آج مجھے گھر جانے میں دیر ہوگئی۔ دور پار کے علاقے کی سواری اٹھانے کی وجہ سے مجھے وقت کا اندازہ ہی نہ ہوا۔ سول اسپتال سے اٹھائی سواری مجھے سرجانی ٹاؤن چھوڑنی تھی۔ گو کہ میں رات کے وقت دور کے علاقوں کی سواریوں سے معذرت کر لیتا ہوں مگر نہ جانے کیوں آج منع کرنے کو دل نہ کیا۔
میرا نام محمد عبداللہ ہے۔ میرا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر قصور سے ہے۔ “ملکہ ترنم نور جہاں کا شہر” ۔۔زندگی وہاں بھی اچھی گزر رہی تھی مگر بہتر زندگی گزارنے کی چاہ میں گھر بار کو خیر باد کہہ کر میں نے کراچی شہر میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ گھر والوں نے شروع شروع میں بہت شور مچایا مگر میری ضد کے آگے ہار مان گئے۔ ایک بڑا بھائی اور دو بہنیں شادی شدہ ہیں۔ ماں باپ حیات ہیں الحمدللہ۔ الله پاک ان کاسایہ ہمیشہ بنائے رکھے۔ آمین ثم آمین۔ انھی کے دم سے بہاریں ہیں۔ اور جو کچھ ہے انھی کی دعاؤں کا ثمر ہے۔
میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔ جب تک اپنا کوئی کاروبار نہ سیٹ کر لوں، اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی سوچ کے ساتھ میں نے یہاں آکر ایک دوست کی مدد سے اپنی ساری جمع پونچی سے ایک گاڑی لے لی۔ جسے میں پرائیویٹ طور پر چلاتا ہوں۔ پانچ چھے سواریوں سے میری دھیاڑی بن جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ اسی دوست کے توسط سے ایک دکان پر ہفتے کے تین دن کام کرتا ہوں۔ کام زیادہ نہیں ہے بس حساب کتاب دیکھ کر مالک کو دینا ہوتا ہے۔ تھوڑی بہت آمدنی اس سے بھی ہو جاتی ہے اور ایک وقت کا کھانا بھی۔ زندگی بڑے اچھے سے گزر رہی ہے۔ ہر مہینے گھر بھی بچت میں سے پیسے بھیجتا ہوں۔
مجھے کراچی آئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اس عرصے میں دو بار ہی گھر چکر لگ سکا۔ ماں بہت یاد کرتی ہے۔ اس بار میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ میں عید اس کے پاس کروں گا۔ میں نے تیاری بھی مکمل کر لی ہے۔ بس رمضان کی ستائیسویں کو میں اپنے گھر ہوں گا۔ بنا بتائے جاؤں گا۔ ماں بہت خوش ہوگی۔ اور بہنیں؛ ان کی تو خوشی کا ٹھکانا نہ ہوگا۔ سب کے لیے میں نے کچھ نہ کچھ لے رکھا ہے۔ ماں کے لیے ودھیا سا پھولوں والا جوڑا، ابا کے لیے واسکٹ جسے پہن کر وہ خود کو منشی سمجھتے ہیں۔
ہائے میرے پیارے ابا۔ بڑے بھائی کے لیے گھڑی اور بھابھی کے لیے چادر۔ آخر ہمارے گھر کی عزت ہیں۔ اور بہنوں کے لیے ان کی پسند کی چوڑیاں اور میک اپ۔ دونوں شدینیں ہیں ان چیزوں کے پیچھے۔ اماں ابا مجھے ہر بار غصہ کرتے ہیں کہ میں فضول خرچی کرتا ہوں۔ یہی پیسہ میں اپنی شادی کے لیے سنبھال کر رکھوں۔ اور میں ہمیشہ ہنس کر کہتا ہوں زندگی کس نے دیکھی آج ہے کل نہیں۔ اماں یہ سن کر رونے لگ جاتی ہے اور روٹھ جاتی ہے۔ مگر میں پیار سے اماں کی گود میں سر رکھ کے انھیں منا لیتا ہوں۔
