بانو قدسیہ (ولادت: 28 نومبر 1928ء – وفات: 4 فروری 2017ء) ،جو کونپلیں پھوٹیں، جو گلاب کھلے۔ اس سے ہمارا گلستانِ ادب مہک اٹھا۔. پھراچانک یوں ہوا ،ہجرتوں کے درمیان، کچھ اور نہیں،حواکے نام ،چہار چمن،پروا،دوسرا دروازہ،سامان ِوجود، اک ہنس کا جوڑا،فٹ پاتھ کی گھاس،شہرِ لازوال آباد ویرانے،توجہ کی طالب ،آتش زیرپا،سدھراں،مردابریشم،ایک دن ،شہرِ بے مثال،بازگشت،چھوٹا شہر بڑے لوگ،آخرمیں ہی کیوں؟،موم کی گلیاں،دست بستہ، سورج مکھی، موم کا پتلا،دوسرا قدم،حاصل گھاٹ،اور راجہ گدھ خوبصورت کہانیوںکی ایسی کتابیں ہیں ،جن میں انسانی نفسیات کی کارفرمائیاں بھی ہیں اورزندگی کی سچائیاں بھی،تخلیقی توانائیاں بھی ہیں اورتخلیات کی بلند پروازیاں بھی، مخصوص زاویہ فکرو نگاہ کی رعنائیاں بھی ہیں اورمعرفت کی عقدہ کشائیاں بھی۔آپ کوئی سی بھی کتاب اٹھا کردیکھ لیں، آپ کو اپنی اوردوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بڑا واضح پیغام ملے گا۔راجہ گدھ پر بہت کچھ لکھا گیا ،اس کی بہت سی فکری اور تخلیقی جہتیں بھی ناقدین نے دریافت کیں۔اگر آپ غور کریں تو مرکزی خیال رزق ِحلا ل ہے اور رزق حلا ل کمانے کاپیغام اتنی خوبصورتی کے ساتھ دیاگیا ہے کہ یہ دل میں اترتاہوا محسوس ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ کا فلسفہ یہ ہے کہ رزق حلال کا پیغام ہی اسلام کی روح ہے، جو اسے تمام ادیان ِعالم سے ممتاز کرتا ہے۔ میں نے تو انہیں یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اسلا م واحد مذہب ہے ،جس نے رزق ِحلال کمانے کا حکم دیا۔ان کی یہی بات سن کران کے گھر آنے والے امریکی مہمان نے اسلام قبول کرلیاتھا۔
اشفاق احمداوربانو قدسیہ دو دو الگ الگ شخصیات ضرور تھیں لیکن ان میں جو فکری ہم رنگی اور ذہنی ہم آہنگی نظر آتی ہے، اس کے پیش نظر اگر انہیں سکے کے دو رخ قرار دیاجائے تو بے جانہ ہوگا۔وہ ایک گھریلو خاتون تھیں،ایک دن اشفاق احمد ان کا ہاتھ تھام کر انہیں کچن سے باہر لائے۔لان میں پڑی کرسی پر انہیں بٹھایا اور دوسری کرسی پر خود بیٹھ گئے۔ کہنے لگے کیوں باورچی خانے میں وقت اور خودکوضائع کررہی ہو؟کھانا پکانے کیلئے نوکرانی ہے ، سوچو،سوچو ،سوچو،تم کیاکرسکتی ہو؟
بانو آپا نے قافلے کی ایک محفل میں اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ایک منٹ کے توقف کے بعد خان صاحب سےکہامیں لکھ سکتی ہوں۔کہنے لگے پھرلکھتی کیوں نہیں؟چھوڑ دو باورچی خانے کو ہمیشہ کے لیے۔شوہر پرست بانو قدسیہ نے حامی بھرلی اور پھرلکھناشروع کردیا۔علم و ادب کو اپنااوڑھنابچھونا بنالیا۔یہ باتیں بانو قدسیہ نے قافلے کے پڑائو میں شرکت کے دوران اشفاق احمد کی موجودگی میں بتائیں۔ادبی تنظیم قافلہ کے بانی میرے والدِ بزرگوار سید فخرالدین بلے مرحوم تھے اور ہمارے گھرپر قافلے کے تحت کے جو محفلیں سجتی تھیں، انہیں میرے والد محترم قافلے کے پڑائوکانا م دیا کرتے تھے۔ قافلے کے پڑائو لاہور میں برس ہا برس جی او آر شادمان میں ہمارے گھر پر ہوتے رہے۔بڑے بڑے ادیبوں ،شاعروں اور دانشوروں سے مجھے بھی انہی محفلوں میں فیض یاب ہونے کے مواقع ملے۔
