ڈاکٹر سیما گاندھی نے فجر کی نماز ختم کرکے سلام پھیرا تو اپنے پسندیدہ ایکٹر عامر خان کے انداز میں حسب عادت اس کے منھ سے “او تیری ” نکلتے نکلتے رہ گیا کیونکہ کھونٹی سے ٹنگے اس کے اسٹیتھوسکوپ پر ایک موٹی سی چھپکلی پینگیں لے رہی تھی- اس نے جلدی سے با ئیں جانب سلام پھیرا تو اس بار اس کے منھ سے ” او تیری ” نکل ہی گیا کیونکہ بائیں دیوار میں بنی کھڑکی کے فریم میں ایک حسین ترین مورت جڑی ہوئی تھی۔ کمرے میں جل رہے اکلوتے ٹیبل لیمپ کی روشنی میں ایسا لگ رہا تھا جیسے پیکاسو کی شاہکار پینٹنگ پر گردش ایام کی گرد اور کینویس پر تھوڑی جھریاں سے پڑ گئ ہوں پینٹنگ کے رنگ اور کمال فن میں کوئ کمی نا آئی ہو، یہ اسلئے کہ یہ مونا لیزا بوڑھی تھی ، سفید براق ساڑھی کا پلو سر پر رکھے وہ عجیب سے تاثرات کے ساتھ مصلہ پر بیٹھی ہوئی سیما کو گھور رہی تھی۔ اس کے بڑی بڑی خواب ناک آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے، اب اس نے سیما پر سے نظر ہٹا کر دیوار کو دیکھنا شروع کردیا تھا سیما نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا ،” او تیری ” اس نے اپنے گرو تیغ بہادر میڈیکل کالج کے یک صفحی کیلینڈر کے پیچھے آیت لکرسی چپکا رکھی تھی ۔اس وقت تیغ بہادر دیوار سے لگے ہوئے تھے اور آیت الکرسی سامنے، سیما نے ڈرتے ڈرتے دوبارہ کھڑکی کی طرف دیکھا وہ خاتون غائب تھی۔ اس نے بلبلا کر دعا کی اللہ یہ میرا وہم ہی ہو۔ وہ کوئی چڑیل وڑیل ہی ہو، لیکن آج پہلی رمضان تھی اور سارے شیاطین تعطیل پر چلے گئے ہوں گے اس نے اپنے وہم کو یقین میں بدلنے کے لئے اسی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا وہ حسین، دراز قد بڑھیا سیما کی برساتی کے بالکل سامنے والے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوئی اسے ہی دیکھ رہی تھی اور پھر وہ مڑی اور چھڑی ٹیکتی اندر چلی گئ دروازہ بند کرتے ہوئے ایک بار پھر سیما کو دیکھا، اب سیما کو یقین کرنے کے علاوہ کوئ چارہ نہیں تھا کہ اسے نماز پڑھتے ہوئے اس بوڑھی شہزادی نے دیکھ لیا ہے۔ یہ پینجابی لین پاکستان سے آئے شرنارتھیوں کی خاص آماجگاہ تھی , جو اپنا سب کچھ ۱۹۴۷ میں پاکستان کے مسلمانوں کے ہاتھ لٹا کر دیار غیر میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور کئے گئے تھے۔اس لئے پنجابی لین کے مکین اور خاص طور پر یہاں کی بوڑھی عورتیں کس قدر تعصب رکھتی تھیں اس کا اندازہ سیما کو کچھ ہی دنوں میں ہوگیا تھا۔ اس کا میڈیکل کالج اور اسپتال پینجابی لین سے کوئ پانچ سات منٹ کی پیدل مسافت پر تھا اور یہاں کے ذیادہ تر مریض گرو تیغ بہادر مڈیکل کالج ہی میں علاج کے غرض سے آیا کرتے تھے۔ سیما پچھتا رہی تھی اس نے کیوں کھڑکی کا پٹ صحیح نہیں کروایا کوئی پردا ہی ٹانگ دیتی پردہ نہیں تھا تو اپنا پرانا کوٹ ہی کھڑکی کے پٹوں کو پہنا دیتی، اب تو یہ ٹھکانابھی گیا ۔ کتنی خوش تھی وہ۔ اس بڑھیا کو بھی اتنی صبح اٹھ کر اس کے کمرے میں جھانکنا تھا اور عین اس وقت جب کہ وہ صحری کرکے نماز پڑھ رہی تھی۔بڑھیا ذرا دیر میں آجاتی جب وہ چھپکلی کو بھگا رہی تھی ۔ ڈاکٹر سیما گاندھی کا چند ماہ قبل ہی گرو تیغ بہادر میڈیکا کالج کی ایم ڈی سائیکاٹری میں ایڈمیشن ہوا تھا اسے ہوسٹل کا ماحول راس نہیں آرہا تھا وہ جلد سے جلد کسی نجی گھر میں منتقل ہونا چاہتی تھی۔ میڈیکل کالج کے قرب و جوار میں کوئی ٹھکانا مل کر نہیں دے رہا تھا، اس دن وہ اپنی ایک ڈاکٹر دوست سے بچوں کے وارڈ میں یہی بات کرنے پہنچی تھی کہ ان کی باتیں سن کر پاس کھڑی ملہوترا پریوار کی خادمہ تارا جیسے فرشتہ بن کر ٹپک پڑی ۔ تارا نے بتایا کہ میڈیکل کالج سے بس دس منٹ کی دوری پر پنجابی لین میں ملہوترا مینشن واقع ہے جس کی برساتی اسے مل سکتی ہے ۔ کیونکہ ملہوترا کی ماں کو اکثر و پیشتر بیہوشی کے دورے پڑتے ہیں اور پنجابی لین کی تنگی کی وجہ سے وہاں چار پہیہ ایمبولینسیز نہیں آسکتیں اور بڑی بی کورات بے رات فوری طبی امداد فراہم کرنے کے لئے خاندان کے بڑوں کو تارا نے یہ کہتے سنا تھا کہ کیوں نا چھت پر بنی برساتی نما اسٹور کو خالی کرکے کسی لیڈی ڈاکٹر کو کرایے پہ رکھ لیا جائے۔ سیما فورا تارا کے ساتھ ملہوترا سے ملنے پنجابی لین کے لئے نکل کھڑی ہوئ۔ ملہوترا مینشن کبھی کسی باذوق مسلمان جاگیر دارکی خوبصورت حویلی رہی ہوگی، جو ۱۹۴۷میں پاکستان ہجرت کرگئے تھے، اور پاکستان سے آئے ملہوترا جی کے خاندان کو یہ کسٹوڈین پراپرٹی مل گئ تھی اب اُس حویلی میں بازار اور رہائشی مکانات بن گئے تھے جس نے چاہا اور جیسا چاہا اپنا ٹھکانا بنا لیا تھا۔ ملہوترا مینشن ہی کیوں، پوری پنجابی گلی ہی اپنے مغل طرز تعمیر ، محرابوں اور جھروکوں کے ساتھ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ، جہاں آج ہلدی کٹ رہی ہے وہ ہمایوں کی بارہ دری ہوا کرتی تھی، جہاں تیل کے پیپے پچک رہے ہیں، وہاں تحریم خانم کی چاندنی ہوا کرتی تھی ۔ کویلے کا گودام کبھی کلیم الزماں کا دیوان خانہ تھا۔ پوری پنجابی لین شرنارتھی خاندانوں سے اٹی پڑی تھی۔ بھلا ہو اس کے نام میں لگے گاندھی کا کہ ملہوترا جی نے اسکا نام سنتے ہی کہا،ڈاکٹر صاحب گجرات سے آئی ہو؟ سیما نے اثبات میں سر ہلادیا، اجی واہ جی واہ ، پھراس کے بعد انہوں نے اس کے مذہب سے متعلق کوئی سوال کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی اور اسے یہ ہوا دار برساتی مل گئ تھی۔
سیما کا دروازہ پر دستک ہوئی، سیما نے سوچا چلو صاحب ، فورا کمرہ خالی کرنے کا پروانا آگیا، روزے میں سارا سامان کیسے پیک کرےگی آج اتوار بھی ہے، کہاں جائےگی، اس بار دستک زرا زور سے ہوئی۔ سیما نے بادل ناخواستہ دروازہ کھولا تو ملہوترا کا بڑا بیٹا ادھوری نیند سے جگائے جانے پر ذرا جھلایا ہوا کھڑا تھا وہ ڈاکٹر جی! وہ دادی بیہوش ہوگیں ہیں چلو دیکھ لو بے بے دادی کو۔ سیما کو تھوڑی ڈھارس ملی اس نے اپنا اسٹیتھوسکوپ ، کھونٹی سے اتارا اور بیگ لےکر اس موٹے ملہوترا کے پیچھے چل پڑی۔ وہ اسے لیکر سیدھا اسی کمرے میں پہونچا جہاں سیما نے بوڑھی حسینہ کو داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا او تیری۔۔ مریضہ وہی مونا لیزا تھی۔ وہ بستر پر بیہوش پڑی ہوئی تھی۔ سینر ملہوترا ماں کے سرپر کپڑا رکھے بیٹھے تھے۔ کمرے میں ملہوترا خاندان کی تنومند عورتیں بھی موجود تھیں ان کے بر خلاف بستر پر لیٹی مونا لیزا کا بوڑھا جسم جیسے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ نا کم نا ذیادہ، سیما نے بیہوش مریضہ کا نام پوچھا، ملہوترا نے جواب دیا، پھتتے، بتاؤ بھلا ایسا معصوم حسن اور نام پھتتے۔ یہ بھی کوئی نام ہوا۔ دنیا کی حسین ترین عورتوں میں جسکا شمار ہوسکتا ہو اس کے نام میں کوئی حسن کوئ تازگی نہیں۔ سیما نے ملہوترا پریوار کی عورتوں سے باہر جانے کی درخواست کی اور وہ گوشت کے پہاڑ لڑھکتے پڑھکتے باہر چلے گئے۔ سیما کو پھتتے کے سر پر اگے چاندی کے ریشمی انبار میں زخم تلاش کرنے اور ڈریسنگ کرنے میں دشواری ہورہی تھی۔ سیما نے سوچا،جوانی میں یہ عورت کیا قیامت رہی ہوگی ۹۰ برس کی عمر میں بالوں میں کس غضب کی گھناوٹ ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ۲۶ سال کی عمر میں، سر کے بالوں کا یہ حال ہے کہ کبھی کوئی مریضہ کے سر کی جوں ہمارے سر میں پڑجائے تو مشکل سے تین چار منٹوں ہی میں سارے سر کی ریکی کرکے ٹپ سےسامنے ٹیبل پر آرہی، ڈریسنگ اور انجکشن وغیرہ سے فارغ ہوکر اس نے پھتتے کی ہسٹری لینی چاہی، ملہوترا بنا کسی تذبذب کے ملہوترا خاندان کی تارخ کو طوطے کی طرح دہرانے لگا، پتاجی اور ہمارا پریوار پارٹیشن کے بعد یہاں ایا تھا، پتاجی کی تب نئی نئی شادی ہوئ تھی ہمارے سورگیہ پتاجی بڑے غصہ والے ہوگے تھے، ملہوترا نے دیوار پر لگی ایک تصویر پر پڑا سرخ رنگ کا پردہ ہٹاکر نہایت خوفناک شکل کے اپنے سورگیہ پتاجی کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا، اتنی خوفناک شکل کے پنجابی کم ہی دیکھنے میں آئے تھے۔ملہوترا جی بولے چلے جارہے تھے۔ ہم نے ہماری ماں کو ہمیشہ پتاجی ، چاچا تائی کے ہاتھوں پٹتے ہوئے ہی دیکھا، بہت سندر تھیں ،پریوار کی ذیادہ تر مہیلائیں ان سے جلتی تھیں، پرہماری ماتا جی نے سارے ظلم خاموشی سے سہے،کبھی ایک آنسو نہیں بہایا، پتاجی کے سورگ واس پر بھی نہیں۔ گھومنے پھرنے کہیں آنے جانے کا ان کو بالکل شوق نہیں تھا، مندر جانے کے نام سے تو یہ بیمار ہوجاتیں تھیں، اب دیکھونا پتاجی کے دیہانت کے بعد انہوں نے بھگوان کے مندر پر پردہ ڈالدیا ہے اور چاندنی چوک سے یہ اردو کا کوئ فریم لاکر لگوادیا ہے کہ یہ رکشا کاوچ ہے، ملہوترا کے اشارہ پر ڈاکٹر سیما نے دیکھا کہ سینیر ملہوترا جی کی تصویر کی طرح دیوار پر لگے چوبی مندر پر بھی سرخ رنگ کا پردا پڑا ہوا تھا، اور اس مندر کی بالائی جانب دیوار پر آیت الکرسی کا فریم لگا ہوا تھا، ملہوترا پھر گویا ہویے، ہم آٹھ بہن بھائیوں میں ہماری سب سے چھوٹی بہن ، گڈی بالکل ماتا جی پر گئیں تھیں، بہت