گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔۔قسط دوم
مشتاق یوسفی کی ”زرگزشت“1976ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئی۔انہوں نے اس کتاب کی اشاعت پر لکھا،”میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے جس سے ایک مدت سے آزردہ ہوں“۔چنانچہ اس کتاب میں جب انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ ”چراغ تلے“سے قدرے مختلف تھا۔ سطورِ ذیل میں انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
”نشے اور سوانح حیات میں بھی جو نہ کھلے اس سے ڈرنا چاہیے۔کچھ تو کھلے پسندیدہ رنگ؟پسندیدہ خوشبو؟
پسندیدہ حسن وغیرہ وغیرہ۔۔۔؟“
۱۔ سبھی رنگ پسند ہیں، سو کے نوٹوں کے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔
۲۔ تیز مہکار چہکار نہیں بھاتیں، رات کی رانیاں __دونوں قسم کی__ دور کسی اور کے انگن ہی سے مہک دیتی اچھی لگتی ہیں۔
۳۔جہاں تک حسن کا تعلق ہے، وغیرہ وغیرہ پسند ہے۔
آئینہ دیکھتا ہوں تو قادر مطلق کی صناعی پر جو ایمان ہے وہ کبھی متزلزل ہو جاتا ہے۔
اس صدی کی تیسری دہائی میں ایک خاتون نے جو اردو میں معمولی شد بد رکھتی تھی، اس زمانے کا مقبول عام ناول ''شوکت آرا بیگم'' پڑھا، جس کی ہیروئن کا نام شوکت آرا اور معاون کردار کا نام فردوس تھا۔ ان کے جب بیٹیاں ہوئیں تو دونوں کے یہی نام رکھے گئے۔ ایک کردار کا نام ادریس اور دوسرے خدائی خوار کا اچھن تھا۔ یہ دونوں انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو بطور نام اور عرفیت بخش دیے۔ بچے کل چار دستیاب تھے جبکہ ناول میں ہیرو کو چھوڑ کر ابھی ایک اور اہم کردار پیارے میاں نامی ولن باقی رہ گیا تھا۔ چنانچہ ان دونوں ناموں اور دہرے رول کا بوجھ بڑے بیٹے کو ہی اٹھانا پڑا جس کا نام ہیرو کے نام پر مشتاق احمد رکھا گیا تھا۔ یہ سادہ لوح خاتون میری ماں تھی۔ بحمداللہ! ناول کی پوری کاسٹ، باستثنائے شوکت آرا، جس کا طفولیت میں ہی انتقال ہو گیا تھا، زندہ و سلامت ہے۔ والدہ کی بڑی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں اور عرب جا کر بدووں کا مفت علاج کروں، اس لیے کہ ناول کے ہیرو نے یہی کیا تھا۔ مولا کا بڑا کرم ہے کہ ڈاکٹر نہ بن سکا۔ ورنہ اتنی خراب صحت رکھنے والے ڈاکٹر کے پاس کون پھٹکتا۔ ساری عمر کان میں اسٹھیسس کوپ لگائے اپنے ہی دل کی دھڑکنیں سنتے گزری۔ البتہ ادھر دو سال سے مجھے سعودی عرب، بحرین، قطر، عمان اور عرب امارات کی خاک نہیں تیل چھاننے اور شیوخ کی خدمت کی سعادت نصیب ہوتی رہی ہے۔ ناول کے بقیہ پلاٹ کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اردو ادب کبھی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوا وہ ذرا دیدہ عبرت نگاہ سے اس عاجز کو دیکھیں۔ یہ کچا چٹھا۔کہیے جمیل صاحب اب تو ٹھنڈک پڑی؟“
10 یوسفی نے کم لکھا لیکن لاجواب لکھا۔اردو مزاح کی تاریخ میں یوسفی اپنی خوش مزاج تحریروں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا جن میں حکومت کی طرف سے ستارہ امتیاز(1999) اورہلال امتیاز (2002)میں صدور اسلامی جمہوریہ پاکستان نے عطا کیے جب کہ اکادمی ادبیات ِ پاکستان کی طرف سے 1990ء میں اعزاز سے نوازے گئے اور بعد ازاں آدم جی انعام کے بھی حق دار ٹھہرے۔اردو ادب کو مزاح جیسی صنف کو بام ِ عروج پر پہنچانے والے مشتاق احمد یوسفی 20 جون 2018ء کو اس جہان ِ فانی سے کوچ کرکے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔کراچی میں وفات کے وقت ان کی عمر94 سال تھی۔
