اپنے عہد کی زندگی کا سامنا کرنا اسے تمام خطرات و امکانات کے ساتھ برتنے کا نام جدیدیت ہے۔ ہر عہد میں جدیدیت ہمعصر زندگی کو سمجھنے کے مسلسل عمل سے عبارت ہوتی ہے۔ ترقی پسند جوبے کو جب ادیبوں نے اپنے کاندھوں سے اتار پھینکا تو ہمارے ادب میں جدیدیت کی تحریک نے جنم لیا۔
اردو ادب میں جدیدیت کے رحجان کو خاص طور سے 1960ء کے بعد فروغ ملا۔جدیدیت کے رحجان نے تقریباً تمام اصناف سخن کو متاثر کیا۔ جدیدیت کا باقاعدہ آغاز دراصل بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس وقت ہوا جب عظمت اللہ، نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم اور ان کے بعد میرا جی اور راشد جیسے ادیبوں نے ادب کے بدلتے ہوئے تیور، منفرد لہجے اور ایک نئے زاویے سے اردو قارئین کو روشناس کیا۔
انفرادیت پر جدیدیت نے بہت زور دیا۔ فرد کی آزادی اس کے نزدیک بے حد اہم تھی۔ یہ ایک طرح کا ردعمل تھا کیونکہ آزادی کی جدوجہد، مغربی سامراج کے مظالم، اور اس سے نجات کی کوشش، سرمایہ داری کی لعنتیں، سوشلزم کی برکتیں اور دوسرے عالمی مسائل پر ترقی پسند تحریک نے اپنی نظریں جمائے رکھیں۔ اس کے برعکس جدیدیت نے ان کو اہمیت نہیں دی۔ فنکار نے باہر کی دنیا سے اپنا رشتہ توڑ لیا اور اپنے دل کی دنیا میں کھو کر رہ گیا۔غرض یہ کہ جدیدیت نے فرد کو، اس کی ذہنی کیفیتوں کو، اس کے شعور اور لاشعور کو اہمیت دی۔
یہ تحریک پنجاب کی سرزمین سے اٹھی اور پورے ملک میں چھا گئی۔ اس تحریک نے مقصدیت کے فروغ کا نعرہ بلند کیا اور 1890ء میں محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالی کے ذریعے نیچرل شاعری کی بنیاد ڈالی۔ حالی کے” مقدمہ شعر و شاعری” نے فرسودہ روایات سے انحراف کرنا سکھایا اور نظم گوئی کی ابتدا کی گئی۔ پہلی بات اردو ادب میں یہ بہت بڑی تبدیلی تھی جو آگے چل کر اجتماعی رحجان کی شکل میں رائج ہوگئی اور نئے رجحانات پیدا ہوئے، نئے نئے موضوعات اختیار کیے گئے، نئے نئے اسلوب ڈھالے گئے۔ ہیت اور تکنیک کے نئے نئے تجربے کیے گئے۔ نظم معریٰ، جدید نظم، سانیٹ، ہائیکو اور نثری نظم کے تجربے سامنے آئے اور پھر علی گڑھ تحریک نے علمی اور تہذیب کی حمایت میں اہم رول ادا کیا۔ اس دور میں تاریخ نگاری، ناول نگاری، افسانہ نگاری و انشائیہ کا فن بھی سامنے آیا۔ سر سید اور غالب کی نثر نگاری سے ایک نئی جہت کا آغاز ہوا۔
جدیدیت کے فروغ کا باعث ترقی پسند تحریک کا زوال بنا۔ترقی پسند تحریک کی جو موضوع و مواد پر زیادہ زور دیتے تھے اس کے برعکس جدیدیت نے قنوطیت اور انفرادیت پر، اور ادب میں ابلاغ جدیدیت کے فروغ میں مدد گار ثابت ہوئے۔جدیدیت نے قاری و سامع سے اپنا رشتہ توڑ لیا۔ اس تحریک نے کہا جب سماج کو آپ کی فکر نہیں تو آپ کو بھی سماج کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جو کچھ لکھنا ہے اپنی ذات کے لیے لکھو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جدید افسانہ اور شاعری مشکل چٹان بن کر رہ گئی۔ نئی تنقید نے جدیدیت کی تحریک کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا۔
جدیدیت نے ادب میں فن کو اولیت دی۔اس تحریک کے زیراثر لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے علامت اور تجریدیت پر اتنا زور دیا کہ زندگی کی حقیقت پیچھے چھوٹ گئی۔ جدید شعراء میں میرا جی، نون میم راشد، اختر الایمان، خلیل اور عادل منصوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے کلام میں ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے یہاں نہ تو کلاسیکی کی کی قافیہ پیمائی ہے نہ محض عشقیہ نہ اشتراکیت، بلکہ شاعری کے ان کے دل سے نکلتی ہے۔
