کچھ لوگ جنہیں انسان چاہتا ہے انجان ہوکر ان کی تحریری صلاحیتوں کو دیکھ کر اور پھر گر اچانک وہ لوگ مہربان ہوجائیں تو خوشیاں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہیں جیسے کہ میرے ساتھ ہوا
ایک ماہ قبل میں نے انہیں فیس بک پر دیکھا تو ایک مسیج کردی ان کو اپنی طرف سے اظہار محبت کے لئے کیوں کہ ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا پھر کچھ یوم بعد انہوں نے واپس مسیج کی اور مجھ سے میرا پتہ پوچھا انجانی سی خوشی ہوئی کہ اتنے بڑے صاحب قلم کا یہ بڑپن پوچھنے پر کہا کہ میری کچھ کتابیں ہیں وہ میں بھیج رہا ہوں پھر ایک روز وہ کتابیں بھی مل گئیں جن میں ان کے رشحات قلم کا کمال جمال یکساں دیکھنے کو ملا گرچہ ابھی تک انہیں پڑھنے کا وقت نہ ملا پر ہر دن ان پر نظر پڑے اس لئے اپنے سامنے ہی رکھ لیں ہیں
آج سے تقریبا بیس سال پہلے میں نے ان کے مضامین پڑھنا شروع کئے جو اکثر اس نام سے کشمیر عظمی کی زینت بنا کرتے ہیں ۔۔۔ چلتے چلتے ۔۔ اب انہوں نے ان مضامین کو کتابی شکل دی ہے اور ایک اچھی خاصی کتاب تیار ہوئی ہے ان کے جو مضامین میں نے پڑھے ہیں میں اپنی حد تک سمجھتا ہوں کہ یہ مضامین قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں پڑھنے کے دوران ایسا لگتا ہے کہ میں خیالوں ہی خیالوں میں اس تحریر کے کرداروں کو محسوس کررہا ہوں جیسے میرے سامنے ہی یہ سب ہو رہا ہو ان کی تخلیقات ادبی اصلاحی معاشرتی سماجی ہر طرح سے آتی رہتی ہیں ان کا نام ہے اردو ادب کی دنیا میں اور مجھ جیسے ہزاروں قاری ان کا مطالعہ کرتے ہوں گئے میں نہیں جانتا ان کے احساسات کیا ہوں گئے مگر مجھے ان کی تخلیقات سے والہانہ لگاؤ ہے میں ان کی اکثر تحریروں میں وہی چاشنی وہی سوز محسوس کرتا ہوں جو کبھی تجلی کے مشہور و معروف مسجد سے میخانے تک میں محسوس کرتا تھا وہاں کردار بھی ہوا کرتے تھے پر یہاں بنا کرداروں کے ہی کام کیا جارہا ہے اس کے پیش لفظ سہیل سالم لکھتے ہیں
بسمل صاحب کے کالموں کا مطالعہ کرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے کالم نگار قاری کو لطیف اور لطیف تر رومانی ماحول اور فضا میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے پھر اس کے بعد زندگی کی تلخ سچائیوں انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو ذہن میں نقش کرتا ہے
صاحب موضوف افسانہ نگار بھی ہیں جو میرا میدان نہیں ہے اس لئے اس پر بات کرنا میرے بس میں ہے ہی نہیں اس سلسلے میں بھی ایک کتاب خوشبو کی موت کے نام سے ملی جس کے پیش لفظ لکھنے والے مشہور و معروف معالج ڈاکٹر نذیر مشتاق لکھتے ہیں کہ
جناب شہزادہ بسمل اپنے افسانوں میں واقعات کی جس فنی مہارت اور پُر اثر انداز میں منظر کشی کرتے ہیں اُس کا اندازہ افسانے پڑھنے کے بعد ہوتا ہے ۔جملوں کی ساخت اور استعاروں کا استمال مصنف کو اتنا اچھا آتا ہے کہ افسانوں کا ہر جملہ قاری کے دل کے تا روں کو چھیڑ کر اس کے جذبات و احساسات اور امنگوں میں خاموش ارتعاش پیدا کرتا ہے ‘‘۔(خوشبو کی موت ص۱۳
اس کے علاوہ ایک کتابچہ جھیل ڈل کی فریاد جس کے ابتدائی اقتباس بنام یہ خوبصورت کتاب میں
‘‘ ڈاکٹر جوہر قدوسی یوں رقم طراز ہیں
’’صدیوں پرانی کہانی جو اس جھیل کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر ہما رے سامنے پیش کرتی ہے ۔ڈل کی اس ایک کہانی میں صدیوں پر پھیلے ہوئے عہد بہ عہد کی تہہ درتہہ دسیوں کہانیاں جنم لیتی ہیں اور پڑھنے والے کے ذہن کو ایک نئے ہی عالم میں پہنچا دیتی ہیں ۔ایک ایسا عالم جہاں جھیل ڈل خود اپنی زبان میں ہماری کوتاہ اندیشیوں پر خندہ زن ہو کر کبھی ہنسنا شروع کردیتی ہے اور کبھی اپنے تئیں ہمارے نا روا سلوک پر ماتم کرنے لگتی ہے ۔کہیں یہ جھیل مسرور و مخمور ہو کر فخر کے ساتھ اپنے کارناموں کا ذکر کرنے لگتی ہے اور کہیں اپنے دامن کے چاک ہونے پر مغموم و مجروع ہو کر رونا شروع کر دیتی ہے ۔کہیں پر اپنے زیر سایہ ہو رہی سرگرمیوں کی چشم دید گواہ بن کر ان کی دلچسپ رودار سناتی ہے اور کسی جکہ تاریخ کے اتھاہ سمندر میں غوطہ لگا کر چند موتی نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے ‘‘۔
(خدا کے لئے مجھے بچائوص۷)
ایک اور کتاب رقص بسمل کے نام سے ملی یہ بھی ایک افسانوی مجموعہ ہے جس میں سات افسانوں کا مجموعہ ہے جس کے بارے میں پروفیسر ظہور الدین لکھتے ہیں کہ ان کہانیوں کے موضوعات دیکھتے ہوئے ایک بات جو محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ ان میں اکثر خواتین پر ہونے والے مظالم کو پیش کیا گیا ہے
اس میں مجھے جو کاوش ان کی سب سے اچھی لگی جس پر انہیں جتنی بھی مبارکباد دی جائے کم ہے اور ان کا حق بھی بنتا ہے کہ انہوں نے یہ خدمت انجام دی ہے کتاب مختصر ہے کچھ ہی اوراق پر مشتمل پر دل سوزی عیاں ہے محبت عقیدت ادب نمایاں ہے کتاب کا تصور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہندو ازم کی کتب میں اس میں مختلف ابواب انہوں نے قائم کئے ہیں جہاں یہ وید وغیرہ کے حوالہ جات نقل کرکے یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ ہندو ازم کے بانی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کئے بنا نہ رہ سکے اور انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی پیغمبر آخر زاماں ھادی بر حق تسلیم کیا ہے یہ کتاب ایک بہترین اور قابل داد کوشش ہے دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے حضرات کے لئے ایک گراں قدر تحفہ ہے جو ہندوستان میں غیر مسلموں میں دعوت کا کام کر رہے ہوں اس کتاب میں دو باتیں نام سے انہوں نے تمہید میں لکھا ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالمین کے سردار ہادی و رحمت ابتداء آفرینش سے لیکر اپنی بعثت تک تمام انبیاء کرام کے امام بورئے پر سوتے تھے فاقہ کرتے پیوند کپڑے پہنتے راتوں کو صرف امت کے لئے روتے کاش ہم آپ کو جانتے پہچھانتے تب آج ساری دنیا میں ہماری یہ حالت نہ ہوتی اس اقتباس کو پڑھ کر اک ہوک سی اٹھی میرے دل میں شہزادہ بسمل کا حال اس کے برعکس نہ ہوگا حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوکر لکھتے ہیں یہ ہدیہ عقیدت لے کر میں رب کے سامنے سربسجود ہوں کہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان اوراق کو شرف قبولیت بخش کر مجھے میری کوتاہیوں پر بخش دے حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہوکر رہنا کمال ہے اور جب میں اس اقتباس یا تمہید کو پڑھ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ اک فدائی جھالیوں کو پکڑ کر یہ سب کہہ رہا ہے اور آنکھوں کے کونے سے دو آنسو پورے چہرے کا کہتے ہوئے طواف کر رہے تھے میرے یہ میرے لئے بھی سعادت سے کم نہیں
بات ہورہی ہے معروف صاحب قلم شہزادہ بسمل کی جن کا اصل نام غلام قادر خان ہے محترم ریاست کے معروف ادیب اور کالم نویس ہیں۔ان کے ادبی کالم تقریبا چالیس پنتالیس سالوں سے مقامی اخباروں اردو رسالوں میں متواتر شائع ہوتے رہے ہیں جن میں ہفتہ وار ”قلم “، ماہنامہ ”الحیات“،ہفتہ روزہ ” احتساب “ اور روز نامہ ” کشمیر عظمیٰ “ قابل ذکر ہیں
شہزادہ بسمل جموں اینڈ کشمیر فکشن رائٹرس گلڈ کے دیرینہ کارکن ہیں اور آجکل گلڈ کے نائب صدر اول ہیں
موصوف کے لئے یہ الفاظ کم ہیں کوشش کروں گا کہ ان کی تخلیقات پر ایک جاندار تبصرہ کر سکوں صاحب کے اخلاقیات کے لئے شاید اتنا کافی ہو کہ شریف النفس سادہ مزاج اسلامی شعائر کے پابند اور انتہائی کلمات انسان ہیں میں انکی محبتوں کا مشکور ہوں کہ
چچا جان کی وفات پر جو فون مجھے موصول ہوئے ان میں شہزادہ بسمل کا فون بھی میرے لئے قابل تعریف ہے کہ بنا جانے موضوف مجھے فون کرتے ہیں اور دعائیہ کلمات کہنے کے ساتھ ساتھ تلقین صبر کرنا نہیں بھولتے میں ان کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی تخلیقات کا تحفہ دیا اور ساتھ میں دعائیں بھی اللہ تعالی اپنے حفظ و امان میں رکھے
“