جہاں زمین سے قریب ہوتا جارہاتھا۔ اس کے وجود میں اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ بس چند لمحے۔ چند لمحوں بعد اجنبیت کا بوجھ جو پچھلے چاربرسوں سے وہ اپنے کندھوں پراٹھائے پھر رہا ہے ‘اتار پھینکے گا۔ چار برس پہلے اس نے اپنی شناخت کھودی تھی اورپیسہ ڈھالنے کی مشین بن گیاتھا۔ اجنبی چہرے ‘اجنبی زبان ‘ اجنبی ماحول ‘اجنبی فضا ء ۔ صحرا میں ابھرتا ہوا خوب صورت شہر۔ ریگستان کی کھوکھ سے جنم لیتی اونچی اونچی عمارتیں ۔کشادہ سڑکیں ۔ سبک ایئرکنڈیشد موٹریں۔ سب کچھ شان دار ۔لیکن اس کا اپنا یہاں کوئی نہیں تھا۔
اپنے ہم وطن ساتھیوں کے ساتھ وہ بھی ایک کمرے میں رہنے لگاتھا۔ وہ سب مشین کے پرزوں کی طرح مقررہ وقت پر آفس یا فیکٹری چلے جاتے اور اتنے ہی مشینی انداز میں واپس آجاتے۔ فرصت کے اوقات میں وہ اپنے اپنے شہر کی یادوں کے آتش دان دہکاکرخود کو گرماتے رہتے۔ پھرکچھ دن بعد اس آتش دان کی راکھ بھی سرد ہوگئی۔ ایک ایک کرکے ساری چنگاریاں بجھ گئیں۔
زندگی ایک طویل اکتاہٹ کا صحرا بن گئی اوراس کے شانوں پراجنبیت کا بوجھ لدگیا۔
جہازلینڈ ہوگیا۔ اپنا سامان کسٹم پرچیک کراتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک عجیب سی خواہش جاگی۔ کاش دوسرے سامان کے ساتھ کسٹم آفیسر اس کے وجود پر لدے ہوئے اجنبیت کے بوجھ کوبھی چیک کرے اوراجنبی ملک سے یہاں آنے کے جرم میں اس بوجھ کوضبط کرے۔
کسٹم کے مرحلے سے چھٹکارا پاکر وہ باہر نکلا تووہ سب اس کے منتظر تھے۔ اس کے تصوراتی پیکروں سے بالکل مختلف ! اس کی بیوی نیلو قیامت کی حسین نظرآرہی تھی ۔کہاں وہ سوکھے سہمے سے اعضاء ‘خشک ہونٹوں اور زرد چہرے والی بیمار سی نیلو‘ اورکہاں یہ سراپا بہار نیلو گہری نارنجی ساڑی اورسیاہ چست بلاؤز میں ملبوس ۔ آنکھوں پردھوپ کا چشمہ۔ اور وہ نوخیز لڑکی ۔ جوانی اور بچپن کے درمیان شوخی کے ساتھ جھولتی ہوئی ۔یقیناًیہ اس کی پمی ہے۔ لیکن یہ لڑکی اس کی بیٹی کیسے ہوسکتی ہے؟ اس کی بیٹی تو گلے میں جھول جاتی تھی ۔ مگریہ لڑکی کیسے اس کے گلے میں جھول سکتی ہے ؟کتنا بڑا توقد ہوگیا ہے۔
’’ہیلوڈیڈی‘‘
