تنقید کیا ہے تنقید کے چند اصول
اصول تنقید سے مراد ادبی تنقید ہے۔ فن پارے کو دو پہلوؤں سے دیکھا اور پر کھا جا تا ہے۔( ۱ )اس میں کیا پیش کیا گیا ہے۔ ( ۲ ) کس طرح پیش کیا گیا ہے۔اس کیا اور کیسے ؟ کے لیے ہماری تنقید میں دو نام موجود ہیں۔ مواد اور بیت، فن پارے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نقادانہیں الگ الگ کر کے دیکھتے ہیں۔
ادبی تنقید کا پہلا کام یہ دیکھنا ہے کہ فن پارے میں جو تجز یہ پیش کیا گیا ہے یا جو جذ بہ یا خیال پیش کیا ہے اس کی کیا اہمیت ہے۔ادبی تنقید کا اگلا قدم یہ دیکھنا ہے کہ فنکار اپنے تجربے کو موثرانداز میں پیش کر سکا ہے یا نہیں۔ ادبی تنقید کا مقصد ایسے اصولوں اور زادیوں کو مدون کر ناہو تا ہے جن کی مدد سے ادبی نگارشات کے حسن و قتح کے در جات متعین کئے جاسکیں۔ یہ اس معرفت اور بصیرت کا نام ہے جس کی بنیاد پر شعر وادب کی تفسیر وتفہیم قائم ہوتی ہے ۔ادبی تنقید فن کار کے فکری ارتقاء کا سراغ لگاتے ہوۓ ادب پارے کے محاسن و مصائب کا تجز یہ کرتی ہے ان کے مقام ومر تبہ کا تعین کرتی ہے جس کے لیے نقاد فنکار کی سوانح، ذہنی ساخت اور افتاد مزاج سے واقفیت حاصل کر تا ہے۔ کہ فنکار نے کس ماحول میں پرورش پائی ہے اور اپنی تصنیف میں وہ جس معاشرے کو پیش کر رہا ہے وہ اس کی نجی زندگی سے کس حد تک مناسبت رکھتا ہے۔ تنقید کا مقصد محض تعریف یا تنقیص نہیں ہے بلکہ ادبی شہ پارے کے روشن اور تاریک دونور پہلوؤں کو دیانت داری سے بیان کر دیتا ہے۔ تخلیق کو تنقید کی کسوٹی پر پر کھنے کے تین عناصر ہیں۔( ۱ ) تشریح یا تعارف( ۲ ) حکم یا فیصلہ ( ۳ )تر تیب یا تعین قدر۔ ہر دور میں ادب کو پر کھنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کے معیار بدلتے رہے ہیں۔ بھی خارجی محاسن و مصائب تلاش کئے گئے ، عروض و قواعد حرف و نحو ، اور فصاحت و بلاغت پر زور دیا گیا تو بھی ادبی فن پارے کی زر میں لہروں کی چھان بین پر توجہ صرف کی گئی۔ بعضوں نے ادب کو محض دل بہلانے کی چیز ، تفر یح و انبساط کاذر لیہ سمجھا۔ تو کچھ لوگوں کا تصور یہ رہا کہ ادب زند گی کا آئینہ ہے۔ بعض اس کا تعلق نفسیاتی خواہشوں اور ذہنی الجھنوں سے جوڑتے ہیں۔ بعض اس کے تمام تانے بانے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات سے جوڑتے ہیں۔ بہر حال نئے اصولوں اور پرانے نظریوں کی کش مکش اور متضاد پہلو برابر رواں دواں رہے ہیں اور ان ہی مثبت اور منفی پہلوؤں کے تحت قوت نفد وانتقاد کو فروغ ملا ہے۔ بنیادی طور پر تنقید کی دو شقیں بتائی گئی ہیں۔ نظریاتی اور عملی، نظریاتی تنقید اصولوں سے بحث کرتی ہے۔ ر عملی تنقید میں ان اصولوں کے پیش نظر تخلیقی شہ پارے کو پر کھا جا تا ہے۔
تنقید کے لغوی معنی کسی چیز کی چھان پھٹک اور جانچ پڑتال ہے۔ ادبی اصطلاح میں تنقید ، بے لاگ جانچ پڑ تال اور امتیازیات کے جذبے سے بلند ہو کر تعین قدر و مقام کا نام ہے۔ تنقید تحلیل و تجربه ، ترجمانی و تفسیر ،ادراک حقیقت، اور ادبی محاسبہ کانام ہے۔ مجموعی طور پر تنقید ادب کی ماہیت اس کے ماخذ و محرکات اور اثرات کا سراغ لگا کر خو بیوں اور خامیوں کے پیش نظر زی تجلیل، اور معروضی استدلال کے ساتھ ادب کی تاریخ میں اس کے مقام متعین کرتی ہے۔
