تحریر: طاہر بن جَلّون (مراکش)
انگریزی سے اردو ترجمہ: نجم الدّین احمد (بہاولنگر، پاکستان)
قبرستان سے، جہاں اُس نے اپنے باپ کی تدفین کی تھی، لوٹ کر محمد کو اپنے کندھوں کا بوجھ بڑھا ہؤا محسوس ہؤا۔ اُس کا کُب نکل گیا اور عمر بڑھ گئی تھی۔ وہ سست رَوی سے چلتا تھا حالانکہ وہ ابھی محض تیس برس کا ہؤا تھا۔ اُس نے کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی تھی۔ ایک ہی جیسے ماہ و سال بیتتے چلے گئے تھے۔ مفلسی، محرومی اور دائمی مایوسی نے اُس کی زندگی میں اُداسی بھر دی تھی جو دِھیرے دِھیرے فطری لگنے لگی تھی۔ وہ بھی اپنے باپ کی مانند کبھی شکوہ کناں نہیں ہؤا تھا۔ وہ تقدیر مانتا تھا نہ بہت مذہبی تھا۔
لیکن باپ کی موت نے اُس کی زندگی تلپٹ کر کے رکھ دی تھی۔ وہ سب سے بڑا تھا اور اب خاندان کی ذمّہ داری اُس کے کاندھوں پر تھی۔ تین بھائی، دو بہنیں اور زیابیطس کی مریضہ ماں جو ابھی اپاہج نہیں ہوئی تھی۔ محمد کی نوکری کی تازہ کوشش، پچھلی کوششوں کی مانند، بارآور ثابت نہیں ہوئی تھی اور اب وہ اعصاب زدگی کا شکار تھا۔ یہ خُوش قسمتی یا بدنصیبی کا سوال نہیں تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اِس سے بڑھ کر یہ ناانصافی کا مسئلہ ہے جو غریب پیدا ہونے کی بدقسمتی سے جُڑا ہؤا ہے۔ اُس کا بے روزگاری پر وزارتِ خزانہ کے سامنے مزید احتجاج کرنے کا کوئی قصد نہیں تھا۔ اُس سے پہلے جنھوں نے گریجوایٹ کیا تھا اُن میں سے چند ایک کو ملازمت مل گئی تھی لیکن وہ اُن میں شامل نہیں تھا۔ اُس کی تاریخ میں ڈگری سے کسی کو دِلچسپی نہیں تھی۔ وہ تعلیم دے سکتا تھا لیکن وزارتِ تعلیم بھرتیاں نہیں کر رہی تھی۔
اُس نے جستی الماری میں سنبھال کر رکھا ہؤا اپنا پُرانا سکول بیگ ڈھونڈ نکالا اور اُسے اپنے ڈپلومے سمیت تمام کاغذات اور اسناد سے خالی کر کے سنک میں ایک چھوٹا سا ڈھیر لگایا اور اُنھیں آگ لگا دی۔ وہ شعلوں کو الفاظ چٹ کرتے ہوے دیکھتا رہا۔ اتفاق سے آگ نے اُس کے نام اور تاریخ پیدائش کے سوا سب کچھ جلا ڈالا۔ اُس نے لکڑی کا ایک ٹکڑا لے کر آگ کو کریدا یہاں تک کہ سب کچھ جل کر راکھ بن گیا۔ بُو پر اُس کی ماں چونکی اور دوڑتی ہوئی اندر آئی۔
’’تم پاگل ہو گئے ہو! کیا تم اپنے ڈپلومے کو آگ میں جھونکنے سے معاملات سدھار لو گے؟ اب تم استاذ کی نوکری کے لیے درخواست کیسے دو گے؟ تین سال دھویں میں اُڑ گئے!‘‘
ایک لفظ بھی ادا کیے بغیر اُس نے راکھ اکٹھّی کر کے کُوڑے دان میں ڈالی، سنک صاف کیا اور اپنے ہاتھ دھوئے۔ وہ مطمئن تھا۔ وہ اپنے فعل پر کچھ کہنا یا اُس کے حق میں کوئی دلائل نہیں دینا چاہتا تھا۔ کاغذ کے ایک بے کار ٹکڑے پر آخر لٹکتے رہنے سے حاصل ہی کیا تھا؟ اُس کا چہرہ سپاٹ رہا۔ اُس کی ماں نے اُسے یاد دِلایا کہ اُس کی دوا لا دے۔ اُس نے کہا کہ طبیب اُسے اُدھار دے دے گا۔
بعد میں وہ بینچ پر بیٹھ گیا اور زمین پر چیونٹیوں کی قطار کو دیکھنے لگا۔ اُس نے کُھلی سگریٹیں بیچنے والے لڑکے سے ایک سگریٹ لے کر سلگائی اور دِھیرے دِھیرے کش لگانے لگا۔ چیونٹیوں نے اپنا ذخیرہ جمع کر لیا تھا اور واپسی کے سفر پر تھیں۔
وہ فیصلے پر پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنے باپ کا ٹھیلا استعمال کرے گا۔ خوانچہ بُری حالت میں تھا۔ اُسے پہیوں کی مرمت کرنا، دیمک خوردہ تختے بدلنا، ترازو درست کرنا اور پھل سبزیوں کے دلال بوشعیب سے رابطہ کرنا تھا۔
اُسے پیسے کہاں سے ملیں گے؟ جب اُس کا باپ بیمار پڑا تو اُس کی ماں نے اپنا سارا زیور بیچ ڈالا تھا اور اب اُس کے پاس کچھ نہیں بچا تھا۔ محمد نے ’’چھوٹے قرضوں‘‘ کے بارے میں سُن رکھا تھا۔ اُس نے قرض لینے کے بارے میں سوچا تو دستاویزات کا ایک پلندہ پُر کرنے کے لیے اُس کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ اُس تمام کاغذی کارروائی کو دیکھتے ہی اُوب گیا۔ اُسے اپنے ڈپلومے کو آگ لگانے پر افسوس ہؤا۔
محمد نے شعبۂ فن و ادبیات سے، جہاں وہ متعلم تھا، قرعہ اندازی میں مکّہ کے سفر کا ٹکٹ جیتا تھا۔ وہ واحد لمحہ تھا جب خُوش نصیبی نے اُس کا ساتھ دیا تھا لیکن وہ اُس ٹکٹ سے مستفید نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ جہاز کے ٹکٹ کا کرتا بھی کیا؟ اُس کی عمرہ کرنے مکّہ جانے کی نیّت تھی نہ رسومات کی ادائی کے اُس کے پاس رقم۔ وہ چاہتا تھا کہ ایئر لائن اُسے ٹکٹ کی رقم ادا کر دے لیکن اُس نے انکار کر دیا۔ اُس کے پاس واحد راستہ یہی تھا کہ ٹکٹ کسی زائر کو بیچ ڈالے۔ اُسے کل قیمت کا تیسرا حِصّہ ملا اور اُس پر طرّہ کہ اِس حِصّے میں سے بھی سفری دلال کو ٹکٹ سے نام کے تبدیلی کے لیے رشوت دینا پڑی۔ بچ رہنے والی معمولی سے رقم سے اُس نے ٹھیلے کی مرمت کروائی اور بالآخر مالٹے اور سیب بیچنے لگا۔
محمد کو معلوم تھا کہ بوشعیب ایک بدلحاظ اور بے ایمان شخص ہے۔ اُس کے باپ نے یہ بات اکثر اُسے بتائی تھی۔ اُس نے چھوٹتے ہی دعوٰی کیا کہ اُس کا باپ اُس کا مقروض ہے اور اُس نے پچھلے دو بِل ادا نہیں کیے تھے۔ محمد کے پاس اِس دعوے کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اُسے اُس کی بات ماننا پڑی کیوں کہ بوشعیب ہی وہ واحد فرد تھا جو دس پندرہ فیصد فالتو پیسے لے کر اُدھار پر مال دیتا تھا۔ محمد نے بحث و تمحیص سے گُریز کرتے ہوے اُسے سنگتروں کے دو اور سیب کے ایک کریٹ کی ادائی کی۔ اُس نے سٹرابریوں کی بھی کچھ ٹوکریاں لیں۔
بوشعیب اُسے ایک طرف لے گیا اور سرگوشیانہ لہجے میں اُس کی چھوٹی بہن کے بارے میں دریافت کیا۔ محمد نے بتایا کہ وہ اچھی ہے اور کالج میں داخلے کے امتحان کی تیاری کر رہی ہے۔
’’تمھیں پتا ہے، تمھارے والد نے اُس کا مجھ سے وعدہ کیا تھا۔‘‘ بوشعیب بولا۔ ’’میں شادی کر کے اپنا گھر بسانا چاہتا ہوں۔ ہم دونوں شراکت دار بن سکتے ہیں۔ تم خوانچہ فروشی سے زیادہ نہیں کما سکتے۔ مقابلہ سخت ہے اور ٹھیک جگہ کے لیے تمھیں پولیس سے بھی اچھے تعلقات رکھنے پڑیں گے۔‘‘
محمد نے اُسے دیکھا اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔
اُسے واقعی معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنا خوانچہ کہاں جمائے۔ کچھ ٹھیلوں والے اِدھر اُدھر چلے گئے، کچھ نے چوراہوں یا ٹریفک کے گول چکّروں کے قریب کاروباری مقامات تلاش کر لیے تھے۔ اُسے جلد ہی پتا چل گیا کہ بہترین جگہوں پر قبضہ ہو گیا ہے۔ اُس نے پھیری لگانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے سنتروں اور سیبوں کی بلند ہانکیں لگانے لگا لیکن ہارنوں کے شور میں اُس کی پُکار کوئی نہیں سُن رہا تھا۔ جب وہ ایک کریانے والے ٹھیّے کے پاس کچھ دیر کے لیے ٹھیرا تو اُس نے چِلّاتے ہوے اُسے چلتا کیا۔ ’’تم پاگل ہو؟ تمھارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے لائسنس خریدا ہے اور میں محصول ادا کرتا ہوں۔ اگر تم میرے سامنے جم کر کھڑے ہو گئے تو میں اپنی روزی کیسے کماؤں گا؟ چلو، دفع ہو جاؤ۔‘‘
پہلے روز محمد ایک سے دُوسری سڑک کے پھیرے لگاتا رہا۔ اِس کے باوجود وہ اپنا آدھا سے زیادہ مال فروخت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اُسے ادراک ہؤا کہ اگر وہ دُوسروں کے آنے سے پہلے موقع کی جگہ پانا چاہتا ہے تو اُسے علی الصبح اُٹھنا ہو گا۔
اُس شب کھانے پر اُس نے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھ کر اُسے بوشعیب کے بازوؤں میں تصوّر کیا تو اُسے شرمساری محسوس ہوئی۔ ایک نوجوان اور معصوم لڑکی جانگلی کے بازوؤں میں، کبھی نہیں۔
کھانے کے بعد اُس نے ماں کو بتایا کہ بوشعیب نے اُس سے رقم کا مطالبہ کیا ہے۔ ’’تمھارا باپ قرض لینا پسند نہیں کرتا تھا۔‘‘ وہ بولی۔ ’’جتنا جلد ہوتا وہ چُکتا کر دیتا تھا۔ بوشعیب مکار شخص ہے۔ اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اِس بات کو بُھول جاؤ۔ کیا تمھیں میری دوا لانا یاد رہی ہے؟ میری پاس صرف ایک گولی بچی ہے۔‘‘
محمد نے کتابوں سے بھرا اَیک بکسا نکالا اور گھر کے سامنے کتابیں سجا کر بیچنے لگا۔ تاریخ کی کتابیں، باریک گتّے کی جِلد والے ناول اور چمڑے کی جِلد والی انگریزی میں ’’موبی ڈِک‘‘ کا ایک نسخہ– جس پر اُسے ہائی سکول میں اپنی انگریزی کی جماعت کے آخری سال اوّل آنے پر انعام ملا تھا۔ اُس نے تین کتابیں بیچ کر بمشکل اِتنی رقم حاصل کر لی کہ دوا لا سکے۔ کسی کو ’’موبی ڈِک‘‘ کی ضرورت نہیں تھی۔ پس اُسے اُس نے خُود رکھ لیا۔ اُس شب اُس نے اُس کے چند اوراق کی ورق گردانی کی تو اُسے پتا چلا کہ اُس کی انگریزی کم زور تھی۔ وہ سونے سے قبل زینب کے بارے میں سوچنے لگا۔ اُس سے اُس کا معاشقہ دو برس سے چل رہا تھا۔ لیکن خالی جیب اور بے روزگاری کے ساتھ اپنے گھر کی عدم موجودگی میں اُس کے لیے شادی کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ زود رنجی کا شکار تھا۔ جب اُس کے پاس اُسے دینے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں تو وہ اُس سے کیا عہد و پیمان کرتا؟ البتّہ ابھی تو اُس کی اپنی ترجیحات تھیں۔ تاہم اُسے احساس تھا کہ اگر وہ ایک خاص مدت میں معاملات سنبھالنے میں کامیاب ہو جائے تو زینب اُس کا انتظار کر لے گی۔
زینب ایک ڈاکٹر کے دفتر میں سیکرٹری کے طور پر کام کرتی تھی۔ چُوں کہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی پس اُس نے مشورہ دیا کہ وہ دونوں شادی کر کے اُس کے میکے رہ لیں۔ لیکن محمد خُوددار تھا۔ اُسے یہ سوچنا بھی گوارا نہیں تھا کہ وہ اپنی بیوی کی کمائی پر پلے اور سسرال میں رہے۔
عام طور پر وہ اور زینب ایک کیفے میں ملا کرتے تھے۔ وہ خُوب باتیں اور اٹکھیلیاں کرتے اور اکثر قہقہے لگا کر ہنستے۔ اُنھیں مجامعت کیے ہوے تین ماہ سے زاید کا عرصہ بِیت گیا تھا۔ آخری بار اُنھیں زینب کی عم زاد نے اپنا چھوٹا سا اپارٹمنٹ اُس وقت اُدھار دیا تھا جب اُس کی ہم نشین سیاحت کے لیے گئی ہوئی تھی۔
’’ایک روز۔‘‘ زینب بولی۔ ’’ہم اِس سُرنگ کے پار پہنچ ہی جائیں گے۔ میرا تم سے وعدہ ہے۔ مجھے پتا ہے۔ مجھے اِس کا ادراک ہے۔ تمھیں اچھی نوکری ملے گی۔ میں اِس بداخلاق ڈاکٹر کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دوں گی اور ہم اپنی زندگی شروع کریں گے۔ دیکھ لینا تم۔‘‘
’’ہاں، ایک روز۔ لیکن تمھیں پتا ہے کہ میں کسی ناجائز کشتی پر سوار ہو کر غیر قانونی باشندہ نہیں بنوں گا۔ مجھے تمھارے منصوبے کا علم ہے۔ کینیڈا! ہم سب کینیڈا اَور بہشت میں جائیں گے۔ یہ بات لکھی جا چکی ہے۔ لیکن ابھی تو مجھے ایک بڑے خاندان کی کفالت کرنا ہے، اپنی ماں کا خیال رکھنا ہے اور اپنے ٹھیلے کے لیے اچھی جگہ حاصل کرنے کے لیے جدّوجہد کرنا ہے۔‘‘
زینب نے اُس کے ہاتھ تھام کر اُنھیں چُوما اور اُس نے بھی اُس کے ہاتھ تھام کر یہی فعل دُہرایا۔
محمد چھے بجے اُٹھ گیا۔ اُس نے حتّی الامکان کم سے کم شور کرنے کی سعی کی تاکہ اُس کے بھائیوں کی نیند خراب نہ ہو جو اُس کے ساتھ کمرہ بٹاتے تھے۔ بیس سالہ نبیل، ایک غیر لائسنس یافتہ ٹور گائیڈ، جس کا اکثر پولیس کے ساتھ جھگڑا رہتا تھا۔ اٹھارہ سالہ نورالدّین، ہائی سکول کا متعلم، جو جمعہ کی شام سے پِیر کی صبح تک ایک بیکری میں کام کرتا تھا۔ اور پندرہ سالہ یٰسین جو فطین لیکن کاہل، وجیہہ اور رُوحانیت پرست تھا۔ اُس نے ماں سے عہد کیا تھا کہ وہ لکھ پتی بن کر اُسے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کروانے لے کر جائے گا۔
محمد نہایا، روٹی کا ایک ٹکڑا نگلا اور اپنا ٹھیلا نکالا۔ تنگ گلی کے موڑ پر اُسے ایک پولیس افسر نے روک لیا۔
’’یہ تمھارے بُوڑھے باپ کا ٹھیلا ہے۔ وہ کہاں ہے؟‘‘
’’فوت ہو گیاہے۔‘‘
’’اور تم اِسے یُوں لیے جا رہے ہو جیسے کچھ بھی نہ ہؤا ہو؟‘‘
’’مسئلہ کیا ہے؟ کیا میرے لیے رزقِ حلال کمانا بھی ممنوع ہے؟‘‘
’’بدتمیزی مت کرو۔ تمھارے کاغذات؟‘‘
محمد نے اپنے تمام کاغذات اُس کے حوالے کر دیے۔
’’انشورنس نہیں ہے۔ کیا تمھیں خیال ہے؟ اگر تم ٹھیلا کسی بچّے پر چڑھا دو تو ادائیگی کون کرے گا؟ تم؟‘‘
’’پھلوں کے ٹھیلے کے لیے انشورنس کب سے لازمی ہوئی ہے؟ یہ نئی بات ہے۔‘‘
شُرطے نے ایک نوٹ بُک نکالی اور کچھ لکھتے ہوے محمد کو کن اَکھیوں سے دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد بولا۔ ’’تم احمقانہ حرکت کر رہے ہو– حیلہ سازی کر رہے ہو کہ تم سمجھ نہیں رہے۔‘‘
’’میں کچھ نہیں کر رہا۔ سب کچھ تم ہی کر رہے ہو تاکہ میں کام نہ کر سکوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اب تم جا سکتے ہو لیکن انشورنس کے بارے میں غور کرنا۔ میں تمھارے بھلے کے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘
پھر شُرطے نے اُس کی نارنگیوں اور سیبوں پر اپنے ہاتھ صاف کیے۔ وہ ایک سیب دانت دانتوں سے کاٹ کر بھرے ہوے مُنھ سے بولا۔ ’’اب جاؤ۔‘‘
