(Last Updated On: )
ایک زمانہ تھا کہ مطبوعہ تحریر کو اکثر مستند مانا جاتا تھا۔ جہاں کہیں کسی اخبار، رسالے یا کتاب میں کوئی بات چَھپ جاتی اس پر فوراً یقین کیا جاتا۔ تشکیک کی بہت کم گنجائش ہوتی تھی۔ جہالت اور ضعیف الاعتقادی کی یہ حالت تھی کہ ’جو مانگو گے وہی ملے گا‘ جیسا اشتہار پڑھا نہیں، جھٹ سے انگوٹھی کے دام روانہ کر دیے اور پھر اس کو الٰہ دین کا چراغ سمجھ کر مانگوں کی لسٹ سنا دی۔ مانگیں پوری نہ ہونے پر مغلظات پر اتر آتے۔ بھلا انھیں کون سمجھاتا کہ ساڑھے چھ آنے میں مانگیں پوری ہوتیں تو مدھو بالا نے کب کا میرے گھر میں ڈیرہ ڈال دیا ہوتا۔ معمہ حل کرنے پر ٹرانزسٹر بطور انعام مل جاتا تھا لیکن اس کا وی پی چھڑانے کے لیے پیکنگ اور لیدر کیس کی قیمت دو سوروپے چکانی پڑتی تھی۔ میناکشی کے مقابل فلم ہیرو بننے کی آرزو میں پہلے بیس روپے بطور اندراج مع چار فوٹو کی لاگت، پھر دو تین بار پچاس، سو اور دو سو روپے بھیجنے پڑتے تھے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ ماں باپ، دوست احباب کی جیبیں خالی کر کے روپے بھیجے جاتے اور آخر میں خبر ملتی کہ آپ کا نام فائنل سلیکشن میں رہ گیا اور فلم ’چلا تیواری ہیرو بننے ‘ کی شوٹنگ کچھ روز پہلے شروع ہو چکی ہے۔ ان دنوں کے تین سو پچاس روپے آج کے بیس تیس ہزار کے برابر ہوتے تھے۔ نتیجہ آنے تک بندہ خیالوں میں آٹھوں پہر میناکشی کے ساتھ کشمیر کی پہاڑیوں پر گانے گاتا تھا اور اپنے آپ کو دلیپ کمار یا دیوآنند سمجھتا تھا۔
تب سے زمانے نے کتنی بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ احمق ڈبے نے لوگوں کو احمق بنانے کا جیسے ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ چور اچکے مذہبی چولے پہن کر ناظرین کو دن رات بے وقوف بناتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ہر دوسرے دن کوئی نیا بابا یا پیشوا ظاہر ہوتا ہے، جو خوش رہنے اور خدا کو خوش کرنے کے سب گُر جانتا ہے۔ اب تو سو پچاس کی بات ہی نہیں کروڑوں کا ہیر پھیر ہوتا ہے۔ ذراسوچیے جو شخص چینل پر ظاہر ہونے کے لیے کروڑوں خرچ کرتا ہو اس کی کمائی کتنی ہو گی۔ ایسے ایسے معجزے دکھائے جاتے ہیں کہ اگلے زمانے میں پیغمبروں نے بھی نہیں دکھائے ہوں گے۔ یہ کمائی کسی سرمایہ دار سے نہیں بلکہ عام غریب فاقہ کش انسانوں سے ان کا پیٹ کاٹ کر اُگائی جاتی ہے۔ فردا کی خوشحالی کے خواب دیکھنے والے یہ غریب اپنے آج کو بد سے بد تر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔ ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ مذہب کے ان تاجروں کے سامنے جٹی بھیڑ سب کرائے کی ہوتی ہے جس کے لیے بازار میں باضابطہ بھیڑ جٹانے والے کنٹریکٹر بندھے ہوتے ہیں۔ گھر میں بھوکے بچوں کو پالنے کے لیے، بیوی کی مانگیں پوری کرنے کے لیے، عورت ہو تو ساز و سنگار کے لیے یا پھر نشے کا عادی ہو تو شراب و منشیات کے لیے یہ کرائے کے ٹٹو کوئی بھی ایکٹنگ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور غریب ناظرین ان مناظر کو دیکھ کر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔
ٹیلی ویژن اشتہاروں کے بارے میں کچھ نہ پوچھیے۔ دس دن میں ویزلی کریم حبش کے باشندے کو پرستان کا شہزادہ بنا دیتی ہے۔ حسین ایکٹریس اپنی دراز زلفوں کا راز شرنگار تیل کو بتاتی ہے جو وہ بچپن سے استعمال کر رہی ہے جب کہ تیل کمپنی پانچ برس قبل ہی وجود میں آئی ہے۔ کسرتی بدن اور عضلات کو خوشنما بنانے کے لیے سپیشل خصوصی ورزش گاہیں تین مہینے میں سِکس پیک بنانے کا دعویٰ کرتی ہیں جبکہ خود اس کا مارواڑی مالک بے ڈول اور بد وضع ہے۔ لکی پاوڈر دودھ استعمال کرنے سے بچوں کے ہر سال ایک انچ لمبے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے جب کہ اشتہار بنانے والے کے بچے ٹھگنے رہ گئے ہیں اور بڑھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ بہر حال یہ آج کی صارفی دنیا کی ٹھگی ہے۔ ناظر ین نے جب تک بے وقوف بننے کی ٹھان لی ہے بھلا اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگ ان پڑھ ہیں، مزید پچیس فیصد لوگ نقل کر کے چند جماعتیں پاس کر چکے ہیں اور باقی پندرہ فیصد لوگ کثیف ماحول سے عاجز رہنا پسند کرتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ میں تمہید باندھتے باندھتے خود بھی جذبات کی رو میں بہہ گیا اور نہ جانے کہاں پہنچ گیا۔ خیر اب آتا ہوں بر سر مطلب۔۔
در اصل یہ کہانی زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ اس دور کی ہے جب اتنے سارے ٹیلی ویژن چینل نہیں تھے، بس دو چینل ہوا کرتے تھے، دور درشن نیوز اور دوردرشن نیشنل۔ صبح سویرے اٹھ کر اخبار پڑھا نہیں بلکہ چاٹا جاتا تھا۔ ان دنوں میں شمال مشرقی ہندستان کی ریاست ترپورا میں تعینات تھا۔ ہمارے یہاں ہاکر روزانہ ’ ایسٹ اینڈ ویسٹ ہیرالڈ‘ چھوڑ جایا کرتا تھا۔ اخبار میں سنڈے کے روز ایک نصیحت آمیز کالم ہوتا تھا جس میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے نوجوانوں کے سوالوں کے جواب دیے جاتے تھے۔ کوئی محترمہ، جس کی چھوٹی سی فوٹو بھی اس کے نام کے ساتھ چھپتی تھی، سوالوں کا جواب دیا کرتی تھی۔ شکل و صورت سے وہ دانشور کم اور سماجی تتلی زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ سوالوں کے جواب پڑھ کر مجھے بڑی کوفت ہوتی تھی کیونکہ سائنسی معلومات کی بنا پر وہ جواب غلط اور گمراہ کن ہوتے تھے۔ کئی بار سوچا کہ اخبار کے چیف ایڈیٹر کو خط لکھ کر اس خود ساختہ ماہر نفسیات و جنسیات کی تعلیمی قابلیت اور مہارت کے بارے میں پوچھ لوں کیوں کہ مجھے اس کی قابلیت مشکوک لگ رہی تھی۔ یا تو اس کے پاس صلاح کاری کی کوئی سند ہونی چاہیے ورنہ وہ نو خیزوں کو گمراہ کر رہی تھی اور اتنا بڑا اخبار سماج کے لیے بہت نقصان دہ کام کر رہا تھا۔ بہتر یہ رہتا کہ اخبارکسی ماہر نفسیات کو اس کام پر لگا دیتا۔ میں سوچتا ہی رہ گیا کہ میرا تبادلہ نارتھ ایسٹ کے باہر ہو گیا۔ اس طرح ایسٹ اینڈ ویسٹ ہیرالڈ میرے ذہن سے پورا اتر گیا۔