اشفاق احمداوربانوقدسیہ کا ہمارے گھرآنا جانالگارہا۔بعض دنوں میں ملاقاتیں بڑھ جاتیں اور بعض دنوں میں کسی معلوم وجہ کے بغیر ملناجلناکم ہوجاتا،لیکن وہ ہمارے اور ہم ان کے دکھ سکھ میں شریک رہے۔
اشفاق حمد صاحب نے آنس معین کی الم ناک موت پر جس انداز میں پرسہ دیا اور اس کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے مضمون لکھ کردیا،اسے پڑھ کربانو آپا کی آنکھیں نم ناک ہوگئی تھیں۔انہوں نے کہا میں نے اس کی کچھ غزلیں اور نظمیں پڑھی ہیں بلکہ جن دنوں خان صاحب مضمون لکھ رہے تھے توانہوں نے بھی مجھے آنس معین کے کچھ اشعار سنائے تھے۔وہ تو بلا کا شاعر تھا،کرب،دکھ اس کی غزلوں میں رچابسا ہے،ایسا شعری رنگ مجھے آج کے کسی اور شاعر کے کلام میں نظرنہیں آیا۔وہ کافی دیر روتی رہیں اور آنس معین پر بات کرتی رہیں۔موضوع بدل جاتا تو پھر گھوم پھر کروہ آنس معین کی طرف اس کارخ موڑدیتیں۔انہوں نے مجھے مخاطب کرکے پوچھا بیٹا کیا شعر ہے وہ ،،میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا۔
میں نے آنس معین کاپورا شعر سنادیا، آ پ بھی سن لیں
میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج ، مجھے دیا لکھنا
زندگی اور موت کی تاریخوں میں ایک دن کافرق عجیب اتفاق ہے۔بانو آپا کی تاریخ ِ پیدائش 28نومبر ہے اور آنس معین کی29 نومبر۔بانوآپا نے 4 فروری کو دنیا سے کوچ کیا اور آنس معین نے برسوں پہلے 5فروری کو۔ہے ناں عجیب سی بات۔
اسی اور نوے کی دہاٸی میں جی او آر میں میرے والدمرحوم سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر قافلے کی ان محفلیں سجا کرتی تھیں اور ان میں بڑے بڑےادیب اور شاعر اپنی گفتگو سے ہمارے دامان سماعت سچے اور8 سُچے موتیوں سے بھر دیا کرتے تھے۔ان محفواں میں بہت بار بانو آپا بھی اپنے جیون ساتھی کے ساتھ تشریف لائیں ۔ اپنے خوبصورت افسانے بھی سنائے۔ ادب کے گرم موضوعات پر بڑے ٹھہرائو کے ساتھ گفتگو بھی کی۔ماضی کی باتیں کرکے یادوں کے دریچے بھی وا کئے۔ بہت سے مناظر میری آنکھوں کے سامنے جاگ گئے ہیں ۔ لگتا ہے ماضی لوٹ آیا ہے اور قافلے کا پڑاءوجاری ہے اور شرکائے محفل بانو آپا اور اشفاق احمد کو دلجمعی کے ساتھ سن رہے ہیں۔بانو آپا محض ایک نامور ناول نگار، ڈراما نگار اور افسانہ نویس ہی نہیں تھیں،وہ ہمارے گھر کی ایک فرد بھی تھیں۔ان کے جانے سے لگتا ہے کہ ہمارےسرسےایک اور سایہ اٹھ گیا ہے اور گھر کاایک اور اہم فرد کم ہوگیا ہے۔وہ ہمارے ہر دکھ سکھ میں شریک رہیں۔ان کےجملے اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں
بیٹا ! تمھارے والد سید فخرالدین بَلّے بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔وہ شاعر،ادیب ،دانشور اور مزاجاًصوفی ہی نہیں اپنی ذات میںایک ادارہ اورایک انجمن بھی تھے۔ساری زندگی رزق ِ حلال کل کمایا،خود بھی کھایااور بچوں کو بھی یہی کچھ کھلایا۔دوست احباب میں آسانیاں بانٹیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ قبر اور حشرمیں ان کے لئے بھی آسانیاں پیدافرمائے۔میں کیا کہوں ؟زبان گنگ ہوگئی ہے اور الفاظ میراساتھ نہیں دے رہے۔چندجملے بولنے کے بعد بانو آپا چپ ہوگئیں ۔لیکن اس مختصر سی گفتگو کی گونج مجھے اببھی سنائی دے رہی ہے۔
بانوقدسیہ کی زندگی کاسورج ڈوبنے کےساتھ ہی ناول نگاری اور افسانوی ادب کاایک روشن باب بند ہوگیا۔
اشفاق احمد اوربانوقدسیہ ادبی دنیاکی ایک مثالی جوڑی تھی۔جوایک یاد بن کر رہ گئی ہے۔بانوآپاکوان کے جیون ساتھی اشفاق احمد کی پائنتی سپردِ خاک کیاگیا۔جادہ ادب پر دونوں ایک دوسرے کاہاتھ تھام کرچلے،رکے توساتھ رکے، اس دورکنی قافلے نے کہیں پڑائو ڈالاتواکٹھے ڈالا۔اور اس سفرمیں اتنے گہرے نقوش چھوڑے کہ مسافرانِ ادب کے لئے راستے روشن ہوگئے۔
بانو قدسیہ محض اشفاق احمد کی اہلیہ نہیں،ناول نگاری اور افسانہ نویسی کا ایک بڑا نام تھیں اور ہیں ۔وہ اردو ادب کی آبرو تھیں اور گلشن ِادب کا خوب صورت رنگ۔ ان کے فکروخیال کی بنیاد پر جوکلیاں چٹکیں
یہ نوے کی دہائی کی بات ہے ۔اشفا ق احمد اور بانو قدسیہ قافلے کے پڑاٶ میں شریک ہوئے۔بانوآپا (محترمہ بانو قدسیہ) نےاپناافسانہ کعبہ میرے پیچھے،بھیمیریہیفرمائشپرپڑھاتھا۔میں نے ان کے گھر جا کر تازہ افسانہ پڑھنے کی فرمائش کی تھی۔ انہوں نے جواباًبتایا ایک افسانہ تو کل پرسوں ہی مکمل ہوا ہے مگر وہ نہیں، بلکہ ایک اور افسانہ لکھنا شروع کیاہے، وہ پڑھوں گی۔میں نے کہا قافلے کا پڑائو اب سے 20دن بعد ہوگا، یہ افسانہ میراہوا۔وہ مسکرائیں اور ہامی بھرلی۔چند روز بعد خیال آیاکہ بانو آپا نے تودعوت قبول کرلی ہے مگر ابھی اشفاق صاحب سے بات نہیں ہوئی، وہ ان کے بغیر نہیں آئیں گی، چنانچہ فون پر اشفاق صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ میری بانو آپا سے بات ہوچکی ہے، اب آپ کی اجازت درکار ہے۔ وہ بھی یوں کہ وہ آپ کے بنااور آپ ان کے بغیراتنے اچھے نہیں لگتے کہ جتنے ساتھ ساتھ ۔اشفاق صاحب میری بات پر ہنسے اور کہا انہیں پھانس چکے ہو اور اب میری باری ہے۔بہر حال پھریکم تاریخ بھی آگئی اور یہ دونوں بھی حسب وعدہ میرے والدبزرگوار سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر آگئے۔بہت سے اربابِ علم و ادب پہلے سے پہنچے ہوئے تھے۔