صبح سویرے کا وقت تھا۔ محمد کو ایک اچھی جگہ مل گئی۔ اُس نے ٹھیلا کھڑا کیا اور انتظار کرنے لگا۔ ایک کار آکر رُکی۔ ڈرائیور نے کھڑکی کا شیشہ گِرایا اور حکم دیا۔ ’’دونوں ایک ایک کلو۔ اچھے اچھے دینا۔‘‘ اگلے گاہکوں کو زیادہ جلدی نہیں تھی۔ وہ اپنی گاڑی سے اُترے، پھلوں کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھا، قیمت پُوچھی، بھاؤ تاؤ کیا اور چند سنترے خریدے۔
ایک گھنٹے بعد ایک اَور خوانچہ فروش اپنے سجے ہوے ٹھیلے پر بہتر، زیادہ پُرکشش انتخاب والے، کچھ مہنگے اور متنوع اقسام کے نایاب پھلوں سمیت آ پہنچا۔ اُسے کے پاس پکّے گاہک تھے۔ نگاہوں اور سر سے اُس نے محمد کو وہ جگہ چھوڑنے کا اشارہ کیا۔ اُس نے بِلا احتجاج حکم کی تعمیل کی۔ وہ ایک بار پھر سڑکوں پر مارا مارا پِھر رہا تھا۔ اُس کا صبح کا وقت اچھا رہا تھا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ اگلی بار وہ زیادہ قسموں کے پھل رکھے گا۔
دِن ختم ہونے تک اُس نے سارا پھل بیچ لیا۔ وہ اپنا ٹھیلا بھرنے کے لیے واپس بوشعیب کے پاس چلا گیا۔
گو وہ تھکا ہؤا تھا لیکن اُس شام وہ زینب سے ملنے اُس کے والدین کے گھر گیا۔ وہ اُسے پسند کرتے تھے۔ اُس نے زینب کو اپنی دِن بھر کی کارگُزاری بتائی اور گھر جانے سے قبل کچھ crepes (pancake) کھائے۔
اِسی دوران سادہ لباس والا ایک شُرطہ محمد کی ماں کے پاس سے ہو گیا تھا۔ جس نے اُس سے محمد کے بارے میں دریافت کیا تھا اور وہ جاننا چاہتا تھا کہ محمد نے ’’بے روزگار گریجوایٹ‘‘ میں جانا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ بے چاری عورت جتنا جواب دے سکتی تھی جھجکتے جھجکتے اور ڈرتے ڈرتے دے دیا۔ شُرطے نے اُسے طلبی نامہ دیا جس کے مطابق اُس شام اُس کے بیٹے نے پولیس کے محکمے میں حاضری دینا تھی۔ وہ رونے پیٹنے لگی کیوں کہ وہ آگاہ تھی کہ پولیس کبھی اچھی خبر نہیں لاتی۔ اُس نے افسر کو یہ بتانا مناسب خیال کیا۔ ’’میرے بیٹے کا سیاست سے کوئی تعلّق نہیں ہے۔‘‘ وہ جواب دیے بغیر چلا گیا۔
’’اِن لوگوں کو ہمارے لیے مسائل پیدا کرنے کا مشاہرہ دیا جاتا ہے۔ ٹُلّے بھی ہر طرح سے ہمارے جیسے مفلس خاندانوں سے ہی تعلّق رکھتے ہیں لیکن آپ جانتی تو ہیں کہ غریب ہی غریب کا بیری ہوتا ہے۔‘‘
محمد کو محکمہ پولیس میں ایک بینچ پر بیٹھ کر بہت دیر انتظار کرنا پڑا۔ وہ وقفے وقفے سے اُٹھتا اور معلوم کرنے کی سعی کرتا کہ اُسے کیوں طلب کیا گیا ہے۔ لیکن کسی کو نہیں پتا تھا۔ اُسے شک گُزرا کہ طلبی کا مقصد محض اُسے دھمکانا ہے۔ اِسی قسم کا طلبی نامہ اُسے تب بھی ملا تھا جب اُس نے پہلی بار بے روزگار گریجوایٹوں کے احتجاج میں شرکت کی تھی۔ اُس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھا تھا جس کی ظاہری حالت چیخ چیخ کر اُس کی افلاس زدہ حالتِ زار بیان کر رہی تھی۔ اُس نے کوئی بات نہیں کی اور وہ سویا ہؤا دِکھائی دے رہا تھا۔ اُس کے ساتھ بیٹھنے کی ہمّت کون کرتا کہ وہ کھانس اور تُھوک رہا تھا؟ اُسے تو ہسپتال میں ہونا چاہیے تھا۔ محمد اُس کے پاس سے ہٹ گیا۔ اُسے تپ دِق ہوجانے سے ڈر لگتا تھا۔
وہاں جُبّہ پہنے ایک عورت بھی موجود تھی۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ پیتے ہوے زندگی دھویں میں اُڑا رہی تھی۔ ’’میں اپنے گاؤں میں ناخُوش تھی۔ میرے خدا، جس نے مجھے چھوڑ دیا ہے میں نے اُس سے شادی کی ہی کیوں؟‘‘
اُس نے محمد کو گواہ بنایا۔ ’’مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں ایک کسبی ہوں۔ لیکن دیکھنا ایک دِن یہ سب بدل جائے گا۔ مجھے پتا ہے۔ یہ نہیں چل سکتا۔۔۔‘‘
آدھی رات کے قریب ایک شخص نے محمد کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
شناختی تصدیق۔
روایتی تفتیش۔
پولیس افسر کو اُس میں سازش کی بُو آئی کہ محمد کا اب اپنے انقلابی ساتھیوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اُس نے دریافت کِیا کہ کیا اِسلامیوں نے اُس سے رابطہ کیا ہے۔
’’نہیں، میرے والد کی وفات نے ہر شے بدل کر رکھ دی ہے۔ میں نے اُس کا ٹھیلا سنبھال لیا ہے جو ہماری بقاء کا واحد وسیلہ ہے۔‘‘
’’ہاں، مجھے علم ہے۔ کام کیسا جا رہا ہے؟‘‘
’’میں نے حال ہی میں شروع کیا ہے۔‘‘
’’تمھیں پتا ہے کہ معجزے نہیں ہوتے۔ وہ لوگ بھی ہیں جو راستہ نکالتے ہیں اور اچھی خاصی کمائی کرتے ہیں اور وہ لوگ بھی– جو ٹھگے جاتے ہیں، خسارے میں رہنے والے۔ اب انتخاب تمھارا اپنا ہے۔‘‘
محمد کو پولیس افسر کی پیشکش سمجھنے میں کچھ وقت لگا: مخبر بن جائے اور منافع بخش جگہ حاصل کر لے یا انکار کر کے اپنے کاروبار کو خیرباد کہہ دے۔
’’اِس پر اچھی طرح غور کرنا۔ میں کل ٹریفک کے آزادی چکّر پر ملوں گا۔ اب گھر جاؤ۔‘‘
محمد جانتا تھا کہ اگر اگلے روز وہ متعینہ مقام پر گیا تو گویا اُس نے شُرطے کی پیشکش قبول کر لی۔
صبح سویرے اُس نے اپنا ٹھیلا لیا اور ٹریفک کے اُس معروف چکّر سے بہت دُور مزدوروں کے ایک علاقے میں چلا گیا۔
اُس کی ماں کی ذیابیطس قابو سے باہر ہو گئی تھی۔ اُسے دوبارہ ڈاکٹر کے پاس جا کر نیا نسخہ لینے کی ضرورت تھی۔ محمد نے حساب کتاب لگایا۔ اِس غیر متوقع خرچ کے لیے رقم ناکافی تھی۔ اُس نے اُسے سرکاری ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اُس کی سترہ سالہ بہن بھی ہم راہ گئی۔ محمد نے اُنھیں ہسپتال کے داخلے پر چھوڑا اَور خُود اپنا سودا بیچنے لگا۔ اُسے پتا چلا کہ وہ ایک بہترین جگہ تھی۔ ہسپتال جانے والے لوگ مریضوں کے لیے پھل خریدتے تھے۔ ایک گھنٹے بعد دو پولیس افسر، جن میں سے ایک خاتون تھی، اُس کے سامنے نمودار ہوے۔ ’’تمھارے کاغذات؟‘‘
اُس نے اُنھیں کاغذات دیے۔
’’یہ تمھارا علاقہ نہیں ہے۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’میں اپنی ماں کو ہسپتال لایا تھا۔ اُسے بلند فشارِ خُون لاحق ہے۔‘‘
’’تم پر رحم ہو! اچھا کیا جو تم اُسے یہاں لے آئے لیکن تم پر زیادہ رحم ہو گا اگر تم یہاں سے نکل لو۔ اِس بار ہم تمھیں جرمانہ نہیں کر رہے ہیں البتّہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ دوبارہ یہاں مت آنا۔ سمجھ گئے؟‘‘
’’لیکن اِس طرح تو میں اپنی روزی کماتا ہوں۔‘‘
’’خدا کی زمین بہت وسیع ہے۔‘‘
محمد جواب دینا چاہتا تھا کہ لگتا ہے خدا غریبوں کو ناپسند کرتا ہے اور زمین صرف وسائل والوں کے لیے وسیع ہے۔ لیکن اُس نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’یہ نامناسب بات ہے۔ اِس سے معاملہ اَور بگڑ جائے گا۔ وہ لادینیت کو بنیاد بنا کر اُسے گرفتار کر لیں گے۔‘‘