ان کی تصانیف میں چراغ تلے جو 1961ء (اس مضمون میں جو ایڈیشن استعمال ہوا وہ 1970 ء کا مطبع ہے)میں چھپی اور خاکم بدہن)1969جنوری 1970ء میں شائع ہوئی جب کہ زرگزشت 1976ء میں منصہ شہود پر آئی۔ ان تین کتابوں کے ذریعے انہوں نے شگفتہ نثر نگاری کا جو اعلیٰ معیار قائم کیا اس کا نمونہ دور دور تک کہیں اور نظر نہیں آتا۔1990ء میں چھپنے والی”آبِ گم“نے ناول کی سی مقبولیت حاصل کی۔ یہ ایسی کتابیں تھیں جن کی بدولت مشتاق احمدیوسفی اردو ادب کا ایک مستقل باب بن گئے۔ 2014ء میں منظر عام پر آنے والی ان کی ایک اورکتاب”شامِ شعرِ یاراں“دوسری کتابوں جیسی شہرت حاصل نہ کر سکی کیونکہ اس میں ان کی تقریروں اور مضامین کو مدون کیا گیا تھا۔
مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب”چراغ تلے“ کے مضمون ”پہلا پتھر“میں لکھتے ہیں:
مقدمہ نگاری کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی پڑھا لکھا ہو۔ اسی لیے بڑے بڑے مصنف بھاری رقمیں دے کر اپنی کتابوں پر پروفیسروں اور پولیس سے مقدمے لکھواتے اور چلواتے ہیں۔ اور حسب منشا بدنامی کے ساتھ بری ہوجاتے ہیں فاضل مقدمہ نگار کا ایک پیغمبرانہ فرض یہ بھی ہے کہ وہ دلائل و نظائر سے ثابت کردے کہ اس کتاب مستطاب کے طلوع ہونے سے قبل ادب کا نقشہ مسدس حالی کے عرب جیسا تھا۔
ادب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
اس میں شک نہیں کہ کوئی کتاب بغیر مقدمہ کے شہرت عام اور بقائے دوام حاصل نہیں کر سکتی۔ بلکہ بعض معرکۃ الآراء کتابیں تو سراسر مقدمے ہی کی چاٹ میں لکھی گئی ہیں۔ برنارڈ شا کے ڈرامے (جو درحقیقت اس کے مقدموں کی تضمین ہیں) اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اور دور کیوں جائیں۔ خود ہمارے ہاں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جو محض آخر میں دعا مانگنے کے لالچ میں نہ صرف یہ کہ پوری نماز پڑھ لیتے ہیں بلکہ عبادت میں خشوع و خضوع اور گلے میں رندھی رندھی کیفیت پیدا کرنے کے لیے اپنی مالی مشکلات کو حاضر و ناظر جانتے ہیں۔ لیکن چند کتابیں ایسی بھی ہیں جو مقدمہ کو جنم دے کر خود دم توڑ دیتی ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر جانسن کا ڈکشنر، جس کا صرف مقدمہ باقی رہ گیا ہے۔ اور کچھ مصنف تو ایسے بھی گزرے ہیں جو مقدمہ لکھ کر قلم توڑ دیتے ہیں۔ اور اصل کتاب کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے۔ جسیے شعر و شاعری پر مولانا حالی کا بھر پور مقدمہ جس کے بعد کسی شعر شاعری کی تاب و تمنا ہی نہ رہی۔ بقول مرزا عبدلودود بیگ، اس کتاب میں سے مقدمہ نکال دیا جائے تو صرف سرورق باقی رہ جاتا ہے۔
تاہم اپنا مقدمہ بقلم خود لکھنا کار ثواب ہے کہ اس طرح دوسرے جھوٹ بولنے سے بچ جاتے ہیں۔ دوسرا
فائدہ یہ کہ آدمی کتاب پڑھ کر قلم اٹھاتا ہے ورنہ ہمارے نقد عام طور سے کسی تحریر کو اس وقت تک غور سے نہیں پڑھتے جب تک انہیں اس پر سرقہ کا شبہ نہ ہو۔