اسلم کمال نے اپنے چند نثرپارے پیش کیے، پھر بانو آپا نے اپنا خوب صورت افسانہ پڑھا۔غالباً اس افسانے کا دورانیہ 45یا55منٹ تھا۔شرکائے قافلہ پڑائو کا انہماک دیدنی تھا۔چند منٹوں تک حاضرین محفل اس کے سحر سے باہر نہیں آسکے۔ پھر میزبان ِ محفل سید فخرالدین بلے نے افسانے کے حوالے سے گفتگو کا آغاز یہ کہہ کر کیاکہ بانو قدسیہ صاحبہ کا اشفاق صاحب سے بڑا قریبی تعلق ہے مگر پھر بھی افسانے میں کہیں ابہام نہیں ہے۔اس جملے کے بعد انہوں نے بانو آپا کے اس افسانے کی کچھ جہتوں کی نشاندہی کی اور اس میں چھپے ہوئے پیغام کو بھی اجاگر کیا۔ علامہ شبیر بخاری۔ مرتضیٰ برلاس۔ڈاکٹر وحید قریشی،ڈاکٹر اجمل نیازی ،خالد احمد ،بیدارسرمدی اور سرفراز سید نے افسانے کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔البتہ اشفاق صاحب نے گفتگو میں کم حصہ لیا۔اب اشفاق صاحب اور برادر ِمحترم سید عارف معین بلے تبادلہ خیال میں مصروف نظرآئے۔میں نے بانو آپا سے کہا آپ چائے تو پی لیجیے ۔کہنے لگیں پہلے خان صاحب کو دیجیے۔ انہوں نے واپس جانے کی اجازت چاہی تو میں نے برجستہ کہا آپ سے آنے کا وقت طے ہوا تھا، جانے کا نہیں۔ پھر عارف بھائی بھی بانو آپا کے پاس آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے آپ سے تو اب بات ہوگی،چندلمحوں میں ان دونوں کا موضوع بن گئے اشفاق احمد۔۔ عارف بھائی نے جب بانو آپا کو اشفاق احمد کی تمام تخلیقات کا بالترتیب حوالہ دیاتو بانو آپا نے حیرت کے ساتھ پوچھا بیٹا تم نے خان صاحب کو کتنا پڑھ رکھا ہے؟ ان کی تخلیقات کی گہرائی میں اترنا مشکل ہے لیکن خان صاحب سے آپ سب لوگوں کی محبت اور ان کی سوچ اور فکر سے آپ کی آگاہی قابل قدر ہے۔
میں نے کہا بے شک۔ لیکن آج تو آپ کا دن ہے اور اب عارف بھائی آپ سے آپ کی تخلیقات کے حوالے سے بات کریں گے۔ جب دیر تک بانوآپا عارف بھائی سے اپنی کتابوں اور افسانوی تخلیقات کے بارے میں سنتی رہیں تو فرمایا بیٹے یہ آپ کی محبت ہے ورنہ کیا برگد تلے کوئی پودا پروان چڑھ سکتا ہے؟عارف بھائی نے برجستہ کہا برگد کے پیڑ کے پاس ایک اور برگد کا پیڑ بھی تو ہوسکتا ہے۔ بانو آپا اشفاق احمد کو برگد کا پیڑ ہی کہا کرتی تھیں۔
اب پیش خدمت ہے سید عارف معین بلے صاحب کی وہ شاہکار نظم کہ جو انہوں نے محترمہ بانو قدسیہ آپا ، سرفراز سید ، محترمہ صدیقہ بیگم اور برادر محترم جناب ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی خصوصی فرمائش پر سنائی اور یہ نظم سننے کے بعد شرکائے قافلہ پڑاؤ نے بھرپور انداز میں داد دینے کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات کا بھی اظہار فرمایا۔
ایک نظم ۔ تَصوّف کیا ہے ؟
نظم نگار: سید عارف معین بلے
اُس نے پوچھا ہے تصّوف کیا ہے ؟
یہ مذہب ہے یا کوئی دین ہے ؟ یا کوئی مسلک ہے؟
