(Last Updated On: )
آج کی شام ہر دوسری شام کی طرح ہی تھی اور میرا بیک یارڈ بھی ڈھلتے سورج کی سرخی میں ہر روز کی طرح ہرا بھرا نظر آ رہا تھا۔ مگر آج ہوا کے ہر جھونکے میں ایک پرانی مستی کا احساس تھا۔ آج بہت عرصہ بعد میں خود کو زندہ محسوس کر رہا تھا۔
محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ سلمان چار برس بعد ملا ہے یا میں نے اسے آج دوپہر ہی ڈیلس ائر پورٹ سے pick کیا تھا۔ پاکستان میں کبھی کوئی ایسی رات نہیں تھی جب ہم اکٹھے نہ ہوئے ہوں۔ میں بینک سے نکلتا یا وہ اپنے دفتر سے فارغ ہوتا، تو دونوں میں سے کسی ایک کے موبائل پر ایک ہی میسج کھنکتا:- “ہاں”!۔ اور دوسرا میسج ہوتا:- “اچھا!”۔
اور پھر ہم رات کو چھت پر بیٹھے ہوتے!
کوسوں دور امریکہ میں آج کی شام اسی چھت کا مزہ دے رہی تھی۔ نا تو وہ اتنی لمبی فلائٹ کی تھکان میں تھا اور نا ہی مجھ میں وہ روز کااضمحلال! زندگی سے بھرپور قہقہے تھے اوروہی کبھی نا ختم ہونے والی باتیں! جو اب ایک دوسرے سے شروع ہو کر سیاسی پیچیدگیوں سے نکل کر مذہبی گورکھ دھندوں کو پچھاڑتی ادب کی خوبصورت راہوں تک پہنچ چکی تھی۔
یاد نہیں مگر کوئی کردار ہی تھا کہ جس پر بات کرتے ہوئے سلمان ایک دم خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا تھا۔ میں نے بھی اس سے خاموش ہونے کی وجہ نہیں پوچھی، بس اس اہم بات کا انتظار کرنے لگا جو اس ایکدم خاموشی کے بعد متوقع تھی۔ میں اس کی اس عادت سے بخوبی واقف تھا۔
سلمان نے ایک سگریٹ اپنے منہ میں ٹھونسا اور ڈبیا میری طرف بڑھا دی۔ گو امریکہ آکر میں نے سگریٹ چھوڑ دیے تھے مگر نہ پینے کی قسم تو کبھی نہیں کھائی تھی۔ اس لئےانکار کا سوال ہی نہیں تھا۔
“یار ۔۔۔دنیا بھی طرح طرح کے لوگوں سے بھری پڑی ہے”! اس نے پہلے میرا اور پھر اپنا سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
میں پہلے سے ہی اس کی جانب متوجہ تھا۔
“لوگ وقت گزارنے کے لئے کچھ بھی کہنے یا کرنے سے نہیں گھبراتے۔۔۔۔گھبرائیں بھی کیوں! بھلا ایک مسافراور وہ بھی جہاز کے سفر کے دوران ملنے والا، دوبارہ کہاں ملے گا کہ آپ اس کے سامنے کہی گئی باتوں کو یاد کر کےشرمندہ ہو سکیں”۔ سلمان نے ایک گہرا کش لگا کر دھواں منہ سے نکالتے ہوئے کہا۔
“کیوں۔۔۔کیا کوئی آئٹم ٹکر گئی تھی”۔
میں نے کسی دلچسپ کہانی کی توقع میں چسکا لیتے ہوئے کہا۔
“نہیں یار۔۔۔۔کوئی آئٹم ہوتی تو میں بھی مزے لے لے کر سناتا۔۔۔۔اس دفعہ تو بس طبعیت ہی بوجھل ہو گئی۔ اب بھی میں اسی شخص کے بارے میں سوچ رہا ہوں”!
“کیا کوئی بہت ہی فضول شخص تھا؟”۔
“یار! میں سمجھ نہیں پایا۔۔۔۔کیونکہ اچھی خاصی پرسنیلیٹی تھی اس کی۔۔۔۔۔ اور اس کا کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے امریکہ آنا۔۔۔۔۔۔۔! مگر سمجھ نہیں آئی کہ ایسی شخصیت کا بندہ وقت گزارنے کے لئے ایسی بیہودہ کہانیاں بھی گھڑ سکتا ہے۔۔۔۔ٹھیک ہے بہت لمبا سفر تھا۔۔۔۔ مگر پھر بھی! خیر۔۔۔۔ دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں”۔
سلمان کے ماتھے کی لکیریں گہری ہونے لگی تھیں۔
“کیوں۔۔۔کیا بات ہوئی”۔ میری دلچسپی بڑھ چکی تھی۔
“ہا ہا۔۔۔۔۔مجھے معلوم تھا کہ تم ضرور سننا چاہو گے۔۔۔۔خیر میں بھی بتائے بغیر کہاں رہتا۔۔۔۔۔کہانی کیا ہے بس وقت گزاری کے لئے گھڑا گیا بیکار قصہ تھا!