شاید وہ لادین نہیں تھا لیکن چُوں کہ اب جگہ جگہ اِسلامی تھے پس اُس نے خُود کو مذہب سے فاصلے پر رکھا ہؤا تھا۔ اُس کا باپ اُسے کہا کرتا تھا۔ ’’ایمان والے کی تقدیر میں دُکھ لکھا ہوتا ہے۔ اُسے خدا آزمائش میں ڈالتا ہے۔ اِس لیے میرے بیٹے، صابر رہو!‘‘
محمد روانہ ہونے ہی والا تھا کہ اُس کے سامنے ایک کار آکر رُکی۔ ڈرائیور نے، جو عجلت میں دِکھائی دیتا تھا، اُسے تمام پھل تول کر اپنے ہاتھ میں تھامی ایک بڑی ٹوکری میں ڈالنے کو کہا۔ ’’میں سارے پھل خریدنا چاہتا ہوں کیوں کہ آج میرے بیٹے نے ہائی سکول سے گریجوایٹ کیا ہے۔ کیا تم یقین کر سکتے ہو؟ میں اُسے مزید تعلیم کے لیے امریکا بھیج رہا ہوں۔ ہاں، امریکا کیوں کہ تم دِن رات پڑھ پڑھ کر مر جاتے ہوے لیکن کام نہیں ملتا لیکن اگر تمھارے پاس امریکی ڈگری ہو تو فوراً ملازمت مل جاتی ہے۔ میں خُوش ہوں کہ وہ میرا بیٹا ہے۔ میری بیٹیاں تو کسی شمار میں ہی نہیں ہیں– میں اُنھیں بیاہ بھی نہیں سکتا کہ کسی کو اُن کا رشتہ درکار نہیں ہے۔۔۔ خیر جلدی کرو، جلدی، جلدی! کتنے ہو گئے؟ جلدی سے حساب لگاؤ۔ کہو تو میں تمھاری مدد کروں؟‘‘ اُس نے اپنا سیل فون نکالا اور محمد کے بتائے ہوے اعداد شمار کرنے لگا۔ ’’خُوب، یہ ہو گئے دو سو پچاس ریال۔‘‘ اُس شخص نے تین سو ریال کے نوٹ نکال کر محمد کے حوالے کیے۔ ’’تم اِس کے حق دار ہو۔ لگتا ہے– تم اچھے لڑکے ہو۔‘‘
محمد اپنا ٹھیلا تھوک کی مارکیٹ کی جانب ٹھیلنے لگا۔ اُس نے دوبارہ کبھی بوشعیب کے پاس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ نقد ادائی کرے گا۔
سہ پہر ختم ہونے پر اُس نے اپنا خوانچہ کھڑا کیا اور زینب کے دفتر کے داخلی دروازے پر جا کر اُس کا انتظار کرنے لگا۔ قرب و جوار میں مصروف نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ کس طرح نئے نئے اطوار سے وہ اپنی روزی کما رہے تھے: پُھرتی سے کاریں دھو کر، پیرانہ سال لوگوں کی مدد کر کے، سوڈے کے دھاتی ڈبّوں سے کھلونے بنا کر یا پھر کُھلی امریکی سگریٹیں، ہاتھ کے بنے ہوے کارڈ، نقشے یا مائیکل جیکسن اور بین ہارپر کی تصاویر فروخت کر کے۔ سُرخ لباس پہنے مداری کرتب دِکھا رہے تھے، بندروں اور طوطوں والے، سمگل شدہ ڈی وی ڈِیوں والے جن میں ہر طرح کی فلمیں ہوتی تھیں– ہندوستانی، تازہ ترین امریکی، کلاسیک، رُوسی اور فرانسیسی فلمیں؛ اپنی جیکٹوں سے مائیکرو فون ٹانگے ہوے قِصّہ گو۔ صرف سپیرے، نجومی، جادوگر اور ٹھگ موجود نہیں تھے۔
پھر یکایک وہاں افراتفری مچ گئی۔ تمام چھابڑی فروشوں کی دوڑیں لگ گئیں– شُرطے اُن کے تعاقب میں تھے۔ شُرطے دو افراد کو رگیدتے ہوے پکڑنے میں کامیاب ہو گئے– ایک طوطے والا اور دُوسرا ڈی وی ڈی بیچنے والا۔ مارپیٹ، گالم گلوچ۔ طوطا چِلّا رہا تھا۔ ڈی وی ڈِیاں زمیں پر ٹُوٹی پڑی تھیں۔ ’’سپارٹاکس‘‘ پر فلمی ستارے کِرک ڈگلس کی تصویر سے صرف اُس کی آستین بچی تھی۔ دونوں خوانچہ فروشوں کو اُٹھا کر نیشنل سیکوریٹی کی وَین میں پھینکا گیا۔ محمد کا چیخنے چِلّانے کو دِل چاہا لیکن اُسے اپنی ماں اور سارے خاندان کا خیال آگیا۔ اُس نے غصّہ پیا اور اپنے آپ سے کہا۔ ’’مجھے زینب سے ملنا ہے۔‘‘
اُسے اُس سے مل کر خُوشی ہوئی۔ اُس نے اُس سے دِن بھر کے بارے میں باتیں کیں اور شروع میں ٹھیلے والوں پر شُرطوں کی یلغار کے بارے میں بتانے سے اجتناب برتا۔ اُس نے تجویز دی کہ وہ معروف ساحلی ریستوران میں جا کر مچھلی کھائیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بہار کے پُرفضا مرغزار میں کھیلتے بچّوں کی مانند کھلکھلا کر قہقہے لگا رہے تھے۔ اُس نے اُسے کہا۔ ’’ٹُلّوں نے ’’سپارٹاکس‘‘ کو شکست دے دی! اُسے اپنی وَین کے ٹائروں تلے کچل ڈالا۔‘‘
وہ پیدل گھر کی طرف روانہ ہوے۔ راستے میں اُنھوں نے کچھ بچّوں کو سینکنے کے لیے آگ جلاتے دیکھا۔ اُن میں سے ایک بچّے نے سگریٹ مانگی۔ ’’میں سگریٹ نہیں پیتا۔‘‘ محمد بولا۔ ’’لیکن یہ لو اور کھانے کے لیے کچھ خرید لو۔‘‘
پولیس کی گاڑیاں خاموشی سے اُن کے دونوں اطراف آگئیں۔ کسبیوں سے اُن کے کاغذات کے بارے میں دریافت کیا جانے لگا۔ زینب نے ایک لڑکی کو ایک شُرطے کی جیب میں نوٹ ڈالتے دیکھا۔ یہ معمول کی بات تھی۔ معاملات کچھ یُوں ہی چلتے تھے۔
وہ دوبارہ اپنی شادی کی بات چیت کرنے لگے۔
’’ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔ میں نے حال ہی میں کام شروع کیا ہے۔ مجھے پہلے کچھ بڑے معاملات نپٹانا ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘
’’فکر مت کرو۔ میں کسی کو لُوٹنے نہیں جارہا! البتّہ میں مارکیٹ میں ایک دُکان کھولنا چاہتا ہوں۔ ہمارا اَیک ہمسایہ بیمار ہے۔ اُس کی مین مارکیٹ میں ایک اچھی دُکان ہے۔ یہ بڑی بات ہو گی اگر وہ دُکان مجھے دے دے۔ میں تھوڑی تھوڑی کر کے ادائیگی کر دوں گا۔ میں نے دُکان کو اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔ اُس کے بچّے کاروبار چلانا نہیں چاہتے۔ وہ انجینئر اور ٹیکنیشن ہیں۔ اِس لیے اُنھیں ملازمت کا تو مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ تاہم یہ میرے مسئلے کا بہترین حل ہے۔ میری ماں اُس شخص سے بات کرنے جائے گی۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ زینب بولی۔ ’’لیکن میں انتظار کرتے کرتے تھک گئی ہوں۔ ہمارے پاس اپنا گھر ہونا چاہیے۔ چاہے جھونپڑی ہی کیوں نہ ہو یا کوئی کُھڈّا کوئی چھپر ہی ہو۔‘‘
وہ گھر پہنچا تو پُرانے ٹی وی پر صدر کے تیس سالہ دورِ حکمرانی کے جشن کی تقریب دِکھائی جا رہی تھی۔ صدر اپنی اہلیہ کے ہم راہ نمودار ہؤا جو خُوب فربہ ہو چکی تھی۔ دونوں نے میک اَپ ٹھونسا اور بہترین لباس زیب تن کیا ہؤا تھا– خُوب عمدہ لباس، بے حد صاف ستھرا جس کا کوئی رُوں تک نہیں کھڑا تھا۔ اُن کے چہروں پر آسودگی اور طمانیت بھری مُسکراہٹیں تھیں۔ کیمرہ اُن کے محلات، ترتیب سے لگے باغیچوں، تراش خراش کیے ہوے درختوں اور خُودکار فواروں میں اُن کے تعاقب میں تھا۔ صدر کی اہلیہ فرما رہی تھی۔ ’’میرا خاوند اِس قدر محنت کرتا ہے کہ مجھے اُسے آرام کے لیے مجبور کرنا پڑتا ہے۔ خدا کا شُکر ہے کہ وطن ترقی کر رہا ہے۔ عوام متشکر ہیں۔ وہ روزانہ ہمیں اپنی حمایت کا مظاہرہ دِکھاتے ہیں کیوں کہ اُنھیں احساس ہے کہ وطن خُوش حالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔‘‘
