تحریر: کیٹ شوپِن (امریکہ)
مترجم: عنبرین صلاح الدین (لاہور، پاکستان)
یہ جانتے ہوئے کہ مسز میلرڈ کودل کا عارضہ لاحق ہے، اسے اس کے جیون ساتھی کی موت کی خبر سنانے میں بہت احتیاط سے کام لیا گیا۔
یہ اس کی بہن جازفین تھی کہ جس نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اسے بتایا ، چھپے ہوئے اشاروں میں جو ادھورا اظہار کررہے تھے۔ اس کے پاس اس کے جیون ساتھی کا دوست رچرڈز بھی تھا۔ وہ اس وقت اخبار کے دفتر میں موجود تھا۔ جب ریل گاڑی کے حادثے کی خبر ملی، جس میں برینٹلے ملرڈ کا نام مرجانے والوں میں سرِ فہرست تھا۔ اس نے بس اتنا ہی وقت لیا کہ وہ ایک دوسرے ٹیلی گرام کی وصولی کے ذریعے خود کو اس خبر کی سچائی کا یقین دلا سکے۔ اس کے بعد اس نے بہت عجلت برتی تاکہ کہیں یہ دکھ بھرا پیغام کسی غیر ذمہ دار اور سخت دل دوست کے ہاتھ نہ لگے۔
اس نے یہ کہانی دوسری عورتوں کے مانند نہیں سنی، جو بے دست و پا کم ہمتی کی کیفیت میں ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتیں۔ وہ اچانک، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بہن کے بازوؤں میں رو پڑی۔ جب غم کا یہ طوفان ذرا تھما، تو اکیلی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس نے کسی کو اپنے پیچھے نہیں آنے دیا۔
وہاں کھلی ہوئی کھڑکی کے سامنے ایک آرام دہ بڑی کرسی رکھی تھی۔ وہ اس میں دھنس گئی، اس جسمانی تھکن کے بوجھ تلے، جس نے اس کے جسم کو قبضے میں لے رکھا تھا اس اور اس کی روح تک پہنچ رہی تھی۔
اس نے اپنے گھر کے صحن میں درختوں کے سروں کو نئی بہار میں جھومتے ہوئے دیکھا۔ بارش کا مزے دار تنفس ہوا میں موجود تھا۔ نیچے گلی میں پھیری والا اپنا سامان اٹھا ئے موجود تھا۔ دور سے کسی گانے والے کے گیت کے بول ہلکے ہلکے سنائی دے رہے تھے، اور چھتوں پر بے شمار چڑیاں چہچہارہی تھیں۔
مغرب میں اس کے کھڑکی کی طرف منہ کیےاوپر نیچے دھرے ہوئے بادلوں میں سے نیلے آسمان کے ٹکڑے نظر آرہے تھے۔
وہ بے حس و حرکت اپنا سر کرسی کی گدی سے ٹکائے بیٹھی تھی، سوائے اس لمحے کے جب اچانک کوئی سسکی اس کے حلق تک پہنچتی اور اسے بلادیتی، جیسے کوئی بچہ روتے روتے سوجائے اور خواب میں سسکیاں لیتا رہے۔
وہ ایسی جوان عورت تھی جس کا چہرہ اتنا شفاف اور پُرسکون تھا کہ اس کی لکیریں ایک دباؤاور کسی حد تک مضبوطی کا پتا دیتی تھیں۔ مگر اب اس کے آنکھوں میں منظر بجھا ہوا تھا ۔ اس کی نظر دور موجود آسمان کے ان ٹکڑوں میں سے ایک پر جمی ہوئی تھی۔ وہ کوئی سوچتی ہوئی نگاہ نہیں تھی، بل کہ ایک ذہین فکر کے التوا کا اشارہ تھی۔
کوئی چیز اس کی طرف بڑھ رہی تھی اور وہ خوف میں مبتلا اس کا انتظار کررہی تھی۔ یہ کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی، یہ دھندلا اور لطیف سا تھا جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا تھا لیکن اس نے اسے آسمان سے باہر آتے ہوئے ہوا میں رچی بسی آوازوں ، خوشبوؤں، رنگوں میں سے گزرتا ہوا محسوس کیا۔
اب اس کا سانس اوپر نیچے ہورہا تھا، وہ آنے والی چیز کو قبضے میں لینے کے لیے پہچان رہی تھی، اور وہ اپنے ارادے سے اسے پچھاڑنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔ اتنی کمزوری سے جتنے اس کے دو سفید نازک ہاتھ ہو سکتے تھے۔ جب اس نے اپنے آپ کو چھوڑ دیا، اس کے ادھ کھلے ہونٹوں سے سرگوشی کے انداز میں ایک چھوٹا سا لفظ برآمد ہوا۔ اس نے منہ ہی منہ میں اس لفظ کو کئی بار دہرایا، آزاد، آزاد، آزاد! وہ نگاہوں کا خالی پن اور اس کے بعد آنے والی خوف کی لہر اس کی آنکھوں سے رخصت ہوچکی تھی۔ وہ روشن اور پُرجوش تھیں۔ اس کی نبضیں تیز تھیں اور بہتا خون اس کے پور پور کو گرم اور پرسکون بنا رہا تھا۔
