تحریر: پیٹر بخسل (جرمنی)
مترجم: منور آکاش (ملتان، پاکستان)
میں ایک بوڑھے کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ ایک آدمی جو کوئی بات نہیں کرتا اس کا چہرہ جھکا ہوا ہے۔ تھکن کی وجہ سے وہ مسکرانے تک سے لاچار ہے اور تھکن کے ہاتھوں خفا ہونے سے معذور۔ وہ ایک چھوٹے سے شہر میں رہتا ہے۔ گلی کی نکڑ پر یا چوک کے قریب اس کے بارے میں کچھ کہنے کا فائدہ نہیں ہے۔ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہو۔ وہ خاکستری رنگ کا ہیٹ پہنتا ہے۔ خاکستری پتلون، خاکستری کوٹ اور سردیوں میں خاکستری لمبا اوورکوٹ، اور اس کی گردن پتلی اور لمبی ہے۔ جس کی جلد خشک ہے اور جس پر جُھریاں ہیں۔ سفید قمیض کا کالر اس کے لئے بہت کھلا ہے۔
اس کا کمرہ عمارت کی سب سے اوپر والی منزل میں ہے۔ شاید وہ کبھی شادی شدہ تھا اور اس کے بچے بھی تھے۔ شاید وہ پہلے کسی دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ یقیناً وہ کسی زمانے میں بچہ تھا مگر یہ اس زمانے کی بات ہے۔ جب بچوں کو بڑوں جیسے کپڑے پہنائے جاتے تھے۔ ایسی چیز انسان دادی اماں کی فوٹو ابلم میں دیکھ سکتا ہے۔ اس کے کمرے میں دو کرسیاں ہیں۔ ایک میز ایک قالین ایک بستر اور ایک الماری۔ ایک چھوٹے سے میز پر ایک الارم کلاک رکھا ہے۔ اس کے پاس ہی پرانے اخبار اور فوٹو البم، دیوار پر آئینہ لٹک رہا ہے اور ایک تصویر۔
بوڑھا صبح اور شام کے وقت سیر کے لئے جاتا تھا۔ اپنے ہمسائے سے چند الفاظ کہتا تھا اور شام کو اپنی میز پر بیٹھا رہتا تھا۔
اس معمول میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ اتوار کے روز بھی یہی کچھ ہوتا تھا۔ اور جب وہ آدمی میز پر بیٹھا ہوتا تھا تو الارم کلاک کی ٹک ٹک سنتا رہتا تھا۔ ہمیشہ ہی الارم کلاک کی ٹک ٹک۔
پھر ایک دفعہ ایک خاص دن آیا۔ اس دن سورج نکلا ہوا تھا مگر گرمی کچھ زیادہ نہ تھی اور نہ ہی سردی تھی۔ پرندے چہچہا رہے تھے۔ بچے کھیل رہے تھے۔ لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ خاص چیز یہ تھی کہ یہ ساری چیزیں اس آدمی کو یک دم اچھی لگی تھیں۔ وہ مسکرا رہا تھا۔
”اب ہر چیز میں تبدیلی آ جائے گی“ اس نے سوچا۔ اس نے اپنی قمیض کا اوپر والا بٹن کھول دیا۔ ہیٹ کو اتار کر ہاتھ میں لے لیا۔ تیز تیز چلنے لگا۔ بلکہ چلتے ہوئے جھومنے سا لگا۔وہ خوش خوش اپنی گلی میں داخل ہوا۔ بچوں کو سر کے اشارے سے سلام کیا۔ عمارت کی سیڑھیاں چڑھا۔ جیب میں سے چابی نکالی اور کمرے کا تالا کھولا۔ مگر کمرے میں ہر چیز پہلے جیسی ہی تھی۔ ایک میز دو کرسیاں ایک بستر اور جب وہ بیٹھ گیا تو اس کو الارم کلاک کی ٹک ٹک سنائی دی اس کی ساری خوشی جاتی رہی کیونکہ کوئی تبدیلی نہ آئی تھی اور آدمی کو طیش آ گیا۔
