(Last Updated On: )
میں دس سال سے اس بدنام سڑک سے گزر کر کالج آ جا رہی تھی۔یہ بدنام سڑک میرے راستے کی ضرورت تھی اور ان عورتوں کا ٹھکانہ بھی جنھیں ہمارے سماج میں طوائف کہا جاتا ہے۔ہر شریف النفس اس سڑک سے جھکی گردن اور نیچی نگاہوں سے گزر جاتا لیکن وہ جھکی جھکی نگاہوں سے ان نیم برہنہ عورتوں کو ضرور دیکھ لیتا جن جھکی نگاہوں سے میں انھیں دیکھ لیا کرتی۔یہ لمبی سڑک ان بدنام عورتوں کی جائے پناہ تھی۔نیچے پورا بازار چلتا اور اوپر ان آدھی ادھوری عورتوں کی زندگی۔مجھے نہ جانے کیوں ان عورتوں سے نفرت کبھی محسوس نہ ہوئی۔
ایسا کیوں تھا یہ تو مجھے خود پتہ نہیں ہاں مگر اپنا یہ خیال میں کبھی کسی سے بانٹ بھی نہ سکی۔مردوں کے لیے تو یہ ٹائم پاس بازار تھا، ہر اس مرد کے لیے جو اوپرنہ چڑھ سکتا تھا اور اس کے لیے بھی جو چڑھ سکتا تھا۔جیسے کوئی چائنیز مال ہو پیسے دے کر خریدا استعمال کیا اور پھینک دیا۔
وہ آدھاادھورا سماج کاحصہ جو دن بھر پیٹی کوٹ یا پائجامہ پہنے اوپر سے آدھی برہنہ عورتیں جو دن دن بھر اپنے جنگلوں کھڑکیوں پر لٹکی رہتیں اور عجیب عجیب آوازیں اور اشارے کرتے ان کے بدن گزرنے والوں کے لیے مکمل مقناطیسیت کا کام کرتے،ان کے سجے سجائے چہروں کو دیکھ کر اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہ تھا کہ ان کا معیار زندگی کیا ہے؟سستے پاؤڈر اور لپ اسٹک سے خود کو پوت پوت کر انھوں نے اپنے اچھے بھلے چہروں کو بھی برباد کر لیا تھا مگر یہی ان سب کا سب سے بڑ اہتھیار بھی تھا۔
کبھی کبھی میں اپنے شوہر سے ان کی زندگی کے بارے میں باتیں کرتی اور اظہار ہمدردی بھی کرنے کی کوشش کرتی لیکن ہر بار وہ مجھے ڈانٹ کر میرا منھ بند کردیتے اور میں حوصلہ شکن ہو کر چپ ہو جاتی لیکن اپنے اندر کے جوار بھاٹا کو کبھی دبا نہ سکی۔ان کی زندگی کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کی تمنا ہر حوصلہ شکنی سے مزید بڑھ جاتی اور اسی بڑھے ہوئے لاوے نے ایک دن میرے قدم اس طرف اٹھوا دئیے۔
کئی دن خود سے جنگ کرنے کے بعد آخر ایک دن میں نے ارادہ کر ہی لیا کہ آج میں ان سے ملاقات ضرور کروں گی اور اپنے اندر کی خلش کو دور کرنے کی پوری کوشش بھی لیکن سوال یہ تھا کہ جاؤں تو کس کوٹھے پر؟یہ سوال بہت خطرناک تھا اور کہیں نہ کہیں میرے اندر بہت ساخوف بھی پیدا کردیتا۔میں جس معاشرے میں رہتی تھی اس کا کوئی شخص اس دنیا میں جانے کا سوچتا،تو بھی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو جاتا پھر میں ……
”کل میں کالج جاتے ہوئے اپنا پورا منھ اٹھا کر ان سب کو دیکھوں گی پھر فیصلہ کروں گی۔“میں نے خود کلامی کی۔
اگلے دن میں نے اپنا پورا منھ اٹھا کر شروع سے آخیر تک ان سب کو دیکھا۔ کالج پہنچتے پہنچتے میں فیصلہ کر چکی تھی کہ مجھے جانا کہاں ہے۔کالج سے میں ایک گھنٹہ قبل اٹھی۔اور بڑا سا نقاب لگا کر رکشہ میں بیٹھ گئی۔دل کی حالت بہت عجیب تھی اور اگر کسی کو پتہ چل گیا تو کیا ہوگا؟ کا سوال بے چین کیے ہوئے تھا۔کچھ بھی ہو معاشرے کا ڈر اکثر ہمیں جینے نہیں دیتا۔