تنقید کے سلسلے سے بعض مقولے ۔
تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی نا گز یہ ہے جتنی سانس۔(ٹی ایس ایلیٹ) ۲ ۔ تنقید نگار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو ادب اور آرٹ میں نا کامیابی ہوتی ہے۔(ڈزر بیلی) تنقید نگار کے لیے ضروری ہے کہ اس کے دماغ میں کئی دماغوں کی صلاحیت یکجا ہوں۔
(لوئس گازی مین)
۔ نقاد ایک ایسی کھی ہے جو گھوڑے کو ٹال پلانے سے روکتی ہے۔( چیخوف) تنقید ادب کی زلفوں کی جوں ہے۔(ٹینی سن)تنقید ادب کے جسم پر کوڑھ ہے۔ (فلا بیر)تنقید قلیدس کا خیالی نقطہ یا معشوق کی موہوم کمر ہے۔(کلیم الدین احمد) ۔ میں تنقید نگار کی بڑی عزت کر تاہوں اس لیے کہ اسے شعر وادب کا ضمیر مجھتا ہوں۔
(رشید احمد صدیقی)
تنقید کا ارتقاء اور اہمیت
اردو میں تنقید کی ابتداء یوں تو حالی کے مقدمہ شعر و شاعری سے ہوتی ہے لیکن اس کے ابتدائی نقوش تذکروں میں بھی نظر آتے ہیں۔ بالخصوص محمد حسین آزاد کی آب حیات تذکرے لکھے گئے پھر شعراء کے فقہاء اور صوفیوں کے اکا بر علم اور احباب فن کے تذکرے لکھے گئے۔ ’’تذکرۃ المحد ثین“ ’’تذکرۃ المتعالمین“ ”سیقیات الصوفیاء“ جیسے تذکرے علمی روایت اور اس کے تسلسل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ تذکرہ کا تاریخ سے گہر ارشتہ ہے اس لیے کہ اس کے ذریعہ افراد کی بھی تاریخ مر تب ہوتی ہے۔ ادوار کی بھی اور تحریکات کی بھی۔ شعراۓ اردو کے سلسلے میں جو تذکرے لکھے گئے ان میں ادوار کی تر تیب قائم کی گئی۔ یہ اس طور پر کہ مختلف زبانوں کے اہل فن کو ایک خاص دور میں رکھ لیا گیا اور پھر طبقات کی تقسیم زمانه به زمانہ ہوتی رہی، ”محزن نکات“ ( قائم) تذکرہ شعراۓ اردو ( میر حسن) تذکر و جلوه خضر ( سفیر بلگرامی ) اس نوعیت کے تذکرے ہیں جن میں تذکرے کے ساتھ ایک گوناں تاریخی حیثیت کا تصور بھی موجود ہے۔ زیادہ تذکرے حروف ہجہ کی ترتیب سے لکھے گئے ہیں۔ تذکرہ نگاری کا بنیادی مقصد اچھے اور پسندیدہ اشعار کی فراہمی رہا ہے ایسے تذکروں کو ہم مختلف شعراء کے قدیم انتخابات سے وابستہ کر سکتے ہیں۔ اگر چہ یہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر کا کوئی اچھا انتخاب اس میں مل جاۓ۔ موجودہ دور میں مالک رام نے تذکرۃ المعاصرین مرتب کیالیکن شعراء کے تذکرے افسانہ نگاروں کے تذکرے، ناول نگاروں کے تذکرے، محققین اور ناقدین کے تذکرے مرتب نہیں ہوۓ۔ غالباب یہ ریحان پسند یدہ نہیں رہار دو میں نثر نگاروں کے تذکرے بھی نہیں ملتے باستثناء خواجہ عبد الرؤف عشرت لکھنوی کے تذکرے ’’ آب بقا‘‘ کے علاوہ اس میں اردو کے اہم نثر نگاروں کا تذکرہ موجود ہے ۔ مولانا محمد حسین آزاد جوار دو کے ’منفر دنثر نگار اور انشاء پر داز ہیں، نے تذکرہ آب حیات قلم بند کیا ۔ اس میں شمالی ہند میں ار دو شاعری کی اپنے دور تک ادواری تاریخ پیش کی ہے اور منتخب شعراء کا تذکرہ کیا ہے۔ اردو میں شعر و سخن کے تذکرے اور در بار و خانقاہ کی شعر و شعور سے د چپی کافی عام رہی۔ اور ہماری زبان نے ارتقاء کے ابتدائی مراحل دو تین صدیوں میں پورے کئے ۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ وہاں شعراۓ اردو کا کوئی تذکرہ میر اور قائم کے زمانے تک نہیں لکھا گیا۔ شمالی ہند بالخصوص دہلی میں اول کس نے تذکرہ لکھا اس کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ میر قائم اور گردیزی ( تذکرۂ ریختہ گویان) نے اردو شعراء کے تذکرے لکھ کر ایک نئے دور کا آغاز ضرور کیا۔ میر نے اپنے تذکرہ میں غالبا دانستہ یہ بات مسلم ہے۔