پھر اس بہانے اپنے چند ایسے نجی سوالات کا دندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے جو ہمارے ہاں صرف چالان اور چہلم کیموقع پر پوچھے جاتے ہیں۔ مثلاً کیا تاریخ پیدائش وہی ہے جو میٹرک کے سرٹیفیکیٹ میں درج ہے؟ حلیہ کیا ہے؟ مرحوم نے اپنے“بینک بیلنس“ کے لیے کتنی بیویاں چھوڑی ہیں؟ بزرگ افغانستان کے راستے سے شجرہ نسب میں کب داخل ہوئے؟ نیز موصوف اپنے خاندان سے شرماتے ہیں یا خاندان ان سے شرماتا ہے؟ راوی نے کہیں آزاد کی طرح جوش عقیدت میں ممدوح کے جد امجد کے کانپتے ہوئے ہاتھ سے استرا چھین کر تلوار تو نہیں تھما دی؟
11 ”چراغ تلے“ ہی میں ”پڑئیے گر بیمار“ کے عنوان سے بیمار ہونے کی صورت میں تیماردار جس جس طرح سے دل جوئی کرنے کے بجائے موت کے فرشتے کی آمد کا پتا دیتے ہیں اس کی کئی صورتیں اور دلچسپ قصے اس عنوان کے تحت بیا ن کیے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے جس سے ان کے اس عنوان سے کسی حد تک واقفیت ہو سکے گی۔ لکھتے ہیں:
لگے ہاتھوں، عیادت کرنے والوں کی ایک اورقسم کا تعارف کرا دوں۔ یہ حضرات جدید طریق کار برتتے اورنفسیات کا ہر اصول داؤں پر لگا دیتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد پوچھتے ہیں کہ افاقہ ہوا یا نہیں؟ گویا مریض سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالم نزع میں بھی ان کی معلومات عامہ میں اضافہ کرنے کی غرض سے Running
Commentry کرتا رہے گا۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح مریض پر ثابت کر دیں کہ محض انتقاماً بیمار ہے یا وہم میں مبتلا ہے اورکسی سنگین غلط فہمی کی بنا پراسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کی مثال اس روزہ خور کی سی ہے جو انتہائی نیک نیتی سے کسی روزہ دار کا روزہ لطیفوں سے بہلانا چاہتا ہو۔ مکالمہ نمونہ ملاحظہ ہو،
ملاقاتی، ماشائاللہ! آج منہ پر بڑی رونق ہے۔
مریض، جی ہاں! آج شیو نہیں کیا ہے۔
ملاقاتی، آواز میں بھی کرارا پن ہے۔
مریض کی بیوی، ڈاکٹر نے صبح سے ساگودانہ بھی بند کر دیا ہے۔
ملاقاتی، (اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر) بیگما! یہ صحت یاب ہو جائیں تو ذرا انہیں میری پتھری دکھانا جو تم نے چارسال سے اسپرٹ کی بوتل میں رکھ چھوڑی ہے (مریض سے مخاطب ہوکر) صاحب! یوں تو ہر مریض کو اپنی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر معلوم ہوتا ہے۔ مگر یقین جانیے، آپ کا شگاف تو بس دو تین انگل لمبا ہو گا، میرا تو پورا ایک بالشت ہے۔ بالکل کنکھجورا معلوم ہوتا ہے۔
مریض، (کراہتے ہوئے) مگر میں ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوں۔
ملاقاتی، (ایکا ایکی پینترا بدل کر) یہ سب آپ کا وہم ہے۔ آپ کو صرف ملیریا ہے۔
مریض، یہ پاس والی چارپائی، جواب خالی پڑی ہے، اس کا مریض بھی اسی وہم میں مبتلا تھا۔
ملاقاتی، ارے صاحب!مانئے تو! آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ اٹھ کر منہ ہاتھ دھوئیے۔
مریض کی بیوی، (روہانسی ہو کر) دو دفعہ دھو چکے ہیں۔ صورت ہی ایسی ہے۔
12 اسی کتاب میں ایک اور عنوان ”جنون لطیفہ“ میں انہوں نے خانسا ماں کو جس طرح موضوع بنایا ہے وہ درج ذیل اقتباس سے واضح ہے:
بڑامبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھرمیں آئے اوراس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلاجائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بارآتے ہیں اورتلخی کام ودہن کی آزمائش کرکے گزرجاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعرصرف دو ہی موقعوں پرنصیب ہوتاہے،
اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد
عام طورپریہ سمجھاجاتاہے کہ بدذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کوآتاہے لیکن ہم اعداد و شمارسے ثابت کرسکتے ہیں کہ پیشہ ورخانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہرشخص یہ سمجھتاہے کہ اسے ہنسنا اورکھانا آتاہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سوبرس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کرسکے۔ ایک دن ہم نے اپنے دوست مرزاعبدالودود بیگ سے شکایتا کہا کہ اب وہ خانساماں جوسترقسم کے پلاو پکا سکتے تھے، من حیث الجماعت رفتہ رفتہ ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ جواب میں انھوں نے بالکل الٹی بات کہی۔
کہنے لگے، ”خانساماں وانساماں غائب نہیں ہورہے بلکہ غائب ہورہاہے وہ سترقسم کے پلاو کھانے والاطبقہ جوبٹلراورخانساماں رکھتاتھا اوراڑد کی دال بھی ڈنرجیکٹ پہن کرکھاتا تھا۔ اب اس وضعدارطبقے کے افراد باورچی نوکررکھنے کے بجائے نکاح ثانی کرلیتے ہیں۔ اس لیے کہ گیاگزرا باورچی بھی روٹی کپڑا اورتنخواہ مانگتا ہے۔ جبکہ منکوحہ فقط روٹی کپڑے پرہی راضی ہوجاتی ہے۔ بلکہ اکثروبیشترکھانے اورپکانے کے برتن بھی ساتھ لاتی ہے۔“
13 عام طور پر دیہاتوں میں لوگ مرغ کی اذان کے ساتھ ہی بے دار ہو جاتے ہیں اور نماز ودیگر امور سے فارغ ہو کر اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتے ہیں۔چنانچہ انہیں کسی آلارم وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اسی موضوع پر انہوں نے ”اور آنا گھر میں مرغیوں کا“کے عنوان سے اپنے خاص ظریفانہ انداز میں رواشنی ڈالی ہے۔ ان کے اس مضمون سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:
آج بھی چھوٹے قصبوں میں کثرت سے ایسے خوش عقیدہ حضرات مل جائیں گے جن کا ایمان ہے کہ مرغ بانگ نہ دے تو پو نہیں پھٹتی، لہذا کفایت شعار لوگ الارم والی ٹائم پیس خریدنے کے بجائے مرغ پال لیتے ہیں تاکہ ہمسایوں کو سحرخیزی کی عادت رہے۔ بعضوں کے گلے میں قدرت نے وہ سحر حلال عطا کیا ہے کہ نیند کے ماتے تو ایک طرف رہے، ان کی بانگ سن کر ایک دفعہ تو مردہ بھی کفن پھاڑ کر اکڑوں بیٹھ جائے۔آپ نے کبھی غور کیا کہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں مرغ کی آواز، اس کی جسامت کے لحاظ سے کم از کم سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر گھوڑے کی آواز بھی اسی تناسب سے بنائی گئی ہوتی تو تاریخی جنگوں میں توپ چلانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
