت کرو ۔" روپالی اپنی آنکھوں کو عجیب انداز میں گول گول گُمھانے لگی ۔
کنچن دروازے پر یہ سب سُن رہی تھی ۔ وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھی اور اپنا سر تھام کر بیٹھ گئی مگر بیچاری کرتی بھی کیا ؟ گھر میں روپالی کی ہی چلتی تھی۔
کنچن کی ایک بھی نہ چلی ۔ وہ چیخی چلائی ۔آنسو بہائے ، مگر بے سود ۔ نارنگ اور روپالی نے اُسے ایک لاکھ روپے کے عوض گاشی لال کو بیچ ہی دیا، ایسے جیسے کھونٹے سے بندھی ہوئی کسی بھیڑ یا بکری کو بیچا ہو۔
گوپال گاشی اُسے بیاہ کر بہت دور شہر لے کر آگیا ۔تین چار مہینے اُسے اپنے پاس رکھا اور اُس کی عصمت سے کھیلتا رہا ۔ جب جی بھرا تو اُسے چمپا کلی کے کوٹھے پر لے کر آگیا اور ڈیڑھ لاکھ روپے زرِ نقد میں سودا طے کرکے اُسے بیچ دیا ۔ پچاس سالہ گاشی لال دراصل ایک دلال تھا جو لڑکیوں کا کاروبار کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ کنچن اب چمپا کلی کے کوٹھے کی زینت بنی ہے اور اپنے بھائی نارنگ اور گاشی لال کی وصول کی ہوئی رقم کا سود سمیت بھگتان کر رہی ہے۔
" اور وہی کنچن اس وقت آپ کے سامنے بیتھی ہے ۔ یعنی کہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ گلوری ۔"
گلوری کے پورے بدن میں درد کی ایک شدید سی لہر دوڑ گئی ۔ چہرے پر درد و کرب کی اذئیت کے آثار اور گہرا گئے ۔ کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئیں اور چہرہ خزانی پتوں کی طرح پیلا پڑ گیا ۔ اچانک اُس کی انکھوں سے موٹے موٹے آنسو ٹپکتے لگے اور وہ کافی بے قرار نظر آنے لگی ۔ گلوری کی یہ حالت دیکھ کر اشہر اشعاری کا سارا وجود ہل گیا ۔ وہ تڑپ اُٹھا اور اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو روک نہ سکا ۔ اب اُس کی چشم بھی تر تھی اور وہ بڑا مظطرب نظر آرہا تھا ۔
" آئی ایم سوری ۔" کہتے ہوئے اشعاری نے اپنا رومال نکالا اور اس سے اپنے آنسو پونچھنے لگا، جبھی گلوری اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہوئی اُس سے پھر مخاطب ہوئی ۔
" میں نے بھیا کو کبھی بددعا نہیں دی ۔ مجھے اب بھی اُس کا انتظار ہے ۔میں اُسے یاد کرتی ہوں ۔ بہن ہوں نا ۔۔۔۔ ہر سال رکھشا بندھن پر راکھی لیے پورا دن اُس کا انتظار کرتی ہوں ۔" گلوری ہچکیاں لیتی ہوئی رندھی ہوئی آواز میں بولی۔ "مگر ۔۔۔۔۔" اشہر نے کچھ کہنا چاہا ۔ "ایک منٹ ۔" جبھی گلوری نے اُس کی بات کاٹی ۔
" میں نے آج تک اپنا دُکھڑا کسی کو نہیں سنایا ہے، اور نہ سناؤں گی ۔آپ پہلے شخص ہو جسے میںں یہ سب سُنا رہی ہوں ۔ کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ ۔؟" اُس نے سوال کیا ۔جوابا" اشہر اشعاری نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا ۔