’’ہیلو۔ بیٹا‘‘پمی کے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے وہ خود بھی جھجھک گیا۔
منا بھی بڑا ہوگیاتھا اوراسے اجنبی نظروں سے ٹکرٹکر دیکھ رہاتھا۔ مانٹو فیروز کی گود میں بیٹھا اس کی موجودگی سے بے نیاز ایئرپورٹ کے لاؤنج کاجائزہ لے رہاتھا ۔
’’بیٹے یہ تمہارے ڈیڈی ہیں‘‘ نیلو منے سے کہہ رہی تھی ’’وش کروڈیڈی کو‘‘
لیکن منا نیلو کے پیچھے جاچھپا۔
’’شرماتا ہے‘‘نیلو نے ہنس کرکہا۔
اس نے ہاتھ بڑھاکر فیروز کی گود سے مانٹو کولینا چاہا تو فیروز نے اپنی بانہیں ڈھیلی کردیں۔ لیکن مانٹو اس سے چمٹا رہا ۔ اس طرح چیخ چیخ کررونے لگا جیسے کسی اجنبی کے گود میں آگیا ہو۔
’’ابھی مانوس نہیں ہوا ہے‘‘ نیلو ے اسے ڈھارس دی۔
پمی‘منا ‘مانٹو کوئی بھی اس کے سینے سے نہیں لگا۔ اس کے شانوں پر لدا ہوا بوجھ اوربڑھ گیا۔ ٹھیک ہے گھرجاکر وہ اسے پھینک دے گا۔
ٹیکسی جس فلیٹ کے سامنے رکی‘ وہ بہت شان دار تھا۔ گیٹ پرلگی نیم پلیٹ پر کسی ایس۔ کے صدیقی کانام لکھا ہواتھا۔ کون ہے یہ ایس ۔ کے صدیقی ؟ نیلو اسے یہاں کیوں لے آئی ہے ؟ وہ اجنبیوں کی طرح گھرمیں داخل ہوگیا۔
اجنبی درودیوار ۔غیرمانوس ماحول ۔ لیکن شان دار سجاوٹ۔ نیلو نے اسے باتھ روم کا راستہ بتادیا۔ باتھ روم بہت خوب صورت تھا ‘ لیکن اس خوب صورتی سے بے نیاز وہ ٹھنڈے پانی کے شاور کے نیچے یہی سوچتا رہا کہ یہ ایس ۔کے صدیقی کون ہے؟۔
باتھ روم سے نکل کر وہ کمرے میں آگیا ۔نیلو تولیہ لیے اس کی منتظرتھی۔
اس نے نیلو سے پوچھا ’’یہ ایس ۔کے صدیقی کون ہے؟‘‘
نیلو نے اتنی زور کا قہقہہ لگایا کہ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیک گئے اور گال سرخ ہوگئے۔ سرخ گالوں اور بھیگی پلکوں کے ساتھ نیلو اسے بہت حسین لگی۔
نیلو نے اسے بتایا کہ ایس ۔کے صدیقی وہ خود ہے شوکت کلیم صدیقی ۔ وہ کھسیاگیا۔ نیلو نے‘ جونیا فلیٹ خریداتھا ۔یہ وہی فلیٹ تھا۔
اتنے میں نیلو کے کچھ دوست آگئے۔ کوئی بھی چہرہ اس کا جانا پہچانا نہیں تھا۔ عجب تکلف کی فضا تھی‘وہ بے چینی سے پہلوبدلتا رہا۔ لیکن نیلو سب سے ہنس ہنس کرباتیں کرتی رہی۔ اسے ایسا لگا کہ وہ نیلو نہیں‘کوئی اور عورت ہے۔ نمائشی‘سجی ‘سنوری پرتکلف!