( ۱۸۸۰ ء) میں۔ حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر اردو تنقید کی اتبداء کی تو دوسری طرف اسی عہد میں خبلی نے شعر انجم اور موازنہ انیس و دبیر لکھ کر تنقید نگاری کو فروغ دیا۔ حالی اور شبلی کی تصانیف میں مغرب و مشرق دونوں کے تنقیدی اصولوں سے استفادہ ملتا ہے اور ان میں عملی اور نظریاتی دونوں تنقید میں پیش کی گئی ہیں۔ حالی اور شبلی کے بعد وحیدالدین سلیم کے افادات ‘‘اور امداد امام اثر کی ’’کاشف الحقائق میں تنقید کے نمونے ملتے ہیں ۔ان ناقد ین کے بعد اردو تنقید کو فروغ دینے والوں میں بریج موہن دتاتریہ کیفی (’’منشورات، کیفیہ “) محمود شیرانی ( تنقید ) مسعودسن رضوی ادیب ( ہماری شاعری ) حامیسن قادری( تاریخ داستان اردو)
عبد القادر سروری(جدیدار دوشاعری) نیاز فتح پوری(انتقادیات اہم ہیں۔ اس عہد کے تنقید نگاروں میں سید سلیمان ندوی(نقش سلیمانی) عبد الر حمن بجنوری ( محاسن کلام غالب، با قیات بجنوری محی الدین قادری زور (روح تنقید اور ار دو کے اسالیب بیان )رشید احمد صدیقی (طنزیات دمضحکات)، اور شیخ محمد اکرام (غالب نامہ ، شبلی نامہ کو بھی
اردو تنقید کے ارتقاء میں اہمیت حاصل ہے۔ شبلی اور حالی کے فورا بعد اردو تنقید کو اعلی معیار سے روشناس کرانے والوں میں مولوی عبد الحق کا نام سر فہرست ہے۔انہوں نے اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیاء اکرام کا حصہ ، داستان باغ و بہار، میر تقی میر ، مسدس حالی، میں عالمانہ تنقید کا نمونہ پیش کیا۔ اردو تنقید کو آگے بڑھانے والوں میں محمد حسن عسکری ( تاریخ ادب اردو اور اعجاز حسین(مختصر تاریخ ادب اردو، اور نئے ادبی رمانات) یوسف حسین خاں (روح اقبال، اردو غزل، غالب اور آہنگ غالب ، حافظ اور اقبال کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس دور میں ادبی تنقید نے بڑی پیش قدمیاں کیں اور ایسے ناقدین سامنے آۓ جن کی کاوشوں سے اردو تنقید کو بڑی ترقی حاصل ہوئی۔ گر چہ زیادہ تر میلان مغربی نصب العین کی طرف رہا اس سلسلے میں کلیم الدین احمد نے سب سے آگے بڑھ کر پیروئی مغرب کا ثبوت دیا۔ انہوں نے اردو شاعری پر ایک نظر اور اردو تنقید پر ایک نظر لکھ کر تنقید کے دامن کو وسیع کیا۔ ان کے بعد آل احمد سرور نے مشرق و مغرب کے ادبی تصورات سے مرکب ایک متوازن انداز تنقید پیش کیا۔ تنقیدی اشارے، نئے پرانے چراغ، تنقید کیا ہے ، ادب اور نظریہ ، ان کی تنقید کے بہترین نمونے ہیں۔ احتشام حسین ار و وادب میں اشتراکی تنقید نگاری کے امام ہیں لیکن ان کی تنقید میں محض مار کسی جدلیات واقتصادیات کی تبلیغ نہیں ہے۔ بلکہ ان میں معروف تہد ہی اقدار کے ساتھ ساتھ فتی نقاضوں کا شعور بھی نمایاں ہے۔ تنقیدی جائزے ،روایت اور بغاوت، تنقید اور عملی تنقید ، جیسے مجموعوں کے مضامین ان کی تنقیدی بصیرت پر دلالت کرتے ہیں۔