بقول شخصے "غزل کی روایتی فارم میں
مضامین کی ایجاد ممکن نہیں" …
کسی حد تک صحیح ہوتے ہوئے بھی یہ انالوجی غلط ثابت کی جاسکتی ہے..غالب کی مثال ہی لے لیں . علاوہ بریں نثری نظموں میں ہزار ہا نئے مضامین دیکھ کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے.. کوئی ان آرٹیفیشیل سانچوں سے باہر نکل کر تو دیکھے.. اگر ایسے ناقدوں اور ادیبوں نے غلط پٹی نہ پڑھائی ہوتی اور الجھایا نہ ہوتا تو یقیناً آج تک ہماری اردو زبان میں بھی کئی بودلئر اور الولیس بریٹرینڈ (برتراں)پیدا ہو چکے ہوتے .لیکن ہمارے ادب، مزہب اور روایت نے قدیم پاپائی روش اختیار کر لی ہے..بڑے پوپ کے ماتحت ایک چھوٹا پوپ اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہوا مقلدین کی " العوام کالانام" جماعتوں پر ختم ہوجاتا ہے…
تخلیقی تجربے تو دور کی بات رہی یہاں یہ مروجہ ہئیتوں کے پاسداران…. ادب کی تازہ اور کھلی ہواوں میں سانس لینے کی اجازت نہیں دیتے ….ملاوں کی طرح یہ لوگ ادب کے کندھے پر بری طرح سوار ہیں.
یہ تو انسانی تخلیقی خیال اور تخیل کی قوت کو معدود سمجھتے ہیں. بالفرض ادبی تجربہ کو انکی من پسند ، خودساختہ یا مانوس شکلوں میں کوئی ڈھال بھی لیتا ہے تو یکسانیت کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ آنے والا نہیں.. میں نہیں کہتا بلکہ ہماری ادبی تاریخ یہی کہتی ہے…
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...