پتا نہیں کیوں مگر اس بار میرا دل کر رہا ہے کہ میں گھر جاؤں تو واپس نہ آؤں۔ یہ بات میں نے اپنے دوست بشیر سے بھی کہی تو وہ ہنسنے لگا۔ کہتا ہے کہ میں نے پہلے کہا تھا گھر بار سے دور رہنا آسان کام نہیں۔ بڑا دل گردہ چاہئے ہوتا ہے۔ کہتا تو وہ بھی ٹھیک ہی ہے۔ مگر میں اسے سمجھا نہیں پا رہا کہ میں کیا محسوس کر رہا ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کوئی بڑا موڑ لینے کے لیے گھات لگائے بیٹھی ہے۔ میں بھی اس کی بات سن کر ہنس دیا۔ زندگی اللہ کی امانت ہے اور اسی کے حکم سے چلتی ہے۔ بس میں اب تیاریوں میں ہوں۔ آج پچیسواں رمضان ہے۔ بس ایک دن بعد میں اپنے گھر والوں کے پاس ہوں گا۔ مجھے اس وقت کا بے صبری سے انتظار ہے۔ بار بار سب کے لیے لائی چیزوں کو دیکھ دیکھ دل میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
میری رہائش کراچی کے ایک پرانے علاقے نمائش پر ہے۔ یہاں سستے گھر مل جاتے ہیں کرایے پر۔ شہر کے بیچ و بیچ یہ علاقہ ہر سہولت سے آراستہ ہے۔ آج میں کھارادر سے سواری چھوڑ کر نکلا تو رستے میں سول اسپتال پڑا۔ ابھی اسپتال تھوڑا دور تھا کہ مجھے سامنے سڑک پر کچھ لوگ دکھائی دیے شاید سواری کے انتظار میں تھے۔ میں نے گاڑی کی اسپیڈ آہستہ کر لی۔ ان کے قریب پہنچ کر میں نے گاڑی روک لی۔ ایک مرد، ایک ادھیڑ عمر عورت اور ان کے ساتھ چادر میں لپٹا ایک وجود تھا۔ شاید کسی کو اسپتال سے لے کر گھر جا رہے تھے۔
کہاں جانا ہے آپ نے ؟؟ میں نے سوال کیا۔
سرجانی ٹاؤن۔۔ مختصر سا جواب آیا۔
میں نے گھڑی پر نظر ڈالی رات کے نو بج رہے تھے۔ اور میرے گھر جانے کا وقت تھا۔ مگر جانے کیوں میں اس آدمی کو منع نہ کر پایا۔
چلو گے بھائی؟؟ آدمی نے پوچھا۔
میں نے اس آدمی کو بہ غور دیکھا، وہ زیادہ عمر کا نہیں تھا، لگ بھگ چالیس سے اوپر کا ہوگا۔ شلوار قمیض میں ملبوس اس آدمی نے سر پر چکور خانوں والا رمال لے رکھا تھا. جس سے اس نے اپنا آدھا منہ ڈھکا ہوا تھا۔ ویسے بھی رات کے اندھیرے میں وہ جس طرف کھڑے تھے وہاں روشنی کم تھی۔
کتنے پیسے لو گے بھائی؟؟ اس نے سوال کیا۔
“سات سو روپے..” میں نے جواب دیا۔ مجھے لگا وہ پیسے سن کر منع کر دیں گے۔ وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ غریب لوگ ہیں۔ مگر میری حیرت کی انتہا تب نہ رہی جب اس نے مجھے سات کے بجائے ہزار روپے دینے کا کہا۔
“سات سو کی جگہ میں ہزار روپے دوں گا بس ہمیں سرجانی ٹاؤن پہنچنا ہے”۔ اس آدمی نے کہا۔
میں بھی خوش ہو گیا کہ چلو گھر جاتے جاتے آخری کمائی اچھی ہو جائے گی۔ اور یوں میں نے حامی بھر لی ۔
پچھلا دروازہ کھول کر آدمی نے اس عورت کی مدد سے چادر میں لپٹے وجود کو گاڑی کے پچھلے حصے پر لٹا دیا اور پھر وہ عورت خود بھی اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے پاس ایک درمیانہ بیگ بھی تھا. شاید اس میں اسپتال میں رہنے کے لیے سامان ہو۔
پچھلا دروازہ بند کر کے وہ آدمی میرے برابر والی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور مجھے چلنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ایک نظر سامنے لگے شیشے میں سے ہی پچھلی سیٹ پر ڈالی. چادر میں لپٹا وجود بنا حس و حرکت پچھلی سیٹ پر پڑا تھا۔ شاید جو بھی تھا دوا کے اثر سے سو رہا تھا۔ وہ عورت تھوڑی تھوڑی دیر بعد کپڑا ہٹا کر دیکھ لیتی اور آنکھوں آنکھوں میں آدمی کو تسلی دیتی۔ مجھے بڑا ترس آیا ان پر۔
نہ جانے کون تھا یا تھی جسے لے کر وہ گھر جا رہے تھے۔ اللہ کا نام لے کر میں نے گاڑی رستے پر ڈال دی۔ سردیوں کے دن تھے۔ اور رمضان کا مہینہ۔ لوگ تراویح کے بعد گھروں میں ہی ہوتے ہیں۔ اور ویسے بھی سردیوں میں کم ہی لوگ گھروں سے نکلتے ہیں۔ گو کہ کراچی میں اتنی سردی نہیں پڑتی مگر آج دور دور تک مجھے کوئی چہل پہل دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ سڑک پر موت کا سا سناٹا تھا۔ ایک منٹ کے لیے اس احساس سے مجھے جھرجھری سی آگئی۔ مگر اگلے ہی لمحے میں نے خود پر قابو پا لیا۔
گاڑی چلاتے چلاتے میں نے ایک نظر اس آدمی پر ڈالی وہ بالکل سامنے دیکھ رہا تھا۔ میری نظر خود ہر محسوس ہوئی تو اس نے گردن کو ذرا سا موڑ کر میری طرف دیکھا۔
“میری بیٹی ہے وہ”۔۔ اس نے کہا۔ شاید وہ میری نظر میں موجود سوال پڑھ چکا تھا۔ تو خود ہی بتانے لگا۔ میں نے سر کے اشارے سے اچھا میں جواب دیا۔
“بچہ ہوا ہے اس کے یہاں مگر پیدا ہوتے ہی مر گیا۔” اس نے کہا۔ میں نے ایک نظر شیشے میں پیچھے رکھے نفس ہر ڈالی۔
“بےچاری۔۔۔” میرے دل میں اس کے لیے بہت ہمدردی آئی۔
“بچہ تو ہم نے شام میں ہی دفنا دیا تھا۔ اب چھٹی ہوئی تو گھر لے کر جا رہے ہیں۔” اس نے کہا۔
” اوہ۔۔ اچھا۔۔۔” اتنا کہہ کر میں خاموش ہو گیا۔
اور خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔ میری خاموشی دیکھ کر وہ بھی سامنے کی طرف دیکھنے لگا۔ ہم نے دوبارہ کوئی بات نہ کی۔
نمائش سے نکلتے اب ہم گرومندر سے گزرتے پٹیل پاڑہ کے رستے نکل رہے تھے۔ آس پاس اکا دکا ہوٹل اور چائے کے کھوکھے کھلے ہوئے تھے۔ سنسان سڑک کے کنارے بڑی عمر کے لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ شاید رمضان میں سحری تک وہ اسی شغل میں لگے رہتے ہیں۔
مجھے یاد آیا اماں ہمیں افطار کے بعد کھانا دیتیں اور پھر عشاء کی نماز کے بعد سونے کا حکم ہوتا پھر تہجد کے لیے اٹھاتیں اور قرآن کا ایک پاؤ سبق روز سنتیں۔ اماں کا خیال تھا جتنی بھی نیکیاں سمیٹی جائیں کم ہیں۔ مگر آج میں ان لڑکوں کو کرکٹ کھیلتا دیکھ کر سوچ رہا ہوں کہ کیا ان کی اماں انھیں نہیں سمجھاتی ہوں گی۔ اپنی اس سوچ پر مجھے ہنسی آ گئی۔ ہر کوئی اماں تھوڑی ہوتا ہے۔
تھوڑا سے آگے گئے تو مجھے لگا کہ گاڑی میں پیٹرول بھروا لینا چاہئے۔ راستہ لمبا ہے یہ نہ ہو کہ بیچ سفر ختم ہو جائے اور مشکل میں پڑ جاؤں۔ اسی سوچ کے ساتھ میں نے واٹر پمپ پر آئے پہلے پیٹرول پمپ پر گاڑی روک دی۔
آدمی نے میری طرف دیکھا تو میں نے اسے تسلی دی کہ بس دو منٹ کا کام ہے پیٹرول بھروا لوں۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ بس پیچھے مڑ کر اس عورت کو چادر صحیح کرنے کا اشارہ کیا۔ بڑے تعجب کی بات تھی کہ اس سارے سفر میں ان لوگوں نے ایک دوسرے سے کوئی کلام نہ کیا۔ آدمی جو بھی کہتا عورت اس کا جواب ہوں ہاں میں دیتی۔ اور ان کی بیٹی نے اب تک کوئی حرکت بھی نہیں کی تھی۔ بہت سارے سوال تھے جو اس وقت میرے دماغ میں تھے مگر ہر سوال کا جواب ہو یہ ضروری تو نہیں۔۔۔۔
سفر شروع ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے تھے۔ پیٹرول بھروانے کے بعد ہم اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ گاڑی میں خاموشی ہنوز جاری تھی۔ جتنا عرصہ مجھے پرائیوٹ گاڑی چلاتے ہوا میرے مشاہدے کے مطابق سواریاں رستے بھر میں کسی نہ کسی بات پر آپس میں ہم کلام ہوتی تھیں۔ سب کی الگ الگ کہانی سننے اور دیکھنے کو ملتی تھی۔ مگر اس سواری نے مجھے عجیب مخمصے میں ڈال دیا۔ سفر شروع ہوئے بیس منٹ گزر چکے تھے۔ میں نے گھڑی میں وقت دیکھا تو پونے دس ہو رہے تھے۔ ہمارا سفر ابھی بھی مزید آدھے گھنٹے کا تھا۔ کیونکہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر معمول کے مطابق ٹریفک ہوتی تو سرجانی ٹاؤن تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگ جاتے۔ شیشے سے پیچھے بیٹھی عورت کو چادر میں لپٹے وجود پر نظر پڑی تو حیرت ہوئی کہ وہ عورت بنا پلک جھپکائے سامنے دیکھ رہی تھی۔ اور اس بے سدھ وجود میں اب بھی کوئی حرکت نہ تھی۔ ان دونوں پر ایک نظر ڈالنے کے بعد میری نظر عورت کی گود میں رکھے بیگ پر پڑی ۔۔۔
نہیں میرا وہم ہے۔۔۔ بیگ کیسے ہل سکتا ہے۔۔۔ میں نے خود کو سرزنش کی۔ مگر اگلے ہی لمحے میں نے ایک مکمل نظر پیچھے ڈالی تو مجھے اس بیگ میں واقعی ہلکی ہلکی جنبش محسوس ہوئی۔ ابھی نظر واپس پلٹی نہ تھی کہ سامنے لگے شیشے میں اس عورت کی غصے میں پھیلی آنکھیں دیکھیں ۔ جیسے وہ مجھے تنبیہہ کر رہی ہو کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ مجھے اس عورت کی آنکھوں سے عجیب وحشت محسوس ہوئی۔
“کیا یار۔۔ مجھے اس سواری کو منع کر دینا چاہئے تھا۔ اچھا بھلا گھر جا رہا تھا۔ سامان پیک کرنا تھا اور کل شام کی گاڑی پکڑنی تھی۔ سارا موڈ خراب ہوگیا”… خود کو دل ہی دل میں کوستا گاڑی ڈرائیو کرتا رہا کہ اچانک ساتھ بیٹھے آدمی کے میرے کندھے پر رکھے ہاتھ نے میرا خون خشک کر دیا۔ اور پیر خود بہ خود بریک پر چلا گیا۔۔
بریک لگتے ہی ٹائروں کی چرچراہٹ کی آواز دور تک پھیلی خاموشی کو چیرتی چلی گئی۔۔
“اوہ بھائی کیا کر رہے ہو؟؟ دماغ ٹھیک ہے تمھارا۔ ایسے کوئی ہاتھ رکھتا ہے کندھے پر ایک دم سے۔۔ گاڑی کو بریک نہ لگتی تو پتا ہے ایکسیڈینٹ ہو سکتا تھا۔”… میں غصے سے چلایا۔
“معاف کرنا بھائی مجھے پتا نہیں تھا آپ ڈر جاؤ گے۔ مجھے تو بس یہ کہنا تھا کہ آگے جو ایک سڑک کے سائیڈ پر چھوٹا سا ہوٹل آئے گا نہ وہاں روکنا دو منٹ کے لیے۔ بڑی مہربانی ہوگی۔ وہاں مجھے ایک دوست سے کچھ سامان لینا ہے۔” آدمی نے کہا.
میری سوالیہ نظروں کے جواب میں کہنے لگا۔ “بس دو تین منٹ لگیں گے۔” پھر آگے نکلتے ہیں۔
میں نے اسے اثبات میں سر ہلا کر اچھا کہا۔ عام طور پر سواریاں رستے میں ضرورت پڑنے پر گاڑی رکوا لیتی ہیں۔ سو مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اور یہ وقت بھی کون سا دیھاڑی کا تھا۔ سرجانی ٹاؤن سے دس منٹ پہلے مین روڈ پر ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے۔ جہاں عموماً ٹرک ڈرائیور رات کو کڑک چائے یا کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس آدمی کے کہنے پر میں نے گاڑی کچھ سائیڈ پر لگا دی جہاں کم روشنی تھی۔ وہ آدمی گاڑی سے اترا اور پچھلی سیٹ کی طرف آیا۔۔ اس نے عجیب سی زبان میں اس عورت کو مخاطب کیا۔ وہ کیا بول رہے تھے میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ مگر اتنا پتا تھا کہ آدمی عورت کو ساتھ چلنے کو کہہ رہا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔ اچانک اس آدمی نے غصے میں عورت کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکالا۔ اس کی گود میں رکھا چادر میں لپٹے وجود کا سر بری طرح سیٹ پر لڑھک گیا۔
“ہم ابھی آتے ہیں۔۔ یہ سامنے ہی میری بیوی کا بھائی ہے اس سے کچھ سامان لینا ہے۔ وہ ٹرک ڈرائیور ہے۔ دوبارہ اس سے ملنا ہو کہ نہیں تو اس کی بہن بھی مل لے اس سے”۔
اس آدمی نے اتنی وضاحت پیش کی جس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ میں خاموشی سے انھیں جاتا دیکھنے لگا۔ ان کے جانے کے بعد مجھے اس چادر میں لپٹے وجود سے خوف سا محسوس ہوا۔ دل ہی دل میں آیت الکرسی اور چاروں قلم پڑھ کر خود پر پھونکے۔ اماں بھی یہی کرتی تھیں۔ گھڑی پر نظر دوڑائی تو پانچ منٹ گزر چکے تھے۔ میں نے ہلکا سا ہارن دیا۔ جیب سے اپنا موبائل نکال کر میں بڑے بھائی کو میسج لکھنے لگا۔ اپنی آمد کا کسی کو نہیں بتایا تھا تو سوچا بھائی کو ہی بتا دوں۔ کل کو اماں ابا غصہ ہوں گے تو بھائی کہہ تو دیں گے کہ مجھے پتا تھا۔ میسج لکھتے لکھتے مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی پاس سے گزرا ہو گاڑی کے۔ چونک کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ اپنا وہم جان کر دوبارہ میسج لکھنے لگا۔۔ ابھی میسج سینڈ ہی ہو رہا تھا کہ اچانک ہی کسی نے میری گردن کی سائیڈ پر کوئی نوکیلی چیز گھسا دی۔۔۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی گرم گرم مادہ گردن سے ہوتے میرے جسم میں سرائیت کر رہا ہے۔ ساتھ ہی میرے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر سیٹ کے نیچے جا گرا۔ میں چینخنا چاہ رہا تھا مگر آواز جیسے ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ دماغ میں دھواں دھواں سے پھیلتا نظر آرہا تھا۔ دھندھلاتی نظروں سے سامنے دیکھا تو وہ آدمی اور عورت عیار مسکراہٹ لب پر سجائے مجھے دیکھ رہے تھے۔ مجھے ان کے دھندلاہٹ زدہ چہرے نہایت بھیانک لگ رہے تھے۔ میں نے حواس اکٹھے کیے اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا مگر میرا جسم مفلوج ہو چکا تھا خود کو گھسیٹتے اور گرتے پڑتے گاڑی سے باہر جا گرا۔ تعجب کی بات تھی کہ کوئی آس پاس سڑک پر گزرنے والا بھی نہیں تھا۔ بے یارو مددگار سڑک پر لیٹا سوچنے کی صلاحیت ختم ہوتی محسوس کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں دھندھلاتی نظروں نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھلتے دیکھا۔ چادر میں لپٹا وجود ہاتھوں کے بل رینگتا ہوا میری طرف بڑھ رہا تھا۔ اور میں اس سے دور بھاگنے کے لیے ہاتھ پیر چلا رہا تھا۔ اس وجود کے چہرے سے ڈھلکی چادر نے میرے رہے سہے اوسان خطا کر دیے۔ آدھا کھایا ہوا چہرہ جس کے سائیڈ پر دانتوں کی جگہ خالی گڑھا تھا جہاں سے کیڑے باہر آرہے تھے۔۔ وہ وجود آہستہ آہستہ میرے قریب آرہا تھا اور مجھے اپنی موت اپنے سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ اس آدمی نے بیگ میرے پاس لا کر رکھا اور اس میں سے مختلف اوزار نکالنے لگا۔ آری، چھرا، ٹوکا سب ہی تو تھا اس میں۔ اس نے ایک اوزار سے کاری ضرب میرے سیدھے بازو پر لگائی تو بازو جسم سے الگ ہوگیا۔ ایک دل دہلانے والی چیخ نے رات کے سناٹے کو توڑا۔ تکلیف نے مجھے سوچنے کے قابل نہ چھوڑا۔ چادر میں لپٹے وجود نے اس بازو کو اٹھا کر درندوں کی طرح کھانا شروع کر دیا۔ وہ عفریت کھاتی جاتی اور خوشی سے ہونٹوں سے رستا خون زبان سے چاٹ جاتی۔۔۔۔ آنکھیں بند ہونے سے پہلے میں نے وہ آخری ضرب محسوس کی جو اس آدمی نے میری گردن پر آری چلا کر لگائی تھی۔ خون کا فوارہ پھوٹ کر اس آدمی کے کپڑے بھگو گیا اور وہ عفریت خوشی سے خون پیتی جا رہی تھی۔ آنکھیں بند ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے ایک ایک کر کے اپنے گھر والوں کے چہرے نظر آنے لگے۔۔ میں اماں کو آواز دینا چاہتا تھا “مجھے بچا لو ماں”.. مگر ماں تو تھی ہی نہیں۔ کبھی کبھی موت زندگی کو آسان کر دیتی ہے۔ اور میری موت نے بھی مجھے اذیت سے نجات دلا دی۔
ایک ہفتے بعد
کچرا چننے والے بچے ایک بوری کو مشکل سے گھسیٹتے لا رہے تھے اور ان کے پیچھے پیچھے کتے بھونکتے ہوئے چل رہے تھے جنھیں وہ پتھر مار کر بھگانے کی کوشش میں تھے۔ مگر کتے جیسے سن سے بوری چھیننا چاہتے ہوں۔
“استاد آج تو بڑی بھاری بوری ملی ہے۔ لگتا ہے اس کچرے سے اچھا سامان نکل آئے گا اور بیچ کر اچھے پیسے مل جائیں گے۔” ایک چھوٹے لڑکے نے بوری ایک بڑی عمر کے آدمی کے سامنے لا کر رکھ دی۔ اس نے پیر سے بوری ہلائی تو آنکھیں چمک گئیں۔ بوری واقعی وزنی تھی۔
“آج کا کھانا تجھے میری طرف سے اتنا اچھا سامان لانے پر”۔۔ استاد خوش ہوتے بولا۔
“چل آ دیکھیں کیا ہے اس میں!!!۔۔” بوری کی گرہ کھولتے ہی ڈر کر زمین پر گرتا استاد اوسان خطا ہوتے ہی بھاگنے لگا۔۔
بریکنگ نیوز ۔۔۔۔
“آج پھر شہر کے ایک نالے سے بوری بند لاش برآمد ہوئی ہے۔ لاش اس حد تک کھائی ہوئی ہے کہ پہچان کرنا مشکل ہے۔” پولیس اب تک قاتل کو تلاش نہ کر سکی۔۔۔ ایک ماہ میں یہ پانچویں بوری بند لاش ہے ۔۔
گاڑی کی بریک لگتے ہی ٹائروں کی چرچراہٹ کی آواز نے رات کے سناٹے کو توڑا۔۔
“کہاں جانا ہے؟؟” ٹیکسی ڈرائیور نے پوچھا۔۔
“سرجانی ٹاؤن!!!! چلو گے بھائی؟؟”۔۔۔۔۔۔۔
***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...