رات کوگیارہ بجے تنہائی نصیب ہوئی۔ اس نے نیلو کوبتایاکہ وہ کتنی خوب صورت ہوگئی ہے۔ کس طرح وہ اس کی تصویریں اور خطوط پڑھ پڑھ کر راتیں کاٹتا رہا۔ اسے یقین تھا نیلو بھی ایسی ہی فراق کی کہانیاں سنائے گی ‘ لیکن نیلو صرف مسکراتی رہی۔ وہ ساری کہانیاں سناناچاہتاتھا ۔ نیلوکوگدگدانا چاہتاتھا کہ وہ بے دم سی ہوکر اس کی بانہوں میں ہانپنے لگے ۔ لیکن نیلو اس کی باتیں سن کرجمائیاں لیتی رہی ۔اس نے ساری داستانیں اپنے شانوں پر رکھی ہوئی گٹھری میں رکھااور بوجھ ہلکا کرنے کے لیے نیلوکواپنے قریب کھینچا ۔ٹھنڈی ٹھنڈی سی نیلو اس کے سینے سے آلگی۔ اسے یاد تھا نیلو کس طرح ٹوٹ کر اس میں سماتی تھی۔ اسے یقین تھا ابھی چند لمحوں میں اس کے جسم پرجمی برسوں کی برف پگھل جائے گی ۔ وہ نیلو میں وہ سب کچھ کچھ تلاش کرنے لگا جو وہ یہاں چھوڑگیاتھا اسے پورے چار برس کا حساب لیناتھا ۔مگرجلد ہی اسے احساس ہوا کہ نیلوادھوری سی ہوگئی ہے۔ ایک بے ربط لئے‘ایک بے سرا نغمہ۔ اسے ایسا لگا کہ اب وہ ہم آہنگ نہیں ہوسکیں گے۔ اس وقت بہت کوشش کی تواس کے ذہن میں وہی احساس جاگا جو فریج میں رکھے ہوئے ڈبے کے گوشت کو گرم کرتے کرتے ہوئے جاگتاتھا۔ تازگی کی عدم موجودگی کا ایک تشنگی بھراحساس۔
کئی دن تک یہی ہوتا رہا ۔ دھیرے دھیرے اس پریہ بھید کھل گیانیلوسچ مچ بدل گئی ہے۔ اب نیلواچھی طرح جانتی ہے کہ کون سا لباس کب پہننا ہے‘لباس کہاں سے ڈھیلا اورکہاں چست ہوناچاہیے۔ لباس کا کون سا ٹانکا کس عضو کی اہمیت بڑھاتا ہے ‘جسم کے کونسے حصہ کوابھارنا چاہیے۔ نیلو واقعی بہت پرتکلف اور تصنع پسند ہوگئی ہے۔ اب وہ رات کو سوتے وقت خوب صورت نائیٹی پہنتی ہے ۔یہ نیلو اس کی نیلو سے بہت مختلف تھی۔ یہ تو کوئی اور تھی۔ شوکیس میں سجی گڑیا۔ زندگی سے عاری ‘بے جان۔
اجنبیت کا بوجھ بڑھتا ہی جارہاتاتھا۔ کہاں پھینکے وہ اس بوجھ کو ؟ وہ اپنی بیٹی پمی کی تلاش میں اس کے کمرے تک آیا۔ پمی نے ایک بار بھی اس کے پاس بیٹھ کر اس سے باتیں نہیں کی تھیں۔ ٹھیک ہے ‘وہ بڑی ہوگئی ہے لیکن وہ اسے اپنے کالج کے قصے توسناسکتی ہے۔ بس ناشتے کی میز پرہیلوہیلو ہوتی‘جیسے وہ کوئی مہمان ہو اس کے اندرجانے سے پہلے ہی پمّی کمرے سے دندناتی ہوئی نکلی۔ اس نے بیل باٹم اور چست جرسی پہن رکھی تھی ‘ہاتھ میں کتابیں لئے ہوئے وہ تیزی سے بھاگی تو زمین کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی دہل گیا۔ قدموں کی جنبش کے ساتھ جسم کے حساس حصے مچل اٹھے۔ پتہ نہیں یہ کون لڑکی ہے۔ یہ اس کی پمی تو نہیں ہوسکتی۔
اس نے نیلو سے پوچھا ’’یہ پمّی دوپٹہ کیوں نہیں اوڑھتی ؟‘‘
’’آج کل لڑکیاں ڈوپٹہ کہاں اوڑھتی ہیں ؟‘‘ نیلوبرا سامنہ بناکر ناخوش گوار لہجے میں بولی اور وہ دل مسوس کر رہ گیا۔ وہ سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ اس دنیا میں اس کی کوئی جگہ نہیں۔ پمی بہت خود سر لڑکی تھی۔ دن بھرکالج میں رہتی۔ شام کوکوئی نہ کوئی پروگرام ہوتا۔ پکچر پک نک ۔ پارٹیاں ۔چھٹی کے دن سہلیوں سے کمرہ بھرا ہوتا ۔پوپ میوزک کے کیسٹس بجتے ۔ ڈانس ہوتا ۔ یہ کون سی دنیا ہے؟ اس کا جی چاہتا کہ اس جوان‘ بے پرواہ الٹرا موڈرن لڑکی سے اپنی پمی کومانگ لے۔ اس دھن میں وہ اس کے کمرے تک پہنچا۔ پمی کسی کوٹیلی فون کررہی تھی۔ ’’نہیں نہیں تم گھر نہ آنا۔ ہم وہاں کیفے ٹیریا میں مل لیں گے ہاں‘‘کالج کے قریب۔ اوہ نو ڈیر۔ تم سمجھتے کیوں نہیں آج کل ڈیڈی گھرپر ہیں ۔بوراولڈ مین ‘چند دنوں کی توبات ہے ۔ وہ واپس ہوجائیں گے ۔اوکے۔‘‘یہ پمّی تھی اس کی لاڈلی بیٹی جو اس کے دفتر سے واپس لوٹنے تک باہر دروازے کی چوکھٹ پر اس کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھی اور وہ اب بور ہوگیاہے۔ اولڈمین۔
اس نے نیلو سے پوچھا ’’کیا پمّی کے دوست لڑکے بھی ہیں ؟‘‘
’’ہاں منڈلاتے رہتے ہیں ۔ لیکن میری پمّی کسی کولفٹ نہیں دیتی ‘‘
میری پمّی؟ ہاں یہ پمّی‘ نیلوہی کی ہے ۔اس کی پمّی توان چاربرسوں میں کہیں کھوگئی ہے۔
پتہ نہیں اسے کہاں کہاں مدعو کیاجاتا رہا ۔ لیکن ہردعوت کے پیچھے ایک ہی بات تھی کہ وہ ان کے کسی بھائی‘ کسی بیٹے‘ کسی رشتہ دار کو وہاں بلالے وہ سب اس سے اسی طرح ملتے جیسے وہ ان سب سے الگ کوئی اورمخلوق ہو ۔ اجنبیت کے اس صحرا میں وہ بری طرح دب گیا۔ شاید اس کی شناخت ‘اس کا کھویا ہوا وجود اس کے پرانے گھر‘ پرانے محلے میں ہو۔ وہ اپنے پرانے دوستوں سے ملنے کے لیے پرانے شہر کی گندگی میں پہنچا۔ پرانے دوستوں نے اسے اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا ‘جیسے وہ بادشاہ وقت ہو اور رعایا کا حال معلوم کرنے بھیس بدل کر نکلا ہو۔اجنبیت کا بوجھ وہاں بھی نہیں پھینک سکا۔
نیلو کے ماحول نے اسے وہائٹ کالر کا اکڑا اکڑا سا آدمی بنادیاتھا۔ ہر وقت خوش اخلاقی کی اداکاری کرنے والا کٹھ پتلا۔ تصنع اور تکلف کے اس بوجھ کو وہ کہیں پھینک کر ہلکا پھلکا ہونا چاہتاتھا۔ لیکن اسے ایسا لگا کہ اجنبیت کا یہ بوجھ وہ کہیں بھی نہیں پھینک سکے گا۔ جیسے وہ پرانی داستانوں کے کردار کی طرح کسی جادوگر کے سحر کا شکار ہوگیا ہو۔ پھر ایک دن اسے گمان ہوا کہ اس کی چار برس کی غیرموجودگی میں فیروز روزانہ اس کے گھرآتا رہا ہے۔ نیلواور فیروز آپس میں اتنے اجنبی نہیں جتنے وہ خود کوظاہر کرتے ہیں۔ جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ نیلو کی شخصیت کی گم شدہ کڑی فیروز کے پاس ہے۔ مگر وہ غلاظت پرپتھرنہیں پھینکے گا وہ تواپنا بوجھ ہلکا کرنے‘ پیار سمیٹنے آیا ہے ۔یہی کیا کم ہے کہ بکھری بکھری سی سہی‘ نیلواسے انکار تونہیں کرتی۔