سندر تھی، جامعیہ ملیہ اسلامیہ میں پڑھ رہی تھی کہ ایک مسلمان لڑکے کے پریم میں پھنس گئ، ماتا جی کے علاوہ ہر کوئی اس کے پریم کا دشمن تھا، پتاجی نے گڈی کی شادی طے کردی، ماتا جی کی مدد سے گڈی شادی کے روز اپنے پریمی کے ساتھ بھاگ گئ، ماتا جی نے گڈی کے بھاگنے میں اس کی مدد کی تھی اس لئے پتاجی اتنا غصہ ہوئے کہ طیش میں آکر انھوں نے ماتا جی کے سر پر چار کلو کا باٹ ماردیا ، تب سے آپکی ماتا جی کو بیہوشی کے دورے پڑنے لگے،؟ ڈاکٹر سیما نے پوچھا، ملہوترا نے انکار میں سر ہلادیا ، نہیں جب انھوں نے گڈی اور اس لڑکے کی آتم ہتھیا ،خودکشی کی خبر سنی تب پہلا بیہوشی کا دورا پڑا تھا، تب سے یہ سلسلہ چل پڑا ہے۔ ملہوترا سیما سے نظر چراکر باپ کی خوفناک تصویر کا پردہ صحیح کرنے لگا، کمرے کا بوجھل سکوت پھتتے کی آہ سے ٹوٹا، وہ ہوش میں آگئ تھی، ملہوترا بہت خوش تھا اورڈاکٹر سیما کا لہک لہک کر تعارف کروانے لگا۔ یہ ڈاکٹر سیما گاندھی ہیں، گرو تیغ بہادر میڈیکل کالج میں سائکاٹری سے ایم ڈی کر رہی ہیں ، بہت ہوشیار ڈاکٹر ہیں ،گاندھی جی کی کاسٹ سے ہیں۔ دیکھو کتنی جلدی ہوش میں لے آئیں آپ کو، ڈاکٹر سیما گاندھی اسُ بزرگ خاتون کے خوشنما چہرے کو ایک ٹک دیکھ رہی تھی، ۔اور پھتتے کی بڑی بڑی خوابناک آنکھوں میں اب بھی آنسو تیر رہے تھے،۔پھتے نے کانپتا ہوا ہاتھ اُٹھایا اور سیما کا ہاتھ تھام کر اس پر بوسہ دے دیا۔ واہ رے اللہ تیری شان ، اس لمحہ آسودہ نے سیما کے دنیا ہی پلٹ دی، پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے، پھتتے نے نا صرف یہ کہ اس کے مسلمان ہونے کے راز کو ملہوترا خاندان کے سامنے افشا نہیں کیا بلکہ وہ سیما کی نمازوں اور تلاوتوں کی امیں بھی بن گئ تھی، سیما کو اب گلیارے میں کھلنے والی کھڑکی کے پٹ صحیح کروانے کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی، وہ آرام سے نماز پڑتی رہتی اور پھتتے مستعدی سے کھڑکی میں جمی ہوئ پہرا دے رہی ہوتی، یہی نہیں، پوری پنجابی لین،میں ہر وقت انواع و اقسام کے کھانوں اور چاٹ کی دوکانوں اور ٹھیلوں سے چہل پہل رہتی تھی، لیکن کبھی ڈاکٹر سیما کو کھانے یا اپنے چٹورے پن کی تسکیں کے لئے کسی ہوٹل یا چاٹ بھنڈار کا رخ کرنے کی نوبت تک نہیں آئی، پھتتے تھی نا اس کی بے بے دادی، اس بزرگ کے ہاتھوں میں کیا لذت تھی ، وہ ہاسپٹل سے تھکی تھکائی نکلتی اور پنجابی لین کے قریب آتے آتے اس کا تجسس بڑھ جاتا کہ اج پھتتے دادی نے کیا بنا یا ہوگا، اپنا سامان کمرے میں رکھ کر وہ سیدھا پھتتے کے ہجرے کی محبت اور چاہت کی نسیم سے لہکتے سکون کے سبزہ زار میں کھوجاتی، انواع و اقسام کی لذیز ڈشوں سے ہی نہیں پھتتے کی مہربان انگلیاں کبھی اسکے بالوں میں پوشن لگا رہی ہوتیں تو کبھی کناری با زار سے تارا کے زریعہ لیس منگواکر اس کے دوپٹے سجارہی ہوتیں، ڈاکٹر سیما اپنے نانی ، دادی کی شفقتوں سے سے محروم رہی تھی تو اللہ نے ان کی محبتوں کو پھتتے میں گویا کوٹ کوٹ کربھر دیا تھا، ڈاکٹر سیما کے ملہوترا مینشن میں ائے نو ماہ ہونے جارہے تھے، اور اس اثنا میں پھتتے کو صرف دو بار ہلکے سے بیہوشی کے دورے پڑے تھے اور وہ بھی جب سیما نے گھر جانے کا ذکر کیا تھا تب، ورنہ وہ بھلی چنگی رہیں جس کے لئے ملہوترا کا خاندان سیما کا ممنون تھا ٓ۔ سیما کا خیال تھا کہ سیما کی ذات میں پھتتے کی اتنی دلچسپی ایسی زبردست مادرانی شفقت کا راز اس امر میں پنہاں ہے کہ پھتتے اپنی لاڈلی مظلوم بیٹی گڈی کو سیما میں تلاش کرتی ہے اور اس سے محبت کرکے اسی مادارانہ جذبہ کی تسکین کا سامان کرتی ہیں جو بیٹی کی نا گہانی موت کے بعد اس شدید قسم کی احساس محرومی سے پیدا ہوگیا تھا۔ پھتتے کی بیہوشی کسی نفسیاتی گرہ کا نتیجہ تھی، جسے کھولے بنا پھتتے کا علاج ممکن نہیں تھا، سیما نے پھتتے کو کریک کرنے کے لئے اسکے سامنے دنیا بھر کے سانحات بیان کرڈالے، درد بھری داستانیں گھڑیں پر پھتتے ٹس سے مس نا ہوئی نا اسنے ہمیشہ اپنی آنکھوں میں مچلتے ہوئے آنسووں کو ہی ڈھلکنے کی اجازت ھی دی، نہ کبھی کچھ بول کر ہی دیا، بس اپنی ان ہی ڈبڈبائ آنکھوں سے اسے دیکھتی رہتی۔یا نظر پھیر لیتی۔ ۔ داکٹرسیما نے جب پہلی بار پھتتے کی ان مخمور آنکھوں سے ابلتے درد ان میں چھلکتے آنسووں کو دیکھا تھا تو بے اختیار کسی مجلس میں سنے ذاکر کے کلمات یاد آئے تھے کے کربلا کے سانحہ کے بعد بی بی زینب کی آنکھیں تا عمر آنسووں سے ڈبڈبائ ہی رہیں، کتنی کربلائیں تھیں جو پھتتے کے سینہ میں برپا تھیں، ؟ ڈاکٹر سیما کے لئے ایک بڑا چیلینج تھا وہ پھتتے کو کھولنا چاہتی تھی ، پھتتے کو رلانا چاہتی تھی، پھتتے تھی کہ اسکا ہر حربہ بیکار کئے دیرہی تھی، سوائے مونا لیزا کی طرح درد بھری یا بھید بھری مسکراہٹ کے کبھی اسکے چہرے کے تاثرات تک نہیں بدلے رونا یا آنسو بہانا تو کجا۔
ڈاکٹر سیما گاندھی کے اکلوتے ماموں کا فون آیا، والدین نے ڈانٹ پلائی کہ اب کوئ بہانہ نہیں چلےگا، ماموں کی بیٹی کی شادی ہے سیما کو اس میں شریک ہونا ہے ہونا ہے ہونا ہے اور بس۔ سیما کے فرسٹ ائیر کے امتحانات بھی ختم ہوگئے تھے، اس نے احمد آباد کی فلا ئٹ میں ٹکٹ بک کروالیا، اپنی دوست کی شادی کے بہانے سے کچھ شاپنگ کی اور پھتتے کے حوالے کردی ، حسب عادت پھتتے نے رات دن ایک کرکے اپنی ہنرمندی کے وہ جوہر دکھا ئے کہ اس باکے جوڑے دیکھتے ہی بنتے تھے ۔ اپنی روانگی سے ایک رات قبل وہ کافی دیر تک پھتتے کی شفقتیں لوٹتی رہی، پر چپکے سے اپنی دوست کی شادی میں شرکت کی اجازت مانگی اور ذرا غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے یہ بتایا کی شادی دلی میں ہی ہے، میڈیکل کالج جانے سے پہلے جب وہ پھتتے کو حسب عادت خدا حا فظ کہنے کو گئ تو اندر ہی اندر کہیں اسکا دل شرمسار تھا وہ اس نیک طینت بڑھیا کو فریب تو نہیں دے رہی، پھر دل نے کہا اس کے والدین عزیز و اقربا کا بھی تو اس پر حق ہے، اور صرف پھتتے کی دل آزاری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ سیدھی ائیر