14 اور”کرکٹ“ کے عنوان کے تحت مشتاق احمد یوسفی نے کرکٹ سے ہمارے تعلق اور اس کے اثرات کو سرسید احمد خان کی مثال دے کر کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ اسے ہر اس بندے پر لاگو کیا جاسکتا ہے جو کرکٹ کھیلتا تو نہیں البتہ مشورے اور تبصرے ایسے کرتا ہے جیسے ماضی میں کرکٹ ان کے بغیر بے معنی لفظ تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تاسف کااظہار کرنا اپنی نا واقفیت عامہ کاثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیز کے بعدبلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سرسید احمد خاں نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔ روایت ہے کہ جب علی گڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جا نماز بچھاکر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور رو رو کر دعا مانگتے،”الٰہی میری بچوں کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔
15 اردو ادب کا یہ امتیاز ہے کہ اس کے صاحبِ اسلوب ادیبوں نے ہمیشہ ادب واحترام کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اور جہاں تک اردو کے مزاح نگاروں کا تعلق ہے تو باوجود اس کے اس میں کسی حد تک ادب ِ عالیہ کا دامن ہاتھ سے جاتا معلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی ان مایہ ناز ادیبوں نے اپنے مزاح کو پھکڑ پن کا شکار نہیں ہونے دیا یہی وجہ ہے کہ مشتاق احمد یوسفی سے پہلے مرزا فرحت اللہ بیگ، احمد شاہ بخاری پطرس، شوکت تھانوی،رشید احمد صدیقی، شفیق الرحمن،کرنل محمد خان اور ابن انشانے جتنا مزاحیہ ادب تخلیق کیا اسے دنیا کے کسی بھی معیاری مزاحیہ ادب کے مقابل پیش کیا جا سکتا ہے۔محولہ مزاح نگار سب اپنے اپنے انداز کے صاحبِ طرز ادیب تھے لیکن مشتاق احمد یوسفی کا خاصا یہ ہے کہ ایک بینکار ہوتے ہوئے وہ ان سب سے ممتاز ہوگئے۔جب ہم کسی کو صاحبِ اسلوب کہتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس ادیب کے لکھنے کا اندزا دوسرون سے جداگانہ ہے جو صرف اسی کے ساتھ مخصوص ہے گویا اسلوبِ تحریرصاحبِ قلم کے اس مخصوص طرزِ تحریر کا نام ہے جس میں وہ لفظ اس صاحبِ اسلوب کے اپنے پیرائے میں ڈھل جاتے ہیں اور پھر وہ انہیں خاص طرز پر ترتیب دے کر اپنے ذاتی ہنر اور استعداد نیز استعاروں اور ضرب الامثال وغیرہ سے اس طرح اس کی تشکیل کرتا ہے کہ وہ اسی کا انداز بن کے رہ جاتا ہے؛ لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ سرتا سر کوئی ذہنی رویہ یا فکرو رجحان نہیں ہوتا، البتہ یہ صاحب قلم کے ذہنی رویوں کا غماز اور فکر ورجحان کا پرتَو ضرور کہلا سکتا ہے۔اب اگر اس تعریف کو پیشِ نظر رکھیں تویوسفی واقعی ایک صاحبِ طرز ادیب کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ان کا تخلیق کردہ ”مرزا عبدلودود“ کا کردار ایک اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ”موذی“ میں مرزا کی تصویر کشی دیکھیے:
ایک دفعہ تو سب کو یقین ہوگیا کہ مرزا نے واقعی سگرٹ چھوڑ دی۔ اس لیے کہ مفت کی بھی نہیں پیتے تھے اور ایک ایک سے کہتے پھرتے تھے کہ اب تو بھولے سے بھی سگرٹ کا خیال نہیں آتا۔ بلکہ روزانہ خواب میں بھی سگرٹ بجھی ہوئی ہی نظر آتی ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ اب کی دفعہ کیوں چھوڑی؟ ہوا میں پھونک سے فرضی دھوئیں کے مرغولے بناتے ہوئے بولے، ”یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ جو روپیہ سگرٹ میں پھونک رہا ہوں، اس سے اپنی زندگی کا بیمہ کرایا جا سکتا ہے۔ کسی بیوہ کی مدد ہوسکتی ہے۔“