اُنیسویں صدی میں ادبی مراکز میں احساس برتری کا جنوں ایسا تھا کہ دور دراز علاقوں کے تخلیق کاروں کو مقامی ، مضافاتی یا چھوٹے شہروں کے ادیب کہہ کر ادبی سکون محسوس کیا جاتا تھا۔ سترھویں صدی کے انگریزی ادب میں لندن سے ادباء کو سکاٹ لینڈ، آئر لینڈ کے ادباء کو کم درجہ دیا جانے لگا ۔ ایسے سکاٹش ادیبوں نے سر والٹر سکاٹ ، آئرش ادیبوں نے ویلیم بٹلر ، W.B. Yeats کو قومی شاعر بنانے کا اعلان کیا۔
1947 سے پہلے یعنی پاک بھارت آزادی سے قبل ۔۔۔۔ اگرچہ دبستانِ لکھنو ، دبستانِ دہلی ، دبستانِ رام پور اور پھر کسی حد تک دبستانِ لاھور کا چرچا تھا۔ مگر آزادی کے بعد ریڈیو اور اخبارات کے مرکز ھونے کی وجہ سے لاھور کو ادب کا مرکز قرار دے کر باقی علاقوں کے ادیبوں کو مضافاتی ادیب کہنا شروع کر دیا گیا۔
ردِ عمل کے طور پر دبستانِ لاھور کے مقابلے میں دبستانِ کراچی بھی منظرِ عام پر آیا ۔ ڈاکٹر سیلم اختر نے دبستانِ سرگودھا کا خاکہ پیش کیا ( اگرچہ بعد میں وہ اس سے انکاری ہو گئے ) مگر میری تحقیق کے مطابق ماہنامہ کامران کی فائلوں میں انور گوئندی نے سکول آف سرگودھا کا ذکر کیا ہے ۔ لہذا وہی اس سکول آف تھاٹ یا دبستان کے دریافت کنندہ ہیں ۔
سرگودھا، جہلم اور چناب کے درمیاں خطے میں واقع ھونے سے دونوں دریاؤں کا اثر یہاں کے باسیوں خصوصاً ادیبوں پر نمایاں ہے ۔ اگرچہ ماضی میں احمد ندیم قاسمی ، حافظ یوسف آزاد ، ڈاکٹر وزیر آغا ، غلام جیلانی اصغر ، انور گوئندی اور رشک ترابی اس قافلہ ادب کے مسافر رہے ہیں مگر اب بھی ادب کے سوتے خشک نہیں ہوئے ۔ اب بھی ڈاکٹر شیخ محمد اقبال، یوسف خالد ، افضل گوہر راؤ ، شاکر کنڈان ،ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، ڈاکٹر عابد سیال ، ڈاکٹر شفیق آصف، خالد یوسفی ، نجمہ منصور ، ثمینہ گل ، منزہ گوئندی ، ذوالفقار احسن ، ڈاکٹر عابد خورشید اور عاشر وکیل راؤ اس شعری روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ اور جب اس چمن سے ارشد محمود ارشد کا چوتھا شعر مجموعہ کلام بساطِ زیست نظر نواز ہوتا ہے تو مسرت بھی ہوتی ہے اور طمانیت بھی کہ سرگودھا میں شاعری ابھی زندہ ہے
اگرچہ ارشد محمود ارشد کی بساطِ زیست غزلوں پر مشتمل ہے مگر اس میں موضوعات کا تسلسل بھی ہے محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے جو قدیم اور جدید شعراء کا موضوع سخن رہا ہے کبھی یہ بند لبوں کی دہلیز پر آ کر دم توڑ دیتا ہے اور کبھی یہ جذبہ موجود حسیات اور لمس کی حد تک پہنچ جاتا ہے مگر ارشد محمود ارشد نے جدید لہجے میں زندہ لوگوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے ۔
دل سمندر سے بن گیا صحرا
تُو نے بخشی نہ پیار کی بارش
ترے دم سے ہے رونق جسم و جاں کی
وگرنہ اُڑ رہی تھی خاک مجھ میں
لوگ رستہ بھٹک ہی جاتے ہیں
یہ محبت بھی ایک جنگل ہے
تُو جہاں پھینک کر گیا تھا مجھے
دیکھ اب بھی وہیں پڑا ہوں میں
اسی کا پوچھتا ہوں ہر گزرنے والے سے
ترا مکان کہ جو اس گلی میں تھا ہی نہیں
مگر ارشد کے اشعار محض محبت کے لافانی جذبے کی عکاسی تک محدود نہیں۔ اس کی غزلوں میں سماجی شعور کی عکاسی ، معاشرے میں پھیلی ہوئی نفرت ، طبقاتی کشکمش اور معاشرے کی اصلی تصویر بھی ہے۔
مداری بس تماشا کر رہا تھا
مگر بچہ جمورا مرا رہا تھا
وہ جو فٹ پاتھ پر اوندھا پڑا ہے
کبھی اس شخص کا بھی گھر رہا تھا
رعایا نیند سے بیدار ہو گئی جب بھی
تو پھر یہ ظلم کی سرکار گرنے والی ہے
ایک راہزن نے لوٹ لی ارشد
دن کی ساری کمائی رستے میں
ارشد کی شاعری کا اسلوب جدید بھی ہے اور عام فہم بھی جس سے قاری کو ابلاغ کے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جدیدیت کے اس دور میں ارشد کی غزلوں میں غالب اشعار ایک نئے استعارے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ اور یہ استعارہ پرندہ ، شجر ، بوڑھا پیڑ ، پھول ، تتلیاں ، گھونسلا ، اُڈاری ، کونج ، سایہ ہے ۔ دراصل آج کل کی مصروف ترین معاشی جدوجہد جس میں ملکی اور بین الاقوامی وبا اعلیٰ حاکمیت کی خواہشات ، جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والی اقوام کو زیرِ تسلط کی خواھش سب سے زیادہ ایک فرد کا اپنے خاندان کے یونٹ سے کٹ کر معاشی طور پر علحیدہ جزیرے کی خواھش کرنا ۔۔۔۔ یہ انسان فطرت سے کٹ کر رہ گیا ہے ۔ انیسویں صدی کے یورپی صنعتی ترقی نے ورڈورتھ ، کولرج و دیگر شعرائے کرام کو فطرت کے اندر جھانکنے اور اس سے دوستی کرنے کی کاوش میں مصروف تھے ۔ اردو ادب میں بہت سے شعراء ساتھ خوشی محمد ناظر اور علامہ اقبال کی بانگِ درا میں ابتدائی نظمیں اور باقیاتِ اقبال ( مرتبہ عبدالواحد معینی اور عبداللہ قریشی) میں شائع شدہ نظمیں شاعر اور فطرت کو ہم آھنگ کرتی نظر آتی ہیں مگر ارشد محمود ارشد کا فلسفہ یہ ہے کہ پیڑ اور بوڑھے پیڑ کو خاص کر علامت کے طور پر پیش کیا ہے
کہ بوڑھے پیڑ کے تیور بدلنے لگتے ہیں
کہیں جو گھاس کا تنکا بھی سر نکالتا ہے
گھنے درخت کے سائے میں جب قیام ہوا
میں پہلی بار پرندوں سے ہمکلام ہوا
اسی کے ہاتھ پر بیعت میں کر کے آیا ہوں
جو بوڑھا پیڑ کڑی دھوپ میں کھڑا ہوا ہے
بوڑھے پیڑ کی چھاؤں کیسے بانٹو گے
آنگن میں دیوار اُٹھانا ٹھیک نہیں
چمکی یوں سرخ دھوپ کہ نقشہ بدل گیا
پل بھر میں ایک پیڑ کا سایہ بدل گیا
عجیب سانحہ گزرا ہے شب کے پچھلے پہر
شجر اُداس ہیں پنچھی بھی گھونسلوں میں نہیں
ارشد کے نزدیک پیڑ آج کا انسان ہے جو خاندان کے بزرگ کا رول ادا کرتا ہے کبھی یہ پیڑ جو برگد بن چکا ہے سکون کی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے جب اس کے سائے میں شاعر بیٹھ کر سکون کی لہروں یعنی پرندوں سے ہم کلام ہوتا ہے اور کبھی وہ پیڑ کو ہمارے معاشرے کا ایک یونٹ یعنی خاندان کا شیرازہ بکھرتے نہیں دیکھ سکتا یعنی وہ اس کی چھاؤں بانٹتے نہیں دیکھ سکتا جب پرندے شجر پر یا شجر میں نہیں ہوتے تو شجر اداس ہو جاتا ہے وہ برگد کو زندگی کی تلخیوں ، تکالیف اور کرب و بلا کے باوجود حوصلہ مند دیکھتا ہے تو پکار اُٹھتا ہے
'' جو بوڑھا پیڑ کڑی دھوپ میں کھڑا ہوا ہے ''
شجر اور برگد کے ساتھ پرندے ہی منسلک ہیں
کوئی تو سانحہ گزرا ہے اس پرندے پر
کہ آدھی رات کو جو گھونسلے سے باہر ہے
کٹ کے جب بھی درخت گرتا ہے
پھڑپھڑاتے ہیں تب پرندے بھی
ادھر آ میں بتاتا ہوں تخیل کس کو کہتے ہیں
اُڈاری اس پرندے کی زمیں سے آسماں تک ہے
پرندے گھونسلوں میں جا چکے تھے
اکیلی کونج ہی کرلا رہی تھی
جب سمجھ آنے لگی مجھ کو پرندوں کی زباں
معترف میری ریاضت کا شجر ہونے لگا
ارشد کے نزدیک پرندہ آج کے انسان کی علامت ہے وہ انسان جو مادی ترقی کی دوڑ میں گم اپنے خاندان سے علحیدہ ھو کر آزاد فیملی یونٹ کے فکر میں گم اور بزرگوں کے تجربے سے فائدہ نہ اٹھا کر موجود فلسفیانہ موشگافیوں میں اُلجھ کر ایک آزاد اور ترقی یافتہ کا روپ دھارنے کی کش مکش میں مصروف ہے ارشد کے نزدیک جب برگد ( جو خاندان کے سربراہ کی علامت ہے) حیات و موت کی کش مکش سے آزاد ہو جاتا ہے تو پرندہ ( جو کہ خاندان کے فرد کی علامت ہے) معاشرہ میں بےیارو مددگار ہو کر پھڑپھڑاتا ہے شاعر پرندوں کی زباں سمجھتا ہے یعنی جب انسانوں کے مسائل الجھنوں اور تکالیف کا ادراک کرتا ہے تو وہ شجر اس کی ریاضت یعنی تجربے کا معترف ہو جاتا ہے
الغرض ارشد محمود ارشد کی '' بساطِ زیست '' میں گرچہ غزل کے تمام لوازمات موجود ہیں ۔۔۔۔۔ جدید لفظیات اور اسلوب کا ادراک بھی مگر سب سے زیادہ ان کی غزلوں کی سادہ بیانی ، سلاست اور قاری کے ساتھ ابلاغ کی آسانی سے یہ مجموعہ کلام موجودہ شاعری میں ایک اہم مقام کا حامل ہے ۔۔