زندگی اتنی کٹھن اور مصروف ہو جائے گی اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔گھر بار،بچے،ملازمت ۔۔۔وہ بس اسی دائرے میں گھومتی رہتی تھی۔۔۔کبھی کبھی آئینہ غور سے دیکھتی تو اپنا عکس ہی اجنبی لگنے لگتا۔ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے وہ سال میں ایک آدھ بار ہی ماں سے ملنے جا پاتی۔ماں کبھی شکوہ نہیں کرتی تھی لیکن ماں کا بڑھاپا اور اکیلا پن دیکھ کر اس کے اندر کچھ ٹوٹ سا جاتا۔اس کا جی چاہتا وہ ماں کے پاس ڈھیر سارے دن گزارے۔۔۔ ماں کے سارے کام ہاتھ سے کرے۔اس کے پیروں کو دبائے، بالوں میں کنگھی کرے،اس کے ساتھ لیٹ کر ڈھیروں باتیں کرے۔۔۔مگر پتہ ہی نہ چلتا اور روانگی کا وقت ہوجاتا۔اس بار جب وہ ماں سے جدا ہونے لگی تو ماں نے عجیب بات کی۔۔۔
“صفو۔۔۔مجھے پتہ ہے تیرے پاس مجھے روز روز فون کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔۔۔تو ایسا کر۔۔۔مہینے میں ایک بار مجھے خط لکھ بھیجا کر۔۔۔لمبا سا خط۔۔۔میں وہ خط بار بار پڑھا کروں گی۔۔۔میرا وقت بھی اچھا کٹ جایا کرے گا۔۔۔”
ماں کی بات سن کر صفیہ کے دل کو کچھ ہوا ۔۔۔اس نے بمشکل آنکھوں کی نمی کو چھپایا اور ماں کے ہاتھ تھام کر بولی۔
“کیوں نہیں اماں۔۔۔مجھے بہت اچھا لگے گا۔۔۔یاد ہے۔۔۔ جب یونیورسٹی پڑھنے گئی تھی تو ہاسٹل سے تقریباً روز ہی تجھے خط بھیجا کرتی تھی۔۔۔”
“وہ سارے خط میں نے اتنی بار پڑھے ہیں کہ مجھے ازبر ہو گئے ہیں۔۔۔
میں اب تیرے نئے خطوں کا انتظار کروں گی” ماں نے بڑی آس سے کہا۔” میں ڈھیر سارے خط لکھوں گی ماں اتنے۔۔۔ کہ تو پڑھ پڑھ کے تھک جائے گی۔۔۔”
صفیہ نے ماں کو گلے لگا کر تسلی دی اوراس کی نم آنکھوں سے دانستہ نظریں چرا کر بس ٹرمینل پر جانے کے لیےٹیکسی میں بیٹھ گئی۔۔۔وہ تب تک مڑ مڑ کر دیکھتی رہی جب تک اکیلی ،بوڑھی اور اداس ماں نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔۔۔
گھر پہنچنے کے بعد کتنے ہی دن اسے سر کھجانے کی بھی فرصت نہ ملی۔۔۔وہ سفر سے آکر بھی جیسے سفر میں تھی۔ایک شام ذرا فرصت سے بیٹھی تو ماں کی معصوم سی خواہش یاد آئی۔۔۔اس نے کاغذ قلم اٹھایا اور خط لکھنے بیٹھ گئی۔
پیاری اماں !
یاد ہے جب تمہیں یونیورسٹی ہاسٹل سے پہلا خط لکھا تھا ۔۔۔اک سر خوشی کے عالم میں۔۔۔کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے دیرینہ خواہش پوری ہونے جا رہی تھی میری۔۔۔ایک نئی دنیا میرے سامنے تھی۔۔۔سب سے بڑھ کر گھر کی گھٹن سے نجات کا احساس ہی بڑا خوش کن تھا۔۔۔کتنی عجیب بات ہے نا کہ انسان اپنے گھر میں ہی خود کو قیدی سا محسوس کرتا ہو۔۔۔مگر یہ حقیقت تھی۔۔۔ ابا نے گھر کو جہنم بنا کے رکھا ہوا تھا۔۔۔ تم پہ ہاتھ اٹھانا، گالم گلوچ کرنا،خرچے سے تنگ رکھنا اور بیٹیوں کی ماں ہونے کے طعنے دینا۔۔۔ہمارےگھر میں کوئی خوشی دیر پا نہ تھی۔۔۔ایک اداسی اور اضطراب گھر کے درو دیوار سے لپٹے رہتے۔۔۔ تبھی تم چاہتیں تھیں ماں کہ ہم پڑھ لکھ جائیں تاکہ تمہارے جیسی زندگی نہ گزاریں اور میں نے یہ بات گرہ میں باندھ لی،ہمیشہ اچھے نمبر لے کر آگے بڑھتی رہی۔۔۔یونیورسٹی میں داخلے اور ہاسٹل میں رہنے کا وقت آیا تو تم نے سارا زیور بیچ دیا۔۔۔یوں میرا ایم اے کرنے کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچا۔۔۔
