دولت قطر تیل اور گیس جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال شرق الاوسط کا چھوٹا سا ملک ہے جس کا دارالحکومت دوحہ اس کا سب سے بڑا شہرہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں یہاں بے شمار تبدیلیا ں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔دوحہ میں اگلی تین چار دہائیوں سے اردو زبان و ادب سے محبت رکھنے والے اس کے فروغ کے یہاں ادبی تقاریب منعقد کرتے رہتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں مجھے بھی اس شہر میں چند سال رہنے کا موقع میسر آیا اور ظاہر اردو کی لگن میرے زمانہ طالب علمی سے میرے دل و دماغ میں رہی ہے چنانچہ میں نے دوحہ میں ”بزم سخن“ کے نام سے ایک علمی وادبی تنظیم بھی قائم کی تھی جس کے زیرِ انتظام کئی ادبی نشستیں اور یوم اقبال کے حوالے سے کانفرنسز کا اہتمام بھی کیا تھا، جن میں ہر سال میں ایک نئے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا کرتا تھا۔اس مختصر سی تمہید کے بعد جو محض ان ملاقاتوں کے پس منظر کو اجاگر کرنے کے لیے رقم کی گئی ہیں۔اصل موضوع تو مشتاق احمد یوسفی سے چند ملاقاتیں ہے؛ چنانچہ اصل موضوع پر رہتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاؤں گا۔
یہ 1994ء کی بات ہے جب مجھے دوحہ میں آئے ابھی ایک سال ہی ہوا تھااور اردو ادب سے محبت رکھنے والوں سے کچھ زیادہ گہرے تعلقات بھی نہ بنے تھے لیکن چونکہ چنانچہ کی مصداق”مجلسِ فروغِ اردو ادب“کا نام کانوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا اور پھر شنید ہوئی کہ امسال اس مجلس کے زیرِ اہتمام اردو وزبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک مجلس منعقد کی جائے گی جس میں اردو کے بیسویں صدی کے نامور اور اپنی مثال آپ جناب مشتاق احمد یوسفی بطورمہمانِ خصوصی شرکت کریں گے۔اس مجلس کو ”جشنِ یوسفی“ کا نام دیا گیا۔میں ان دنوں پاکستان ایجوکشین سنٹر دوحہ میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہاتھا چنانچہ ادارے کی طرف سے میرے ذمہ یہ قرار پایا کہ یوسفی صاحب کے اعزاز میں ایک تقریب اربا ب آڈیٹوریم(ادارے کا ہال جس میں تین چار سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے)میں منعقد کی جائے۔ یہ ہدایت نامہ مجھے اس وقت کے پرنسپل بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر اللہ بخش ملک کی طرف سے ملا تھا۔تقریب کے انتظامات کے ساتھ ساتھ مشتاق احمد یوسفی سے میری پہلی ملاقات بھی طے تھی؛چنانچہ تقریب سے قبل میں پہلی بار ان سے پرنسپل آفس میں ملااور ان سے کچھ ضروری باتیں معلوم کرکے اپنے نوٹس تیا ر کیے تاکہ جب انہیں اسٹیج پر بلایا جائے تو طلباء و طالبات کو ان کی ادبی خدمات سے متعارف کرایا جاسکے۔ اگرچہ دو تین سال پہلے ہی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا تھا اوریوسفی کے مزاح سے خوب واقف تھا؛لیکن دل کی تسلی اور تشفی کے لیے ان کے بارے کوئی نئی بات حاضرینِ تقریب (جن میں اساتذہ، معززین ِ شہر، محکمہ تعلیم قطر کے آفیشلز، سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عہدیداران اور طلباء و طالبات شامل تھے) سے شئیر کرنا چاہتا تھا۔میں ان کا تعارف تو پہلے ہی لکھ چکا تھا جو مجھے پیش کرنا تھا لیکن جب میں ان سے ملا تو مجھے کسی قدر حیرانی ہوئی کہ وہ انسان جو مزاح لکھتا ہے اتنا سنجیدہ بھی ہو سکتا ہے۔مشتاق یوسفی ہمارے پرنسپل کی سامنے والی نشست پر تشریف فرما تھے اور میں ان سے ایک نشست چھوڑ کر بیٹھا تھا تاکہ موقع ملتے ہی ان سے کچھ سوالات کے جوابات حاصل کر لوں اور ڈاکٹر اللہ بخش ملک اس بات سے بخوبی آگا ہ تھے کہ میں وقت کی مناسبت سے تقریب کو چلانے کا ہنر جانتا ہوں لیکن یہ کیا!اردو زبان کا اتنا بڑا مزاح نگار کمرے میں موجوداور کسی قسم کا کوئی قہقہہ نہیں بلکہ بلا کی سنجیدگی طاری تھی۔میں نے ایک نظر یوسفی صاحب کو دیکھا تو اندر ہی اندر ان کی کتاب کا درج ذیل اقتباس:
پیشانی اور سر کی حد فاصل اڑ چکی ہے۔ لہذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ ناک میں بذات کوئی نقص نہیں مگر دوستوں کا خیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پر لگی ہوئی ہے۔
ذہن میں گردش کرنے لگا اوردل ہی دل میں گدگدانے لگا، یہی نہیں قریب تھا کہ ان کا یہ اقتباس زبانی زبانی ان کے منہ پر سنا دیتا لیکن آدابِ محفل آڑے آگئے اور خاموشی اور اپنی گدگداہٹ کو قابو میں لانا پڑا کیونکہ ماحول واقعی بہت سنجیدہ تھا۔ پھر جیسے جناب پرنسپل اور ان کے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک موقع پر تو مجھے یوں لگا کہ یوسفی صاحب تقریب میں شرکت کیے بغیر ہی چلے جائیں گے۔ وہ اللہ بھلا کرے محترم ومکرم جناب انیس احمد اعظمی صاحب(نہیں معلوم کہ ابھی بقیدِ حیات ہیں یا اپنے مالک و خالق سے جا ملے) کا کہ انہوں بات کو پلٹ دیا۔مجھے یاد پڑتا ہے مشتاق احمد یوسفی صاحب بڑی متانت سے کرسی پر تشریف فرماں تھے اور اپنی بینک کے حوالے سے یاداشتیں سنا رہے تھے کہ یکا یک پرنسپل صاحب کی بات نے سب کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے کہا، ”یوسفی صاحب آپ تو اچھے پڑھے لکھے اور باوقار پیشے سے منسلک ہیں؛آپ یہ کیا فضول سی باتیں لکھتے رہتے ہیں کہ”پیشانی اور سر کی حد فاصل اڑ چکی ہے۔ لہذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں“۔ یوسفی صاحب کے چہرے کے تاثرات تو خیر دیدنی تھے ہی لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب میں کیا کروں!بہر کیف قصہ مختصر کہ یوسفی صاحب نے تقریب میں شرکت بھی کی اور طلباء وطالبات کے سوالوں کو سنا اور ان کے نہایت ادیبانہ انداز میں جوابات بھی دیے۔ تقریب کے بعد میں انہیں اپنے دیگر رفقاء کار کے ساتھ سنٹرکے مرکزی دروازے تک چھوڑنے کے لیے گیا تو انہوں نے کسی قسم کا کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا لیکن مجھے اس بات کا ملال تھا کہ پرنسپل صاحب نے انہی کی بات ان کے منہ پراس انداز سے کہی جو نامباسب تھا۔میں اس واقعے کے بعد اکثر سوچتا تھا کہ جو یہ کہا جاتا ہے کہ منہ سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں ہوسکتے، سچ ہی ہے اور شاید ایسے نازک موقعوں کے لیے ہی کہی گئی کہاوت ہے۔کیونکہ اگر وہ اپنی دقیق نظری کا مظاہرہ نہ کرتے تو معاملہ خراب بھی ہو سکتا تھا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ مشتاق احمد یوسفی بڑے جہاں دیدہ انسان تھے۔ اگرچہ آدمی سے انسان بننا بہت مشکل کام ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ واقعی انسان تھے۔بقول حالیؔ:
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
سطورِ بالا میں پہلی ملاقات کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ یوسفی صاحب ایک دوسال بعد پھر دوحہ تشریف لائے تو ان سے میری دوسری ملاقات ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی۔ میں نے ان کی معیت میں قریب دو گھنٹے بسر کیے لیکن مجال ہے جو انہوں نے گزشتہ ملاقات پر کوئی تبصرہ کیا ہو؛ بس اتنا کہا،”وہ فوجی ابھی تک یہی ہے؟“تو میرا جواب اثبات میں تھا چنانچہ بات اس سے آگے نہ میں نے بڑھائی اور نہ ہی انہوں نے مزید کسی قسم کا کوئی تبصرہ کیا لیکن اس بار سنٹر نہیں آئے۔دراصل مشتاق احمد یوسفی نے ایوب خان، یحیٰ خان اور ضیاالحق کے مارشل لاء دور
کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور وہ ایک جمہوریت پسند شخص تھے اس لیے فوجیوں سے ان کی کوئی زیادہ بن نہیں آتی تھی۔