اختشام حسین سے پہلے اختر حسین رائے پوری نے ادب اور زندگی کے رشتے پر اشتراکی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی تھی۔ اور ان سے قبل ادب اور زندگی پر مجنوں گور کھپوری کے خیالات نے سماجی حقیقت نگاری پر مشتل سائنٹفک کہلانے والی تنقید نگاری کی داغ بیل ڈالی تھی۔ احتشام حسین کے معاصرین میں ممتاز : حسین کی تنقید نگاری فلسفہ و تاریخ کے مار کسی نقطہ نظر سے معروف ہے اس سلسلے میں ان کے مجموعہ مضامین ”نقد حیات“ بالخصوص قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ’’نئی قدریں“ ”ادبی مسائل“ ”نے تنقیدی گوشے “اور ”ادب و شعور ‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔
اس دور میں جن لوگوں نے ادب کا صاف ستھرا، جامع و متوازن مطالعه بالیدہ شعور ، اور عمدہ ذوق کے ساتھ کیا ان میں ایک نمایاں اور اہم نام و قار عظیم کا بھی ہے۔ جنہوں نے نیا افسانہ، اور داستان سے افسانے تک لکھ کر فکر انگیز خیالات پیش کئے و قار عظیم کے ساتھ ساتھ اختر اور مینوی عندلیب شادانی، عزیز احمد ، اور خواجہ احمد فاروقی، کو بھی اس دور میں اہمیت حاصل ہے۔ تاثراتی و جمالیاتی کہی جانے والی تنقید کو مقبولیت عطا کر نے والوں میں فراق گور کھپوری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ”اردو کی عشقیہ شاعری میں اس کے اچھے نمونے پیش کئے ہیں۔ عابد علی نے ”شعر اقبال“ ”اسلوب اور انتقاد “ لکھ کر عالمانہ تنقید نگاری کا ثبوت دیا۔ اردو میں نفسیاتی تنقید کو فروغ دینے والوں میں شیخ محمد اکرام، شیبہ الحسن، وز می آغا ،اور سلیم احمد کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
ان ناقدین کے علاوہ بھی بہت سے ایسے ناقد ہیں جن کاذکر یہاں ممکن نہیں۔ ان ناقدین نے مشرق و مغرب کے تنقیدی نظریات کو سامنے رکھ کر جو مطالعہ پیش کیا وہ اردو تنقید کو ایک شان عطاکر تا ہے۔
اسلوبیاتی تنقید
بیسویں صدی کے وسط میں کچھ ایسے نقاد سامنے آئے جنہوں نے فن پارے کی اہمیت کو تسلیم کیا اور اس کے داخلی تنظیم اور لسانی ساخت کے مطالعے پر اپنی تنقید کی بنیاد رکھی جسے نئی تنقید یا عملی تنقید کا نام دیا گیا۔ ایسے نقادوں میں آئی اے رچرڈز ، ولیم امپسن، رینے دیلک اور آسٹن وین کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
بیسویں صدی میں لسانیات کے فروغ کے ساتھ اس علم کی مختلف شاخیں بھی قائم ہوئیں اور اس کا اطلاق مختلف مضامین کے مطالعے میں کیا جانے لگا۔ ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اس نے بہت جلد ایک شعبۂ علم کی حیثیت اختیار کرلی جسے اسلوبیات کہتے ہیں۔ اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید زبان اور اس کی ساخت کے حوالے سے ادب کے مطالعے کا نام ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں ادبی زبان کا تجزیہ یا ادب میں زبان کے استعال کا مطالعہ پیش کیا جاتا ہے اور فن پارے کے اسلوبی خصائص ( Style – Features ) کا تعین کیا جا تا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد فن پارے کے لسانیاتی تجزیے پر قائم ہے کیونکہ اس کے بغیر کسی فن پارے کے اسلوبیاتی خصوصیات کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ضرور ہے کہ اسلوبیاتی تجزیے کے بنیاد لسانیاتی تجزیہ ہے لیکن خالص لسانیاتی تجزیے کو اسلوبیاتی تجزیہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں لسانیاتی تجزیے کے علاوہ اسلوبی خصائص کی شناخت بھی ضر وری ہوتی ہے۔لہذ ااسلوبیاتی تنقید کی تشکیل یوں ہو گی: لسانیاتی تجز یہ +اسلوبی خصائص ،اسلوبی تنقید