صدر نے اپنا ہاتھ یُوں ہلایا گویا کسی بچّے کو بُلا رہا ہو۔
اُن کے پس منظر میں بجتی ہوئی خُوش گوار دُھن محمد کے اعصاب کو ناگوار گُزر رہی تھی۔ اُس کی ماں اُونگھ رہی تھی۔ اُس کی بہنیں اور بھائی اپنے اپنے بستروں پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ یٰسین نے محمد کو اپنی رپورٹ کا کارڈ دِکھایا۔ ہر جماعت میں کم و بیش یہی لکھا ہوتا تھا: ’’ذہین وفطین لڑکا، باصلاحیت طالب علم لیکن کاہل تاہم بہتری پیدا کر سکتا ہے۔‘‘ یٰسین ہنس کر بولا۔ ’’میں پڑھ پڑھ کر اُکتا گیا ہو ں اور ویسے بھی تعلیم کا حاصل کیا ہے؟ آپ اپنے آپ ہی کو دیکھ لیں– آپ نے جنونی بن کر تعلیم حاصل کی اور پھر کوئی ملازمت نہیں ملی۔ اب آپ نے ابّا جی ٹھیلا سنبھال لیا ہے۔‘‘
محمد نے اپنے بھائی کو آس دِلانے کی سعی کی لیکن یہ کارِ مشکل تھا۔ ملک میں ناانصافی، عدم مساوات اور تذلیل و تضحیک اپنے عروج پر تھیں۔
یٰسین نے بتایا کہ سکول سے واپسی پر اُس نے ایک آدمی کو شُرطوں سے پِٹتے دیکھا۔ وہ شخص بُری طرح چیخ و پُکار کرنے لگا تو ٹُلّوں نے مارپیٹ بند کر دی لیکن کسی شخص نے مداخلت نہیں کی۔ ’’میں اُس شخص کو پہچانتا تھا۔ وہ شیشے والی اُس عمارت کا دربان تھا– وہی عمارت جو محلے کی دُوسری سمت واقع ہے۔ اُسے گولی مار دی گئی۔ کسی کو نہیں پتا کہ کیوں۔ آج اُس نے ایک مُرغی چُرائی تھی۔ وہ چِلّا رہا تھا اور مُرغی بھی لیکن وہ اُسے چھوڑ نہیں رہا تھا۔‘‘
اگلے روز محمد پھل خریدنے مُنھ اندھیرے نکلا۔ اِس بار اُس نے انواع و اقسام کے پھل لیے۔ مارکیٹ سے باہر نکلتے ہوے اُسے اپنا ایک سابقہ انقلابی ساتھی مل گیا جو اَب بلدیہ ہال میں نوکری کر رہا تھا۔
’’میں وہاں کوئی کام نہیں کرتا۔ میرے ساتھ دفتر میں چار کلرک اَور ہیں۔‘‘ وہ بولا۔ ’’اُن میں سے کچھ کے پاس کام کرنے کے لیے فائلیں ہیں لیکن میرے پاس نہیں ہیں۔ میں تنگ آگیا ہوں۔ پھر یہ بھی کہ چھے ماہ گُزر گئے ہیں لیکن مجھے اب تک تنخواہ بھی نہیں دی گئی۔ میں قرض پر جی رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے جامعہ سے گریجوایٹ کرنے والے ہم لوگوں کو محض زبان بندی کے لیے بھرتی کیا ہے جب کہ حقیقتاً اُنھیں ہماری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’جو تم دیکھ رہے ہو۔‘‘
اُنھوں نے ایک دُوسرے کو الوداع کہا اور جدا ہو گئے۔ دس مِنّٹ بعد جب محمد سُرخ بتّی پر انتظار کر رہا تھا دہ سادہ لباس والے شُرطے اُسے کھینچ کر ایک طرف لے گئے۔
’’تم اور تمھارا دوست کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
پہلے تھپڑ نے محمد کو چکّرا دیا۔ وہ دھاڑا تو اُس کے پیٹ میں گھونسا پڑا۔
’’بکنا بند کرو۔ بتاؤ، تمھارے دوست کا نام کیا ہے؟‘‘
’’میں اُس کا نام بُھول گیا ہوں۔‘‘
ایک اَور تھپڑ۔ کچھ راہ گیر ٹھیر گئے۔ ایک شُرطے نے اُنھیں دھمکایا۔ ’’دفع ہو جاؤ۔ یہ ایک چور ہے۔ ہم تمھاری حفاظت کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ ہمیں ہمارا کام کرنے دو۔‘‘
محمد چیخا۔ ’’یہ جھوٹ ہے! میں چور نہیں ہوں!‘‘
ہجوم کو قریب آتے دیکھ کر کر شُرطوں نے ٹھیلے کو ٹھوکر ماری اور تمام پھل نیچے گِرا کر محمد کو چھوڑ گئے۔
لوگوں نے اُسے تسلّی دی، پھل اُٹھانے میں اُس کی مدد کی لیکن بہت سی سٹرابریاں کچلی گئی تھیں۔ کچھ لوگ کہنے لگے۔ ’’یہ گھناؤنی حرکت ہے! بے حد باعثِ شرم! ایک بے چارے خوانچہ فروش پر حملہ!‘‘ ’’وہ اِس طرح سلوک کرتے ہیں جیسے فلموں میں مجرم۔ یہ تمام حرامی اپنا حِصّہ چاہتے ہیں!‘‘ ’’یہ نہیں چل سکتا! ایک دِن خدا سچ سامنے لائے گا!‘‘ ’’خدا بھی امیروں کے ساتھ ہے!‘‘
دلیلیں چلتی رہیں۔
’’شیطان! کافر! خدا سب کے ساتھ ہے! خدا ہر جگہ ہے!‘‘
لوگوں نے مل کر محمد کے پھل خریدنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے کچلی ہوئی سٹرابریاں پھینک دیں۔
اُس کا مزید کام کرنے کو دِل نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو نڈھال محسوس کر رہا تھا۔
اُس نے گھر لوٹ کر ٹھیلا کھڑا کیا اور بھائی کی عدم موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوے سونے اور اپنے آپ کو تھوڑا سا بحال کرنے کا ارادہ کیا۔
اُس نے خواب میں دیکھا کہ مکمل طور پر سفید لبادے میں ملبوس اُس کا باپ اُسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ وہ کچھ کہہ بھی رہا تھا لیکن محمد سُن نہیں پایا۔ وہ مُردے کی ہم رکابی نہیں چاہتا تھا۔ اچانک اُس کی ماں نمودار ہوئی اور بولی۔ ’’یہ تمھیں جو کرنے کے لیے کہہ رہا ہے اُس پر دھیان مت دو۔ یہ خدا کے پاس ہے، شاید جنت میں۔‘‘
محمد کی بے چینی سے آنکھ کھل گئی۔ خواب حقیقت کے بے حد قریب تھا۔
اچھے وقتوں میں محمد اور زینب نے سیل فون لے لیے جنھیں اُس نے مین مارکیٹ سے خریدا تھا۔ فون سادہ تھے۔ جن کا کوئی ماہانہ خرچ نہیں تھا، بس ایک بار رِیچارج ہونے والی سِم تھی جس رقم ختم ہونے کے بعد بھی وہ کال وصول کر سکتے تھے۔
محمد نے اپنے پھلوں والے ٹھیلے کو بہتر بنانے کا قصد کیا۔ ایک طرف اُس نے جُوس نکالنے والی دستی مشین نصب کی اور دُوسری طرف زیادہ دِل لبھانے والے انداز میں مختلف پھل ترتیب دینے لگا۔ اُس نے قیمتوں کے اندراج والا تختہ بھی لگایا۔ اُس نے مغنیہ اُمِ کلثوم کی تصویر بھی لگا دی تاکہ ٹھیلا زیادہ خُوب صُورت دِکھائی دے۔ یہاں تک کہ اُس نے مکھیاں مارنے والی ایک چَف58تی بھی خرید لی۔
لگتا تھا کہ محمد کے نصیب میں گلی گلی پھیری لگانا ہی لکھا ہے کیوں کہ شُرطوں سے تعاون کرنے والوں نے تمام اچھے مقامات پر قبضہ جما رکھا تھا۔ لیکن ایک روز اُس نے ہسپتال والے علاقے میں جانے کا تہیہ کر لیا جہاں کاروبار بہتر تھا۔
جلد ہی دو پولیس افسروں نے اُسے آ گھیرا۔
’’اُمِ کلثوم! تمھیں اُس کی آواز پسند ہے؟ ہمیں بھی ہے۔ لیکن تم نے ایک بُوڑھی گایکا کی تصویر کیوں لگائی جسے مرے ہوے ایک طویل عرصہ گُزر گیا، ہمارے محبوب صدر کی کیوں نہیں لگائی؟ خدا اُسے عمرِ خضر اور خُوش حالی عطا کرے!‘‘
’’مجھے اِس کا خیال نہیں آیا تھا۔ اگر تم چاہتے ہو تو میں مغنیہ کی تصویر ہٹا دیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں، اِسے لگائے رکھو لیکن ہمارے پیارے صدر کی بھی ایک تصویر اِس کے اُوپر لگاؤ اور اُمِ کلثوم کی تصویر سے بڑی۔ ٹھیک ہے؟‘‘
’’جی بہتر۔‘‘
افسر چلے گئے۔ محمد کو ٹھنڈے پسینے چُھوٹ گئے۔ اُسے روزانہ کی ہراس زدگی کی کافی خوراک مل گئی تھی۔ اُس نے زینب کو فون کر کے اِس حادثے کے بارے میں بتایا۔
’’وہ تمھیں شکست دینا چاہتے ہیں۔ یہ غلیظ ذہنیت کے لوگ ہیں، گردن تک بدعنوانی میں دھنسے ہوے۔ اِن کے سامنے ڈٹے رہنے پر میں تمھاری تحسین کرتی ہوں۔‘‘
’’کیا میرے پاس کوئی اَور رَاستہ ہے؟‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ، شام کو ہماری ملاقات ہو گی؟‘‘
’’ہاں، رات کو ملوں گا۔‘‘
اُس نے ایک پُرانا اخبار ڈھونڈا جس کے پُورے صفحے پر صدر کی تصویر چھپی تھی اور اُسے اپنے ٹھیلے پر ٹانگ لیا۔ لیکن کاغذ بار بار گِر جاتا۔ اُس نے اُسے تہہ کر کے ایک کریٹ تلے دبا دیا۔ اگر وہ اُسے دوبارہ کہتے تو وہ اُسے نکال کر لگا لیتا۔
جب محمد ایک مصروف شاہراہ پر گاہکوں کا منتظر تھا تو ایک اخبار فروش نے رُک کر اُسے عربی کا ایک اخبار پکڑایا۔ پہلے صفحے پر خبر تھی: ’’سکینڈل: اکثریتی جماعت کے ایک رُکن پارلیمان نے بے روزگار گریجوایٹس کو کینیڈا بھجوانے کا جھانسہ دے کر رقم بٹور لی۔ فی فائل ۵۰۰ ریال اینٹھ لیے۔ ۲۵۲ شکار ہوے۔ اُس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘‘
محمد اِس ٹھگی کے بارے میں جانتا تھا اور اگر وہ کسی طور ’’فائل فیس‘‘ کی رقم کا انتظام کر لیتا تو– وہ بھی ایک شکار ہوتا۔
اخبار فروش نے اُسے کہا۔ ’’دیکھا تم نے، چاہے ہم ہر چیز کے بارے میں لکھتے رہیں، ہر معاملے پر گلے پھاڑ پھار کر چیختے رہیں لیکن اِس سے کچھ بھی نہیں بدلنے والا۔ وہ حرام زادہ اب بھی رُکن پارلیمان ہے۔ اُس نے بہت بڑی رقم ہڑپ کی ہے اور حکام نے اُس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔‘‘
’’تمھیں پتا ہے کہ اگر کسی روز کوئی ستم رسیدہ اُس کر گردن دبوچ لے گا تو بھی مجھے کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ تنگ آکر لوگ انصاف اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔‘‘
اچانک افراتفری مچ گئی۔
محمد نے قیاس لگایا کہ شُرطے گھیراؤ کر رہے ہیں۔ وہ چھپنے کے لیے پُھرتی سے اپنا ٹھیلا ایک تنگ گلی میں لے گیا۔ کچھ بِلّیاں کُوڑے میں پڑے ایک چِپٹے جستی ڈبّے پر لڑ اور بچّے پلاسٹک کی بندوقوں سے کھیل رہے تھے۔
اُس نے ایک گہرا سانس بھرا اَور زمین پر بیٹھ کر اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ اُس کا جی چاہ رہا تھا کہ ہر شے پھینکے اور زندگی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دے۔ لیکن تبھی اُسے اپنی ماں کا خیال آیا، زینب کا چہرہ اُس کی نگاہوں کے سامنے پِھرنے لگا، اُس کے بھائی، بہنیں۔۔۔۔ وہ اُٹھا اور دوبارہ شاہراہ کی سمت ہو لیا۔
بے شمار رُکاوٹوں کے باوجود محمد کو کام کرتے ہوے ایک ماہ بِیت گیا تھا۔ لیکن ایک صبح اُس وقت اُس کی طبیعت مکدر ہو گئی جب وہ اپنا ٹھیلا نکال رہا تھا کہ ایک پہیہ نیچے جا گِرا۔ اُسے نہیں معلوم تھا کہ وہ حادثہ ہے یا تخریب کاری کا نتیجہ۔ اُس کا اپنے کچھ پڑوسیوں کے ساتھ جھگڑا تھا جو اُس کی حکومت پر تنقید کو ناپسند کرتے تھے۔ ایک روز ساتھ والے گھر کے مرد نے اُسے کہا تھا۔ ’’اگر تم حکومت کے خلاف بولتے رہے تو تم ہم سب کے لیے مصیبت کھڑی کر دو گے۔ تم کیوں سب کچھ برباد کرنے پر تُلے ہو؟ تم چاہتے ہو کہ ہر شخص دولت مند ہو جائے؟ تم کمیونسٹ ہو، نہیں ہو؟ تمھارے لیے بہتر ہے کہ اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھو کیوں تمھیں بالکل نہیں پتا کہ اِس ملک میں جب پولیس کسی شخص کو اُٹھا کر لے جاتی ہے تو وہ اُسے کس حالت میں واپس کرتی ہے۔‘‘
’’دیکھو– تم خُود بھی تو حکومت پر تنقید کر رہے ہو۔‘‘
’’نہیں، میں صرف حقائق بتا رہا ہوں۔ میں خُوش ہوں۔ زندگی اچھی بسر ہو رہی ہے۔‘‘ پھر وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چِلّانے لگا۔ ’’صدر سدا سلامت رہے! خاتونِ اوّل سدا سلامت رہے!‘‘
محمد پہیے کی مرمت کرنے لگا۔ بچّے اُس کے گِرد کھڑے رہے۔ وہ اُس کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ ٹھیلا جلد ہی ٹھیک ہو گیا اور وہ روانہ ہو گیا۔
پہلے چوراہے پر ہی اُسے ایک شُرطے نے روک لیا۔
’’تم اِس حالت میں کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’کام پر جا رہا ہوں۔‘‘
’’تمھارا کام کا اجازت نامہ؟‘‘
’’تمھیں اچھی طرح علم ہے کہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
’’ہاں، مجھے پتا ہے۔ لیکن یہ دُوسرے طریقوں سے بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
محمد نے نہ سمجھنے کی حیلہ سازی کی۔
پولیس افسر بولا۔ ’’بہت بُرا ہو گا تمھارے ساتھ۔ تمھیں اِس روّیے کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ تم سے تو میں بعد میں نبٹوں گا۔‘‘
محمد مُڑے بغیر چل دیا۔ اُس نے ایک جنازہ دیکھا جس میں بہت سے لوگ شریک تھے اور حیرت انگیز طور پر وہ قومی پرچم اُٹھائے ہوے تھے۔
محمد نے پُوچھا کہ کون فوت ہؤا ہے۔ ’’ایک غریب شخص، میرے اور تمھارے جیسا۔ کوئی ٹھیک سے نہیں جانتا کہ کیسے مرا ہے۔ اِسے پچھلے ہفتے پولیس اِس الزام پر اُٹھا کر لے گئی تھی کہ اِس نے انٹرنیٹ پر کچھ کیا ہے اور پھر کل اِس کے ماں باپ کو اِس کی لاش اپنے دروازے پر پڑی ملی۔‘‘
’’پولیس نے قتل کیا ہے؟‘‘
’’صاف ظاہر ہے لیکن اِس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘‘ وہ شخص دِھیمی آواز میں بولا۔ ’’یہ ایک عمدہ شخص تھا۔ دِن کو ایک کیفے میں کام کرتا اور شام کو انٹرنیٹ چلایا کرتا تھا۔‘‘
محمد اپنے ٹھیلے کو ٹھیلتا ہؤا جنازے کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ اُس نے دیکھا کہ سادہ لباس والے شُرطے تصاویر لے رہے تھے۔
تدفین کے بعد وہ تھوک کی مارکیٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔
یلغار اچانک تھی کہ اُسے سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ وردی والے دو شُرطوں نے، ایک مرد اور ایک عورت، اُسے زمین پر گِرایا اور ٹھیلے پر قبضہ کر لیا۔
’’ضبط کیا جاتا ہے۔‘‘
’’تمھیں غیرقانونی کاروبار کا کوئی حق نہیں ہے۔ تمھارے پاس کام کا اجازت نامہ ہے نہ لائسنس۔ تم کوئی محصول بھی ادا نہیں کرتے۔ تم ریاست کی چوری کرتے ہو۔ اِس لیے تمھارا کھیل ختم۔ تمھارا ٹھیلا ضبط کیا جاتا ہے۔‘‘
خاتون افسر بولی۔ ’’اب دفع ہو جاؤ۔ تمھیں عدالت میں حاضری کا طلبی نامہ مل جائے گا۔ اب دفع ہو جاؤ یہاں سے!‘‘
لیکن محمد زمین پر پڑا رہا کیوں کہ دُوسرا افسر اُسے ٹھڈّوں پر رکھے ہوے تھا۔
راہ گیر تماشا دیکھنے کے لیے رُک گئے۔ اُن میں سے کچھ نے احتجاج کیا۔ شُرطوں نے اُنھیں دھمکایا۔ ایک جیپ نمودار ہوئی اور اُس سے ایک افسر اُترا۔ جب شُرطوں نے اُسے صُورتِ حال بتائی تو وہ واپس جیپ میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
پھر پولیس کی ایک اَور گاڑی آئی۔ جس سے دو اَور شُرطے اُترے اور ٹھیلے سے گِرے ہوے پھل سمیٹنے لگے۔ اُن میں سے ایک اُٹھایا ہؤا سیب کھانے لگا۔
بے بس و بے کس محمد کچھ نہیں بولا۔ وہ سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے لگا۔ وہ بدحواس تھا کہ یہ کیا ہو گیا اور کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے لاچار۔ بِلا سوچے سمجھے ہی اُس کے قدموں نے اُسے بلدیہ ہال پہنچا دیا۔ اُس نے میئر سے ملاقات کے لیے کہا۔ اسقبالیہ پر بیٹھے شخص نے اپنی شہادت کی اُنگلی سے اپنی کنپٹی کے گِرد دَائرے بنائے کہ محمد ہِلا ہؤا ہے۔
’’تمھارا خیال ہے کہ تم محض اِس طرح میئر سے مل سکتے ہو؟‘‘
’’کیوں نہیں مل سکتا؟ مجھے اُن سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ کیا تم امیر کبیر ہو؟ کیا تم کوئی اہم شخصیت ہو؟ اب نکلو یہاں سے اور مجھے سکون سے چائے پینے دو۔‘‘
محمد نے اصرار کیا۔ ’’شاید نائب میئر۔۔۔‘‘
’’سب باہر گئے ہوے ہیں۔ گورنر ایک نئی مسجد کا افتتاح کر رہا ہے۔‘‘
’’اور کل؟‘‘
’’میں تمھیں ایک مشورہ دیتا ہوں: یہ خیال چھوڑ دو۔‘‘
’’ٹھیک ہے، لیکن جانے سے پہلے میں تمھیں بتا دوں کہ میں میئر سے کیوں ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’پولیس نے میری وہ چیز ضبط کر لی ہے جس سے میں اپنی روزی کماتا تھا۔ وہ ٹھیلا جس پر میں پھل بیچتا تھا۔ وہی میری روزی کا واحد وسیلہ تھا۔‘‘
’’اور تمھارا خیال ہے کہ تمھاری خُوب صُورت آنکھوں کی خاطر میئر پولیس کو حکم دے گا۔‘‘
’’انصاف کی خاطر۔‘‘
’’خُوب، تم خاص نہیں ہو! تمھارا تعلّق کہاں سے ہے؟‘‘ اُس شخص نے اپنی آواز مدہم کرتے ہوے پُوچھا۔ ’’تم نے اِس ملک میں انصاف کہاں دیکھا ہے؟‘‘ پھر وہ ایک لمحے کے لیے باہر گیا اور موٹے سِرے والے ڈنڈے سے لیس واپس آیا۔ ’’اب دفع ہو جاؤ۔ ورنہ میں تمھارا حسین مُنھ توڑ ڈالوں گا۔‘‘
محمد نے مزید اصرار نہیں کیا۔
اُس شام وہ زینب سے ملا جس نے مشورہ دیا کہ وہ بھی اُس کے ہم راہ بلدیہ ہال چلے گی۔ اُس نے ایک اَور تجویز بھی دی۔
’’کیوں نہ ہم سیدھے پولیس ہی کے پاس چلے جائیں؟‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘
وہ پولیس ہیڈ کوارٹر چلے گئے۔
وہاں موجود افسروں میں سے کوئی بھی محمد کے حالات سے آگاہ نہیں تھا۔ زینب نے بات چیت کا آغاز کیا۔
’’خُوب، اِس صُورت میں ہم چوری کا الزام عاید کرتے ہیں!‘‘
’’تم پولیس کے خلاف مقدمہ درج کروا رہے ہو؟ تمھارے خیال میں تم کہاں ہو؟ سویڈن میں؟ افسر نے شیطانی مُسکراہٹ سے دریافت کیا۔
’’ہمیں صرف اپنا ٹھیلا واپس چاہیے۔‘‘
’’سمجھ گیا۔ مجھے اپنے شناختی کارڈ دے دو تاکہ میں فوٹو کاپیاں کروا لوں اور جیسے ہی مجھے کچھ پتا چلا میں تم لوگوں سے رابطہ کر لوں گا۔‘‘
زینب کو اُس پر اعتبار نہ آیا۔ اُس نے انکار کر دیا۔ محمد کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اور وہ وہاں سے چلے گئے۔
وہ ہاتھ تھامے یا ایک دُوسرے کی کمر میں بازو ڈالے دیر تک گلیوں میں مٹر گشت کرتے رہے۔ ایک کار اُن کے پاس آکر رُکی۔ سادہ لباس والے دو شُرطے اُترے۔
’’تمھارے کاغذات۔۔۔ لیکن تم دونوں شادی شدہ نہیں ہو۔ رات کے اِس پہر سنسان گلیوں میں پِھرنا غیر قانونی ہے۔‘‘
زینب نے اپنے حسن کے تِیر چلائے اور افسر سے استدعا کی کہ وہ رپورٹ نہ کرے۔
’’میرے باپ بہت غصّے والا ہے۔ براہِ مہربانی، ہمیں جانے دو! ہم گھر جائیں گے۔ ہم کوئی غلط کام نہیں کر رہے تھے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، جاؤ۔ اِس بار تمھیں چھوڑ رہا ہوں۔‘‘
وہ دونوں سیدھے گھر گئے۔
محمد کی وہ رات بہت بے قراری میں گُزری۔ اُس نے اپنی ماں کو بھی نہیں بتایا کہ کیا ہؤا ہے۔ اُس کے باپ نے بتایا تھا کہ پریشانی اور دباؤ سے اُس کی ماں کے خُون کی شکر بڑھ جاتی ہے۔
اگلے روز صبح سویرے محمد نے غسل کیا اور پھر اُس نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد پہلی مرتبہ نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے سر تا پا سفید لباس پہنا۔ اُس کی ماں سو رہی تھی۔ اُس کی نیند خراب کیے بغیر اُس نے اُس کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ اپنے سوئے ہوے بھائی اور بہنوں کو دیکھا۔ پھر دوڑتے ہوے گھر سے باہر نکل گیا۔ اپنے بھائی کی پُرانی موٹر بائیک لی، گیس سٹیشن پر رُکا اور پلاسٹک کی پانی والی بوتل گیسولین سے بھروائی۔ بوتل کو ایک چھوٹے تھیلے میں رکھا اور بلدیہ ہال کا رُخ کیا۔
وہاں اُس نے کسی اہلکار سے ملنے کا مطالبہ کیا۔
کوئی بھی اُسے ملنا نہیں چاہتا تھا۔
وہ اُس مقام پر لوٹا جہاں پولیس نے اُس کا ٹھیلا ضبط کیا تھا۔
وہ دوبارہ وہاں موجود تھے۔ پاس ہی ٹھیلا بھی موجود تھا لیکن خالی۔
محمد اُن کے پاس گیا اور اُس نے اُن سے اپنی شے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
مرد شُرطے نے اُسے زوردار تھپڑ رسید کیا اور چِلّایا۔ ’’دیکھو، غلیظ چُوہے، اِس سے پہلے کہ میں مار مار کر تمھارا بھرکس نکال دوں یہاں سے دفعان ہو جاؤ۔‘‘
محمد نے اپنے دفاع کی کوشش کی۔ اِس مرتبہ خاتون شُرطے نے اپنی باری نبھاتے ہوے تھپڑ مارتے ہوے اُس کے مُنھ پر تُھوک دیا۔ ’’کِیڑے، تم ہمارا ناشتہ حرام کر رہے ہو! تمھیں تمیز تک نہیں۔ تمھاری اوقات کیا ہے!‘‘
محمد جھک گیا۔ وہ بولا نہ اُس نے حرکت کی۔ اُس کا چہر سپاٹ، آنکھیں سُرخ اور مُنھ سختی سے بِھنچا ہؤا تھا۔ اُس کے اندر کچھ پھٹنے کو تیار تھا۔ وہ اِس حالت میں دو تین مِنّٹ تک رہا– لیں اُسے لگا جیسے وہ ہمیشہ سے اِسی حالت میں ہے۔
مرد افسر بولا۔’’چلو، اب دفع ہو جاؤ۔ تمھارا ٹھیلا– تمھیں دوبارہ کبھی دِکھائی نہیں دے گا۔ اب تو معاملہ ہی ختم ہو گیا۔ تم نے ہماری عزت نہیں کی۔ اور ہمارے اِس وطنِ عزیز میں تمھیں اِس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘
محمد کا حلق خشک ہو رہا تھا اور تُھوک زہریلا۔ اُسے سانس تک لینا دشوار ہو رہا تھا۔ اُس نے سوچا: اگر میرے پاس بندوق ہوتی تو میں اِن حرامیوں پر خالی کر دیتا۔ میرے پاس بندوق تو نہیں ہے لیکن میرا جسم، میری زندگی تو ہے۔ میری بے کار زندگی جو میرا ہتھیار ہے۔‘‘
محمد اُٹھا اور اُن سے پرے ہٹ گیا۔ اُس نے موٹر بائیک سٹارٹ کی اور بلدیہ ہال کی سمت روانہ ہو گیا۔
اُس نے بائیک کو ایک کھمبے کے قریب کھڑا کر کے اُسے تالا لگایا اور دوبارہ میئر یا اُس کے کسی نائب سے ملنے کا مطالبہ کیا۔ استقبالیے پر بیٹھا شخص گزشتہ روز سے زیادہ مشتعل ہو گیا۔ واپس باہر نکل کر محمد کو تھیلے میں پڑی گیسولین سے بھری بوتل کا خیال آیا۔ اُس نے اپنے سفید لباس کو درست کیا اور چوراہے پر ٹہلنے لگا۔ کسی نے اُس پر دھیان نہیں دیا۔
وہ دسمبر کی ایک دھوپیلی صبح تھی۔ دسمبر کی ۱۷ تاریخ۔ اُس کے ذہن میں دُھندلے چہرے اُبھر آئے۔ بستر پر لیٹی ماں، تابوت میں پڑا باپ، خُود شعبۂِ فن و ادبیات میں، مُسکراتی ہوئی زینب، غصّے ہوتی ہوئی زینب، اُس سے کچھ نہ کرنے کی التجا کرتی ہوئی زینب؛ بستر سے نکل کر اُسے پُکارتی ہوئی ماں؛ اُس عورت کا چہرہ جس نے اُسے پہلے بھی اور پھر دوبارہ تھپڑ رسید کیا تھا؛ اُس کا جھکا ہؤا بدن جیسے وہ سزا کے لیے اپنے آپ کو جلاد کے حوالے کر رہا ہو؛ نیلا آسمان؛ اُس پر ایک دیو ہیکل درخت کا سایہ؛ درخت کے سائے تلے وہ زینب کے بازوؤں میں؛ وہ بچّے کے رُوپ میں دوڑتا ہؤا کہ سکول سے دیر نہ ہو؛ فرانسیسی اُستاذ کی اُسے شاباشی؛ کالج کا امتحان دیتے ہوے، ماں باپ کو اپنا ڈپلوما دِکھاتے ہوے، ڈپلومے کے ایک طرف ’’بے روزگار‘‘ کے نتھی کیے ہوے الفاظ؛ سنک میں جلتا ہؤا ڈپلوما؛ باپ کی دوبارہ تدفین؛ رونا پیٹنا؛ پرندے؛ صدر اور اُس کی اہلیہ دھوپ کی بڑی بڑی سیاہ عینکیں لگائے ہوے؛ عورت جس نے اُسے تھپڑ رسید کیا تھا؛ اُس کا ساتھی جس نے اُس کی اہانت کی تھی؛ آسمان پر چڑیوں کا اُڑتا ہؤا غول؛ ’’سپارٹاکس‘‘؛ عوام کے لیے لگا نل؛ اُس کی ماں اور دونوں بہنیں پانی بھرنے کے لیے قطار میں لگی ہوئیں؛ ایک بار پھر شُرطے اُسے وحشیانہ مارتے ہوے؛ گالیاں، گھونسے؛ گالیاں، گھونسے۔۔۔۔
محمد نے میئر سے ملاقات کروانے کے لیے آخری بار کہا۔ انکار اور تذلیل۔ استقبالیہ والے شخص نے اُسے موٹے سِرے والے ڈنڈے سے دھکا دیا تو زمین پر گِر گیا۔ چُپ چاپ اُٹھا اور بلدیہ ہال کے مرکزی داخلے کے سامنے بنے سٹینڈ میں چلا گیا۔ اُس نے تھیلے سے گیسولین کی بوتل نکالی۔ اُسے اپنے اُوپر اُنڈیلا۔ چوٹی سے سر تک بوتل خالی کی۔ پھر لائٹر روشن کیا، ایک لمحے کے لیے اُس کے شعلے کو گُھورا اَور اُسے اپنے لباس کے قریب لے آیا۔
چشمِ زدن میں آگ بھڑک اُٹھی۔ بِلا تاخیر لوگوں کا انبوہ اُس کی طرف دوڑا۔ استقبالیے والا شخص چیخنے چِلّانے لگا۔ اُس نے اپنی جیکٹ سے آگ بجھانے کی سعی کی لیکن محمد الاؤ بن چکا تھا۔ تب تک ایک ایمبولینس بھی آپہنچی۔ آگ بجھا دی گئی لیکن محمد تمام تر انسانی شباہت کھو چکا تھا۔ وہ تیز آگ پر کھال سمیت بُھنی ہوئی بھیڑ کی مانند سیاہ پڑ گیا تھا۔
اسقبالیے والا شخص چِلّا رہا تھا۔ ’’یہ سب میرا قصور ہے۔ مجھے اِس کی مدد کرنا چاہیے تھی۔‘‘
محمد ہسپتال میں ہے۔ اُس کا سارا جسم ممیوں کی مانند پٹیوں سے ڈھنپا ہؤا ہے۔ وہ بے ہوشی میں ہے۔ راہداری میں افراتفری برپا ہو جاتی ہے۔ سفید کوٹوں میں ملبوس ڈاکٹر اور نرسیں راہداری میں محمد کے کمرے کی سمت رہنمائی کرتی ہیں۔ صدر آگیا ہے۔ صدر نے محمد کی حالت کے بارے میں دریافت کیاہے۔ صدر برہم ہے۔ اُسے میئر کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ اُس نے محمد سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اُسے گولی مارنے کا حکم دے دیتا ہے۔ صدر برہم ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ عالمی پریس اُس کی کہانی نشر کررہا ہے۔
ڈاکٹروں کا ایک ہجوم ہسپتال کے کمرے میں صدر کے پیچھے پیچھے رہتا ہے۔
فحش اور بے ہودہ نعروں والے کارڈ اور بینر۔
سارا ملک بغاوت کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ زینب اپنے بالوں کو سختی سے پیچھے باندھے ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کرتی ہے۔ اُس کا مُکّا بلند ہے۔ وہ چِلّا رہی ہے۔
محمد ۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو چل بستا ہے۔
ہر طرف احتجاج ہی احتجاج ہے۔ ایک ہی پُکار ہے: ’’ہم سب محمد ہیں!‘‘
صدر چوروں کی طرح ملک چھوڑ کا بھاگ نکلتا ہے۔ اُس کا جہاز ستاروں بھری رات میں غائب ہو جاتا ہے۔
احتجاج ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔
جگہ جگہ محمد کی تصاویر لگی ہیں: ستم رسیدہ اور علامت۔ عالمی میڈیا اُس خاندان کے انٹرویو لینے کے لیے اُس ملک کی طرف دوڑ اُٹھتا ہے۔
حد یہ کہ فلموں کا ایک ہدایت کار بھی اُنھیں ملنے آتا ہے۔ وہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں والی ماں کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھماتا اور کہتا ہے۔ ’’براہِ کرم، اِس مدد کو قبول کریں۔ یہ زیادہ تو نہیں ہے۔ تقدیر ایسی ہی چیز ہے، ظالم اور ناانصاف۔‘‘
وہ جھکتا ہے اور رَوتی ہوئی عورت کے کان میں سرگوشی کرتا ہے۔ ’’یہ اچھی بات ہے کہ آپ کسی سے بات نہیں کرتیں۔ صحافیوں کو کوئی انٹرویو مت دینا۔ میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں محمد کی کہانی سامنے لاؤں گا۔ ساری دُنیا کو پتا چلنا چاہیے کہ کیا ہؤا ہے۔ محمد ہیرو، ستم رسیدہ اور شہید ہے۔ آپ اتفاق کرتی ہیں؟ آپ میرے علاوہ کسی کو نہیں بتائیں گی۔ میں اب چلوں گا لیکن آپ کو کسی بھی شے کی ضرورت ہو تو یہ رہا میرا کارڈ اور میرا سیل فون نمبر، مجھے کال کر لینا۔‘‘
ماں اُس شخص کی بات ذرا برابر بھی نہیں سمجھ پائی۔ لیکن اُس کی بیٹیاں اچھی طرح سمجھ گئی تھیں۔ ’’یہ شخص ہمارے بھائی کی موت خریدنا اور اُس سے منافع کمانا چاہتا ہے! کیسا عِفرِیت ہے ! کتنا بڑا عِفرِیت! محمد کی کہانی کسی کی مِلک نہیں ہے۔ اُس کی کہانی دُوسرے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح ایک عام آدمی کی کہانی ہے جنھیں کچلا گیا، جن کی اہانت کی گئی اور جنھیں زندگی میں ردّ کر دیا گیا اور جو یہ تمام ظلم وستم سہنے کے بعد دُنیا بھر کے لیے روشنی بنے۔ کوئی کبھی اُس کی موت چُرا نہیں سکے گا۔‘‘
English title: By Fire (Original language: French)
Written by: Tahar Ben Jellon (Born:1 December 1944)
– a French language Moroccan writer.
– Two times short-listed for the Nobel Prize in Literature.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...