نیلو نے اپنے سارے خوابوں میں رنگ بھرلیے تھے۔ مگران خوابوں میں اس کا کوئی گذرنہیں تھا۔ یہ سچ تھا کہ ان خوابوں کے سارے رنگ اس نے دیئے تھے ۔ لیکن نیلونے ایک ماہر آرٹسٹ کی طرح پینٹنگ بناکران رنگوں کوپھینک دیاتھا۔ نیلو نے بچوں کوبھی اپنی خوب صورت دنیا میں گم کررکھاہے۔ بچو ں کویہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں کہ یہ رنگ کہاں سے آئے ہیں۔اس کے بغیر ہی نیلو نے زندگی کی یہ کہانی مکمل کرلی ہے۔ اس کہانی میں اس کا کوئی کردار نہیں ‘ اس لیے اب اس کی شمولیت نے اس کہانی کوبوجھل کردیاہے۔
اسے آئے ہوئے ایک مہینہ ہوگیاتھا۔اب بوجھ اس کے لیے ناقابل برداشت ہونے لگاتھا۔ اپنے اس بوجھ کو پھینکنے کی اس نے ایک آخری کوشش کی۔ اس نے نیلو سے کہا’’ میں اگلے ہفتہ واپس لوٹ جاؤں گا۔ کل ٹکٹ کنفرم کرالوں گا۔‘‘
’’اوہ اتنی جلدی‘‘نیلو نے کہا۔
نیلو کی بات سن کر امید بھری خوشی سے اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اوپری دل سے سہی‘ کاش نیلو اسے واپس جانے سے روک دے۔ اس مصنوعی التفات کے سہارے ہی وہ اپنے بوجھ کو ہلکا کرلے گا۔
’’اس مہینے بونس ملتا ہے ۔ایک مہینے کی زائد تنخواہ ملتی ہے۔ نہ جاؤں گا توپورے بیس ہزار کانقصان ہوگا ‘‘اس نے سوچا‘ نیلو کہے گی کہ وہ بیس ہزار کی پرواہ نہیں کرتی ۔اتنے برسوں بعد تو وہ آیا ہے۔ اتنی جلد وہ کیسے واپس جاسکتا ہے؟ پیسہ ہی توسب کچھ نہیں ہوتا ۔ ابھی تو بچوں کا دل بھی نہیں بھرا۔ اس نے شانوں کا بوجھ ہاتھوں میں تھام لیا۔ بس ایک ہی لمحے میں وہ اس بوجھ کوپھینک کرہلکا پھلکا ہوجائے گا ۔
’’بیس ہزار ! مائی گاڈ‘‘ نیلو نے سینے پرہاتھ رکھ کر آنکھیں پھاڑدیں ۔پھر توآپ کوفوراً واپس چلا جانا چاہیے ‘‘۔
اس کی رہی سہی امیدیں بھی بوجھ بن کر اس کے شانے پرسوار ہوگئیں۔
ایئرپورٹ پرنیلو ‘پمّی‘مانٹو ‘منا اورفیروز سب ہی آئے۔ کسی بھی چہرے پراداسی کا دھواں نہ تھا۔ وہ اسی طرح ہشاش بشاش تھے جیسے اسے رسیو کرتے وقت نظرآرہے تھے۔
اپنے وجود پر پہلے سی بھی زیادہ بوجھ لئے وہ مضمحل قدموں سے سکیورٹی چیک پرپہنچا۔۔۔ چیکنگ کے بعدبھی وہ اس امید میں وہاں ٹھیرا رہا کہ شاید آفیسر ہی اس کے بوجھ کوہلکا کردے۔
اسے یوں کھڑا دیکھ کر آفیسر نے حیرت سے کہا۔
’’گوہیڈمین ۔ کوئی لگیج نہیں ۔ کوئی بوجھ نہیں ‘بہت ہلکے پھلکے جارہے ہیں آپ‘‘
اس نے آفیسر کو خالی خالی نظروں سے گھورا اور تھکے تھکے قدموں سے رن وے کی طرف بڑھ گیا ‘جہاں اس کا جہاز کھڑاتھا۔
“