بڑا بھائی بس یونہی تھا، گھر والوں نے اُس کا عجیب ہی امیج بنایا ہوا تھا – گھر والے بھی کیا کرتے کہ اُسے اُن کی ذرہ بھر پروا نہیں تھی – نہ روٹی کی فکر ، نہ کپڑوں لتّوں کی سوچ اور نہ گھر بُوہے کا خیال-اُس نے اپنی زبان سے تو نہیں کہا تھا البتہ اپنے افعال سے پوری طرح ثابت کر دیا تھا کہ وہ اِن چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے بنا ہی نہیں-اُس کا تو ایک ہی نعرۃ مستانہ تھا کہ دانش و بینش کیلئے کام کرو اور اگر شعور آ گیا تو دنیا کی تمام مادی ، روحانی اور نفسیاتی آسائشیں اِس کے پیچھے دست بستہ خود چلی آئیں گی – مگر اُس کی بستی، اُس کے شہر کے لوگ اُس کی بات سننے، سمجھنے کی بجائے خود اُسے ہی حیرت سے تکتے رہ جاتے – میں نے اپنے بھائی پر عمومیہ کے سر عام طنزیہ نشتر چلتے تو دیکھے تھے مگر گھر یا باہر کے لوگوں میں سے کبھی کسی نے اُسے نہیں سراہا سوائے مشتاق کے- مشتاق نے ایک بار گرمجوشی سے مجھے گلے لگاتے ہوئے اور میرے کاندھے تھپتھپاتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ تمہیں مبارک ہو تمہارا بھائی کھِسکا ہوا ہے- مگر مجھے اس کی بات پر کیا یقین آتا کہ وہ تو خود ہی کھِسکا ہوا تھا – بھائی کو لیکن کسی چیز کی کوئی پروا نہیں تھی – وہ شہر کی سڑکوں ، بازاروں اور چوراہوں میں شانِ بے نیازی سے یوں گھومتا جیسے ایتھنز میں ایلکی بیادیز ، انٹی ستھینز ،اریسٹیپوس ، کراءٹو اور افلاطون کے جلو میں ہو- وہ اپنی بے ترتیب بڑھی ہوئی داڑھی کے بالوں کو کھجلاتا ، اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے غور و فکر کرتا اور اپنے جیسے کھِسکے ہوئے لوگوں کو سوالات اٹھانے کی ضرورت و اہمیت اور جرات پر اکساتا زندگی بسر کر رہا تھا ، ایک بار کسی نے اس سے کہا کہ تم فقط غور و فکر اور دانش کا ڈھونک کرتے ہو تا کہ تمہیں اپنے بیوی بچوں کے نان و نفقے کیلئے محنت مزدوری کی مشقت نہ اٹھانی پڑے – بھائی نے ہنس کر جواب دیا ! دیکھو ہماری دنیا میں ہمارے ہی ارد گرد اور بھی جاندار مثلاً چرند، پرند اور حیوانات موجود ہیں لیکن انہوں نے تو کبھی اپنے بچوں کیلئے اسطرح سعی نہیں کی جس طرح ہم کرتے ہیں تو کیا وہ زندہ نہیں ہیں- وہ یعنی جانور صرف زندہ ہیں جبکہ ہم صرف زندہ نہیں ہیں بلکہ——– وہ ابھی اپنی بات مکمل بھی نہیں کر پایا تھا کہ چھوٹے سے مجمع میں سے ایک شخص نے اپنی قمیض کا پچھلا گھیرا اُوپر کیا اور سرین اُس کی طرف کرکے ایک دو تین فطری پٹاسیں چلاتا ، لوگوں کوہنساتا دوڑاتا انہیں اُ س سے بہت دور لے گیا –
بھائی صاحب کو لوگ اگر کھِسکا ہوا کہتے تھے تو ٹھیک ہی کہتے تھے کہ میں خود بھی انہیں کھِسکا ہوا محسوس کرتا تھا مگر لوگوں کے برعکس میں اُنہیں اپنی جان جگر کا ٹکڑا بھی تو جانتا تھا اور مجھ میں اور لوگوں میں یہی فرق تھا اور میری دانست میں یہ بہت بڑا فرق تھا- بھائی واقعی کھِسکے ہوئے تھے ، وہ پتہ نہیں کیوں مگر ملکوں کو شہر ، شہروں کو گاوءں اور گاوءں کو گھر کہتے تھے- بھائی کو پچھلے کچھ دنوں سے جمُوریہ کی پریشانی لاحق تھی اور بھائی کو یہ بیماری وہی چار سو سال قبل مسیح کی یاد پڑتی تھی – بھائی کو پتہ نہیں کیوں شک گزرتا تھا کہ اس بیماری کا نام جمہوریہ سے بگڑ کر جموریہ نہ ہو گیا ہو حالانکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا- ایک جانب حکومت ، اقتدار ، اختیار اور ایک جانب بیچارے مداری گربندر والے کی چار فٹ اونچی ، ایک فٹ چوڑی گندے ناخنوں اور الجھے ہوئے بالوں والی جموریہ- مگر ! مگر ! اس ننھی منّی جمُوریہ پر نہ جانا ، یہ جسے چمٹ جاتی اُس سے کچھ نہ کچھ لے کر ہی اُس کی جان چھوڑتی- لوگ اِسے