ہمارے پیارے غلام نبی کمار کی فرمائش پر آج میں اردو کا نثری ادب اکیسویں صدی میں نامی پروگرام میں بمقام شہنشاہ ہوٹل بلیواڑ روڑ سرینگر میں شرکت کا موقع ملا جہاں میں نے اردو ادب کے شیدائیوں کی سجی فخریہ مسکراہٹ دیکھی جناب غلام نبی کمار وادی کشمیر کے ایک ایسے بیٹے ہیں جن کا سب کچھ اردو زبان و ادب کے ارد گرد ہی ہے ہم کہہ سکتے ہیں یہ غلام اردو ادب اردو ادب کا شہنشاہ بننے والوں کی فہرست میں جگہ بنانے کے لئے قابل قدر کام کر رہا ہے
دوران محفل کئی بار اردو الفاظ تڑپتے دیکھئے پر کچھ نقاد اور اردو ادب کے شیدائوں کی صداؤں نے انہیں اپنے دامن لطف میں لے کر چھپا دیا
ڈاکٹر کوثر مزمل ڈائس انچارج تھے جن کا لب و لہجہ قابل داد ہے اور ان کی ہر مقرر کے لئے ایک شعر کے ساتھ انہیں دعوت سخن دینا ان کی شاعری کے تئیں لگاؤ اور الفت کی چغلی کھا رہی تھی بڑے حسیں و دلکش انداز میں سامعین کو محذوذ کئے جارہے تھے
ستیش ومل
جناب ایک کتاب پربتوں کی خوشبو ( جس کے مصنف Parvez Maanous Butt صاحب ہیں ) پر لب کشائی کر رہے تھے ان کا انداز تکلم دلبرانہ تھا اور ان کا اس کتاب پر تبصرہ کچھ ایسا تھا کہ جیسے کوئی ایک کہانی دو پل میں بیان کرکے پوری کہانی کا خاکہ بیان کردے گرچہ اس کتاب کے کچھ اوراق ہی دیکھنے کو ملے جس پر ستیش ومل صاحب تبصرہ کر رہے تھے ایسا لگا کہ مصنف نے اپنے تخیل میں کرب کی اٹھتی ٹھیس اور سوز جگر کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے اور کتاب کی خوبیاں جو سننے میں آئیں تو دل کی تمنا بن گئی اس کتاب کو لازم ہے ایک بار مطالعہ کرلوں
اردو زبان کے الفاظ کے استعمال کی بات کی جائے تو ستیش ومل کی اردو الفاظ پر دسترس نے بے حد متاثر کیا جو اپنے الفاظ کی ادائیگی کے دوران واقعی اردو زبان کی مٹھاس و چاشنی بکھیر رہے تھے ان کے الفاظ کا ترنم سحر طاری کر رہا تھا میرے لئے واقعی یہ ایک زبردست تجربہ رہا
شفیقہ پروین
پروگرام میں پروفیسر شفیقہ پروین جوں ہی اسٹیج پر آئیں تو اردو کی محبت و عشق سے سرشار خاتون نے آتے ہی یہ کہہ کر محفل کو اپنی اور متوجہ کیا کہ
لوگ کہتے ہیں کہ میں تقریر بڑی اچھی کرتی ہوں
پر میں دل کی بھی بہت ہی اچھی ہوں اپنی ہر بات کو زبان پر لانے سے پہلے دل سے گزار لیتی ہوں ان کی اردو ادب اردو زبان پر گرفت مضبوط تھی ہی پر واقعی لگ رہا تھا محترمہ جن الفاظ کا تبادلہ محفل میں کر رہی ہیں واقعی سوز دل کے ساتھ اہل اردو کے لئے قابل قدر مشوروں پر مشتمل گفتگو تھی
مشتاق احمد مشتاق کی مختصر پر بہترین گفتگو بھی قدرے لائق تحسین رہی
نذیر جوہر صاحب
جن کی کتاب کی رسم رونمائی بھی ہوئی نے اپنی گفتگو شروع کی تو احساس ہوا کہ جناب من ایک درد دل رکھنے والے ادیب اور افسانہ نگار ہیں انداز گفتگو جارحانہ انداز کے بجائے دلبرانہ تھا اور خوب صورت پیرائے میں اپنی بات رکھ رہے تھے جیسے ایک صاحب دل اپیل کر رہا ہو دل سے کسی چیز کے تحفظ کے لئے تو ان کی گفتگو اردو زبان و ادب کے تحفظ و ترویج کے لئے ایک بہترین کاوش کہی جاسکتی ہے
اشہر اشرف
ایک بے باک ناقد اور ایک درد مند دل کے مالک محسوس ہوئے جو اپنی بات رکھنے میں کسی لاگ لپیٹ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے حق گوئی بے باکی کا مزاج رکھتے ہیں
مگر کچھ حضرات واقعی الفاظ کا خون کر رہے تھے جیسے ایک صاحب ادیب ہونے کے باوجود اقبال کے شعر کو پڑھنے سے قاصر دیکھائی دیے پر ادب کا بھوت سر چڑھ کر بول رہا ہے ایسا لگا
ساتھ میں جناب طارق شبنم کی زلف اور ان کے لب و لہجہ نے بے انتہا متاثر کئے بنا نہ چھوڑا اور بھائی عرفان کے لبوں کی مسکراہٹ اور ان کی محبت نے عجیب سی اپنائیت کا تصور دیا جسے الفاظ میں بیان کرنا مجھ جیسے کے لئے فلحال ممکن ہی نہیں بقیہ ادیب و دانشور بھی بے انتہا قابل احترام ہیں پر ایک بات جو مجھے سب سے اچھی لگی وہ دوران پروگرام ہر فرد کا انہماک اور خاموش رہنا تھا اور بغیر کسی الجھن کے کمال کی یکسوئی کے ساتھ گفتگو سننا
میرے لئے ایک بہترین تجربہ رہا
“