اس نے آئینے میں اپنے چہرے کو سرخ ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کس طرح اس نے اپنی آنکھیں نیچی کیں پھر اس نے اپنے ہاتھوں کو ایک مُکے میں ڈھالا۔ اس کو ہوا میں اٹھایا اور میز پر دے مارا۔ پہلے صرف ایک بار پھر ایک بار اور پھر بار بار میز کو پیٹتا چلا گیا اور ساتھ ساتھ چلایا۔
”اب کوئی تبدیلی آنی چاہیے‘ اب کوئی تبدیلی آنی چاہیے“۔
اور اس کو الارم کلاک سنائی نہ دیا۔ پھر اس کے ہاتھوں میں درد ہونے لگا۔ اس کی آواز بیٹھ گئی پھر اس کو الارم کلاک سنائی دینے لگا اور کسی چیز میں تبدیلی نہ آئی۔
”ہمیشہ وہی میز“ آدمی نے کہا، وہی کرسیاں، بستر، تصویر اور میز کو اب بھی میز ہی کہتا ہوں۔ تصویر کو تصویر بستر کا نام بستر ہے اور کرسی کو لوگ کرسی کہتے ہیں۔ آخر کیوں؟
فرانسیسی میں بستر کو کولی کہتے ہیں۔ میز کو طبل، تصویر کو کاہلو اور کرسی کو شیز اور ہر کوئی سمجھ جاتا ہے اور چینی بھی ایک دوسرے کی بات کو سمجھتے ہیں۔
آخر بستر کا نام کس وجہ سے تصویر نہیں ہے۔ آدمی نے سوچا اور مسکرا دیا۔ پھر ہنسا اور ہنستا چلا گیا۔ یہاں تک ہمسائیوں نے دیوار پر مُکے برسائے اور پکار کر کہا خاموش۔
اب ہر چیز میں تبدیلی آ جائے گی۔ وہ چلایا اور پھر وہ بستر کو اسی وقت سے تصویر کہنے لگا۔
میں تھکا ہوا ہوں۔ میں تصویر میں جاتا ہوں۔ اس نے کہا اور صبح وہ اکثر تصویر میں پڑا رہتا اور سوچتا رہتا کہ کرسی کو کیا نام دینا چاہیے۔ پھر اس نے کرسی کا نام الارم کلاک رکھ دیا۔
وہ اٹھا، کپڑے پہنے، الارم کلاک پر بیٹھا اور باز ؤں کو میز پر ٹکا دیا۔ مگر اب بستر کا نام میز نہیں ہے۔ اس کا نام اب قالین ہے۔ گویا صبح کے وقت وہ آدمی تصویر میں سے اٹھتا، کپڑے پہنتا، قالین کے ساتھ الارم کلاک پر بیٹھتا اور سوچتا رہتا کہ وہ اب کس کس چیز کو کیا کیا نام دے سکتا تھا۔
بستر کو وہ تصویر کہتا تھا….میز کو وہ قالین کہتا تھا….کرسی کو وہ الارم کلاک کہتا تھا…. اخبار کو وہ الارم کلاک کہتا تھا….آئینے کو وہ کرسی کہتا تھا….الارم کلاک کو وہ فوٹو البم کہتا تھا…. الماری کو وہ اخبار کہتا تھا…. قالین کو وہ الماری کہتا تھا…. تصویر کو وہ میز کہتا تھا…. اور فوٹو البم کو وہ آئینہ کہتا تھا۔
گویا بوڑھا آدمی دیر تک تصویر میں پڑا رہا۔ نو بجے فوٹو البم نے الارم بجایا۔ آدمی اٹھا اور الماری پر کھڑا ہو گیا تاکہ پا ؤں کو ٹھنڈ نہ لگے۔ پھر اس نے اپنے کپڑے اخبار میں سے نکالے اور پہن لئے۔ دیوار پر کرسی میں نظر ڈالی اور پھر الارم کلاک پر بیٹھ گیا۔ قالین کے ساتھ۔ اور آئینے کی ورق گردانی کی۔ یہاں تک کہ اس کو اپنی ماں کی میز مل گئی۔
آدمی کو مزا آنے لگا۔ وہ سارا سارا دن مشق کرنے لگا اور نئے نئے لفظ یاد کرنے لگا۔ اب وہ ہر چیز کو نیا نام دے چکا تھا۔ اب وہ آدمی نہیں تھا بلکہ پا ؤں تھا۔ اور پا ؤں صبح تھا۔ اور صبح ایک آدمی تھا۔
اب تم کہانی کو خود آگے لکھ سکتے ہو اور اس آدمی کی طرح دوسرے لفظوں کو بھی بدل سکتے ہو۔
بچنے کا نام ہے رکھنا….ٹھٹھرنے کا نام ہے دیکھنا….لیٹنے کا نام ہے بچنا…. کھڑے ہونے کا نام ہے چپ کرنا….رکھنے کا نام ہے مذاق گردانی….اس کا مطلب بنتا ہے۔
