یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے سماج نے مستقل رسمی صورت اختیار کر لی ہے… اور اسکی سیاست کے زیرِ سایہ پنپنے والے ادب نے بھی نام نہاد اور مصنوعی ہئیتِ مجموعی دھار لی ہے… ہماری ساری قوتیں، اوقات…انفرادی شخصیت کو تحلیل کرکے ،فراموش کر کے سب کی طرح بن جانے کے عمل میں گرفتار ہوکر رفتہ رفتہ، ہمارے نامشخص یا غیر آدمی بننے میں صرف ہو جاتی ہیں ….کیا یہ سچ نہیں ؟
پروٹو ٹائپ اور ماڈل کے زمانے جاچکے ہیں آج انفرادی تشخص کی تعمیر کی ضرورت ہے.اور انسانی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے.نہ کہ سادہ لوح لوگوں کو بے ضرر اور بے شناخت بنانے کی یا پھر انہیں قربانی کے قلادہ پہنائے گئے پالتو جانور بنانے کی …..
کھانا پینا اور رسوم کی گردان کرنا ہو. یا پھر مروجہ چوکھٹوں اور فریموں کے اندر رکھ کر لوگوں کو رسمی تعملیات دینا، ساون کی مینڈکوں کی طرح مل کر ٹرانا…… بہائم کی طرح غولوں اور جھنڈوں میں بٹ کر رہنا…… دراصل یہ حربے جہل کو فروغ دینے کے مترادف ہیں.
ہمارے نام نہاد ادبی جدت پسند حضرات ، بھی تو در اصل انہی لوگوں جیسی رٹی رٹائی ہوئی باتیں دہرا رہے ہیں.. اُنکی ظاہری وضع ملبوسات ہیتیں وردیاں ہوں یا اِنکے الفاظ جملے …اظہارات، خیالات تشبیہات. استعارے وغیرہ محض تقلید اور کلیشہ پردازی کی مختلف صورتیں ہیں.
. رسوم کے اہتمام میں میں یہ اقوامِ جاہلین ایسی احتیاط برتتی ہیں کہ اگر کسی فرد میں کہیں سے سے کوئی انفرادیت کا پہلو جھلک اٹھتا ہے تو فوراً یہ لوگ اس ٹیلنٹیڈ شخص کے پیچھےپڑجاتے ہیں یہ مجہول قومیں ہیں انکی" نناوے اشاریہ نناوے "فیصد آبادی "پا در ہوا "نامشخص لوگوں پر مشتمل ہے. یہ عہد حاضر کی ہر زندہ اور ضروری ایکٹیویٹی کے مخالف ہیں اوراسکو سماج اور معاشرے کے پہلے سے وضع کردہ کہیے یا پھر گھسے پٹے مفروضہ جات کے مطابق چیک کرکے فوراً بدل دینے کی کوشش کرتے ہیں .
یہ قنوطیئے
یہ مقلدیئے
یہ قدامتیئے…
یہ نحوستیئے
عالمی انسانیت اور بین الاقوامی ادب کے جسم و جثہ پر ناسور بن چکے ہیں مقلدینِ محض کی یہ جماعتیں ہر ملک میں پائی جاتی ہیں لیکن ایشیا افریقہ اور دوسری رموٹ ورلڈ میں بکثرت ہیں اور حکمفرما… انکے مزاہب الگ ہوگر بھی ایک ہی جیسی تضیعِ اوقات کے منابع ہیں.اور انسانوں اور انکی ودیعتی صلاحیتوں کو پاتال میں لے جانے کے زمہ وار ہیں….بالکل تخلیقی ہیں ہی نہیں یہ لوگ … ان خود رو جھاڑیوں نے ادویاتی پودوں جن سے میری مراد نئی نسلیں ہیں کو محضرِ خطر میں لا کر رکھ دیا ہے
اس سے پہلے کہ ہماری نئی نسلوں کی تخلیقی قوتیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجائیں اور ہمارا مستقبل معدوم ہوجائے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے.