(Last Updated On: )
خضر میاں نے بٹن دبایا اور اسکرین پر ۱۹ مارچ ۲۳۵۰ء کی تاریخ منہ چڑھانے لگی، اُنھوں نے گردن اونچی کی اور ۵۷۷۱ منزلہ عمارت کے فلیٹ نمبر ایک کی کھڑکی میں سے نیچے دیکھنے کو کوشش کی لیکن کچھ بھی دکھائی نہیں دیا ،اُنھوں نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا ،آج میری ۱۶۶ ویں سالگرہ ہے لیکن اسے منانے کے لیے اس وقت کوئی بھی میرے پاس نہیں ہے ۔ ہاں مبارکبادیوں کے پیغامات خوب مل رہے ہیں ۔ اُنھوں نے البم کو کلک کیااور اُن کے سامنے اُن کی بیوی کی تصویر آگئی اور اُن کے منہ سے نکلا، ’’ کیا یہ ضروری تھا کہ تم بھی مجھے چھوڑ کر پلوٹو کے شہر زم زم زاں میں ڈاکٹری کرو ؟ اور وہ نالائق بھی میری مرضی کے خلاف مریخ کے کسی دور افتادہ بستی میں اپنی بیوی کے ساتھ آباد ہوگیا ۔ پورے پندھرا برس ہوگئے اور میں یہاں اکیلا ۔۔۔۔ ابھی اگلا جملہ اُن کے د ماغ میں آنے ہی والا تھا کہ سامنے کی دیوار میں کچھ چنگاریوں کے مانندتنکے گردش کرنے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دھندلے دھندلے عکس نمایاں ہونے لگے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ عکس دو خوبصورت بچوں میں تبدیل ہوگیا اور اُن کی معصوم آوازیں بلند ہوئیں ، ’’ دادا جان سالگرہ مبارک ہو ! ‘’
’’تم۔۔۔ ؟ ‘‘ انھوں نے اپنی باہیں پھیلا دیں ، اور دونوں بچے اُن کے سینے سے لگ گئے ، ’’ تم دونوں اچانک کیسے یہاں پہنچ گئے ۔؟ ‘’
’’ دادا جان ہم تو چاند پر کھیل رہے تھے کہ دادی امّاں کا Massage ملا کہ آج تمہارے دادا جان کی سالگرہ ہے ۔ ‘‘ بارہ برس کے روشن نے دادا کو چھوڑ کر پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بتایا اور آٹھ برس کی روشنی نے دادا کی آنکھوں میںجھانکتے ہوئے کہنا شروع کیا ، ’’ دادی امّاںکا حکم تھا کہ تمہارے دادا اکیلے ہیں ۔ سالگرہ کے دن اکیلا رہنااُنھیں بالکل پسند نہیں ہے ۔ جاو اور جاکر اُن کی سالگرہ سلیبر یٹ کرو ۔۔۔۔ ا ور بس ہم آگئے ۔‘‘
’’ لیکن تم لوگ تو مریخ ۔۔۔! ‘‘
’’ دادا جان چاند پر نیا اسکول قائم ہوا ہے ۔ ہم نے وہیں پر ایڈمیشن لیا ہے ۔‘‘
’’ اوہ۔۔۔۔ ! ‘‘ خضر میاں نے حیرت سے بچوں کی جانب دیکھا ۔
’’ داداجان آپ ہمارے ساتھ مریخ پر کیوں نہیں رہتے ؟ ‘‘ روشنی نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔
’’ بھائی یہ Exit ہونے میں ہمیں بڑا ڈر لگتا ہے ،خدانخواستہ ہمارے بدن کے ذرات ایک جگہ جمع نہ ہوئے تو ۔۔۔؟ ‘‘