گلوری تھوڈی دیر ٹکٹکی باندھے اشہر کو دیکھتی رہی۔ کچھ سوچتی رہی اور پھر اُس نے اپنے بلاوز میں ہاتھ ڈال کر اپنا بٹوہ ( وولِیٹ ) نکالا اور اُس میں سے ایک تصویر نکال کر اشہر کی طرف بڑھا دی ۔ اشہر نے تصویر لیتے ہی اسے تجسس سے دیکھا، تبھی وہ ایسے اُچھل پڑا، جیسے اُسے بجلی کا شدید جھٹکا لگا ہو ۔ وہ چکرا سا گیا ۔ اُس پر جیسے حیرتوں کے پہاڈ ٹوٹ پڑے ۔ وہ سٹپٹا گیا اور بھاڈ سا منہ کھول کر حیران و پریشان گلوری کی طرف دیکھنے لگا ۔
" یہی میرے نارنگ بھیا ہیں ۔ ایک میں۔۔۔۔۔۔ ایک وہ ۔۔۔۔ ۔" گلوری ایک سرد آہ کھینچ کر بولی ۔
" اوہ نو ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔" اشہر اشعاری اپنا سر تھام کر بیٹھ گیا ۔ جبھی گلوری کی آنکھوں میں پھر سے آنسو اُمڈ آئے ۔ وہ رندھی ہوئی آواز میں پھر بولی ۔
" رکھشا بندھن کی تصویر ہے ۔ نارنگ بھیا مجھے راکھی باندھ رہے ہیں ۔" کہتی ہوئی وہ رُک گئی اور ایک لمبی سرد آہ کھنچتی ہوئی پھر بولی ۔
" بھیا پہلے بڑے اچھے تھے، مگر بھابی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔" اچانگ اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔
جبھی اشہر اشعاری اچانگ درد کی شدت سے کراہ اُٹھا ۔اُس کے پورے بدن میں درد کی شدید سی لہر دوڑ گئی ۔ وہ بل کھا کے رہ گیا ۔ اچانگ وہ چیخا ۔
" بس کنچن بس ۔۔۔ میری بہن ۔۔ اب اور سہا نہیں جاتا ۔۔۔۔ یہ دیکھو ۔" وہ چلاتے ہوئے تصویر کنچن کو دکھانے لگا ۔ " دیکھو دیکھو ۔۔۔۔ نارنگ اور میری صورت کتنی ملتی جُلتی ہے ۔"
" وہی تو ۔۔۔۔ سر مو فرق نہیں ہے ۔ بس لباس کا تھوڑا سا فرق ہے ۔" کنچن ہچکیاں لیتی ہوئی بولی ۔
" اری یہ میں ہوں پگلی ۔ تمہارا بھائی، اشہر ۔۔۔ اشہر اشعاری ۔۔۔ کون کہتا ہے اشہر کی کوئی بہن نہیں ہے ۔ کنچن میری بہن ہے ۔۔۔ ہاں کنچن ۔۔۔ میری بہن ۔" کہتے ہوئے ایک عزم اور حوصلے کے ساتھ اشہر نے کنچن کو اپنے سینے سے لگایا اور اُس کے آنسو پونچھنے لگا ۔خود اُس کی اپنی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی رم جھم جاری تھی ۔
" اب آپ کو رکھشا بندھن پر انتظار نہیں کرنا پڑے گا ۔ آپ کا بھائی اشہر آپ سے راکھی بندھوائے گا ۔"
کہتے ہوے وہ اُس کے شانے تھپتھپانے لگا ۔
" بلکہ میں تو کہتا ہوں ابھی ۔ یہ لو میری بہنا ۔۔۔۔ اپنا رومال میری کلائی پر باندھ کر رسم پوری کرو ۔"
کہتے ہوے بڑے اعتماد کے ساتھ اشہر نے اپنی کلائی آگے کر دی ۔ جبھی کنچن اپنا رومال ہاتھ میں اُٹھاتے ہوے کچھ ہچکچائی ۔ وہ درد و کرب اور مسرت کے ملے جلے اثرات لئے اُسے تکنے لگی ۔ جبھی اشہر تحکمانہ لہجے میں بولا " اری باندھو۔۔۔۔۔ ۔ "
کنچن نے ایک بھر پور نگاہ سے اشہر کو دیکھا، اُس کے چہرے سے اعتماد جھلک رہا تھا، جبھی اُس کے خشک لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ اب وہ اشہر کی کلائی پر راکھی باندھ رہی تھی اور دونوں مبہوت نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ دونوں کی چشم تر تھی اور ہمہ وقت دونوں کے لبوں پر مسکراہٹ بھی دوڑ گئی تھی ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...