اسلوبیاتی تنقید کا آغاز
اسلوبی تنقید کا آغاز ۱۹۲۰ ء سے ہو تا ہے ۔ امریکہ کے ٹامس اے سبیوک کی مر تب کرده کتاب ” Style Language ” کی اشاعت سے اس کے خط و خال متعین ہوۓ ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید کا ارتقا در اصل ماہرین لسانیات اور نقادان ادب، دونوں کی مجموعی کو ششوں کا نتیجہ ہے۔ اردو میں پروفیسر مسعودحسین خاں نے ۔ ، پہلے اسلوبیاتی نوعیت کے مضامین لکھے اور باقاعدہ طور پر اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد ڈالی۔ ”مطالعہ شعر “ غالبا مسعود صاحب کا وہ پہلا مضمون ہے جس سے اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد پڑتی ہے۔ مسعود صاحب نے اسلوبیاتی تجزیے کی معروضیت اور اس کے سائنسی انداز کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی پہلوؤں پر بھی زور دیا ہے اور ادب کے لسانیاتی تجزیے میں رچے ہوۓ ذوق کی ضرورت کو مر ڈف اگر نظم ہے تو معراء نظم ہے یا پابند نظم ؟ اس طرح کے سوالات فن پارے کی خاری ہیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس طرح خارجی ہیئت ہمارے فن پارے کے عام معنوی یا تاثراتی حد ود کو متعین کر دیتی ہے۔ اور یہ بھی بتادیتی ہے کہ ہم فن پارے کا مطالعہ کس سطح پر اور کس نقطے نظر سے کریں۔ لیکن خارجی ہیئت فن پارے کے اصل معنی کا انکشاف نہیں کرتی۔ داخلی ہیت ہمیں اصل معنی کی طرف لے جاتی ہے۔ داخلی ہیئت سے مراد وہ مباحثہ ہے، جو فن پارے کے جسم میں روح کی طرح پنہاں رہتا ہے۔ اور جو الفاظ کے ذریعے اپنی شکل ظاہر کر تا ہے اور مختلف منازل و سد راہ سے گزر تاہوا آخر میں کسی منظم ترکیب یا حل تک پہنچتا ہے۔ داخلی ہیئت فن پارے کی اس مکمل معنوی شکل کو کہتے ہیں جس کے ذریعے فن کار اپنے تجر بے کو ظاہر کر تا ہے۔ لہذ اداخلی بیت فن پارے کے موضوع اور خارجی شکل میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ اس طرح موضوع کا تعلق تجربے سے اور فن پارہ اس تجربے کا وہ حصہ بن جا تا ہے جو نظم یا کسی اور فن پارے کی شکل میں ظاہر ہے۔ اس محصل موضوع اور تجر بہ کے در میان تکنیک یا خار جی ہیئت پل کا کام کرتی ہے۔اس طرح موضوع وہی ہے جو ہیت بن کر ظاہر ہواور ہیت وہی جو فنکار نے محسوس کیا تھا۔ فن کی ہیئت کو اس کی اندرونی زندگی اور اصل معنی سمجھنے کا نظریہ نیا نہیں ہے کولریج اور دوسرے رومانی نقادوں نے ہیئت اور موضوع کو ہم آہنگ یا ہم معنی کہنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن فن کی ہیتی تنقید کا عصری تصور رچرڈس اور اس کے بعد کچھ امر کی نقادوں نے واضح کیا۔ گر چہ رپر ڈس کے بیشتر تصورات کو ہیتی نقادوں نے مستر د کر دیالیکن اس کے نظریات سے یہ نتیجہ بر آمد ہوا کہ فن کے اصل معنی تک پہنچنے کے لیے فن کار کے حالات زندگی ، اس کے محرکات، اس کا ماحول، معاشرت اور نفسیاتی کیفیات کا مطالعہ غیر ضروری اور بے معنی ہے ۔ ہسیتی تنقید کا یہ ابتدائی تصور تھاجس نے تاریخی تنقید کے اصولوں کو چینج دیا۔ سینتی تنقید کا واضح تصور جان کر وریسم نے پیش کیا۔ اس دبستان تنقید میں بنیادی طور پر الفاظ، منی ، اصطلاح لفظوں کی ترتیب اور اس فن پارے میں بیان کردہ داخلی ضروریات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے ۔ ناقدانہ اصولوں کی روشنی میں ادب پارے کے داخلی مزاج اور اس کی خصوصیات کو نچوڑ کر ادب پارے کی اہمیت اور مقام کو واضح کر تا ہے۔
اردوادب میں بیتی تنقید کرنے والے بہت کم نقاد ہیں۔ گوپی چند نارنگ، شمس الر حمن فاروقی ، مغنی تبسم اور مر زا خلیل احمد کے یہاں اس کے نقوش ملتے ہیں۔
کے سوا کچھ نہیں۔ حالی غزل کی مقبولیت کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ صرف عشق و عاشقی کے مضامین سے بھری پڑی ہے۔ اس طرح غزل کے مضامین محدود ہیں۔ بعض الفاظ شراب، صراحی، جام، ساقی و غیر ہ کی تکرار سے پڑھنے والے پر برابر اثر پڑتا ہے ۔ غزل میں محبوب کاعر د ہو نا بھی باعث شرم ہے ۔ حالی نے لفظ و معنی کی بحث بھی اٹھائی ہے اور ابن خلدون کے خیال کو رد کرتے ہوۓ دونوں کی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ لیکن ان میں زیادہ تر جھکاؤ معنی کی طرف ہے۔
نفسیاتی تنقید
نقادوں کا ایک گردہ فنکار کی شخصیت اور نفسیاتی میلانات پر تنقید کی بنیاد قائم کرنے کی کو شش کر تا ہے۔ رچرڈ اور اگڈن نے نفسیاتی تنقید سے غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ نفسیاتی تنقید کے حامی فنکار کے کر دار ’’اس کی شخصیت‘‘ اور ’’ذ ہن ‘‘کا پوری طرح تجزیہ کر کے نتائج بر آمد کرنے کو حقیقی اور با معنی تنقید بتاتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید کی ایک سے زیادہ منزلیں ہو سکتی ہیں۔ کوئی سوانح عمری کی روشنی میں تخلیقات کو پر کھنے پر زور دیتا ہے ۔ کوئی تحلیل نفسی کے سہارے شعور اور لاشعور کی پیچید گیوں کو سلجھانے کی کو نشش کر تا ہے۔اس گروہ کے ماننے والوں کا خیال ہے کہ شخصیت کے بعض اہم اور بنیادی جو ہر لاشعور میں سر گرم عمل رہتے ہیں اور شکلیں بدل بدل کر فن میں سرایت کرتے رہتے ہیں۔ تحلیل نفسی کا بانی فرائیڈ ہے۔اس نے انسانی ذہن کو دو طبقوں میں تقسیم کیا. شعور اور لاشعور ۔ ان دونوں کے در میان جو عبوری طبقہ ہے اس کو تحت الشعور کے نام سے موسوم کیا۔ اس کا خیال ہے کہ دہ خواہشات اور نفسی تحریکات جسے شعوری سطح پر مروجہ اقتدار اور سابی قوانین کی پابندی کے احساس کی بنا پر ہم رد کر دیتے ہیں وہ لاشعور میں ڈوب جاتی ہیں۔ جس کی نوعی سے عموما غیر مہذب، خود غرضانہ اور جنسی ہوتی ہے۔ یہ لاشعوری قوتیں اپنے اظہار کے لیے بے چین رہتی ہیں۔ جس پر شعوری قوتیں روک لگاتی ہیں۔ اس روک ٹوک کے نتیجے میں لاشعوری مواد اپناروپ بدل بدل کر ظاہر ہوتی ہیں۔ اس بنیاد پر فرائیڈ نے ادب اور نفسیات کے رشتے جوڑنے کی کو شش کی۔اس طرح اس کا مانتا ہے کہ ادب کی پر کھ کے لیے تحلیل نفسی اور استفادہ کر ناضر وری ہے تاکہ فنکار کے ذہن اور شخصیت کو سمجھ سکے ۔ تحلیل نفسی نے بعض چھپی ہوئی طاقتوں کا پتا ضرور لگایا ہے لیکن صرف اسی کے سہارے شخصیت اور ذہن کو سمجھنا ممکن نہیں۔ فرائیڈ کے دو شاگردوں ایڈ کر اور یونگ نے اس کے نظریات کو وسعت دی۔ ایڈلر نے احساس کمتری اور احساس برتری کو بھی انسانی ذہن اور شخصیت کو سمجھنے میں معاون تایا۔ اس طرح ایڈ کر معاشرے کی اہمیت کا قائل ہے۔ یونگ شخصی لاشعور کے علاوہ ’’اجتماعی لاشعور “ کے تصور کا بھی قائل ہے۔ اس نے انسان کو دو گر ہوں میں تقسیم کیا ہے ۔ داخلیت پسند ( Introvert ) اور خار جیت پسند ( Extrovert )۔ اس طرح یونگ انسانی ذہن کو ایک متحرک قوت کے طور پر پیش کر تا ہے۔ اردو میں اس کے نمائندہ نقاد مر زاہادی رسوا، میر ابی ، ریاض احمد، شبیہ الحسن، وزیر آغا، سلیم احمد ہیں۔
ہیئتی تنقید
ہر فن پارے کے دو ہنیں ہوتی ہیں ایک خارجی اور دوسر ا داخلی خارجی ہیئت فن پارے کا مشینی ڈھانچہ ہو تا ہے۔ یعنی فن پارہ غزل ہے یا نظم اگر غزل ہے تو مر ڈف ہے یاغیر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ادب نظام تمدن کے لیے ” نشر و اشاعت کاذریعہ ہو۔“اجتماعی شعور اور جمہوری ذہنیت کا نمائندہ ہو۔ مار کس نے پہلی بار اس تصویر پر زور دیا کہ سماجی اور سیاسی رجحانات، طریقۂ پیداوار اور مادی وسائل سے متعین ہوتے ہیں۔ مارکسی ادب کے علمبر داروں نے مادے کے متحرک بالذات اور از تقاء پذ یر ہونے پر زور دیا اور بتایا کہ آرٹ داخلی اور خارجی عناصر کے عمل اور ردعمل کا نتیجہ ہے۔مارکس کے ’’مادی جدلیت“ کے تصور میں اشیاء کو تصورات اور مفروضات سے علیحد ہ وجود قرار دیا گیا ہے اور ادب، خیال اور شعور سب کے سب مادی حقیقتوں کے زیر اثر ہیں۔ مادے کو اولیت دی گئی ہے اور خیال کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔ مارکسی تنقید میں کسی ادب کو جانچتے وقت مادی حالات کو پیش نظر رکھا جا تا ہے۔ مار کسی نقاد میہ دیکھتا ہے کوئی ادبی تخلیق سابی ارتقا کی کس منزل کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ انسانی فکر و شعور کو اس کی تحقیقی صلاحیت کو کس حد تک اجاگر کرتی ہے۔ کوئی ادیب کہاں تک مجلس ترتیب اور ثقافتی ارتقاء میں اپنا فرض ادا کرتا ہے۔ ان باتوں کو پیش نظر ر کھتے ہوۓ مارکسی تنقید ادب کو اس کے مخصوص دور کی طبقاتی تر تیب اور ثقافتی پس منظر میں جانچتی ہے۔ کارل مارکس کا نظریہ ایک طرح سے جرمن فلسفیوں کے ماورائیت Franscendentalism ) کے رد عمل کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ مارکس کہتا ہے کہ زندگی کی ابتداء نہیں بلکہ وجود سے ہوتی ہے۔ مارکسی تنقید کے حامیوں نے تنقید کے معیار قائم گئے۔ طبقاتی کشکش، معاشی عوامل اور سماج کے مادی وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوۓ جب وہ کسی فن پارے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں اصلیت پسندی سابی حقیقت نگاری، اجتماعیت، افادیت، خار جیت، عقلیت اور روح عصر کے جو ہر کو تلاش کرتے ہیں۔ اردو میں ان کے نمائندہ نقاد اختر راۓ پوری،احتشام حسین ، متاز حسین اور قمر رئیس ہیں۔
مارکسی تنقید