ٹھڈے مارتے ، تھپڑ مارتے مگر وہ اُن کے کپڑوں سے لٹک جاتی- اگر کسی کی شلوار بیچ بازار اُترے تو اُتر جائے مگر رُوپلّی کے بغیر اُس کا ہاتھ چھڑانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو تا- اب تو اُس ننھی کو بھی اپنی حرکتوں پر ہنسی کے ساتھ ساتھ مزا آنے لگا تھا- لوگ پھانسی کے پھندے کے ڈر سے اُسے جان سے مارنے سے تو باز رہے اور اِس سے پیچھے جتنی بھی مار تھی اُسے وہ پہلے ہی اس قدر سہہ چکی تھی کہ اب اُسے اس مار کے ایک ایک انگ پر ہنسی کے ساتھ مزا آنے لگا تھا- بندر والے کو آخر اِس مختصر سی بچی سے اس قدر مشقت لینے کی کیا ضرورت تھی جبکہ وہ اُس کی سگی بیٹی تھی- جب بھی کوئی اس بابت پوچھتا تو مداری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور وہ اپنے نوجوان بیٹے کو یاد کرکے بعض اوقات دھاڑیں مار کر رونے لگتا جِسے جنگ عظیم دوئم میں بم کا گولہ لگا تھا – مزے کی بات ہے کہ بھائی نے کبھی حکومت کی بات نہیں کی ، بھائی تو فقط دانش کی بات کرتا تھا- وہ تعدد کے خلاف تھا اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ ایسی تعداد جو بدکردار اور بدعمل لوگوں کا انتخاب کرے وہ بے معنی ہے چاہے وہ کتنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو – بھائی نہیں ہے مگر آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جمُوریہ بندر کے بچے کی طرح ہماری ٹانگوں سے چمٹی ہوئی ہے- اِس کے خوف سے لوگوں نے بازاروں میں چلنا پھرنا ترک کر دیا ہے، اِس کے ڈر سے لوگ صبح کی سیر بُھول گئے ہیں – سیانے صحیح کہتے ہیں کہ بندر کے ہاتھ میں دیا سلائی بِیے کا گھر کھوئے- اب جو جموریہ کے ہاتھ میں دیا سلائی ہے تو وہ لوگوں کی ٹانگوں سے چمٹ کر ان کی دھوتیوں میں شُرلیاں چلا دیتی ہے- اِس نگوڑی جمُوریہ کا پہلے پہل تو بھائی ہی شکار ہوا تھا- اِس جمُوریہ کو خلق کرنے کیلے چار ہزا ر موٹی عقل والے لوگوں کا جتّھا اُن کے ناموں کے حُروف تہجی کے اعتبار سے اکٹھا کیا گیا تھا اور پھر اِن سب کا مشترک نام جمہُوریہ رکھ دیا گیا- میرا دل کہتا ہے کہ یہی نام بگڑ کر مداری کی جمُوریہ کا نام بن گیا ہوگا- بھائی کی سوچ کا کینوس بڑا وسیع تھا- ظاہر ہے کہ جو شخص ملک کو شہر سے تعبیر کرتا تھا تو وہ ساری دنیا کو اپنی ہتھیلی پر دیکھنے کا خواہاں ہوگا- ہم بات کر رہے تھے جموریہ کے مظاہر کی ، اس کا پہلا مظہر تو بھائی کا واقعہ ہی تھا- لوگ بے تابی سے جموریہ کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے – لوگوں کو نہ تو بھائی سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ جموریہ کے فیصلوں پر اعتراض ، بھئی وہ تو صرف اور صرف اپنے شغل اور تفریح طبع کیلئے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے- اِس انتظار اور فیصلے کی نوعیت ایسی ہی تھی جیسے کسی یونیورسٹی طالبعلم کے بس سے گرا کر قتل کئے جانے کے بعد دیگر بھائی بندُو یعنی طالبعلم وائس چانسلر کے دفتر کے باہر احتجاج کیلئے جمع ہوئے ، وائس چانسلر نے اجتماع کو منتشر کرنے کیلئے اگلے روز یونیورسٹی میں چُھٹی کا اعلان کر دیا تو سارے طالبعلم چُھٹی کی خوشی میں تالیاں پیٹتے اپنے ہاسٹلز کو چلے گئے، یہ ہوتی ہے جمُوریہ- ہاں تو بات ہو رہی تھی فیصلے کے انتظار کی – انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور فیصلہ آ گیا – فیصلہ وہی آیا جو اِس قسم کے لوگوں کی طرف سے آیا کرتا ہے- بھائی نے تو پہلے ہی اپنے قریبی دوستوں کو متوقع فیصلے کی نوعیت سے آگاہ کر دیا تھا- فیصلے کے نتیجے میں بھائی کو شوکران پینا پڑا اور پھر ابدی اندھیروں سے آشنا ہوتی اُس کی آنکھوں نے تمام انسانوں کیلئے ایک خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کا سوچ کر اُس کے نیلے ہونٹوں پر مسکراہٹ عود کر آئی-
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
جیسا کہ میں نے بتایا بھائی کیلئے تو وقت ، دنیا اور فاصلوں کی کوئی اہمیت نہ تھی ، وہ تو جب چاہتا اِن تینوں کی اپنی ہتھیلی پر گولی بناتا اور بغیر پانی کے پھانک جاتا- بھائی کیلئے نہیں تو چلو اپنے لئے ہی سہی ، پر میں وقت کا تعین ضرور کر دیتا ہوں- وہ قبل مسیح کی بات تھی تو یہ بعد مسیح کی بات ہے ، میرا خیال ہے کہ اتنا کافی ہے- بیت المقدس کی گلیوں اور چوراہوں پر ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کا راج تھا جب بپتسمہ دینے والے نے لاکھوں انسانوں کے دِلوں کی بنجر زمینوں پر ہریالی کی فصلیں لہلہادیں- ٹیکس اکٹھا کرنے والے تو ازل سے انسانی آزادی کے دشمن رہے ہیں مگر بدقمستی سے فیصلے کا اختیار بھی ان ہی کے ہاتھ رہا ہے- فیصلہ در فیصلہ کی تاریخ نہیں بدلی اور نہ ہی فیصلوں کی نوعیت ، بھائی کو شوکران پینا پڑا تھا تو منجّی کے کاندھوں پر بھاری صلیب کا بوجھ آن پڑا- شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ چلتے ہو تو چمن کو چلئے، تو میں آپ سے کہتا ہوں کہ چلتے ہو تو صحرائے سُوس کو چلیے جہاں تمہارے ایک نہتے انسان کی سربریدہ لاش بے گور و کفن پڑی ہے – یہاں بھی ٹیکس اکٹھا کرنے والوں نے اپنا آپ خوب دکھایا – دنیا والوں نے بعد ازاں اُس کے پتہ نہیں کیا کیا نام رکھ لئے مگر وہ سیدھا سادہ انقلابی آدمی تھا جو مراعات یافتہ طبقات کے ذریعے غریبوں اور لاچاروں کے استحصال کے خلاف تھا – میرے خیال میں تو اُس سے منسوب روحانی اور ماورائی باتیں فقط افسانہ ہیں یا صرف زیب داستاں کی خاطر-یہاں بھی فیصلے کی گھڑی مقرر کی گئی- وہی عوامی جوش و انتظار ، اکثریت رائے سے فیصلہ ہو جانے کی خبریں ، فیصلے کی تحریر ہونے کی خبریں ، فیصلے کی تحریر پر مہر تصدیق ثابت ہونے کے قصّے- پھر انسان کی تمام تر معلوم تاریخ کے موافق فیصلے کے مندرجات- یہاں بھی ایک بار پھر انسان بلکہ انسانوں نے اپنی عقل و فہم کو پچھتاوے کیلئے بچا رکھا-
اچھا تو اب آج کی تازہ بات – ہیں ! آج کی بات کہاں ہے، بھئی کئی سو سال کی بات ہے – میرا مطلب ہے کہ اگر بھائی کے وقت اور فاصلے کے پیمانوں کے مطابق بات کی جائے تو آج ہی کی بات ہوئی ناں- واقعہ ہے کہ ایک بار پھر جمُوریہ لوگوں کی ٹانگوں اور اِن کے سروں کو چمٹ گئی – چندنفوس کے مقابلے میں ہزاروں کے لشکر تشکیل دیے گئے- دیکھتے ہی دیکھتے ٹیکس اکٹھا کرنے والے پھر زبردست اکثریت میں تبدیل ہو گئے- اِک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے والی بات ہوئی اور بہت عجیب بات ہوئی- کاش ہم انسانوں کی تواریخ میں ایسی عجیب باتیں نہ ہوئی ہوتیں- مگر افسوس کہ یہ ساری عجیب باتیں ہو کر رہیں- آپ کہیں گے کہ میں نے آخری معرکے کے فیصلے بارے بات نہیں کی تو عرض ہے کہ مجھ میں بات کرنے کی سکت ہی نہیں- آپ خود بات کر لیجیے ، آپ خود پوچھ لیجیے ، اِس جمُوریہ سے ہی پوچھ لیجیے- آپ پوچھ سکتے ہیں کیونکہ آپ تو ہمیشہ سے اکثریت میں ہیں- اگر پوچھنا ہے تو ایک بات کا دھیان رہے اور یہ فیصلہ کرکے پوچھنا کہ یا ہم نہیں یا پھر میلے ناخنوں والی گندی جمُوریہ نہیں- اے میرے لوگو! میرے لئے نہیں تو میرے بھائی کیلئے فقط ایک بار تو کوئی اچھا فیصلہ کر سکو تا کہ میں اپنے بھائی کو بتا سکوں کہ دنیا میں اُس کا خیال شرمندہ تعبیر ہوا تھا- آہ ! میرا بھائی-
****
شاہد جمیل احمد
گوجرانوالہ ، پاکستان –
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...