جب میرا رشتہ طے ہو رہا تھا نا اماں۔۔۔بس ایک بات کی خوشی تھی کہ میرا ہونے والا شوہر پڑھا لکھا ہے تو یقیناً روشن خیال بھی ہوگا۔۔۔عورت کی عزت کرتا ہوگا۔۔۔سو میری زندگی اچھی گزر جائے گی۔۔۔مگر یہ تقدیر بڑی ظالم چیز ہے۔۔۔میرا شوہر تو ابا سے بھی بودا نکلا۔۔۔مجھے لتاڑنے کے لیے اسے بہانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔میں تو بیٹوں کی ماں ہوں۔۔۔ پڑھی لکھی ہوں۔۔۔اپنا بوجھ بھی خو د اٹھاتی ہوں مگر تقدیر بالکل تجھ سی ہے۔۔۔۔میرا دل صحرا اور آنکھ سمندر ہوچکی ہے۔۔۔کبھی کہیں ایک شعر پڑھا تھا۔۔۔
بیٹیاں ماؤں جیسے مقدر کیوں رکھتی ہیں
دل صحرا اور آنکھ سمندر کیوں رکھتی ہیں
میرا پڑھا لکھا شوہر عورت کو حقیر گردانتا ہے۔۔۔مجھے گالیاں دیتا ہے۔۔۔کئی بار ہاتھ بھی اٹھا چکا ہے۔۔۔میں جو آج کی عورت ہوں۔۔۔اپنے حقوق سے مکمل آگاہ ہوں۔۔۔اس کے آگے پسپا ہو چکی ہوں۔۔۔میں بچوں سے دور ی برداشت نہیں کر سکتی ۔۔۔یا شاید بیاہتا عورت کی حیثیت سے مجھے سماج میں جو نام نہاد عزت حاصل ہے اس کی اسیر ہوں یا پھرمجھے بھی تمہاری طرح اس چار حرفی لفظ ” طلاق ” سے ڈر لگتا ہے۔۔۔میں بہت بزدل ہوں ماں۔۔۔میں تجھ پر اپنے دکھ آشکار نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔لیکن۔۔۔
اتنا لکھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ شام آہستہ آہستہ اپنا تسلط جما رہی تھی۔۔کمرے میں نیم اندھیرا سا پھیل گیا۔۔۔باپ بیٹے آج کہیں گھومنے پھرنے گئے تھے۔۔۔ابھی تک واپسی نہ ہوئی تھی۔کتنی ہی دیر وہ خالی ذہن کے ساتھ کرسی پہ نیم دراز پڑی رہی۔۔۔پھر آٹھ کربتی جلائی۔۔۔ماں کو لکھا خط اٹھا کرنظروں کے سامنے کیا تو آنکھیں پھر سے نم ہوگئیں۔خط کے چھوٹے چھوٹے پرزے کرکے سنک میں بہا دیے۔۔۔اورکپڑے لے کر نہانے چلی گئی۔ باہرآکر کچن میں چائے بنائی۔طبیعت میں کچھ بہتری محسوس ہوئی تو دوبارہ کاغذ قلم تھام لیا۔
پیاری اماں!
امید ہے بخیریت ہو گی۔ اماں تم ناراض نہ ہونا کہ خط لکھنے میں دیر ہوگئی۔واپس آکر بڑی مصروفیت رہی۔۔۔تمہارے منجھلے نواسے زین کی سالگرہ سر پہ تھی۔۔۔ہم سب تیاریوں میں لگے رہے۔۔۔تم جانتی ہو میری سالگرہ بھی اسی مہینے ہوتی ہے اس لیے یاسر نے زیادہ ہی اہتمام کرلیا۔۔۔مجھے تو خبر ہی نہیں تھی ۔۔۔زین کی سالگرہ کے دن ہی سب نے سرپرائز دیا۔ مجھے یاسرنے بڑی خوبصورت انگوٹھی تحفے میں دی۔بچوں نے الگ سے تحائف دیے۔۔۔گھر پھولوں کے گلدستوں اور مہمانوں سے بھر گیا۔بڑی رونق اور ہلہ گلہ رہا۔۔۔اور۔۔۔
صفیہ کا ذہن بار بار بھٹک جاتا اور قلم رک جاتا۔۔۔شاید جھوٹ لکھنا سچ لکھنے سے زیادہ مشکل ہو تا ہے کیونکہ جھوٹ لکھنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔۔۔خاص طور پر جب عادت بھی نہ ہو۔۔۔
اسی دوران ڈور بیل بجی تو وہ دروازہ کھولنے چل دی۔۔۔شاید یاسر اور بچے واپس آ گئے تھے۔
ماں کو لکھا ادھورا خط ہوا میں پھڑپھڑاتا رہ گیا۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...