اردو ادب کے عصری رحجانات
نوٹ: یہ مضمون ساہتیہ اکادمی کے سیمنار میں پڑھا گیا تھا ۔ اسے جلد ہی آپ اردو کے ایک اہم رسالہ میں پڑھ سکیں گے۔فی الحال ایک مختصر اقتباس حاضر ہے۔
"ناولوں پر ایک نظر ڈالیں تو شموئل احمد کا ناول ’’گرداب‘‘ اور صغیر رحمانی کا ناول ’’ تخم خون‘‘ قابل ذکر ہیں۔موضوعاتی لحاظ سے دونوں ناول دو منتہاؤں پر نظر آتے ہیں۔شموئل احمد کا ناول گرداب محدود کرداروں کی نفسیاتی اور جذباتی جدوجہد کے گرد گھومتا ہے۔یہ محبت اور ہوس کے درمیان معلق انسانی رویوں کی کہانی ہے۔بظاہر دیکھیں تو یہ موضوع نیا نہیں بلکہ آفاقی ہے لیکن اصل چیز اس ناول کا بیانیہ ہے ۔بیانیہ پر اثر قوت کرداروں کے باطن میں داخل ہوکر ہر کردار کے مکمل وجود کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ بیانیہ ماضی کے اس سادہ بیانیہ سے بیحدمختلف ہے جس میں تخلیقی گہرائی اور گیرائی کی بجائے بیان کی سادگی ہوتی ہے۔ شموئل احمد کا یہ بیانیہ انسانی جذبات و احساسات کی پیچیدہ دروبست کے عین مطابق ہے، یہاں ایک دھندلی کیفیت جس میں معنی کی تہیں پوشیدہ ہیں۔ ناول کا مرکزی کردار ساجی ایک شادی شدہ عورت ہے ، کئی بچوں کی ماں ہے، ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے جو خود شادی شدہ ہے اور اپنی پاسداری اور سماجی حیثیت کی حفاظت کرتے ہوئے ساجی کے جسم سے لطف اندوز ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔یہ ناول ڈی ایچ لارنس کے ناول لیڈی چیٹر لز لور کی یاد دلاتا ہے لیکن ساجی کا کردار لیڈی چٹر لی کی طرح بولڈ نہیں ہے ۔یہ کردار ہندوستانی معاشرے کے عورت کی نفسیات کی نمائندہ ہے جو محبوب کی ہر خواہش کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ناول اس وقت قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ ڈالتا ہے جب ساجی ایک مکار ، خود غرض اور جسم کی لذت کے مارے شخص کی لاشعور ی خواہش کو عملی جامہ پہنا دیتی ہے۔ وہ لاشعوری خواہش کیا ہے ؟ ساجی کی موت تاکہ مرد اپنا سماجی وقار برقرار رکھ سکے۔ اور ساجی یہ موت خوشی خوشی قبول کرلیتی ہے۔دھند کی کی ایک عجیب فضا ابھرتی ہے کہ کسی کی لاشعوری خواہش کا شعور اتنا طاقتور کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنی جان دے دے؟ یہ سوال ہی شموئل احمد کے اس ناول کے پاور فل بیانیہ کو ہمارے سامنے لاتا ہے اور ہم نفسیاتی پیچیدگیوں کے تجربہ سے گزرتے ہوئے یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔
شموئل احمد کے ناول کے مقابلے صغیر رحمانی کے ناول ’’تخمِ خون‘‘ کا موضوع اگر اردو ناول کے لیے بالکل نیا نہیں تو کسی موضوعاتی تسلسل کا حصہ بھی نہیں۔ مراٹھی ، ہندی ، گجراتی اور دوسری ہندوستانی زبانوں میں دلت فکشن کی روایت بہت مضبوط ہے لیکن اردو میں دلت فکشن کا کوئی رحجان اتنی توانا شکل میں موجود نہیں جتنی توانائی کے ساتھ اسے تخم خون میں پیش کیاگیا۔میں سمجھتا ہوں یہ اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا ناول ہے جو دلت مسائل، دلت زندگی ، جدوجہد ، دلتوں کے استحصال کے نئے روپ اور دلت ڈسکورس کے پہلوؤں کو ایک ساتھ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
یہاں انفرادی سطح پر ناولوں کا جائزہ پیش کرنا میرا مقصد نہیں ، تقابلی مطالعہ کے لیے ایک علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ ان دو ناولوں کے حوالے سے میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کے فکشن میں عصری رحجانات پر غور کریں تو اس کی نوعیت تکثیری ہے۔ آج کے افسانوں اور ناولوں میں مابعد نوآبادیاتی ڈسکورس بھی ہے اور سماجی انتشار جو کہ مابعد جدید صورت حال ہے کا اظہار بھی۔آج کا فکشن نہ تو ترقی پسند ادب کی وابستگی کے تحت لکھا جانے والا اشتراکی اشتہار ہے ،نہ وجودیت کے غار میں اپنی ذات کے اندھیرے میں بھٹکنے والی فراریت۔آج فکری سطح پر فکشن نگارمارکسسٹ بھی ہے اوروجودیت کے نظریے کا صحیح فہم شناس بھی۔یہ دریدا کے معنی کی تکثیریت کو بھی سمجھتا ہے اور ایڈورڈ سعید کے مشرقیت کے تصور کو بھی۔ یہ فر د کی نفسیات کا بھی رمز شناس ہے اور ہجوم کے پاگل پن کا گواہ بھی۔"
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“