بہت برس کے بعد ایک روز اخبار میں بڑی دھماکے دار خبر چھپی جس پر نظر پڑتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ممبئی میں ایک بار میں کسی لڑکی کا قتل ہو چکا تھا اور سبھی تماش بین دیکھتے رہ گئے تھے۔ خوبصورت لیتکا وہاں پر ساقی میخانہ تھی۔ گاہکوں کو رجھانے کے لیے ایسی کئی لڑکیاں بار میں کام کرتی تھیں۔ بار میں چھیڑ چھاڑ تو معمول بن چکی تھی مگر اس رات شراب کے نشے میں چور دو چار نوجوانوں نے لیتکاسے دست درازیاں کیں۔ وہ کچھ بھی نہ بول پائی۔ کبھی مسکرا کے اور کبھی ہنس کر ٹالتی رہی۔ ان میں سے ایک لڑکے، گجیندر، نے اسے دوبارہ شراب لانے کے لیے بلایا۔ گجیندر مقامی ڈان کا بیٹا تھا جس کو یہ زعم تھا کہ سب سے پہلے سروس کا حق صرف اس کا بنتا ہے۔ غلطی سے لیتکا کسی اور کا ڈرنک بنا کر اس کے ٹیبل پر چلی گئی۔ اس بات پر ناراض ہو کر گجیندر اس کو گالیاں دیتا ہوا چیخنے چلانے لگا مگر لیتکا اس کے تیور دیکھ کر وہاں جانے سے کترائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گجیندر نے اپنا پستول نکالا اور وہیں سے لیتکا کے سینے میں ساری گولیاں داغ دیں اور وہ بیچاری لہولہان فرش پر ڈھیر ہو گئی۔ ہر سو ہنگامہ مچ گیا اور ڈر کے مارے تماشائیوں کو جدھر کوئی نکاسی سوراخ ملا، وہیں سے بھاگ نکلے۔ کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ کون مرا، کس نے مارا اور ماجرا کیا تھا؟
اخبار پڑھتے پڑھتے جونہی میری نظر ایک لائن پر پڑی، میرے ہوش و حواس اڑ گئے۔ لکھا تھا کہ یہ بار جوگا ساہنی کا ہے جو اس شہر کی جانی مانی سوشلائیٹ ہے اور بڑے بڑے سرکلوں میں اس کے تعلقات ہیں۔ میں نام پڑھ کر کچھ چونک سا گیا۔ کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دماغ پر بہت زور ڈال کر آخر کار مجھے یاد آیا کہ یہ وہی نام نہاد صلاح کار ہے جو ’ ایسٹ اینڈ ویسٹ ہیرالڈ ‘ میں نفسیاتی و جنسی معاملات پر مشاورتی خدمت کیا کرتی تھی۔ تب کہیں جا کرتا ر سے تار جڑ گئے۔ نہ کوئی اعلیٰ ڈاکٹری یا نفسیاتی ڈگری، نہ تعلیم اطفال کا کوئی تجربہ، بس انگریزی کے چار لفظ بولنے اور لکھنے کی صلاحیت، تتلیوں کا نیٹ ورک اور پھر دل پر ضرب لگانے والی مسکراہٹ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا سند چاہیے تھی اسے۔ اسی سند پر وہ ایسٹ اینڈ ویسٹ ہیرالڈ کے قارئین کو سالہا سال سے نفسیاتی اور جنسی الجھیڑوں کو سلجھانے کے لیے ماہرانہ رائے دے رہی تھی۔ خیر دوش اس کا نہیں تھا، دوش تو اس میڈیا کے انتظامیہ کا تھا جو سستی شہرت کے لیے ایسے نا تجربہ کار لوگوں سے خدمت لیتے رہتے ہیں۔ میں من ہی من میں کڑھتا رہا اور اپنے ملک کے عبقری طبقے پر ہنستا رہا جو شوخ شراروں کو ذہنی جولانیوں سے تعبیر دیتے ہیں۔
گجیندر کے خلاف کوئی کار روائی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ پولیس پر جیسے فالج گر پڑا تھا۔ کوئی گواہ سامنے آنے کو تیار نہ تھا۔ جن کے نام اس روز شراب بیچی گئی تھی سب یہی کہہ رہے تھے کہ ہم موقعِ واردات پر موجود نہ تھے۔ پہلے ہی چلے گئے تھے۔ مگر بھلا ہو عدالت عالیہ کا جس نے اپنی نگرانی میں پورے معاملے کی از سر نو چھان بین کروائی اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
اس دن کے بعد جوگا ساہنی صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی۔ اب نہ کہیں اس کا نام سنائی دیتا ہے اور نہ ہی کہیں اس کی تصویر نظر آتی ہے۔ نہ ایسٹ اینڈ ویسٹ ہیرالڈ میں اس کا کالم چھپتا ہے اور نہ ہی وہ نئی نسل کو گمراہ کرتی ہے۔
کسی دہریے نے سچ ہی کہا ہے کہ ہندستان ایک ایسا ملک ہے جہاں خدا کے وجود پر یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