میں نے طے کر لیا تھا کہ مجھے کس کوٹھے پر جانا ہے،میں ے بہت سے دم درود خود پر کیے اور ایک زینے پر قدم رکھ دئیے۔پیر بری طرح کانپ رہے تھے اور دل کی دھڑکنیں اور تیز ہو گئی تھیں،نقاب سے میرا پورا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔زینہ نہایت تاریک اور بوسیدہ تھا۔سیل کی بدبو میرے نتھنوں میں گھسی جا رہی تھی۔پندرہ سولہ سیڑھیاں چڑھ کر میں جس جگہ کھڑی تھی وہ ایک دالان سا تھا۔جس کی ایک دیوار جو سڑک کی طرف کھلتی تھی آدھی تھی اور اس پر جالیاں لگی ہوئی تھیں جس سے یہ لوگ دن بھر نیچے جھانک کر اپنا دن گزاراکرتی تھیں۔
میں چوکھٹ پر کھڑی تھی۔میں نے نظریں گھماکر دروازے کو دیکھا۔دروازہ تو نظر نہیں آیا صرف چوکھٹ نصب تھی۔دروازہ جو شاید کبھی لگا ہی نہیں تھا۔سامنے ایک کمرہ تھا اور اس کی برابر ایک باورچی خانے جیسا کچھ تھا۔گھرمیں اندھیرا تھا۔میری نظر گھوم کر ایک اور کمرے کی طرف گئی جو میری بغل میں ہی تھا۔وہ بہت صاف ستھرا اور سجا سجایا ساتھا۔دالان کے ایک کونے میں ایک چارپائی پر ایک ادھیڑ عمر کی عورت پیٹی کوٹ،بلاؤز پہنے لیٹی پنکھا جھل رہی تھی۔زینے میں آنے والی بساند اوپر آتے آتے اور بڑھ گئی تھی۔اب مجھے اس بو پر شک ہونے لگا تھا۔ابھی میں جائزہ لے ہی رہی تھی کہ ایک جوان عورت کمرے سے باہر آئی اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھاجو مجھے دیکھ کر گر گیا۔
”کون ہو تم؟“
کرخت آواز میں مجھ سے مخاطب ہوئی۔
”میں ……میں۔“
”یہ میں میں کیا لگا رکھی ہے۔نقاب ہٹاؤاور بتاؤیہاں کیوں آئی ہو؟“
میں نے جلدی سے اپنے چہرے سے نقاب نوچ لی۔
”میں سعدیہ ہوں ……اور آپ سے ایک ملاقات کرنے آئی ہوں۔“
”ملاقات……؟“ استفہامیہ لہجہ۔
”ہم سے توآج تک شریف زادے ہی ملنے آتے ہیں۔یہ شریف زادی؟ ”آؤ…… اندر آؤ۔“
میں جلدی سے اس کے قریب ہو گئی۔
”جی اگر آپ کی اجازت ہو تو میں چند منٹ آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔معذرت خواہ ہوں دروازہ بجا کر اندر آنا چاہتی تھی مگر دروازہ کہیں ……“
”……نظر نہیں آیا۔دروازہ اور کوٹھوں پر؟ہمیں کس کا ڈر؟یہاں تو چور بھی اپنی جیبیں خالی کرکے جاتے ہیں۔خیر بیٹھو اور کہو کیا بات ہے؟کیا مصیبت زدہ ہو؟پناہ چاہتی ہو؟“
”نہیں ……نہیں“
میرے اندر ایک خوف اتر گیا۔میں بس آپ سے ایک ملاقات……“
”بیٹھو……“
بالکل سرد لہجہ۔
میں بیٹھنے کی جگہ تلاش کرہی رہی تھی کہ اس نے ایک کرسی گھسیٹ کر میرے آگے کردی اور میں جلدی سے اس پر بیٹھ گئی۔چند لمحے ہم دونوں کے درمیان خاموش ہی گرز گئے۔پھر میں نے بڑی ہمت کرکے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور لب کھولے۔
”جی……دراصل……میں ……میں آپ لوگوں کی دنیا کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ لوگ کیسے ……“
”……طوائفیں کیسے بنتی ہیں بی بی یہ جاننا چاہتی ہو؟“تمسخرانہ لہجہ
میں ہکا بکا رہ گئی۔جس سوچ کو میں خوبصورت الفاظ میں لپیٹ کر پیش کرنے سے قاصر تھی اس نے ایک جملے میں میری سوچ کو ننگا کردیا۔
”جی……بات……دراصل برا مت مانیے گا لیکن یہ تو آپ کو بھی علم ہے کہ سوسائٹی اس طبقے کو وہ حق نہیں دیتی جو دیگر سماج کے لوگوں کو ہے۔“
میری بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ پانچ،پانچ سال کے دو بچے لڑتے دوڑتے بھاگتے اس عورت کے پاس آگئے اور ان بچوں کو دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گئی۔کوٹھوں پر بچے؟
مجھے بیٹھے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا مگر میں نے دیکھا کہ سڑک کی طرف کھلنے والے جنگلے پر دو جوان خوبصورت لڑکیاں ادھ کھلے کپڑوں کے ساتھ پوری پوری جھکی ہوئی تھیں اور اپنے اشاروں کنایوں میں مصروف تھیں۔انھوں نے میری آمد پر صرف ایک بار مجھے حیرت سے دیکھا تھاپھر جھک کر سڑک کے نظاروں میں کھو گئی تھیں۔
میں نے بڑی ہمت کرکے بچوں کی طرف دیکھا۔اس نے میرے سوال کرنے سے پہلے ہی میری نظروں کو پڑھ لیا۔
”دیکھ رہی ہیں یہ بچے؟ کوٹھے والیوں کے بچے پیدا ہوتے ہیں کیا؟“
استہزایہ ہنسی اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
”دیکھئے کتنے شریف ہیں اس مکمل معاشرے کے شریف النفس لوگ۔اپنے بچوں کو بھی اس غلیظ دنیا میں چھوڑے بیٹھے ہیں۔روکھی سوکھی کھانے پر مجبور کررہے ہیں اس اپنے مکمل وجود کے ان ٹکڑوں کو نامکمل بنا نے کے لیے چھوڑ دیا۔ان کے باپوں کے پاس بہت پیسہ اور بڑا رتبہ ہے ان کے گھر کے بچے گاڑیوں میں بیٹھ کر اسکول جاتے ہیں اور یہ بدنصیب……انھیں تو سرکاری اسکول بھی نصیب نہیں۔داخلہ کرایا تھا مگروہاں بھی پڑھنے نہیں دیا سماج کے لوگوں نے،انھیں لوگوں نے جو بند کمروں میں ہمارے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور ہم پر روپیہ لٹا کر چلے جاتے ہیں۔دن میں اپنی سفید پوشی کا بھرم اس طرح رکھتے ہیں کہ چند دنوں میں ہی طوائف کی اولاد کہہ کر نکال باہر کر ادیا۔یہ معصوم اپنی حسرتیں اور کتابیں لے کر بدنامی کاداغ ماتھے پرلگائے اسی جائے پناہ پر واپس آگئے۔لوگوں کی باتوں کے پتھر انھیں کہیں کچھ کرنے نہیں دیتے۔بتایئے کیا بنیں گے یہ؟کیا دے پائیں گے سوسائٹی کو؟ انسانیت کو؟کیا رہ جائے گا ان کے اختیار میں؟کیسے کمائیں گے یہ رزق حلال؟کیسے سوچیں گے اچھی سوچ؟یہ کوٹھے یوں ہی آباد ہوتے رہیں گے کیونکہ ان کے آباد کرنے والے انھیں کوٹھوں پر پل کر جوان ہو تے ہیں۔“
”انھیں دیکھ رہی ہیں آپ……؟“
اس نے چار پائی پر لیٹی معذور بیمار لاغر عورت کی طرف اشارہ کیا۔
”پوری جوانی لوگوں کا دل بہلاتی رہیں۔مشہوررقاصہ جن کے ایک اک گھنگرو کی کھنک پر لوگ مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے۔انھوں نے بتایا تھا کہ کسی نے انھیں یہاں بیچ دیا تھا۔یہ اس وقت بہت چھوٹی تھیں۔نہ جانے کیسے ان کے والدین کو خبر لگ گئی کہ ان کی بیٹی یہاں ہے۔ان کی استانی نے رحم کھایا اور کہا کہ بچی کو پہچان کر لے جاؤ مگر جانتی ہیں آ پ کیا ہوا؟ ان کے والدین نے معاشرے میں بنی اپنی جھوٹی شان کی خاطر انھیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔کیسے سامنا کرتے وہ لوگوں کا کہ ان کی بیٹی چھ دن سے کوٹھے پر تھی۔کیا راستہ بچا تھا ان کے پاس، پاؤں میں گھنگرو باندھنے کے؟
بی بی کوئی ہمارے لیے نہیں سوچتا۔سب یہی کہتے ہیں ہاں ہم گندے ہیں،کیونکہ معاشرے کی ساری گندگی ہم ہی سمیٹ کر رکھتے ہیں۔بے چاری نے پھر جو گھنگرو باندھے تو تا حیات ناچتی رہیں اور اب ان کے علاج کے لالے ہیں۔ پھوٹی کوڑی نہیں ان کے پاس جو اپنے لیے کچھ کر سکیں۔موت کے انتظار میں زندگی کے دن کاٹ رہی ہیں۔مر کر بھی کہاں چین؟ہمارے تو جنازے تک اٹھانے والا کوئی نہیں۔وہ بھی خود ہی ڈھونے پڑتے ہیں۔“
”اسے دیکھ رہی ہیں آپ؟“
اس نے چھجے پر لٹکی لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔
”بی۔اے پاس ہے۔گاؤں کے لڑکوں نے اغوا کر کے اس کی زندگی برباد کردی۔ایک ہفتہ بعد کسی ہسپتال میں ملی۔گھر والوں نے منھ پھیر لیا کہ اب تو ہمارے کسی کام کی نہیں۔تڑپی،پھڑکی،روئی،چلائی خود کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر پھراپنے زخموں کو بھر کر کھڑی ہوئی،نوکری تلاش کی لیکن جہاں جاتی بدبختی ساتھ چلی جاتی۔چند دن میں ہی یہ کہہ کر نکال دیا جاتا کہ یہ شریف لوگوں کے کام کرنے کی جگہ ہے۔کئی جگہ باس نے اپنی شرافت کا مظاہرہ کرنا چاہا جس پر اس نے لات مار دی۔خاک چھانتی پھری،چھالے پڑ گئے کام ڈھونڈتے ڈھونڈتے۔لہو لہان تھے اس کے پیر جب اس نے یہاں قدم رکھا۔رات کے تین بجے تھے جب یہ میری سیڑھیوں پر پڑی ملی۔کیا قصور تھا اس کا؟کیسے ماں باپ تھے جنھوں نے جھوٹی شان کی خاطر اپنی اولاد کو طوائف بننے پر مجبور کردیا۔جان چھڑانے کو صرف ایک جملہ:
”مر گئی تو ہمارے لیے۔“
کون مر جاتا ہے اس طرح؟دربدر کرنے کو چھوڑدیا۔ویسے بھی اب ایم۔اے بی۔اے والوں کے پاس نوکریاں کہاں؟کیسے جیتی اپنی زندگی؟ایسے ہی بے سہاروں کا سہارا بن جاتے ہیں یہ کوٹھے۔گھر کی حالت دیکھ رہی ہیں آپ؟دال روٹی بڑی مشکل سے چلتی ہے۔گھر کو کیا سدھاریں،بس ایک کاروباری کمرہ ہے جسے دلہن کی طرح سجا کر رکھنا پڑتا ہے۔“
اس نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔
”یہاں راجہ اور رنک سب بے جھجک آتے ہیں اور……بی بی ہم تو ہمیشہ سے آدھے ادھورے تھے اور رہیں گے۔لوگ اپنے ٹوٹے،بکھرے وجود لے کر یہاں آتے ہیں خود کو سمیٹ کرمکمل کرکے ہمیں بکھیرکر چلے جاتے ہیں اور سوغات میں دے جاتے ہیں اور نامکمل وجود……کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ معاشرے کو طوائفوں کے اڈے کون دیتا ہے۔“
اس نے بچوں کی طرف اشارہ کیا اور میں شرمندہ شرمندہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