صبح دیر تک بوڑھا پا ؤں تصویر میں بچتا رہا۔ نو بجے فوٹو البم رکھ دیا۔ پا ؤں ٹھٹھرنے لگا اور الماری کی ورق گردانی کرنے لگا تاکہ صبح کو نہ دیکھے۔
بوڑھے آدمی نے نیلے رنگ کی کاپیاں خریدیں اور نئے الفاظ کے ساتھ ان کو بھر دیا۔ اس کام میں وہ اس قدرمصروف ہو گیا کہ وہ شاذ و نادر ہی باہر نظر آتا تھا۔
پھر اس نے تمام چیزوں کے نئے ناموں کو یاد کر لیا۔ اور ان کے اصل ناموں کو بھولتا چلا گیا۔ اب اس کے پاس ایک نئی زبان تھی جو اُس کے اکیلے کی ملکیت تھی۔ کبھی کبھار اسے نئی زبان میں خواب بھی آنے لگے۔ پھر اس نے اپنے سکول کے دنوں کے ایک گیت کا نئی زبان میں ترجمہ کیا اور دھیمی آواز میں گانے لگا۔
مگر جلد ہی اس کو ترجمہ کرنے میں دقت پیش آنے لگی۔ وہ اپنی پرانی زبان قریب قریب بھول چکا تھا۔ اور اس کو موزوں الفاظ اپنی نیلی کاپی میں تلاش کرنے پڑتے تھے۔ وہ لوگوں سے بات کرنے سے گھبرانے لگا۔ اسے دیر تک سوچنا پڑتا تھا کہ لوگ چیزوں کو کس نام سے پکارتے ہیں۔
اس کی تصویر کو لوگ بستر کہتے ہیں
اس کے قالین کو لوگ میز کہتے ہیں
اس کے الارم کلاک کو لوگ کرسی کہتے ہیں
اس کے بستر کو لوگ اخبار کہتے ہیں
اس کی کرسی کو لوگ آئینہ کہتے ہیں
اس کے فوٹو البم کو لوگ الارم کلاک کہتے ہیں
اس کے اخبار کو لوگ الماری کہتے ہیں
اس کی الماری کو لوگ قالین کہتے ہیں
اس کی میز پر لوگ تصویر کہتے ہیں
اس کے آئینے کو لوگ فوٹو البم کہتے ہیں
اور پھر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ آدمی کو ہنسنا پڑتا تھا۔ جب وہ لوگوں کو باتیں کرتے ہوئے سنتا تھا۔ جب وہ کسی کو کہتے ہوئے سنتا کیا آپ بھی صبح فٹ بال کا میچ دیکھنے جائیں گے۔یا کوئی کہتا کہ لگاتار دو ماہ سے بارش ہو رہی ہے یا جب کوئی کہتا تھا کہ میرا ایک چچا امریکہ میں رہتا ہے تو اسے ہنسنا پڑتا تھا۔
اسے ہنسی آ جاتی تھی کیونکہ وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔ مگر یہ کہانی کچھ ایسی مزاحیہ نہیں ہے۔ اس کی ابتداءایک اداس آدمی سے ہوئی تھی اور اس کی انتہا پر بھی ایک اداس آدمی ہے۔ بوڑھا آدمی جو خاکستری اوورکوٹ پہنے ہوئے تھا۔ لوگوں کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔ یہ بات اتنی رنجیدہ نہیں تھی کہ اس سے کہیں بڑھ کر رنجیدہ بات یہ ہے کہ وہ اس کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ اس لئے وہ کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ اب وہ صرف اپنے آپ سے باتیں کرتا تھا۔ اس نے سلام کرنا تک چھوڑ دیا تھا۔
English Title: A table is a table
Written by:
Peter Bichsel (born March 24, 1935) is a popular Swiss writer and journalist representing modern German literature.
-Watch a short film on this short story; click link below
or search “A table is a table” on youtube.