کارل مارکس اور اینگلز نے ادب کے قدیم نظریوں کو رد کر کے مار کسی تنقید کی بنیاد ڈالی۔ ان دونوں کا فلسفہ مادیت پر قائم تھا۔ انہوں نے ادب اور آرٹ کے سابی کر دار پر زور دیا اور ادب کی تخلیق کو ”سابی فعل“ سے تعبیر کیا۔ مارکسی خیالات کے حامی ادب میں حقیقت پسندی، اجتماعیت، سائنٹفک انداز فکر اور روح عصر کی ترجمانی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ مارکسیت کے تحت جو تنقیدی نظریہ اکھر ا اس کو ’’انقلابی تنقید کا نظریہ “ بھی کہا گیا۔ کیونکہ مارکس اور اینگلز نے انقلابی ادب کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس میں بور ژواذ ہنیت اور بور ژوا ادب سے بیزاری کا اظہار کیا گیا اور عوامی ادب ( Proletarian Literature ) کا نعرہ بلند کیا گیا۔
لکھی ہے کہ اس سے پیشتر کوئی شخص اس فن کار و شعراء کے سلسلے میں موجد نہیں ہے اور یہ کام پہلے پہل وہ کر رہے ہیں۔
میر اور قائم کے زمانے میں زیادہ تر تذکرے لکھے گئے اور ان کا دائرہ شعری حلقوں تک محدود تھا۔ شعراۓ دکن کاذکر براۓ نام ہی آ تا تھا۔ بعض ایسے تذکرے بھی لکھے گئے جو کسی صنف شعر کو لے کر مرتب کئے گئے جیسے عبد الغفور نساخ کا تذکرہ جو منتخب قطعات پر ؟ مشتمل ہے اور جسے ’’ قطعہ منتخبہ “مکانام دیا گیا ہے ۔ان تذکروں میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے ،ان میں تنقیدی اشارے ملتے ہیں۔ جسے ہم تخصی تنقید سے موسوم کر سکتے ہیں۔ جب ہم تذکروں میں موجود تنقیدی مواد کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد اس مجموعی تاثر سے ہوتی ہے جو ہم تذکروں کی مجموعی روش سے اخذ کرتے ہیں۔اور اس جز کی مد د سے کل تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان تذکر وں کا جابجا انتخاب گر چہ آج کے اعتبار سے شاعر کی بہترین کار کردگی کو نہیں پیش کرتے ۔ اور اس کی فنی دستر س وہ تخلیقی حسیت کی نمائندگی بھی اس سے نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود تذکرے اپنی فنی حدود کے ساتھ قدیم شعراء نے مطالعہ میں ان کے ذاتی حالات اور عصری ماحول کی باز یا فلی میں بہت کچھ مد د کرتے ہیں۔اکثر تذکروں کی زبان جو اٹھار ہو میں صدی کی اول تک لکھے گئے ۔ فارسی ہے اگر چہ موضوع گفتگو ار دو شعر اءاور ان کی شاعری اور اس کے دستور سے تعلق رکھتا ہے۔ تذکرہ نگاروں نے شعراء کے کلام پر جو راۓ دی ہیں ان کا دار و مدار چند صفات یا اصطلاحات پر ہے۔ صفات اور اصطلاحات کے پردے میں راۓ زنی کر نے کے علاوہ بعض شعراء نے اپنے کلام میں ایک آدھ تذکرہ نگاروں نے بطور تمہید یا خاتمہ کتاب یا بعض اساتذہ نے ادبی چشمکوں اور مناقشوں کے سلسلے میں ایسی باتیں بھی کہہ دی ہیں۔ جن سے ان کے اصول فن پر کچھ روشنی پڑسکتی ہے ۔ شعراءار دو کے ان تذکروں سے تنقیدی اصول کا اخذ کرنا قریب قریب نا ممکن ہے کیو نکہ ان تذکروں سے شعراء کے کلام کے نمونے زیادہ ہیں۔ اور ان کے بارے میں جو لکھا گیا ہے وہ چند سطر وں سے زیادہ نہیں۔ لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ان تذکروں سے اردو شعراء کی تاریخ ، اس کی تہذ یہی، لسانی اور ادبی ماحول کی بازیافت اور دیگر اہم حقائق دریافت کئے جاسکتے ہیں۔
تذکروں کی تنقید
تذکرہ کی روایت بہت قدیم ہے ۔ غالبا یونان سے لی گئی ہے ۔ یونان سے یہ روایت عربی کو منتقل ہوئی اور پھر فارسی زبان کے ذریعے اردو تک آئی۔