قطر میں فلائٹ بدلی کے بعد اس کی سیٹ میرے ساتھ ہی تھی۔ جیسے ہی جہاز اڑا اورابھی میں نے آنکھیں موندنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اس نے باتیں شروع کردیں۔۔۔۔۔رسمی تعارفی گفتگو کے بعد اچانک اس نے مجھ سے میری بیوی کے کردار کے بارے میں پوچھ لیا۔۔۔۔۔۔”۔
“ہائیں۔۔۔۔۔کیا کہا؟۔۔۔یکدم ہی! یا تم لوگ پہلے ہی اس کے متعلق کوئی بات کرچکے تھے!”۔ میں نے بے اختیار اس کی بات کاٹ دی۔
“خود سوچو کہ میں ابھی تمہیں بتا رہا ہوں اور تم نے حیرت کے مارے میری بات ہی کاٹ دی۔۔۔ذرا سوچو جب اس نے بغیر تمہید کے مجھ سے یہ پوچھا ہو گا!! چلو چھوڑو۔۔۔تو میں تمہیں بتا رہا تھا کہ اس نے مجھ سے میری بیوی کے متعلق پوچھا تو میں نے اپنی جھنجلاہٹ کو کسی نا کسی طرح دباتے ہوئے جواب دیا کہ ہم بہت خوش ہیں تاکہ کوئی اور موضوع چھیڑا جا سکے۔ مگر۔۔۔ مگر وہ تو جیسے اس موضوع سے ہٹنا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔بھئی اس نے اپنی بیوی کےاپنے ہی دوست کے ساتھ ناجائز تعلقات کے بارے میں اس قدر کھل کر بتایا کہ میں سوچتا ہی رہا کہ اس شخص میں کوئی شرم یا غیرت ہے بھی کہ نہیں۔۔۔۔۔ جو یوں آسانی سے اپنی زندگی کے ایسے حساس معاملے کو ایک اجنبی سے بانٹ رہا ہے۔ بھئی کیا کیا نہیں بتایا اس نے!!! میں اب بھی سوچ رہا ہوں بلکہ سچ پوچھو تو میں کسی حد تک بوجھل ہوں اور ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ جیسے یہ واقعہ میرے ساتھ ہی پیش آیا ہو۔۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی کسی اجنبی پر اعتماد کر کے ایسی نجی بات اور وہ بھی یوں کھول کر۔۔۔۔۔۔۔۔! کیسے لوگ ہوتے ہیں!!!”۔
سلمان نےاستفہامیہ نظروں سے میری جانب دیکھتے ہوئے بات ختم کر دی۔ میں بھی کچھ دیر خاموشی سے سوچتا رہا۔
“یار سچ پوچھو تو مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سےلوگ وہ باتیں اجنبیوں سے کرلیتے ہیں جو وہ اپنی بیوی یا گھروالوں سے تو کیا اپنے بچپن کے ان دوستوں سے بھی نہیں کر پاتے کہ جن کے سامنے وہ سرسے پاؤں تک ننگے ہوتے ہیں۔ شاید ایسے لوگ جہاں ایک طرف توکچھ باتوں یا واقعات کا بوجھ برداشت نہیں کر پارہے ہوتے وہیں دوسری جانب وہ اپنوں سے اظہار کرنے یا ان پر اعتماد کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔۔۔۔۔تو ایسے موقعوں پراپنے اندر کا غبار کسی اجنبی سے بات کر کے نکالنا انہیں زیادہ آسان لگتا ہے۔۔۔۔۔بلکہ وہ اس دوران کسی مشورے یا راہنمائی کے بھی متلاشی ہوتے ہیں! شاید میں بھی اس بات پہ حیران ہوتا اگر خود ایسے ہی ایک تجربے سے نا گزرا ہوتا۔۔۔۔۔! “۔
مجھے سلمان کی بات سے ایک قصہ یاد آگیا تھا جو نجانے اتنا عرصہ ذہن سے کیسے محو رہا۔
“کیسا تجربہ؟”۔ سلمان نے پوچھا۔
“یہ پاکستان کی ہی بات ہے۔۔۔۔۔سنو! شائد سن کر تمہاری طبعیت کی گرانی ختم ہو جائے!!”۔
میں نے سگریٹ بجھایا اور سلمان کو بتانے لگا:-