مزید آگے بڑھنے سے پہلے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مزاح کی تعریف بیان کر دی جائے۔مزاح (Humour) ایک ایسا رجحان ہے جس میں ہنسی کو بڑے لطیف انداز میں لوگوں، محفلوں اور موقعوں کی بیچ جگہ دی جاتی ہے۔ یہ اصطلاح قدیم یونانیوں کی اصطلاح مزاحی طب سے لی گئی ہے، جس میں انسانی جسم کے سیال مادوں کے توازن کی تعلیم دی گئی تھی، جسے مزاح کی جمع کا نام دیا گیا تھا۔ لاطینی زبان میں مزاح کا استعمال زیر گرفت انسانی صحت اور جذبے کو کہا گیا ہے۔
اُردو ادب میں طنز و مزاح کو عموماً یکساں معنوں میں لیا اور ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ طنز اور مزاح میں فرق ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں، لیکن اس کے باوجود اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ طنز سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ، تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے، جب کہ مزاح سے خوش طبعی، مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق،”عام طور پر ”طنز“ اور ”مزاح“ کے الفاظ کو ملا کر بطور ایک مرکب کے استعمال کیا جاتا ہے، مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں۔ مزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق، جب کہ طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہیں“۔
1 یہ تعریف جامع بھی ہے اور قابلِ غور بھی؛لیکن علی عباس جلالپوری کا خیال ہے کہ،”طنز میں ایک گونہ جارحیت اور ایذا کوشی کا عنصر موجود ہوتا ہے اور مزاح میں انسان دوستی کا شائبہ پایا جاتا ہے“۔
2 یہ بات درست ہے کہ مزاح میں کسی حد تک انسان دوستی، احترام اور ظرافت کے ساتھ ساتھ حسنِ ظن بھی پایا جاتا ہے جب کہ طنز کے تیر بسا اوقات دل کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔اسی لیے رونالڈ ناکس (Ronald A Knox) طنز نگار کو کتوں کے ساتھ شکار کھیلنے کے مترادف قرار دیتا ہے۔چنانچہ جب اس نے اپنی کتابEssays On Satire میں Satire اورHumour پر بحث کرتے ہوئے ان دو نوں اصناف کی تعریف وضع کی تو اس کے ذہن میں ان دونوں اصناف کی کئی مثالیں موجود تھیں اسی لیے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ:
3 "the humorist runs with the hare; satirist hunts with the hounds".
(مزح نگار خرگوش کے ساتھ بھاگتا ہے جبکہ طنز نگار کتّوں کے ساتھ شکار کھیلتا ہے)۔
بایں ہمہ اسٹیفن لی کاک ''Humour and Humanity'' جسے بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں انگریزی ادب کا بہترین مزاح نگار مانا جاتا ہے، مزاح کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے:
Humour may be defined as the kindly contemplation of the in congruities of life, and the artistic expression thereof .4
مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔
دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ مزاح کی وضاحت زندگی کی ندرتوں اور حسن فن کے اظہار کے طور پر کی جاسکتی ہے۔یہی وجہ
ہے کہ اردو ادب کے ایک نقاد نے جب اس کی جہتیں متعین کرنے کے لیے قلم اٹھایا تو اس نے اس کا منطقی انجام طنز قرار دے دیا۔اس نے نہ صرف مزاح کے ادب میں مقام ومرتبہ کو موضوع بنایا بلکہ اس کے تانے بانے مزاح نگار کے حالات اور وہ جس معاشرے کا حصہ ہوتا ہے،اس میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور جس ماحول میں سانس لیتا ہے اس پر گرفت سے جوڑتے ہوئے، اس کی اگلی منزل طنز ٹھہرا دی۔ آئیے انہیں کے الفاظ میں مزاح کے طنز میں بدلنے کی صورت ملاحظہ کیجیے:
مزاح کی سطح اس وقت بلند ہوتی ہے جب مزاح نگارذاتی تنقید سے گزر کر حالات، سماج، معاشرہ، سیاست، واقعات اور ماحول کواپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر مزاح طنز میں تبدیل ہو جاتا ہے اور رکاکت سے گریز کرتے ہوئے انسانی ماحول کا بہترین نقاد بن جاتا ہے۔
5 تاہم رشید احمد صدیقی کی رائے مندرجہ بالا حوالے سے مختلف ہے۔اردو ادب کے فکاہیہ ادب میں رشید احمد صدیقی کی خدمات سے کسی کو انکار نہیں لیکن انہوں نے مزاح کی جو تعریف ”طنزیات مضحکات“ میں متعین کی وہ نہایت پچیدہ ہے۔ رقم طراز ہیں:
طنز و ظرافت کا شمار دنیا کے مہلک ترین اسلحہ جات میں ہوتا ہے،اس کے استعمال کا منصب ہر وقت، ہر سپاہی یا پا پیادہ کو نہ ہونا چاہیے، بل کہ سپہ سالار کی خاص اجازت پر اور اس کی براہ راست نگرانی میں اس کو بروئے کار لانا چاہیے۔
6 رشید احمد صدیقی کی مندرجہ بلا وضاحت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ہم ماضی قریب کے معروف نقاد ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے دیکھیں تو نہایت سلیس اور غیر مبہم نظر آتی ہے۔وہ تنقیدی اصلاحات میں رقم طراز ہیں:
ہنسی انسانی جبلتوں میں سے ہے۔ اس جبلت کا اظہار تخلیقی سطح پر ہو تو مزاح جنم لیتا ہے۔دوسروں کو بھی مزاح کی مسرت میں شریک کرنا مزاح نگار کا اوّلین فریضہ ہوتا ہے۔
7 المختصر یہ کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے طنز اور مزاح دونوں کو کچھ اس طر ح سے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے کہ شاید ایک لمبے عرصے تک اردو ادب کے نقاد اس سے اختلاف کی جسارت نہ کر سکیں گے۔ دیکھیے کس مہارت سے کہتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ طنز سماج اور انسان کے رستے ہوئے زخموں کی طرف ہمیں متوجہ کر کے بہت بڑی انسانی خدمت سر انجام دیتی ہے اور دوسری طرف خالص مزاح بھی تو ہماری بجھی ہوئی پھیکی اور بد مزہ زندگیوں کو منور کرتا اور ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے۔ فی الوقت افادیت کے نقطہئ نظر سے دونوں ہمارے رفیق و غم گسار ہیں اور ہم ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے سے قاصر۔
8 اب اگرمحولہ سطور کو پیشِ نظر رکھیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے؛اگرچہ اردو ادب کے دامن میں کئی مزاح نگار اپنی فنکارانہ رعنائیوں کے ساتھ موجود ہیں، لیکن ایسے مزاح نگار جنہیں عالمی ادب کے مقابل پیش کیا جاسکے چند ایک ہی ہیں۔ ان میں فرحت اللہ بیگ اپنے مضامین ”دہلی کا یادگار مشاعرہ“اور”مولوی نذیر احمد کی کہانی“کے باعث اردو کے پہلے مزاح نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ بعد ازاں شوکت تھانوی، رشید احمد صدیقی، احمد شاہ بخاری پطرس، شفیق الرحمن،کرنل محمد خان اور ابن انشانے اپنے انداز ِ بیان کی بدولت شہرت حاصل کی۔انہی بڑے بڑے مزاح نگاروں کی صف میں مشتاق احمد یوسفی امام نظر آتے ہیں۔
اردو ادب کے یہ مایہ نازمزاح نگار 4 ستمبر 1923ء میں بھارت کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے۔ان کے والد عبد الکریم خان یوسفی جے پور بلدیہ کے چیرمین کے عہدے پر متمکن تھے اور بعدازاں جے پور قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر بھی منتخب ہوئے۔ابتدائی تعلیم راجپوتانہ میں ہوئی اور بی اے کی ڈگری آگرہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا او ر قانون کی تعلیم بھی یہی سے حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان پاکستان ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہو گیا۔1950ء میں وہ مسلم کمرشیل بینک میں ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1965ء میں انہوں نے الائڈ بینک میں بحیثیت مینیجنگ ڈائریکٹر ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 1974ء میں یونائٹیڈ بینک کے صدر اور 1977ء میں پاکستان بینکنگ کونسل کے صدر منتخب ہوئے۔پاکستان میں بنکاری کے شعبہ میں ان کی غیر معمولی خدمات پر انہیں تمغہئ قائد اعظم میموریل سے نوازا گیا۔
مشتاق احمد یوسفی نے خود بھی اپنا تعارف کرا کر اپنے اوپر بھی خوب ہاتھ صاف کیا ہے۔دیکھیے کس بہادری سے ”چراغ تلے“ میں لکھتے ہیں:
نام:سرورق پر ملاحظہ فرمائیے
خاندان:سو پشت سے پیشہ آباء سپہ گری کے سوا سب کچھ رہا ہے۔
تاریخ پیدائش:عمر کی اس منزل پر آ پہنچا ہوں کہ اگر کوئی سن ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتا ہوں۔اور یہ منزل بھی عجیب ہے۔ بقل صاحب“کشکول“ ایک وقت تھا کہ ہمارا تعارف بہو بیٹی قسم کی خواتین سے اس طرح کرایا جاتا تھا کہ فلاں کے بیٹے ہیں۔ فلاں کے بھانجے ہیں اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ فلاں کے باپ ہیں اور فلاں کے ماموں۔ عمر رسیدہ پیش رو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے آگے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔
پیشہ:گوکہ یونیورسٹی کے امتحانوں میں اول آیا، لیکن سکول میں حساب سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ اور حساب میں فیل ہونے کو ایک عرصے تک اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتا رہا۔اب وہی ذریعہ معاش ہے۔ حساب کتاب میں اصولاً دو اور دو چار کا قائل ہوں۔ مگر تاجروں کی دل سے عزت کرتا ہوں کہ وہ بڑی خوش اصلوبی سے دو اور دو کو پانچ کر لیتے ہیں۔
پہچان:قد: پانچ فٹ ساڑھے چھ انچ (جوتے پہن کر)
وزن: اوور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں۔ عرصے سے مثالی صحت رکھتا ہوں۔ اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کو کراچی کی آب و ہوا کو برا ثابت کرنا مقصود ہو تو اتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں۔
جسامت: یوں سانس روک لوں تو 38 انچ کی بنیان بھی پہن ستا ہوں۔ بڑے لڑکے کے جوتے کا نمبر 7 ہے جو میرے بھی فٹ آتا ہے۔
حلیہ: اپنے آپ پر پڑا ہوں۔پیشانی اور سر کی حد فاصل اڑ چکی ہے۔ لہذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ ناک میں بذاۃ کوئی نقص نہیں مگر دوستوں کا خیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پر لگی ہوئی ہے۔
پسند:غالب، ہاکس بے، بھنڈی؛پھولوں میں، رنگ کے لحاظ سے سفید گلاب اور خوشبوؤں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو بہت مروب ہے۔ میرا خیال ہے کہ سرسبز تازہ تازہ اور کرارے کرنسی نوٹ کا عطر نکال کر ملازمت پیشہ حضرات اور ان کی بیویوں کو مہینے کی آخری تاریخوں میں سنگھایا جائے تو گرہسی زندگی جنت کا نمونہ بن جائے۔پالتو جانوروں میں کتوں سے پیار ہے۔ پہلا کتا چوکیداری کے لیے پالا تھا۔ اسے کوئی چرا کر لے گیا۔ اب بر بنائے وضع داری پالتا ہوں کہ انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ بعض تنگ نظر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلاوجہ چڑتے ہیں حالانکہ اس کی ایک نہایت معقول اور منطقی وجہ موجود ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں۔گانے سے بھی عشق ہے۔ اسی وجہ سے ریڈیو نہیں سنتا۔
چڑ:جذباتی مرد، غیر جذباتی عورتیں، مٹھاس، شطرنج۔
مشاغل:فوٹو گرافی، لکھنا پڑھنا
تصانیف:چند تصویران بتاں، چند مضامین و خطوط
کیوں لکھتا ہوں:ذزریلی نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ جب میرا جی عمدہ تحریر پڑھنے کو چاہتا ہے تو ایک کتاب لکھ ڈالتا ہوں۔ رہا سوال کہ یہ کھٹ مٹھے مضامین طنزیہ ہیں یا مزاحیہ یا اس سے بھی ایک قدم آگے۔۔۔ یعنی صرف مضامین، تو یہاں صرف اتنا عرض کرنے پر اکتفا کروں گا کہ وار ذرا اوچھا پڑے، یا بس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے بالعموم طنز سے تعبیر کرتے ہیں، ورنہ مزاح ہاتھ آئے تو بت، نہ آئے تو خدا ہے۔