’’ دادا جان ! اِدھر سے اُدھر Exitہو نے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی بس ایک بار اس کے پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے ۔‘‘ روشن اپنے دادا کو سمجھانے لگا ، ’’ یہ ایک بٹن آپ کی کلائی میں لگا دیا جاتا ہے ۔ یہ دیکھیے۔۔۔ ‘‘ اُس نے اپنی کلائی دادا کے سامنے کردی ، ’’ اس کے بعد ایک برقی غلاف آپ کے پورے بدن کے اطراف پھیل جاتا ہے ، جو Exit کے دوران آپ کے بدن کے ذرات کو ادھر اُدھر ہونے نہیں دیتا ۔ بس جب بھی آپ کسی مقام پر جانا چاہیں ، اُس شہر کا نام اور کوڈ نمبر کے ساتھ ہی ساتھ پتہ بھی اس بٹن میں سیٹ کردیںوہ آپ کو وہاں تک پہنچا دے گا ۔ ‘‘
دادا ، پوتے کی ان باتوں کو سُن کر فرط جذبات سے بے قابو ہوگیا اور دیوانہ وار اُسے لپٹانے لگا ۔ روشن کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی ، ’’ کہیے اب تو آپ چلیں گے نا ہمارے ساتھ اوپر کی دنیا میں ؟ ‘‘
’’ نہیں بیٹے ہم تو اسی دنیا میں بھلے ۔ تم لوگوں کی محبت میں اگر یہ رِسک لے بھی لیں تو ہمارا دل اسی زمین میں لگا رہے گا ۔ ‘‘
’’ دل۔۔۔؟ ‘‘ روشنی نے حیرت سے دادا کی طرف دیکھا ، ’’ داداجان یہ دل کیا ہوتا ہے ؟ ‘‘
’’ اری بے وقوف ! تمھیں دل نہیں معلوم ؟ ‘‘ روشن سمجھانے لگا ، ’’ دل ہمارے بدن میں وہ عضو ہے جس کے چار چیمبر ہوتے ہیں ۔اوپر کے دو چیمبر Auricle (آری کل ) اور نیچے کے دونوں چیمبرز Ventricle ( وینٹری کل )کہلاتے ہیں ۔ ‘‘ پھر اُس نے اپنے دادا کی جانب دیکھا ،’’ دادا جان دل کے پہلے چیمبر میں سارے بدن کا خون آتا ہے اور وہاں سے دل کے تیسرے چیمبر میں پھیپھڑوں کی مدد سے آکسیجن کو شامل کرتا ہے ۔ پھر وہ خون دوسرے چیمبر میں آتا ہے جو اُسے چوتھے چیمبر میں بھیجتا ہے اور چوتھا چیمبر اُسے سارے بدن میں دوڑاتا ہے ۔ ‘‘
’’ بیٹے میں اُس دل کی بات نہیں کر رہا تھا جو ایک لوتھڑے کی مانند ہمارے جسم میں ہوتا ہے ۔ ‘‘
’’ پھر ۔۔۔ اور دل کیا ہوتا ہے ؟ ‘‘ روشن بھی حیرت سے خضر میاں کی طرف دیکھنے لگا
خضر میاںنے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے ، مالک ان بچوں کو کیسے سمجھاؤں کہ دل کیا ہوتا ہے ۔ان بچوں کا جنم تو ماں کی کوکھ میں نہیں سائنسی آلات میں ہوا ہے ۔یہ کیا جانے محبت کیا ہوتی ہے ۔ اُف زمانہ کتنا بدل گیا ، ایک وقت وہ بھی تھا جب ہر عورت ماں بننے پرفخر کرتی تھی ۔ پہلے دن سے نو ماہ تک جانے کیاکیا خواب دیکھتی تھی کیسی کیسی مصیبتیں اُٹھاتی تھی ۔ تب کہیں جا کر اولاد کی صورت نظر آتی تھی لیکن آج ۔۔۔ آج تومشین ہی کو ماں کی کوکھ بنا دیا گیا ہے ۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ماں بننے کی لذّت سے لطف اُٹھا سکے ۔