اس نے رک کر پوچھا تک نہیں کہ یہ کوئی بہت بڑی مسرت ہے یا نہیں کہ جس نے اسے جکڑ رکھا تھا۔ ایک شفاف اور عظیم ادراک نے اسے اس مشورے کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے ٹھکرانے کی صلاحیت بخشی۔ وہ جانتی تھی کہ جب وہ ان رحم دل نرم ہاتھوں کو موت میں لپٹا ہوا دیکھے گی۔ اس چہرے کو جس نے اسے محبت کے سوا کبھی کسی نگاہ سے نہ دیکھا تھا بے حس و حرکت اور مردہ دیکھے گی تو دوبارہ رو دے گی۔ مگر اس نے اس کڑوے لمحے کے اس پار ان برسوں کی طویل قطار دیکھی، جو اب صرف اس کے ہوں گے۔ اس نے انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے اپنے بازو کھولے اور پھیلا دیے۔
ان آنے والے برسوں میں اسے کسی کی خاطر زندہ نہیں رہنا ہوگا ، وہ اپنے لیے جیے گی۔ اب کوئی مضبوط ارادہ اس کے ارادے کو نہیں موڑ سکتا، اس اندھی تقلید کے تحت جہاں مرد اور عورتیں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے ذاتی ارادے کو اپنے ساتھی پر لاگو کرنے کا حق ہے۔ جب آگہی کے مختصر سے لمحے میں اس نے غور کیا تو اسے اپنا یہ عمل اچھی یا بری نیت ہر دو صورتوں میں ایک جرم سے کم نہیں ہوگا۔
وہ کبھی کبھار اس سے محبت کرتی تھی، اکثر نہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے! محبت جیسے سربستہ راز کی اس خوداختیاری کے حصول کے سامنے کیا اہمیت ہے جسے اس نے اپنی ذات کی مضبوط ترین خواہش کے طور پر پہچانا تھا۔
آزار روح اور آزاد جسم! اس نے سرگوشی کی۔
جوزفین بند دروازے کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور چابی کے سوراخ پر ہونٹ رکھے اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔ لوئزے ، دروازہ کھولو! مہربانی کرو دروازہ کھولو۔۔ تم بیمار پڑ جاؤ گی۔ کیا کر رہی ہو، لوئزے ؟ خدا کے لیے دروازہ کھولو۔
"چلی جاؤ۔ میں بیمار نہیں پڑ رہی۔ "
نہیں ۔ وہ تو کھلی کھڑکی سے زندگی کا امرت پی رہی تھی۔
اس خوش خیالی آنے والے دنوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ بہار کے دن اور گرمیوں کے دن اور ہر طرح کے دن جو صرف اس کے ہوں گے۔ اس کے دل سے زندگی کی طوالت کی دعا نکلی۔ کل کی بات ہے جب اس نے ایک اچانک کپکپاہٹ سےسوچا تھا کہ کہیں زندگی طویل نہ ہو۔
وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی بہن کے پکارنے پر دروازہ کھول دیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک بخار ذدہ فتح تھی اور وہ اپنے آپ کو غیر ارادی طور پر فتح کی دیوی کی طرح سمجھ رہی تھی۔ اس نے اپنی بہن کا سہار ا لیا اور دونوں سیڑھیاں اتر گئیں۔ رچرڈز نیچے کھڑا انتظار کررہا تھا۔
کوئی چابی سے سامنے کا دروازہ کھول رہا تھا۔ یہ برینٹلے میلیرڈ تھا جو کچھ سفر کے آثار لیے، سامان اور چھتری سنبھالے ہوئے داخل ہوا۔ وہ حادثے کے مقام سے دور رہا تھا۔ اور اسے اس کے ہونے کی خبر بھی نہ تھی۔ وہ ۔۔۔ جوزفین کی تیز چیخ اور رچرڈز کی اسے اس کی بیوی کی نظروں سے بچانے کی حرکت پر حیران کھڑا تھا۔
ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے مر گئی ہے۔۔۔۔ ایسی خوشی جو مار دیتی ہے۔
Original Title: The Story of an Hour
Written by:
Kate Chopin (8 February 1850 – 22 August 1904)
– an American Novelist & Short story writer.
*~*~*~*~*~*
“