پورٹ پہنچی اور احمد آباد جانے والی فلائٹ میں سوار ہوگئ ، دوسرے روز سیما اپنے والدین کے ہمراہ اپنے ماموں کے یہاں گاندھی نگر پہنچ گئ، شادی کا گھر تھا دھوم دھام ، اس کے ملبوسات کی بے حد تعریف ہورہی تھی، ایک شام ملہوترا کی نوکرانی تارا کا فون آیا، وہ بولی، سیما دیدی آپ کہیں باہر ہو کیا، یہ دوسری بھاشا میں فون بول رہا ہے نا، بے بے آپ کو بہت یاد کر رہی ہیں ، لو انسے بات کرلو، دوسری طرف سے پھتتے کی سانسوں کی آواز آنے لگی، تو سیما کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اب کیا کہے،وہ بڑی مشکل تمام بول پائی، دادی معاف کرنا اپنی دوست کی شادی سے سب لوگ ذرا پکنک منانے آگئے ہیں، میں جلد ہی آجاونگی، دوسری طرف سے ایک نہایت میٹھی آواز آئ . اللہ نگہبان” اس آواز میں ایسی شیرینی تھی جیسے، مسجد نبوی کی اذان، دوسری طرف سے تارا چیخ رہی تھی، بے بے دادی نے بولا ہے، بے بے دادی کی زبان واپس ٓگئ، پھر ایک دھماکہ سا سنائ دیا اور فون بند ہوگیا۔ سیما گم صم بیٹھی ہوئ تھی، تبھی اس کے ماموں اور دلہن کے ابا اسکے پاس ایک موبائل سم کارڈ لیکر آئے اور سیما سے بولے، ایسا ہے ڈاکٹر صاحبہ آپ اپنا دلی والا سِم نکال کر یہ گجراتی سِم اپنے فون میں ڈال لیں ورنا آپ کے مریض آپ کو چین نہیں لینے دینگے، ویسے ہم نے یہاں بھی آپ کے لئے، مریض کا بندوبست کر رکھا ہے، ماموں نے ایک آنکھ دباکرشرارت سے ایک طرف اشارہ کیا اور اپنے موبائل سے پرانا سم نکال کر نیا سِم ڈالتی ہوئ ڈاکٹر سیما نے جو ںظر اٹھا کر دیکھا تو اسکی ںظر اٹک کر رہ گئ، او تیری کیا ڈیشنگ پرسنالٹی تھی بندے کی، نام عامر تھا امریکہ میں ڈاکٹر، رشتہ کی تلاش میں تھا ، پرفیکٹ امیدوار ، واہ، پھر تو دنوں کو پر لگ گئے،ماموں ذاد بہن کی شادی اور ڈاکٹر عامر کے شادیانوں میں سیما ایسی ڈوبی کے ۹ دن کسے گذرے پتا ہی نا چلا، دسویں دن جب ڈاکٹر سیما نے دلی ائیر پورٹ سے باہر آنے کے بعد اپنا پرانا سم موبائل فون میں لوڈ کیا تو، ملہوترا خاندان کے میسیجیز اور مسسڈ کالس کی بھر مار لگ گئ، ان سے سیما کو اندازہ ہوا کہ نو دن قبل اس سے بات کرنے کے بعد پھتتے پر زبردست قسم کا بیہوشی کا دورا پڑا تھا، اور وہ کھڑے کھڑے زینہ سے نیچے آرہی ، اسپتال میں رہئ اور اب انھیں واپس گھر لایا جا چکا ہے کیونکہ ڈاکٹرس جواب دے چکے ہیں، اور پھتتے جب تک ہوش میں تھیں وہ صرف گھر جانے کی ضد کرتی رہی تھی۔
ڈاکٹر سیما جب ملہوترا مینشن پہنچی تو اسکا ایک ایک قدم منوں کا ہورہا تھا۔ پھتے سر سے پاوں تک پلاسٹر اور پٹیوں میں جکڑی ہوئ تھی۔ پھتتے کے کمرے میں سارا ملہوترا خاندان اکھٹا تھا۔ ڈاکٹر سیما نے وہاں موجود میڈیکل اسٹاف سے علاج کی تفصیل پوچھی اور اپنی محسنہ کے آخری سفر میں معالجاتی رفاقت کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں، فطرتا کنجوس ملہوترا خاندان نے فورا پیرا میدڈیکل اسٹاف کو چلتا کردیا۔