’’ دادا جان کہاں کھوگئے آپ ؟ ‘‘ روشن نے اُنھیں اپنی طرف متوجہ کیا ۔
’’ ہوں ۔۔۔! ‘‘ وہ ایک دم چونک اُٹھے
’’ دادی اماں نے سالگرہ سلیبریٹ کرنے کو کہا ہے ۔ہم اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر آئے ہیں ۔ بس ذرا لگیج کا بٹن دبادیں تو ۔ ۔‘‘
’’ ارے ٹھہرو بچو ! اس بار وہ سب رہنے دو ۔ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس زمین پر بیسویں صدی میں سالگرہ کس طرح منائی جاتی تھی ۔ ‘‘
دونوں بہن بھائی حیرت سے دادا جان کی طرف دیکھنے لگے ۔
اور خضر میاں اُنھیں بتانے لگے ، ’’ بیٹا اُن دنوں جس کی بھی سالگرہ ہوتی اُسے سب سے پہلے صبح صبح گرم گرم پانی سے خوب نہلایاجاتا ۔‘‘
’’ پانی سے نہلایا جاتا تھا ؟ ‘‘ روشن نے دادا کی بات کاٹی ، ’’ وہ اسٹیم باتھ کیوں نہیں کرتا تھا دادا جان ؟ اُف کتنا زیادہ پانی ویسٹ ہوتا ہوگا ؟ ‘’
’’ اُن دنوں زمین پر بہت پانی تھا بیٹے ۔ ہر گاؤں اور شہر میں ندّیاں بہتی تھیں ۔ ‘‘
’’ پانی کی ندّیاں۔ ؟ ‘‘ روشنی نے بھی حیرت کا اظہار کیا اور خضر میاں سوچنے لگے ، بیٹے تم کیا جانوں ، سنتے ہیںکہ کبھی اس زمین پر تو دودھ کی ندّیاں بھی بہتی تھیں ۔
’’ اور کیا کیا ہوتا تھا دادا جان ؟ ‘‘
’’ ایک بڑا سا کیک لایا جاتا اُس پر عمر کے مطابق موم بتیاں لگائی جاتیں ۔ سارا خاندان دوست احباب جمع ہوتے تھے ۔ تالیوں کی گونج اور سالگرہ مبارک کے شور میں ،کیک کاٹا جاتا اور پھر سب پلیٹوں میں اُسے لے کر چمچے سے کھاتے ۔ ‘’
دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے ۔
’’ پلیٹوں میں لے کر چمچے سے کھاتے تھے ؟ ‘‘
’’ ہاں اس کے بعد دسترخوان لگتا اور سب مزے مزے کے کھانے کھاتے ۔ ‘‘
’’ تو آج آپ بھی اپنی سالگرہ اِسی طرح منائیں نا دادا جان۔۔۔!‘ روشن کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں ۔
’’ اب تو یہ سب کچھ ممکن نہیںہے بیٹے ۔ ‘‘
’’ کیوں۔۔۔ ؟ ‘‘
خضر میاں نے ایک لمبی سانس لی ، ’’ اس لیے کہ اُس زمانے میں کھیتی باڑی ہوتی تھی ۔ اناج پیدا ہوتا تھا اور اسی اناج سے قسم قسم کے پکوان پکائے جاتے تھے ۔ ‘‘
’’ دادا جان آپ کتنی حیرت انگیز باتیں ہمیں بتا رہے ہیں ۔ یہ کھیتی باڑی کیا ہوتی تھی ؟ ‘‘ روشنی کی آنکھیں حیرت سے پھیلنے لگیں
’’ کھیتی ؟ ۔۔۔ بیٹے زمین کا ایک بڑا حصّہ ہوتا تھا ۔ اُس پر کسان ہل چلاتا ، میرا مطلب پوری زمین کو ایک دیڑھ فٹ تک کھو د تا تھا پھر زمین کو برابر کرتا ۔ آسمان سے برسات ہوتی۔ کسان زمین میں بیج بوتا ۔ اُس سے پودے اُگتے ۔ پھر اُن میں بالیاں لگتیں ۔ وہ پکتیں ۔پھر کسان اُنھیں ایک جگہ جمع کرتا اُن بالیوں سے اناج نکالتا ، اُسے صاف کرتا اور بوروں میں بھر بھر کر بازار لے آتا ۔ لوگ اُنھیں خریدتے ۔ گھروں میں چولہے سُلگتے اُن پر مزے مزے کے کھانے پکتے اور پھر سب پیٹ بھر کر کھاتے تھے ۔ ‘‘
’’ تب کتنا مزا آتا ہوگا ۔۔۔ ہے نا دادا جان ؟ ‘‘
’’ میرے لال ہم نے بھی یہ سب کچھ بس کتابوں ہی میں پڑا ہے ۔ ‘‘ خضر میاں بتانے لگے ، ’’ کہتے ہیں کہ اُس وقت آدمی اس طرح فلیٹوں میں مقید نہیں ہوتا تھا ۔ہر فرقہ اپنا ایک مذہب بھی رکھتا تھا اورہر مذہب نے اپنے ماننے والوں کو خوشیوں کے نام پر کچھ تہوار بھی بخشے تھے ۔جب بھی یہ تہوار آتے پورے ملک میں چُھٹی منائی جاتی ۔لوگ ایک دوسرے کے گھر جاتے ایک دوسرے کو تہوار کی مبارک باد پیش کرتے اور ساتھ مل بیٹھ کر کھانے کھاتے ۔ خوشیاں مناتے تھے ۔ ‘‘
’’ دادا جان یہ مذہب کیا چیز تھا ؟ ‘‘
’’ آہ۔۔۔ مذہب ایک مکمل ضابطہ حیات ۔۔۔۔۔‘‘
’’ تو کیا ہماری حیات اب کسی ضابطے کی پابند نہیں ہے ؟ ‘‘
دادا جان ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئے ۔ اُن کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔ گو یا وہ اُن ضابطوں کو ڈھونڈھ رہے تھے لیکن کوئی سرا اُن کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا ۔ہر سمت اُنھیں نفسا نفسی ہی نظر آرہی تھی ۔ دنیا پورے نظامِ شمسی میں پھیل چکی تھی ۔ اب نہ کسی کے پیدا ہونے کی خوشی تھی نہ مرنے کاغم تھابس تعلقات ایک دوسرے تک پیغاموں میں محصور ہو گئے تھے ۔ اُنھیں یاد آیا ، اُن کی بیوی نے بھی پلو ٹو جانے کی اجازت نہیں بلکہ اطلاع دی تھی اور جب اُنھوں نے کہا تھا کہ تم چلی جاوگی تو ہمارے جنسی تعلقات کا کیا ہوگا ؟ہماری باہم رفاقتوں اور محبتوں کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا ؟ تو اُس نے جواب دیا تھا ، کیا یہ آپ کے لیے اور میرے لیے کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے ؟ لطف تو کہیں بھی کسی سے بھی اُٹھایا جاسکتا ہے ۔ اس سائنسی اور تکنالوجی کے دور میں دائمی رفاقتیں اپنی اہمیت کھوچکی ہیں ۔ رہی بات محبتوں کی تو ہم دونوں اِسے یہاں وہاں بیٹھ کر بھی نبھا سکتے ہیں ۔ البتہ ضروریات اہم ہیں اور وہ اپنے راستے کسی نہ کسی طرح بنا ہی لیتے ہیں۔۔۔ شاید اسی لیے اس کے بعد وہ آج تک لوٹ کر نہیں آئی ، لیکن سوچو تو کونسا کا م رُکاہے ؛ کوئی بھی تو نہیں۔۔۔ اُس کی محبت اُسی طرح قائم ہے اور اُس کے محبت بھرے پیغامات آتے رہتے ہیں ۔ لڑکے نے بھی مریخ جانے کی اطلاع پہلے سے نہیں وہاں پہنچ کر ہی دیا تھا ۔بیٹی نے اپنے لیے کوئی ساتھی منتخب کر لیا تھا خدا جانے وہ کس سیارے پر زندگی گزار رہی ہے ۔ کوئی غیبی طاقت پورے عالم پر حکومت کر رہی ہے ۔ورنہ کوئی قانون ہے نہ کوئی گرفت، اچھائی اور بُرائی کی تمیز مٹ چکی ہے ۔ جرم اور سزا کا تصور عنقہ ہو چکا ہے ۔رشتوں سے نمک اور خلوص سے مٹھاس غائب ہوچکی ہے ۔ شاید میں بھی اب وہ نہیں رہا ، مجھ میں بھی کہیں ٹوٹ پھوٹ ہوچکی ہے اور کیا پتہ۔۔۔۔