جدید اور قدیم شاعروں میں جتنا فرق ہے جدید اور قدیم نثر نگاروں میں اس سے زیادہ فرق تھا۔ قارئین جب روایتی کہانیوں سے اکتا گئے تو اس میں طرح طرح کی تبدیلیاں ہونے لگیں۔ علم نفسیات سے آگہی عام ہوگئی، شعور کے علاوہ تحت شعور اور لاشعور کا سراغ ملا۔ کردار کو اقوال و انصاف سے نہیں بلکہ ذہنی عمل پر توجۂ مرکزی سے پہچانا جاتا تھا۔ علامتوں کا استعمال ہونے لگا۔ تجریدی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ ‘ناکہانی’ کو اردو میں رواج دینے کی کوشش کی گئی۔ کردار نگاری، پلاٹ، وحدت تاثیر اور افسانے کے تمام اجزاء کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ کہانی پر غائب ہونے لگا۔
جدید افسانہ نگاروں میں دو طرح کے افسانہ نگار تھے۔ ایک تو وہ جنہوں نے پنشن کے طور پر جدیدیت کو اپنایا اور جدید کہلانے کے شوق سے پیچیدہ کہانیاں لکھیں۔ دوسرے وہ فنکار تھے جنہوں نے ضرورت کے زیر اثر اپنی کہانیاں لکھیں۔ ضرورت کے زیر اثر لکھنے والے اہم افسانہ نگاروں میں سریندر پرکاش، بلراج مینرا، انور سجاد، قمر حسین، سلام بن رزاق وغیرہ اہم ہیں۔
جدیدیت کے افسانوں میں خارجی عوامل سے زیادہ داخلی کیفیت پر زور دیا گیا۔ تجرید، علامت اور استعارے کے سبب افسانہ شاعری کے قریب نظر آنے لگتا ہے۔
افسانے میں خود کلامی کے عنصر بڑھنے لگے۔ نئے نئے رحجان اور فکری رویوں نے پرورش پائی۔ اظہار کے پیکر اور اسلوب بدلے گئے۔ کردار اور کہانی پن کے ساتھ بیانیہ بھی ختم ہونے لگا۔ افسانے میں عام طور پر بندر، کتا یا پھر پرندوں کو علامت کے طور پر استعمال کیا جانے لگا جیسے کہانی ایک معما نظر آنے لگی۔
نئی تنقید نے جدیدیت کی تحریک کو پروان چڑھانے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ جدیدیت کے زیر اثر لکھنے والے فنکار قاری کی پرواہ کیے بغیر اپنی تخلیقات پیش کرنے لگے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جو ہمدردی کے ساتھ نئی تخلیقات پر غور کرے۔ پروفیسر آل احمد سرور نے یہ فرض ادا کیا۔ ان کے علاوہ پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر شمیم، وہاب اشرفی، باقرمہدی، ابو کلام قاسمی نے جدیدیت کی طرف خاص توجہ دی۔
جدیدیت کے تعلق سے مختلف اور متضاد باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ جیسے کہا گیا کہ جدیدیت ایک رجحان ہے، ایک فیشن ہے، ایک فارمولا ہے، فراڈ ہے، ترقی پسند کی توسیع ہے، ترقی پسندی کی ضد ہے، مغرب سے مستعار ہے، روایت اور بغاوت کا استحکام ہے، ایک مستحسن اور خوشگوار اقدام ہے، ایک تاریخی تقاضا ہے، جس کا انکار ممکن نہیں وغیرہ وغیرہ۔اس قبیل کی باتوں کا قطعیت کے ساتھ اثبات یا انکار مشکل ہے۔ جدیدیت کی شناخت اس کے رویہ سے ہوتی ہے جو کسی تخلیق کو قدیم یا روایتی رنگ سے جدا کرکے اس میں ایک نئی اور تازہ احساس کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ جدیدیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ادبی اظہار کو وقت یہ والوں کا پابند نہ بنائیں۔جدید دور کا انسان نظریے کی جکڑ بندی سے نکل کر زندگی کے حقائق کو اپنی نظر اور اپنے تجربے کے وسیلے سے دریافت کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جدیدیت کو ترقی پسندی کی توسیع تسلسل قرار دیا جانا صحیح نہیں۔
بقول منظر اعظمی” اس طرح جدیدیت کی تحریک مشہور لایا عمل کی تاریخ نہیں، اس کی بنیاد انفرادی احساسات، تجربات اور عصری حقائق کو براہ راست تخلیقی سطح پر برتنے کی کوششوں پر ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس میں مختلف سمتوں کے فکری دھاگے آکر جدیدیت یا ان کے ایک بڑے دھارے میں شامل ہو گے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...