“یہ شادی سے بھی کچھ روز پہلے کی بات ہے۔ ایک دن میرے لینڈ لائن نمبر پر ایک کال موصول ہوئی۔ دوسری جانب کوئی اجنبی تھا۔ اس نے فون اٹھاتے ہی فوراً کہاکہ وہ مجھ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اگر میرے پاس وقت ہے تو سن لوں وگرنہ وہ فون رکھ دے گا۔ اس نے واضح بھی کیا تھا کہ اس کی کال کا مارکیٹنگ سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔ اس کی شستہ اردو اور الفاظ کے چناؤ نے مجھے اس کی بات سننے پر مجبور کردیاتھا۔۔۔۔ اسی لئے میں نے اس کو بات جاری رکھنے کو کہا۔
سلمان! اس نے مجھ سے کوئی اور بات نہیں کی بلکہ انتہائی سادگی سے بتانے لگا کہ کچھ دن پہلے کیسے اس نے غلطی سے اپنی بہن کو نہاتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور وہ اب اس منظر سے باہر ہی نہیں آ پارہا تھا۔ تلذز اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیت نے اس کو ایسے اذیت ناک مقام پر لاکھڑا کیا تھا کہ خودکشی کرنا اسے آسان لگ رہا تھا۔۔۔۔۔اس کے مطابق وہ ان دنوں کسی کام کا نہیں رہا تھا ۔۔۔۔نہ تو وہ یہ بات کسی اپنے سے شئیر کر سکتا تھا اور نہ ہی وہ اس کو بھلانے کے قابل تھا۔ وہ منظر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے جنسی لطف دیتا تھا اور دوسری جانب احساس شرمندگی سے اس کا جینا دو بھرہوچکا تھا۔۔۔۔۔یہ بتانے کے بعد وہ کچھ دیر روتا رہا اور آخر میں، گڑگڑانے والا ہی انداز تھا، کہنے لگا کہ میں اس کو کوئی مشورہ دے دوں۔۔۔۔مجھے اس پر بہت ترس آیا۔۔۔۔۔ اسی لئے میں نے واقعی انتہائی سوچ سمجھ کر اپنے تئیں اسے ایک مشورہ بھی دے دیا تھا۔۔۔۔۔۔مگر خیر!”۔
سلمان اس دوران بس خاموشی سے سنتا رہا تھا۔۔۔۔میرے خاموش ہونے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں بولا۔ میں نے کچھ دیر توقف کیا اور گفتگو کا سلسلہ جوڑتے ہوئے کہا:-
“میرا ماننا ہے کہ اس طرح لوگ اجنبیوں سے ایک تعلق قائم کرلیتے ہیں اور منٹوں گھنٹوں میں خواہ عارضی ہی سہی مگر ایک ایسی دنیا بسا لیتے ہیں کہ جس کے عارضی پن میں گزارے چند گھنٹے انہیں حقیقی دنیا میں زندہ رہنے کے قابل بنا دیتے ہیں اور جو ایسا نہیں کر پاتے ۔۔۔۔۔۔ہم ان کے انجام آئے دن سنتے اور پڑھتے ہی رہتے ہیں۔۔۔!”۔
سلمان کے چہرے سے ایک دم تھکاوٹ نمایاں ہونے لگی تھی۔ ہم کچھ دیر باتیں کرتے رہے مگر اس دوران وہ زیادہ تر خاموش ہی رہا تھا۔ پھر مجھے احساس ہونے لگا کہ اب اسے واقعی آرام کی ضرورت ہے کیونکہ وہ میری باتیں سن تو رہا تھا مگر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ صرف سن ہی رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے میں نے اسے کھانا کھا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا جو اس نے فوراً مان لیا۔
کافی دیر سوچوں میں ڈبکیاں لگاتے لگاتے شاید میں ابھی سویا ہی تھا کہ میرا موبائل وائبریٹ کرنے لگا۔ میں نے دیکھا تو سلمان کی کال تھی۔
“ہاں؟”۔ میں نے پوچھا۔
“باہر آؤ۔۔۔۔میں گیراج کے پاس کھڑا ہوں”۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ میرے ساتھ سگریٹ پینا چاہ رہا ہو۔ ویسے بھی ویک اینڈ ہی تھا۔ خیر میں نے قمیض پہنی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے میرا منہ تکتا رہا۔ اچانک اس نے تقریباً مجھے جھنجوڑتے ہوئے کہا:-
“پھر تم نے اس کو کیا مشورہ دیا تھا”!!!!