’’ دادا جان ۔۔۔! ‘‘ آواز پر اُنھوں نے آنکھیں کھولیں ۔دونوں کی طرف غور سے دیکھا اور پھر اُن کی ز بان سے نکلا ، ’’ بیٹا اب کوئی مشترکہ ضابطہ حیات نہیں ہے آج ہر شخص کے نزدیک اُس کا اپنا ضابطہ حیات ہے ۔ ‘‘
روشن کے دماغ میں اچانک اُس کا اپنا گھر آگیا ، پا پا مریخ میں ، ممّی ذحل میں ، ہم دونوں بہن بھائی دن بھر چاند پر ، کیا ربط ہے ہماری زندگیوں میں ۔ سوائے اس کے کہ ایک چھت کے نیچے آباد ہیں ۔ پا پا کا اپنا فرینڈ سرکل ہے ، ممّی کے اپنے دوست ہیں ، دونوں اپنے اپنے فرینڈ سرکل کے ساتھ دو دو چار چار دن گھر سے باہر رہتے ہیں ۔ زندگی بسر کرنے کے دونوں کے اپنے اپنے انداز ہیں ۔ کیا کل ہماری اپنی زندگی بھی اسی محور پر گردش کرے گی ؟اُس کی گردن جھک گئی اور وہ پتہ نہیں خلاء کے کن حصّوں کی طرف نکل گیا تھا ۔ماحول پر سکوت چھاگیا ، شاید وہاں پر موجود ہر ذی نفس اپنی سوچوں میں کہیں گُم ہوگیا تھا ۔
ٹھیک اُسی وقت مانیٹر نے دو بجنے کا اعلان کیا اور خضر میاں کو جیسے ایک دم یاد آگیااور اُنھوں نے بچوں سے کہا، ’’ بچوں تم جب سے آئے ہو کچھ نہیں لیا ، جاؤ ۔۔۔ دو سرے کمرے میں کولڈریج رکھا ہوا ہے ۔ اُس میں مختلف کھانوں کے Tablets رکھے ہوئے ہیں ۔ تمھیں جو بھی پسند ہو ، لے لو اور کھالو ۔‘’
’’ دادا جان آج ہم نے بھی طئے کیا ہے کہ بھوک مٹانے کی خاطر ہم کوئی Tablet نہیں کھائیں گے ۔‘‘ دونوں کی زبان سے ایک ساتھ نکلا
’’ پھر ۔۔۔ ؟ ‘‘ خضر میاں نے حیرت کے ساتھ دونوں کی طرف دیکھا ۔
’’ آج آپ ہمیں بیسویں صدی کا کوئی کھانا پکا کر کھلائیں۔ ‘‘
خضر میاں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ، ’’ میرے بچوں یہ تو اب بہت مشکل ہے ۔ ‘‘ اُنھوں نے ۵۷۷۱ منزلہ عمارت سے نیچے کی طرف دیکھا ، ’’ ماضی بہت خوشگوار ہوتا ہے لیکن اُسے دوبارہ واپس نہیں لایا جاسکتا ۔ یہاں تمہاری سائنس اور تکنالوجی بھی فیل ہوجاتی ہے ۔ ‘‘
دونوں بھائی بہن اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑے ہوگئے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ دونوں کی آنکھیں روشن ہو نے لگیں اور روشنی نے کہنا شروع کیا ، ’’ دادا جان ہم ماضی کو واپس نہیں لاسکتے لیکن اُس کے تصور میں تو جی سکتے ہیں ۔‘‘