پھتتے کی تمام اولاد جمع تھی ، بیٹیاں داماد، چندی گڑھ اور لدھیانہ سے آئے ہوئے تھے، مندر پر پڑا پردا ہٹایا گیا اور بھگوان کے سامنے چراغ جلادیا گیا۔ ملہوترا نے گلو گیرلہجہ میں اپنی والدہ سے درخواست کی کہ، بے بے بھگوان کے درشن کرلو، پھتتے بے سدھ پڑی رہی بیٹیاں داماد سب ایک کے بعد ایک کوششیں کرتے رہے، مگر لا حاصل ، پھر تارا نے پروپوزل رکھا کہ شاید پھتتے ڈاکٹر سیما کی آواز پہچان لیں انسے بہت محبت کرتی ہیں، اب سب نے اصرار کیا تو ڈاکتر سیما نے اپنے حواس جمع کرکے، بڑی مشکل سے وہی جملہ دہرایا ، بے بے دادی بھگوان کے درشن کرلو، بس وہی لمحہ تھا کہ بے سدھ پڑی پھتتے کی انکھوں میں کچھ حرکت ہوئ اور اسنے کراہنا اور چیخنا شروع کردیا ، اور پھر ایک ایک منٹ کے وقفہ کے ساتھ ان کراہوں اور چیخوں کا سلسلہ جو شروع ہوا تو تین دنوں تک دن اور رات جاری رہا۔ مسلسل چیخنے سے پھتتے کی اواز خوفناک حد تک بیٹھ گئ تھی، پھتتے کے بیٹے اور خاص طور پر داماد اپنا اپنا بزنس چھوڑ کر دلی میں پڑے ہوئے تھے، انھیں پھتتے کے اس سکرات کے عالم کی طوالت بہت اکھر رہی تھی، ایک دو دامادوں اور بہووں نے سیما سے چپکے سے درخواست بھی کر ڈالی، کہ وہ پھتتے کی لائف لائن بند کردے، ڈاکٹرسیما نے دو ٹوک انکار کردیا۔
پھر خاندان کے بڑوں میں بڑی بحث مباحثہ کے بعد یہ طے پایا کہ پھتتے کو اس جان کنی کے عذاب سے صرف ایک ہی چیز چھٹکارا دلا سکتی ہے کہ پھتتے کی “ان کہی” کروادی جائے، اسپر پھتتے کے دو بیٹے اور بیٹیاں خوب روئیں کہ ہم اپنی ماں کو اپنے ہی ہاتھوں مار رہے ہیں، پھر وہ پھتتے کی تکلیف کا خیال کرکے چپ ہولیں، سیما دن رات پھتتے کے پلنگ کی پٹٹی سے لگی بیٹھی رہی تھی، اسے بتایا گیا کہ “ان کہی ” کا عمل مسلمان مولوی کرینگے، مولوی صاحب کچھ منتر پڑھتے ہیں اسکے بعد جان نکل کر ہی دم لیتی ہے “ان کہی ” کے اس عمل کے دوران جس وقت پھتتے کی جان نکلے وہ انھیں اگاہ کردے ، تاکہ وہ اسے پلنگ سے اٹھا کر زمین پر لٹا سکیں اگر پھتتے کی جان پلنگ پر نکلےگی تو انھیں تین کی جگہ سات دھاموں میں پھتتے کی راکھ بکھیرنی کی طوالت و غیر ضروری اخراجات کا بار اٹھانا پڑیگا۔
اسی رات ایک بجے کے قریب، ملہوترا کا بیٹا ایک مولوی کو لےکر آگیا، ڈاکٹر سیما مولوی کو دیکھ کر پہچان گئ ، وہ انھیں عالم صاحب کے نام سے جانتی تھی۔ عالم صاحب ایک دو بار کسی ذہنی مریض کو لے کر اس کی او پی ڈی میں آچکے تھے اور کچھ مذہبی کتابیں بھی ڈاکٹر سیما نے انسے منگوائ تھی، ڈاکٹر سیما کو فکر ہوئ کہ کہیں یہ عالم صاحب اسکے مسلمان ہونے کا راز ہی نا افشا کردے، مگر عالم کے بے بے کے کمرے میں آتے ہی جو گریہ و زاری کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، اس سے وہ عالم صاحب بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے تھے۔وہ چپ چاپ ڈاکتر سیما کے پاس آکر کھڑے ہوگئے، بے بے کی کیفیت پوچھی، کمرے میں موجود سارے لوگ سر پر رومال اور پلو رکھے ہاتھ جوڑے کانپ رہے تھے،عالم صاحب پھتتے کے سرہانے پہونچے اور دو زانو بیٹھ گئے، انہوں نے ملہوترا سے بے بے کا نام پوچھا، سینر ملہوترا نے جواب دیا ” پھتتے دیوی” نام سن کر عالم صاحب کا سر جھکتا چلا گیا، وہ تھوڑی دیر افسوس میں سر ہلاتے رہے، انہوں نے دوسرا سوال کیا یہ بذرگ اوریجنلی کہاں کی رہنے والی ہیں ، جواب آیا لاہور، پاکستان۔ ، عالم صاحب کی ٹھوڑی انکی چھاتی سےآن لگی ۔ ان کہی ہوجا ئےگی بزرگو! پھتتے کی بہو نے پوچھا، عالم صاحب نے دھیرے سے سر اُٹھایا یہ میری تیسری ان کہی ہوگی انشااللہ، بے بے کی گھٹی گھٹی چیخیں بدستور جاری تھیں، عالم صاحب نے پاس بیٹھی ڈاکٹر سیما سے کی طرف دیکھا اور خود کلامی کے سے انداز میں گویا ہوئے، پاکستان کے پنجاب میں یہ چلن عام ہے، کہ نام کی بے حرمتی سے بچنے کے لئے، پھتتے کہہ کر بلاتے ہیں، ڈاکٹر سیما کا گلا رندھ گیا، کسے پھتتے کہ کر بلایا جاتا ہے، اس نے پوچھا، مولوی بھی لرزتی آواز میں بولے، پھتتے فاطمہ نام کی لڑکیوں کو کہا جاتا ہے،تا کہ فاطمہ بنت صلعم کی بے حرمتی نا ہوآج بھی نہیں ہوگی ۔ بسم اللہ، اسکے ساتھ ہی عالم صاحب نے فاطمہ عرف پھتتے کے کان کے قریب منھ لاکر زور سے آواز دی، فاطمہ اے فاطمہ بی بی ، اللہ سے ملاقات کا وقت آگیا ہے بی بی، کلمہ پڑھو ماں، فاطمہ بی بی۔ اے فاطمہ بی بی۔ ڈاکٹر سیما کو لگا اسکا کلیجہ پھٹ جائیگا، وہ جہاں دیدہ بزرگ عالم زور زور سے کلمہ پڑھ رہے تھے اور ڈاکٹر سیما پھتتے کا سر تھامے پھٹی انکھوں سے اپنی بے بے دادی کو دیکھ رہی تھی، جن کی چیخیں ایکدم تھم چکی تھیں انکے کپکپاتے ذرد ہونٹوں پر کلمہ شہادت کا نور پھوٹ ریا تھا۔ پھر فاطمہ عرف پھتتے کی پلکوں میں حرکت ہوئ اور چھ دہائیوں سے رکے ہوئے دو موٹے موٹے آنسو لاوے کی طرح نکلے اور ڈاکٹر سیما کی ہتھلیوں میں جم گئے،فاطمہ بی کے حلق سر خر خر کی آوازیں آنی شروع ہوئیں، ڈاکٹر سیما نے معائنہ کیا تو انکے دل کی دھڑکن اور نبض ڈوب رہی تھی، اسکا اشارہ دیتے ہی، پھتتے کو پلنگ سے اٹھاکر زمیں پر لٹادیا گیا ، مندر سے چراغ اٹھا کر پھتتے کی انکھوں کے سامنے لہرایا جانے لگا، لا حاصل فاطمہ اپنے حقیقی خالق و مالک سے جا ملی تھی۔ کہرام مچ گیا ۔ڈاکٹر سیما عالم صاحب کے پاس کھڑی ہوئ کانپ رہی تھی، اور عالم صاحب خود کلامی کے سے انداز میں بول رہے تھے، دو ہاتھیوں کی لڑائ میں نقصان ہمیشہ زمیں کا ہوتا ہے، انسانی تنازعات و جنگوں میں یہ زمین عورت اور بچے فراہم کرتے ہیں۔۱۹۴۷ کے پارٹیشن اور اسکے بعد کے فسادات میں بھی لاکھوں ہندو اور مسلمان عورتیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنیں تھیں، کچھ رام رام جپتی ہوئی پاکستان کے قبرستانوں کی زینت بنیں ، کچھ اللہ اللہ کرتی بھارت کی چتاوں میں خاک ہوگیں، پھر بھی انسان جنگ و فسادات سے باز نہیں آتا، اللہ اس مظلوم فاطمہ بی کو جنت نصیب کرے۔ ڈاکٹر سیما نے اپنے حلق میں امڈتی ہزاروں چیخوں کا گلا گھونٹ کر بڑی مشکل تمام کہا۔ آمین۔ اللہ نگہبان۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...