مَفَرہے زندگی سے ، ترک ِ لذّت ہے؟
ریاضت ہے ؟عبادت یا بزرگوں کی روایت ہے ؟
شریعت ہے؟ طریقت ہے ؟
بتاٶ کیا حقیقت ہے ؟
کہاں سے لفظ یہ آیا ہے روحانی نصابوں میں ؟
کتابوں میں
خُمار ایسا نہیں ہوتا ہے کیوں آخر شرابوں میں ؟
سوال اِک سانس میں اُس نے بہت سے مجھ سے کر ڈالے
زباں پر پڑگئے تالے
ہَٹا کر مکڑیوں کے میں نے غار ِ فکر سے جالے
اے مت ۔ والے
یہ سوچا اب کلید ِ معرفت سے قُفل ِ باب ِ لَب کوکھولوں گا
چُنوں گا لفظ ، میزان ِ حقیقت لے کے
اِن لفظوں کو تولوں گا
جواب ہربات کادوں گا،
میں بولوں گا
تَصّوف نام ہے اللہ سے بس لَو لگانے کا
تصوّف نام ہے صدق و صَفا سےدل سجانے کا
نہیں ہے ترک ِ دُنیا ، نام ہے یہ قریہ ء جاں کو بسانے کا
سکوں کے دیپ روشن کرکے اندھیارے مٹانےکا
یہ منزل تونہیں،رستہ ہے پَرمنزل کوپانے کا
تصوف کیا ہے؟
بےشک دین ہے، مسلک ہے ،مذہب ہے
یہ اِک گہوارہ ء تہذیب ہے،مکتب ہے ، مشرب ہے
طلب ہے طالب و مطلوب کی، مقصد ہے، مطلب ہے
یقیناً دین ہے یہ ، دین ہے عشق و عقیدت کا
اگر مذہب اسے مانیں تو مذہب ہے محّبت کا
چلن ہے خود کو پانے کا ، یہ مسلک ہے حقیقت کا
اِسی کُنجی سے کھل سکتا ہے بے شک دربصیرت کا
جو سچ پوچھو تصوف کھیل ہے نزہت کا، نکہت کا
شریعت کی ہے خوشبو، رنگ ہے اس میں طریقت کا
شریعت اور طریقت لازم و ملزوم ہوتے ہیں
یہ ایسا لفظ ہے ،جس کے کئی مفہوم ہوتے ہیں
حقائق جو ہیں نامعلوم ، وہ معلوم ہوتے ہیں
جہاں ہے اِک تصوف،اور
اَن دیکھے جہاں بھی اس کے اندرہیں
یہ ایسی بوند ہے،جس میں معانی کے سمندرہیں
اگریہ سیپ ہے،اس میں کئی نایاب گوہر ہیں
یہ ایسا بیج ہے جس میں چُھپے اشجار ملتے ہیں
یقیں کیجے کہ پت جھڑ میں بھی برگ و بار ملتے ہیں
یہ ایسا پیڑ ہے ،جس سے بڑے اثمار ملتے ہیں
اندھیرے دور ہوجاتے ہیں ،جب انوار ملتے ہیں
تصوّف ہے فقہ باطن کا، دل کا تصفیہ بھی ہے
ہے بے شک نفس کی تہذیب ، اس کاتزکیہ بھی ہے
جوسلجھانی ہو گتھی معرفت کی ، یہ سِرا بھی ہے
یہ پُراسرار دُنیا بھی نظر آتی ہے، سچ یہ ہے
کہ یہ عُقدہ کشائی کا موثر سلسلہ بھی ہے
بہت سے نام بھی اس کے رہے ، اِس نام سے پہلے
تصوّف کا وجود ہم کو ملا اسلام سے پہلے
یہ دل میں ، جان میں بھی ہے
سبھی اَدیان میں بھی ہے
تصوف صرف اسلامی ممالک کانہیں ورثہ
یہ ہندوستان میں بھی ہے
بجا، یونان میں بھی ہے
تصوّف کا تصور تو مِرے قرآن میں بھی ہے
یقیں کیجے تصوف ہے یہودی بھی، مسیحی بھی
نظرآتی ہے بدھ مت میں بھی بے شک روشنی اِس کی
کسی بھی دور کادامن تصوف سے نہیں خالی
ملے گی ہر شجر سےمنسلک یہ آپ کو ڈالی
یہ وہ سانچہ ہے،جس میں زندگی اپنی اگر ڈھالی
خُدا پایا ، خودی پائی ، مراد ِ زندگی پالی
تصوّف صوف سے نکلا ہے، جس کواُون کہتے ہیں
یہ پہناوا ہے اُن کا،لوگ جو غاروں میں رہتے ہیں