خضر میاں حیرت سے بچوں کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
’’ دادا جان آپ ہمیں آپ کا اسٹور روم دکھائیے تو سہی۔ ‘‘
خضر میاں کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور وہ بچوں کے سا تھ اپنے اسٹور روم میں پہنچے اور مختلف ڈبوں اور برتنوں کو کھنگالنے لگے ۔ ایک کے بعد ایک ڈبہ کھلتا جا رہا تھا اور برسوں پرانی اشیا ماضی کے کواڑ کھول رہی تھی۔ آخر وہ کسی طرح کچھ مُٹھی چاول ، مسور کی دال اور کچھ کھانا پکانے کے مسالوں کوڈھونڈھنے میں کا میاب ہوگئے ۔
اور پھرکچھ ہی دیر میں کھچڑی پک گئی اور اُس کی سوندھی سوندھی خوشبو مہکنے لگی ۔ خضر میاں نے فرش پر دسترخوان بچھایا ، پلیٹوں میں کھچڑی نکالی اور تینوں اُسے کھانے لگے ۔ کھچڑی کا مزہ اُن کے چہروں سے عیاں ہورہا تھا ۔ کھاتے کھاتے روشن نے دادا سے پوچھا ، ’’ دادا جان کیا ہم دوبارہ سے اس طرح کھانے پکا کر نہیں کھاسکتے ؟ ‘‘
خضر میاں نے محبت بھری نظروں سے اپنے پوتے کی طرف دیکھا ، ’’ بیٹے کھا تو سکتے ہیں لیکن اب کھتی باڑی کون کرے گا ؟ ‘‘
’’ تو کیا اب کھیتی باڑی نہیں ہوسکتی ؟ ‘‘
’’ہو بھی سکتی ہے لیکن یہ پہاڑ کون اپنے سر لے گا ؟ ‘‘
روشن نے دادا کی طرف دیکھا اور پھر پورے اعتماد کے ساتھ کہا ، ’’ دادا جان یہ کام میں کروں گا ۔ ‘‘
خضر میاں نے محبت بھری نظروں سے روشن کی طرف دیکھا ، عظیم ترین ترقی یافتہ دور کا آدمِ ثانی ا ُن کی نظروں کے سامنے تھا اور اُس کے پُر اعتماد لہجے میں اُنھیں ترقی کی ہزاروں منزلیں آسان سی محسوس ہونے لگیں اور وہ اُسے سمجھانے لگے ، ’’ میرے لال آج دنیا ترقی کی منزلیں طئے کرتے ہوئے ساری کائنات میں پھیل گئی ہے ۔ تمہاری منزل کا راستہ مراجعت میں نہیں بلکہ اُس کہکشاں میں ہے جس کے راستے تمھیں خود ہی تلاش کرنا ہے ۔ ‘‘
روشنی نے آسمان کی طرف دیکھاتو خضر میاں کو ایک دم خیال آیا کہ بچوں کو واپس بھی جانا ہے ۔ اُنھوں نے فوراً کہا ، ’’ بیٹے اب واپسی کا قصد کرو ، تمہارے ماں باپ پریشان ہو رہے ہونگے ؟ ‘‘
’’ دادا جان یہ پریشانی کیا ہوتی ہے ؟
’’ بیٹے یہ بھی میرے دل کی طرح کوئی چیز ہے جسے بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔‘‘
دونوں بہن بھائی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اپنی کلائی پر لگے ہوئے بٹنوں کو سیٹ کرنے لگے ، اور پھر پل بھر میں اُن کا وجود بے شمار چنگاریوں میں تبدیل ہوگیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔
۵۷۷۱ منزلہ عمارت کے فلیٹ کی کھڑکی سے لگے خضر میاں آسمان کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔۔۔
٭٭٭