یہ چشمے کوہ و صحرا اور بیابانوں میں بہتے ہیں
یہ ایسے پیڑ ہیں ، جو چھاٶں دینے کیلئے ہی دھوپ سہتے ہیں
تصوّف کا تعلق صوف سے بھی ہے ، صفا سے بھی
نظرآتی ہے صفوت بے شک اس میں صفوت اللہ کی
صَف ِ اول سے رشتہ اس کا ہے ، اہل ِ صُفّہ سے بھی
یقیناً مصطفیٰ سے بھی
تصوّف سے صف ِ اوّل کی ہر ہستی ہے وابستہ
سعی ہم کو بتاتی ہے
یہ مرویٰ و صفا سے بھی ہے ہم رشتہ
تصوّف جس کاہے رستہ
جہاد ِ نفس پر ہے وہ کمر بستہ
وہی صوفی ، وہی صافی ، اُسی کادل مُصفّی ہے
اُسی کاسینہ بے کینہ، حقائق کا خزینہ ہے
دقائق کاخزینہ ہے
من و تو کی مٹا کر سرحدیں عرفان پاتا ہے
وہ اپنے دھیان سے اور گیان سے نِروان پاتاہے
وہ آکر وجد میں وجدان پاتاہے
یقیناً دولت ِ ایقان پاتا ہے
وہ اِس دُنیا کا باسی ہے مگر عُقبیٰ کا بھی سامان پاتا ہے
گلی بند آبھی جائے سامنے تو وا درِ امکان پاتا ہے
مراتب دین اور دُنیا میں عالی شان پاتا ہے
اَنا جب ہو فنا تو کیا بقا ہے؟ جان پاتا ہے
وہ اپنی تنگ کُٹیا میں کھلا میدان پاتا ہے
وہ آکر چھاٶں میں جلتا ہے لیکن
دھوپ سے بھی چھاٶں کا فیضان پاتا ہے
ریاضت سے نئی پہچان پاتا ہے
ایک نظم ۔ تَصوّف کیاہے؟
نظم نگار: سید عارف معین بلے
قافلے کے ایک اور پڑائو میں بانو آپا اشفاق احمد کے ساتھ آئیں۔ سید فخرالدین بلے اور اشفاق احمد خان صاحب میں تصوف پر خوب مکالمہ ہوا۔ دونوں ہی دریائے تصوف کے شناور تھے۔ اشفاق صاحب کے سوالات کانٹے کے تھے اور فخرالدین بلے کے جوابات بھی۔ منور سعید، بیگم منور سعید، شائستہ سعید کے ساتھ ڈاکٹر وحید قریشی، بیدار سرمدی، کرامت بخاری، ڈاکٹر انور سدید، سرفراز سید، کنول فیروز، ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر اجمل نیازی، علامہ غلام شبیر بخاری، حسین مجروح، افتخار ایلی، اسرار زیدی، شاہد واسطی، میرزا ادیب، ظفر علی ر اجا، ڈاکٹر آغا سہیل، ڈاکٹر وزیر آغا، حسن رضوی، نجمی نیگنوی، غلام الثلقین نقوی، نسرین شیراز اور آمنہ آصف سمیت تمام شرکائے قافلہ اشفاق احمد اور فخرالدین بلے کے مابین ہونے والے مکالمے سے خوب محظوظ ہوئے۔ اختتام پر علامہ غلام شبیر بخاری نے سید فخرالدین بلے کی غزل کا یہ مصرع پڑھ کر بحث سمیٹی ۔سوال خوب تھا ،لیکن جواب کیسا ہے؟
بانو آپا یہ کہہ کر قافلے کے پڑائو سے اٹھیں کہ آج بڑی خوب صورت گفتگو سننے کو ملی ہے۔ ایسی محفلیں سجاتے رہو اور ہمیں بلاتے رہو۔
سید حامد سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علیگڑھ داتاکی نگری میں تشریف لائے توان کے اعزازمیں قافلے نے پڑاو ٔڈالا، رات کو میرے والد سید فخرالدین بلے نے ان کے لیے ضیافت کا اہتمام کیا۔ نامور ادبی جوڑا بھی خصوصی دعوت پر شریک محفل ہوا۔ بات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہوتی ہوئی تربیت گاہوں تک پہنچ گئی۔ بانو آپا نے کھل کر گفتگو کی۔ کہنے لگیں علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اپنے رنگ ڈھنگ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ یہ بولیں تو ان کی تربیت بھی بولتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کااہتمام کرناچاہیے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے ہیں لیکن تربیتی ادارے نہیں ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں کو تربیت گاہوں میں تبدیل کرکے سماجی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ ان کا ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا بڑا اچھا لگا، مجھے ہی نہیں بھارت سے آئے ہوئے مہمان سید حامد کو بھی۔
برسوں پہلے بانو آپا کی والدہ ماجدہ شدید علالت کے باعث لاہورکے ایک اسپتال میں داخل تھیں۔ میرے والدِ بزرگوار سید فخرالدین بَلے کو پتا چلا تو وہ میری ا می محترمہ اور مجھے لے کر اسپتال پہنچے۔ اشفاق احمد خان اور ممتاز مفتی صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ ان سے اسپتال کے باہرہی ملاقات ہوگئی۔ اب طبیعت کیسی ہے؟ ابو نے پوچھا تو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ خاموش رہے۔ البتہ ممتاز مفتی نے اتناکہاکہ بَلّے صاحب! جو آیا ہے، اسے جانا ہے۔ باریاں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں ہی نہیں ہمیں بھی جانا ہے۔ اللہ سے ملاقات کا بہانہ تو ضرور بنے گا۔ ان کا لب ولہجہ بتا رہا تھا کہ وہ دونوں کو تشفی اور تسلی دینے کے بجائے جوکچھ ہونے والا ہے، اس کے لیے ابھی سے ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں۔ پھر وہی کچھ ہوا، جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ بانو آپا کے سر سے محبتوں اور شفقتوں کا سایہ اُٹھ گیا۔ ان کی آ نکھوں میں آنسو توضرور جھلملائے لیکن وہ اللہ کے اس فیصلے پر راضی بہ رضا نظرآئیں۔ میں نے انہیں غم کاپہاڑ ٹوٹنے پر بھی پیکر ِ تسلیم پایا۔
بانو آپا اسلامی اقدار اور روایات کی امین تھیں۔ ڈھلکنے سے پہلے اپنے آنچل کو سنبھال لیتی تھیں۔ ان کی شخصیت اور فن پر تصوف کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ البتہ کسی ادبی تحریک کا اثر انہوں نے لگتا ہے قبول ہی نہیں کیا۔ دائیں بازواور بائیں بازو کی تحریکیں بھی چلیں لیکن انہوں نے دائیں یا بائیں طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا کیونکہ وہ تو میانہ روی کی قائل تھیں۔ اسی کو وہ سچا راستہ کہتی اور سمجھتی رہیں۔ غور کریں تو سچائی ہی ان کی شخصیت اور فن کی پہچان ہے۔ مخلوق ِخدا کی مدد کو ساری زندگی عبادت سمجھتی رہیں اور اس عبادت کی روشنی سے ان کی زندگی کی کتاب کے اوراق روشن ہیں۔
ایڈیٹر ادب ِ لطیف کی حیثیت سے بھی کئی بار مجھے معروف ادبی جوڑے سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ادیبوں اور شاعروں کے بہت سے قصے بھی سنے۔ پوچھنے پر یہ بھی بتا دیا کرتی تھیں کہ آج کل کون کون سی کتابیں پڑھ رہی ہیں اور کون کون سی کتابیں حال ہی میں پڑھ چکی ہیں۔ خود نمائی سے کوسوں دور تھیں۔ تکلف اور تصنع انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ سادگی، مروت اور رواداری ان میں رچی بسی تھی۔ ادب ِ لطیف کی چیف ایڈیٹر محترمہ صدیقہ بیگم سے بھی میں نے آپا بانو قدسیہ کی بہت سے باتیں سنی تھیں ۔ وہ ان کی سمدھن بھی تھیں۔دونوں میں محبتوں اور احترام کا رشتہ قائم ہی نہیں تھا، نظر بھی آتا تھا۔ اشفاق احمد صاحب کے رخصت ہو جانے کے بعد بانو آپا نے اپنی بہت سے سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ ادب سے رشتہ تو نہیں ٹوٹ پایا لیکن بینائی کمزور پڑ جانے کے باعث آخری ایام میں ان کا لکھنا لکھانا بہت کم ہو گیا۔ ان کےبیٹوں نے انہیں سنبھالے رکھا۔وہ اپنی ماں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے رہے۔ وہ واقعی اپنی ماں کی آنکھوں کا نور بنے رہے اور کسی بھی موڑ پر انہیں اپنی نظر کی کمزوری کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔
کوتاہی ہوگی اگر میں ان کی کتاب راہ ِ رواں کا ذکر نہ کروں ،جو انہوں نے اپنے مجازی خدا اشفاق احمد صاحب کے حوالے سے لکھی ہے۔اس کتاب کو پڑھ کر دو اہم شخصیات اپنے تمام تر خوب صورت خدو خال کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے آئیں گی۔ایک اشفاق خان صاحب اور دوسری شخصیت بانو قدسیہ کی ہے۔یہ محبتوں کے سفر کی زندہ کہانی ہے ،جس میں سچے جذبے کے بھرپور ترجمانی ہے۔ اس کتاب کو پڑھیے تو یہ خود بتائے گی کہ بانو آپا کے دل پر اشفاق احمد خان کی حکمرانی ہے۔
بانو قدسیہ کی زندگی کی کتاب بند ضرور ہوگئی ہے لیکن اس کےسا تھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ ان کی کتاب ِ زندگی کے اوراق دوبارہ کھلنے لگے ہیں۔مجھے یہاں اپنے والدمرحوم سیدفخرالدین بلے کاایک شعر موقع کی مناسبت سے یادآگیاہے
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجو
اب نئے زاویوں سے انہیں اوران کے فن کودیکھاجائے گا۔ممکن ہے ہم ان کی دودرجن سے زیادہ کتابوں سے ایک مختلف بانو قدسیہ کودریافت کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ایساہواتوان کی موت انہیں فنی زندگی میں ایک اورزندگی بخش دےگی۔ بہرحال مجھے تو لگتا ہے بانو آپانے اپناٹھکانہ ہی بدلا ہے ۔ پہلے وہ اس دنیا کی مکین تھیں ،اب اپنے چاہنےوالوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔
اردو ادب کا مان بانو قدسیہ اور فخرالدین بلے فیملی ، ایک داستان
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری