(Last Updated On: )
Abstract:
The independence of Pakistan and India from British Raj was a great event of the Sub-continent. The people of Indo-Pak struggled for this many years and presented great sacrifices in this noble cause. People from all aspets of life contributed in both sides of borders to get independence. The history will not forget struggle of these people and always remember it n golden words. Urdu poets played a leading role in promotion of freedom movement. Urdu poets agitated of every inhuman step of British colonial power. Some of the eminent Urdu writers, which occur in frontline of freedom struggle. Similarly there are lot of names of poets, journalists and fiction writers who's writing played an important role in the freedom. Here we highlighted the role of urdu literature in the movement of freedom.
آزادی ، ضرورتوں کو محسوس کرنے کا دوسرا نام ہے۔ دنیاوی ضرورتیں بڑھتی، بدلتی اور نت نئی شکل اختیار کرتی ہیں۔ جنگلی جانوروں کے شکار پر گزر بسر کرنے والوں اور کھیتی باڑی کرنے والوں کی ضرورتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح ہل جوتنے اور صنعتی کارخانوں میں کام کرنے والوں کی ضرورتیں بھی الگ ہوتی ہیں۔ ان کا آزادی کا تصور بھی مختلف ہوتا ہے بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ آزادی کا تصور بھی انسانوں کی ضرورتوں کے ساتھ بدلتا اور ترقی کرتا رہتا ہے۔ ہندوستان کے پچھلے ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ جس رفتار سے ہم میں اپنی ضرورتوں کا احساس بڑھا ،آزادی کے تصور نے بھی اسی رفتار سے ترقی کی۔
ادیب اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسا ہی ہو مگر جب وہ فن کی بات کرتا ہے تو سچائی اور حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جس ملک میں مختلف قسم کی تحریکیں چل رہی ہوں وہاں ادب ان سے متاثر نہ ہو ، ایسا ممکن نہیں ۔ انسانیت کی ناقدری ، ناانصافی ، رنگ اور نسل کا امتیاز جیسے مسائل جہاں موجود ہوں، وہاں ادیب چپ کیسے رہ سکتا ہے؟ حب الوطنی ، سماجی مسائل اور ترقی ، جنگ اور امن، رنگ اور نسل ، یہ ایسے موضوعات ہیں ، جن سے کسی نہ کسی سطح پر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے ۔ انسانیت کے خلاف جب جب ظلم ہو گا تو ادیب اپنی آوازضرور بلند کرے گا۔
جتنے زینے ہندوستانی سماج نے طے کیے ہیں، اتنے ہی ہمارے ادب نے بھی کیے ہیں ، جتنے دور ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں آئے ہیں اتنے ہی دور ہمارے ادب پر بھی آئے ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ادب اور زندگی میں بڑا بنیادی تعلق ہے ۔ ادب زندگی کی حقیقتوں اور ضرورتوں کا ایسا عکس ہوتا ہے جو خود زندگی پر اثر ڈالتا چلا جاتا ہے۔ وہ زندگی کی وسعتوں کے ساتھ پھیلتا ہے ۔ مثال کے طور پر اردو شاعری میں آزادی کے تصور ہی کو لیجیے ، زندگی کی ضرورتوں کا احساس جس رفتار سے بڑھا، ہندوستانی سماج میں حرکت اور بیداری کی لہریں جس تیزی سے آئیں اسی رفتاراور تیزی سے اردو شاعروں کا آزادی کا تصور بدلا ۔ اردو زبان و ادب کے متعلق پروفیسر آل احمد سرور کا یہ بیان حیاتِ جاوداں کی حیثیت رکھتا ہے:
’’اردو ادب کالہلہاتا ہوا باغ تنہا ایک باغبان کی محنت کا ثمرہ نہیں۔ اس کی آبیاری مختلف جماعتوں ، مذاہب اور ممالک نے مل کی کی ہے۔ اس کی تعمیر میں بہتوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔ فقیروں اور درویشوں نے اس پر برکت کا ہاتھ رکھا ہے۔ بادشاہوں نے اسے منہ لگایا ہے۔ سپاہیوں نے زبانِ تیغ اور تیغِ زبان دونوں کے جوہر دکھائے ہیں پھر بھی یہ جمہور کی زبان اور جمہور کا ادب ہے۔‘‘(۱)
اردو شعر و ادب میں ہندوستانی ثقافت، معاشرت اور تہذیب کی ترجمانی کی گئی ہے ۔ وطن عزیز کی آزادی کے لیے اردو زبان نے جو قربانیاں پیش کی ہیں وہ ہماری قومی تاریخ کا درخشاں باب ہیں۔ شارب رودلوی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کی جنگِ آزادی دو اسلحہ سے لڑی گئی۔ ایک اہنسا، دوسرا اُردو زبان۔‘‘(۲)
اردو کی تمام اصنافِ سخن میں آزادی اور حب الوطنی کا جذبہ پایا جاتا ہے ، اردو کی نظمیہ شاعری میں یہ جذبہ زیادہ واضح اور مستحکم طور پر نظر آتا ہے۔ بطورِ خاص جدوجہد آزادی کے زمانے کی تخلیق کردہ بیش تر نظموں میں حب الوطنی اور آزادی کا تصور بہت توانا نظر آتا ہے ۔ دکن میں لکھی گئی مثنویات میں حب الوطنی کا جذبہ غیر واضح اور ذاتی سطح پر نظر آتا ہے لیکن جب ملک نئے حالات و مسائل سے دو چار ہوا اور سیاسی، سماجی تہذیبی اعتبار سے تبدیلیاں رونما ہوئیں اور جدید افکار و خیالات کی پذیرائی ہونے لگی، تو اردو نظم کے روایتی اسالیب میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ کرنل بالرائڈ اور محمد حسین آزاد کی کاوشوں سے پنجاب میں نظم جدید کی تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اور یہ اردو نظم حیات وکائنات کے مسائل کی ترجمان بن گئی۔ ایسے نظم گو شعرا میں الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی ، محمد حسین آزاد ، اسمٰعیل میرٹھی ، سرور جہاں آبادی، برج نرائن چکبست، علامہ اقبال ، مولانا حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، اکبر الہ آبادی، علی سردار جعفری ، مخدوم محی الدین ، مجاز، فیض احمد فیض وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔اردو نظم میں ہر شاعر نے سیاسی مضامین کو فوقیت دی ہے۔ ان میں مولانا شبلی نعمانی ہمیں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان کے بعد اکبر، اقبال، چکبست اور ظفر علی خاں نے اس روایت کو فروغ دیا لیکن غزل کے میدان میں سیاسی مضامین کھل کر پیش کرنے کا سہرا حسرت کے سر ہے۔ ان شعرا کے علاوہ دیگر بہت سے شعرا نے بھی وطنی اور سیاسی تحریکوں سے متاثر ہو کر بے پناہ نظمیں کہیں اور قوم کو عمل کا پیام سنانے اور حریت کا درس دینے کی سعی کی ۔ ایسے شعرا میں وحید الدین سلیم، سید سلیمان ندوی، نیاز فتح پوری، اقبال سہیل ، تلوک چند محروم، افسر میرٹھی، احمق پھپھوندوی، جگر مراد آبادی ، حفیظ جالندھری ، آنند نرائن ملا اور روش صدیقی شامل ہیں۔
سید سلیمان ندوی نے اپنی ایک نظم ’’قدیم و جدید طرزِ حکومت‘‘ میں انگریزوں کے سرمایہ داری نظام کا شہنشاہی سے مقابلہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اگر شخصی حکومت میں عدل کے اصول و آداب متعین نہیں ہوتے اور بادشاہ اپنی موج میں جو پسند کرے ، کرتا چلا جائے لیکن انگریز حکومت اس سے بھی بدتر ہے کیوں کہ پہلے جبر و استبداد کا مرکز فقط بادشاہ کی ذات ہوتی تھی اور اب سارے کا سارا حاکم طبقہ ظالم اور قاتل بنا بیٹھا ہے۔
وحید الدین سلیم نے اپنی اِک نظم ’’وطن سے خطاب‘‘ میں ہندوستان کی صنعتی بدحالی کا نوحہ بیان کیا ہے اور اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں صنعتی ترقی کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔
نیاز فتح پوری کی نظمیں ’’دعوتِ درد‘‘ ،’’خود فراموش‘‘ اور ’’درس فنا‘‘ تحریکِ خلافت کے ہیجانی دور کی یاد گار ہیں۔ اسی طرح اقبال سہیل نے اپنی نظم ’’بن جائے نشیمن تو کئی آگ لگا دے‘‘ میں قوم کو حرکت و عمل کی ترغیب دی۔ اختر شیرانی نے اس سلسلے میں بلاواسطہ کچھ نہیں لکھا ، البتہ انھوں نے اپنے ایک گیت ’’لوری‘‘ میں ایک معصوم بچے کے مستقبل میں خواب آزادی کی تعبیر نکالنے کی کوشش کی ہے۔
تلوک چند محروم کی نظمیں سامراج دشمنی کے زہر میں بھیگی ہوئی ہیں، وہ قوم اور وطن کا گہرا درد محسوس کرتے تھے لہٰذا دیشی تحریک، جلیاں والا باغ ، ترک مواصلات سے متعلق ان کی نظمیں سامراج دشمنی کے زہر سے رچی ہوئی ہیں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں میں اخوت اور اتحاد بڑھانے کے لیے اُنھوں نے بہت نظمیں لکھیں۔ ان کی نظموں میں انگریزوں کی چالوں پر چوٹیں ہیں۔
افسر میرٹھی کی نظمیں ’’وطن کا راگ‘‘ ، ’’بھارت پیارا بھارت‘‘، ’’ہمارا وطن‘‘ اور’’ جیسا میرا دیش ہے افسر ایسا کوئی دیش نہیں‘‘ ان کی حب الوطنی کے گہرے جذبات سے مملو ہیں ۔ یہ نظمیں اپنی سادگی بیان، صداقت اور روحانی آمیزش کی وجہ سے ہمیشہ یاد رہیں گی۔محمد مصطفی خاں مداح (احمق پھپھوندوی) نے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے اپنی غزلوں میں انگریز حکومت پر طنز و تعریض کے تیر چلائے ہیں۔ اُن کی وطنی نظموں میں سے ’’ہمارا دیش‘‘ اور ’’کڑے مرحلے‘‘ زندہ رہنے والے فن پارے ہیں۔ جگر مراد آبادی نے اپنے وطنی جذبات کا اظہار اپنی فارسی نظم ’’چشم کشادہ جانب رزم گہہ وطن نگر‘‘ میں خوب کیا ہے اور فرنگی استبداد کی لعنتوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ حفیظ جالندھری بھی وطن کے ترانے الاپنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اُن کی نظموں اور گیتوں میں قوم کی محبت کا سچا درد ملتا ہے ۔ ساغر نظامی کی اس دور کی نظموں میں سے ’’قومی گیت‘‘ ، ’’پیغام عمل‘‘ اور ’’تاج کا پیغام‘‘ وطنیت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ غلام بھیک نیرنگ، عبدالمجید سالک اور لال چند فلک نے بھی قومی اور وطنی جذبے کے زیرِ اثر بعض اچھی نظمیں کہی ہیں ۔نیرنگ نے ’’دعوتِ عمل‘‘ میں قوم کو اس بدحالی کا مرقع دکھا کر اُسے اُبھارنے کے لیے بڑا دل نشین پیرایہ اختیار کیا ہے۔
نہال سیو ہاروی کی نظم ’’وطن‘‘ ہندوستان پر کہی گئی اردو کی بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔
اقبال اُردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے کسانوں اور محنت کشوں کا درد محسوس کیا اور ان میں ولولہ اور اُمنگ پیدا کرنے کی کوشش کی۔
اقبال نے مزدوروں کی اہمیت کے پیشِ نظر انھیں بیداری اور عمل کا پیغام دیا گیا ۔ احسان دانش مزدور طبقہ کی بے کسی اور دُکھ درد کے شاعر ہیں۔ وہ باغی نہیں، لیکن بغاوت بھڑکانے والے آثار کی بڑی مؤثر عکاسی کرتے ہیں۔ وہ انقلاب اور مزدور طبقہ کی ترقی کے داعی ہیں، لیکن داخلی سوز کی کمی ان کے ہاں بھی محسوس ہوتی ہے۔
ساحر لدھیانوی کی انقلابی شاعری کی امتیازی شان اس کی روانی اور نغمگی ہے۔وہ ہنگامی موضوعات پر لکھتے ہوئے بھی شائستگی اور ضبط کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وطن دوستی کی روایت کو نکھارنے میں دامق جون پوری نے بھی حصہ لیا ہے ۔ ان کا جذبۂ آزادی بے باک ہے۔ نشور واحدی ، شورش کاشمیری ، الطاف مشہدی ، تخشب جار چوی اور مطلبی فرید آبادی نے بھی اُس دور میں وطن دوستی کی روایت کو نئی آب و تاب دینے میں حصہ لیا ہے۔شورش کاشمیری قوت جمہور کے پرستا ر ہیں۔ ’’نئے دور کا فرماں‘‘ اور ’’ذرا صبر‘‘ جیسی نظموں میں ان کا یہ احساس شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔اُس دور میں ہندوستانی زندگی کے درد و کرب کی عکاسی اور جذبۂ آزادی کی ترجمانی صرف ترقی پسند شاعروںتک محدود نہ تھی۔ اردو کے بعض دوسرے شاعری بھی جو ترقی پسند تحریک کے پیرو نہیں تھے، حب وطن کی شمع روشن کیے ہوئے وقت کے نئے تقاضوں کا ساتھ دے رہے تھے۔ بلاشبہ یہ سیاسی بحران جو ہندوستان کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ ادیبوں کا اس طرح سوچنا بے حد قابلِ قدر تھا۔ افسانوں ، ڈراموں اور ناولوں میں تو نہیں لیکن شعری ادبیات میں ایسے مقامات بہت سے ملیں گے جہاں شعرا نے قومی رہنمائوں کو برطانوی سیاست کی چال بازیوں سے آگاہ کیا ہے۔ اُن کے جال میں پھنسنے سے روکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے رہنمائوں کی غلط کاریوں پر تنقید بھی کی ہے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود ملک کی سیاسی اور معاشی آزادیٔ خواہش میں جوش، مجاز، مخدوم، جاں نثار اختر، فیض، فراق، سردار جعفری، کیفی، قاسمی، احسان دانش، شمیم کرہانی، آنند نرائن ملا وغیرہ ہم آواز رہے۔
بسمل عظیم آبادی جیسے شعرا سے سرفروشانِ وطن کے حوصلوں کو توانائی اسی زبان نے بخشی ہے۔ اسی زبان کے صحافی مولوی محمد باقر بھی تھے جنھیں ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کے خلاف خبریں شائع کرنے کے جرم میں جامِ شہادت نوش کرنا پڑا تھا اور اپنی ساری جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں اس ملک کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو نے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ یہ زبان اِس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی امین بھی ہے ۔ سیکولرازم اس زبان کے خمیر میں ہے۔ یہ زبان صوفیوں اور درویشوں کی گود میں کھیلی ہے، خانقاہوں میں اس نے پرورش پائی ہے لہٰذا مذہبی رواداری اس کی روح میں اتری ہوئی ہے۔ اردو کے متعلق پنڈت جواہر لال نہرو کا یہ بیان ایک ایسی سچائی ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا :
’’اردو ہندوستان کے تہذیبی کڑھائو میں تاریخ کی آنچ میں پکے ہوئے لاتعداد عناصر سے تیار کیمیا ہے جسے ہم چاہیں بھی تو نظر اندازنہیں کر سکتے۔ تلسی کی رام چرت مانس ہو یا سکھ مذہب کا گرو گرانتھ صاحب یا شاہ عبدالقادر کا قرآن حکیم کا ترجمہ۔ ان میں زبان کا جو خمیر اٹھ رہا ہے اس سے اردو بڑھی اور پنپی ہے۔‘‘(۳)
پریم چند نے خلافت تحریک کے متعلق ہندوئوں کے اس عام رجحان کو دیکھتے ہوئے کہاتھا:
’’حقیقت یہ ہے کہ ہندوئوں نے کبھی خلافت کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور نہ سمجھنے کی کوشش کی بلکہ اس کو شبہ کی نظر سے دیکھتے رہے۔ ہم کہتے ہیں اگر ہندوئوں میں ایک بھی کچلو ، محمد علی جوہر یا شوکت علی ہوتا تو ہندو سنگھٹن اور شدھی کی اتنی گرم بازاری نہ ہوتی۔‘‘(۴)
اردو زبان نے ہر دور میں ہندوستانیوں کے دلوں میں محبت کے دیپ اور اتحاد و یک جہتی کی قندیلیں جلانے کا مقدس فریضہ بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ غلام ہندوستان رہا ہو یا آزاد ہندوستان ، اس زبان نے ہمیشہ اقبال کے لفظوں میں اہلِ وطن کو یہی پیغام دیا ہے :
وا نہ کرنا فرقہ بندی کیلیے اپنی زبان
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے(۵)
اردو ادب میں آزادی کی تڑپ اور آزادی کے تقاضوں کا باقاعدہ تصور حالی کی نظموں سے پیدا ہوا۔ انھیں وطن کی محکومی کا شدید احساس تھا ۔ وہ ملک کو غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے۔حالی کی نظموں کے ذریعے اردو شاعری میں ایک خاموش انقلاب کی ابتدا ہوئی۔ اپنی شاعری کے ذریعے انھوں نے قوم کو سیاسی ، سماجی اور تہذیبی قدروں کا احساس دلایا۔ یہ دور سیاسی، سماجی انتشار کا دور تھا۔ نظم جدید تحریک سے متاثر ہو کر حالی نے ’’حبِ وطن‘‘ کے نام سے ایک مثنوی میں حب الوطنی کے تصور پر روشنی ڈالی ہے ۔آزادی اور حب الوطنی سے سرشار ادبا و شعراکی تخلیقات میں اب آزادی ، بغاوت ، وطنیت کا شعور بنیادی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ حالی کی نظم ’’حبِ وطن‘‘ میں وطن کی محبت، قومی و ملی استحصال ، بے حسی، بے بسی اور بے چینی کو بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی قوم کو ہنر سیکھنے اور آپس میں پیار محبت سے رہنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپس کی پھوٹ سے ملک و قوم دونوں تباہ ہو جائیں گے، اس لیے متحد ہو جائو۔ اب تک بہت سوئے ، اب اُٹھ جائواور وطنِ عزیز کے لیے خودکو قربان کر دو۔نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اے وطن اے میرے بہشت بریں
کیا ہوئے تیرے آسماں و زمیں
کاٹے کھاتا ہے باغ، بن تیرے
گل ہیں نظروں میں داغ، بن تیرے
مٹ گیا نقش، کامرانی کا
تجھ سے تھا لطف زندگانی کا
تیری اک مشتِ خاک کے بدلے
لُوں نہ ہر گز ، اگر بہشت ملے
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو
اُٹھو اہل ، وطن کے دوست بنو
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی
اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی
چھوڑو افسردگی تو جوش میں آئو
بس بہت سوئے ، اُٹھو اب ہوش میں آئو(۶)
یورپ کے ماحول، مشاہدات اور ذاتی تجربات نے اقبال کے نقطۂ نظر میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس لیے وہ امن و آسائش کو چھوڑ کر ہنگامہ آرائیوں کے دلدادہ ہو گئے۔ مغرب کے لیے تنبیہ اور محکوموں کے لیے مسیحا بن گئے۔ سرسید نے مسلمانوں کی خودی کو جھنجھوڑا ۔ حالی نے عہد گزشتہ کی عظمت و شوکت کے افسانے دہرا کر قوم کو پستی اور زبوں حالی سے نکالنے کا تہیہ کیا لیکن مستقبل کی کوئی راہ متعین نہ کر سکے۔ اکبر نے مغربی رو میں بہہ جانے سے قوم کو روکنا چاہا مگر یہ کام اُن کا نہ تھا۔ زمانہ کی رفتار کو بدلنا اور سیلاب کا رخ پھیرنا اقبال کا کام تھا۔ اقبال نے محسوس کر لیا تھا کہ اسلامی دنیا کی حالت بڑی یاس انگیز ہے۔ ایک طرف تو علم و حکمت کا سرچشمہ، جس میں کبھی مشرق ومغرب کی آبیاری کی تھی۔ نہایت تیزی سے خشک ہو رہا تھا اور دوسری جانب مغربی تہذیب و تمدن کی رو روز بڑھتی چلی آتی ہے۔ چنانچہ اُنھوں نے گو سفند ا ن قدیم کی تباہ کن تعلیمات کا طلسم توڑ کر رکھ دیا اور اسلام کا عالمگیر پیغام ملتِ اسلامیہ یا اقوام مشرق اور تمام دُنیا کو سُنا دیا۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز جب وطن سے سرشار نظموں سے کیا تھا ۔ اردو شاعری میں ان کا نام اس وقت سب سے پہلے لیا جاتا ہے، جب ہم روسی انقلاب سے متاثر ہونے والے شاعروں کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں سب سے پہلے مارکسٹ سے اقبال ہی متاثر ہوئے اور کہا:
اُٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے درو دیوار ہلا دو(۷)
علامہ اقبال نے ہندوستانی قوم میں اپنی نظموں کے ذریعے وطن کی محبت کے جذبے کو فروغ دیا جس سے آزادی کی قومی جدوجہد میں بڑی قوت ملی۔ ایسی نظموں میں ’’ہمالہ‘‘ ، ’’تصویرِ درد‘‘، ’’ترانہ ہندی‘‘، ’’نیا شوالہ‘‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ وہ قومی اتحاد و قومی یک جہتی کے حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تحریکِ آزادی کی جدوجہد کو بڑی غور و فکر سے جانچا تھا۔ جس کا اندازہ ان کی شاعری میں اکثر مقامات پر ملتا ہے:
اُٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو
گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سُلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو(۸)
_______
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اُٹھ کے اب بزمِ جہاں کا اور ہی اندا زہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغازہے(۹)
_______
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں ، نقشِ دوئی مٹا دیں(۱۰)
محمد حسین آزاد کو قوم و ملت کو راہِ راست پر لانے کا مؤثر طریقہ شاعری کے بجائے نثر میں نظر آیا لیکن پھر بھی انھوں نے آزادی کی تڑپ کے جذبے کو بیان کرنے کے لیے نظم کا بھی سہارا لیا۔ آزاد اور حالی نے انجمن پنجاب کے جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی نظموں کے ذریعے ہندوستانیوں کے دلوں میں وطن کی محبت اور آزادی کے جذبوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ آزاد کی نظموں کے موضوعات محبت، اخوت، اخلاق و معاشرہ ، محنت و کاوش اور حبِ وطن وغیرہ ہیں۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے ہم وطنوں کو محبت ، اتحاد، دوستی اور امن کا پیغام دیتے ہیں۔ اُن کی نظم ’’حب وطن ‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اُلفت سے سب کے دل سرد ہوں بہم
اور جو کہ ہم وطن ہوں وہ ہمدرد ہوں بہم
لبریز جوش حب وطن سب کے جام ہوں
سرشار ذوق و شوق دل خاص و عام ہوں(۱۱)
آزاد نے اپنی نظموں کے ذریعے ہندوستانیوں کے پژمردہ دلوں میں اُمید کی کرن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ نئی لہر جو اٹھی تو آگے اور مضبوط ہوتی چلی گئی ۔ تقسیم بنگال سے لے کر آزادی حاصل کرنے تک کوئی ایسا واقعہ ، کوئی ایسی تحریک نہیں جس میں شامل ہونے اور انگریز مخالف آواز کو تیز سے تیز تر کرنے کے لیے اردو شاعری نے اپنی تخلیقات نہ پیش کی ہوں۔ آزادی فکر، آزادی اظہار، احترامِ آدمیت اور انسانی اقدر کی بحالی اور پاسداری ، یہ وہ عناصر ہیں جو فیض کی آواز کو ایک مخصوص نظریے ہی کی نہیں بلکہ ایک عہد کی توانا آواز بناتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’فیض جبر واستحصال کے دشمن تھے۔ عدل و انصاف کے داعی تھے۔ عوام کو انسانی قوتوں کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ وہ عوام جن سے قوموں کی کھیتیاں سرسبز و شاداب ہو جاتی ہیں ۔ صنعت و حرفت پھلنے پھولنے لگتی ہے اور زندگی کے چشمے ابلنے لگتے ہیں ، ان کی شاعری عوام کی اسی قوت کی ترجمان ہے۔‘‘(۱۲)
فیض احمد فیض نے ان تمام سیاسی معاملات کو اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے اور اس پیرائے میں بیان کیا کہ انقلاب آزادی نے ایک پری کا روپ دھارا ، جو ہر گھر کا پھیرا لگائے گی جو محرومیوں اور مجبوریوں کو چین و آرام سے آشنا کرے گی۔ انسانیت پرستی فیض کے بدن میں لہو کی طرح گردش کرتی ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں کشت و خون نے ان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
جوش ملیح آبادی جنگ آزادی کے موضوع پر کھل کر لکھنے کی وجہ سے ’’شاعرِ انقلاب ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔شعر ا اور ادبا نے تو جوش ملیح آبادی کے لفظوں میں بارگاہ خداوندی میں یہی دعا مانگی ہے:
دل ملتے ہیں جس سے معبود وہ مے ٹپکا
پیمانۂ ہندو میں مینائے مسلماں میں(۱۳)
_______
اے وطن! آج سے کیا ہم ترے شیدائی ہیں
آنکھ جس دن سے کھلی ، تیرے تمنائی ہیں
مدتوں سے ترے جلوئوں کے تماشائی ہیں
ہم تو بچپن سے ترے عاشق و سودائی ہیں
تجھ کو ، جیتے ہیں تو ، غمناک نہ ہونے دیں
ایسی اکسیر کو یوں خاک نہ ہونے دیں گے
جی میں ٹھانی ہے یہی ، جی سے گزر جائیں گے
کم سے کم وعدہ یہ کرتے ہیں کہ مر جائیں گے(۱۴)
_______
اے قدامت! یہ کھُلی ہے سامنے راہ فرار
بھاگ وہ آیا نئی تہذیب کا پروردگار
کام ہے میرا تغیر ، نام ہے میرا شباب
میرانعرہ ’’انقلاب‘‘ و’’انقلاب ‘‘ و انقلاب
کوئی قوت راہ سے مجھ کو ہٹا نہیں سکتی
کوئی ضربت میری گردن کو جھُکا نہیں سکتی(۱۵)
ان کے کلام کا اکثر حصہ وطن کی محبت کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ اُن کی نظمیں سیاسی اور سماجی انتشار کی آئینہ ہیں۔ اور وہ انقلابی نعرہ بازی سے لبریز ہیں۔ ان کے پُرجوش اور ولولہ انگیز اندازِ بیان نے آزادی کے متوالوں کو سربکف ہونے پر آمادہ کیا ۔
جوش کی نظموں کے موضوعات میں نسلی منافرت، سیاسی غلامی، قومی نفاق اور معاشرتی جبر و استحصال شامل ہیں۔ ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔ تحریک آزادی زوروں پر تھی ۔ انھیں کامل یقین ہو گیا تھا کہ اب ملک آزاد ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جوش کی انقلابی شاعری میں وطن پرستی کا جذبہ ، مُلک کو محکومی سے نجات دلانے کی تمنا، جوش، ولولہ اور حوصلہ پورے طور پر نظر آتا ہے۔اس لیے ان کی نظمیں بغاوت و انقلاب جیسے جذبوں سے سرشار ہیں۔ نظم ’’شکست زنداںکا خواب‘‘ سے کچھ اشعار:
کیا بند کا زنداں کانپ رہا ہے ، گونج رہی ہیں تکبیریں
اُکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے ، توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے ، دم توڑ رہی ہیں تدبیریں(۱۶)
علی سردار جعفری کی شاعری دعوت انقلاب ، پیغامِ بیداری اور جذبۂ آزادی سے لبریز ہے۔ علی سردار جعفری کی نظموں میں شدت پسندی ، جوش و ولولہ ، انگریزوں کے تسلط کی مذمت اور آزادی کا جذبہ زوروں پر دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے جب اپنی نظم ’’نئی دُنیا کو سلام‘‘ تخلیق کی تو اُس وقت ہندوستان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ آزادی کے نام پر کشت و خون کا بازار گرم تھا۔ سارا ملک خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود انسان اپنے حق و انصاف کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ یہی انسان سردار جعفری کی نظر میں سب سے زیادہ حسین، ناقابلِ شکست اور ادب و فن کا ابدی موضوع ہے۔ انھوں نے اپنے دیباچہ میں ان خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے:
’’دُنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں آیا جس میں انسان کو شکست ہوئی ہو ۔ افراد اور طبقات کو شکست ہوتی رہی ہے اور ہو گی لیکن انسان ناقابلِ شکست ہے کیوں کہ اس کی محنت، عمل اور جدوجہد اس کے اپنے شعور ہی کی نہیں بلکہ بڑی حد تک اس کے ماحول کی بھی خالق ہے۔ اس لیے ہمیشہ وہ فتح مند اور کامران رہے گا۔‘‘(۱۷)
نظم ’’نئی دُنیا کو سلام‘‘ ایک عمدہ ترین ڈرامائی تخلیق ہے جس میں ڈراموں کی مختلف خصوصیات اور جذبوں کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ اس کے حرف اول میں انسٹھ (۵۹) مرتبہ لفظ سیاہ اور سیہ کو پیش کر کے ایک ہولناک منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس میں ہندوستان کیسیہ ترین حالات و واقعات اور انگریز سامراج کے ظلم و استبداد کی کہانی بیان کی گئی ہے اور اسے ضمیر عہد غلامی کی تیرگی ، سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حرفِ آخر میں یہ مصرعے:
یہ آدمی کی گزرگاہ شاہ راہِ حیات
ہزاروں سال کا بارِ گراں اٹھائے ہوئے
تین مرتبہ دہرائے گئے ہیں جس میں ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صبح نو کی نوید سنائی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بشارت دی گئی ہے کہ نئے اُفق سے نئے قافلوں کی آمد ہے۔
اُٹھ اور اُٹھ کے انھی قافلوں میں مل جائو
جو منزلوں کو ہیں گرد سفر بنائے ہوئے(۱۸)
علی سردار جعفری آزادی کی جدوجہد میں قلم کے ساتھ عملی طور پر بھی شریک رہے۔ زنداں میں قید بھی ہوئے لیکن ان کی وطن پرستی کے جذبے میں کمی نہ آئی۔ وہ انگریزوں کو فرعون سے تعبیر کرتے تھے:
جانتے ہو ہماری نگاہوں میں تم کون ہو
عصرِ حاضر کے فرعون ہو
تم وہ قاتل ہو گردن ہے جن کی
ایک دو کا نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کا خُون
ہم کو غلامی گوارا نہیں ہے
ایک بھی ذرا اب اس ملک میں
تمھارا نہیں ہے
زندگی تم سے تنگ آ چکی ہے
ساری دُنیا اب اُکتا چکی ہے(۱۹)
شہزاد احمد کی شاعری میں پوری گہرائی کے ساتھ سماجی مسائل کا تصور موجود ہے۔ وہ انفرادیت اور شخصی اقدار کو اہمیت دیتا ہے:
گٹھڑیاں عہدِ گزشتہ کی لیے پھرتا ہوں
اور تو بوجھ نہیں کوئی مرے شانے پر(۲۰)
ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کے جذبات کو توانائی بخشنے کے لیے اردو میں دیے گئے سرسید احمد خاں کے اس بیان کا کیا کوئی مول ہے جس میں انھوں نے اہلِ وطن کو مخاطب کر کے یہ کہا تھا:
’’اے میرے دوستو! میں نے بار ہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی خوب صورت اور رسیلی دو آنکھیں، ہندو مسلمان ہیں اگر وہ دونوں آپس میں نفاق رکھیں گے تو وہ پیاری دلہن بھینگی ہو جاوے گی اور ایک دوسرے کو برباد کر دیں گے تو وہ کانڑی بن جاوے گی۔۔۔۔اب تم کو اختیار ہے کہ چاہو اس دلہن کو بھینگا بنائو یا کانڑا۔‘‘(۲۱)
اردو وہ زبان ہے جو ہمیں تہذیب یافتہ بناتی ہے اور شائستگی کا ہنر بھی سکھاتی ہے ۔ فراق گورکھپوری جو اس زبان کے عاشقوں میں تھے اکثر طلبا سے کہا کرتے تھے:
’’اردو اس لیے بھی پڑھو کہ افسر بننے کے بعد افسر دکھائی دو۔‘‘(۲۲)
الغرض اُردو شاعری نے مجاہدین آزادی کے قدم سے قدم ملا کر ہندوستانی عوام کو آزادی کی نعمت و رحمت کا احساس دلایا۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی اور وطن کے ساتھ والہانہ محبت رکھنے کا درس دیا، یہاں تک کہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ہماری آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ ترقی پسند تحریک کا اساسی تصور ایک ایسے انقلاب کی طرف پیش قدمی تھی جو غیر طبقاتی سماج کو وجود میں لائے۔ اس تحریک کے پیرو موجود سماج معاشرت اور سیاست سے اس حد تک نامطمئن تھے کہ ان کے نزدیک سماجی قدروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری تھا جو استحصالی نظام کی پہچان تھیں۔ چنانچہ سرخی شفق کی ہو یا لہو کی وہ مجموعی طور پر ترقی پسند ادب میں بھی اور فیض کے ہاں بھی انقلاب کی علامت بنی۔ اس طرح دار ورسن کی علامت ایک طرف تو اس ناانصافی اور استحصالی رویے کی نمائندہ بنی جو آمریت پسندوں اور جمہوری قدروں سے ناآشنا متعدد قوتوں میں مروج تھا تو دوسری طرف یہ دار و رسن انقلاب چاہنے والوں کے لیے حصولِ منزل کا وہ راستہ تھا جس پر چل کر وہ منزل پا سکتے تھے۔
حوالہ جات
۱۔ بحوالہ اپردو زبان و قواعد، حصہ دوم، شفیع احمد صدیقی،نئی دہلی: مکتبہ جامعہ، ۲۰۰۸ء، ص:۱
۲۔ فکرو تحقیق، سہ ماہی، شمارہ۳، جلد ۶۱، جولائی تا ستمبر ۲۰۱۳ء، ص:۵۸
۳۔ بحوالہ کتاب نما، ماہنامہ، نئی دہلی: اگست ۲۰۰۸ء، ص:۴۳
۴۔ قحط الرجال، زمانہ، دہلی: فروری ۱۹۲۴ء، ص:
۵۔ محمد اقبال، علامہ، کلیاتِ اقبال، لاہور:اقبال اکیڈمی، اشاعت ششم، ۲۰۰۴ء، ص:۸۴
۶۔ حالی، الطاف حسین،مثنوی حبِ وطن، پانی پت: حالی بک ڈپو، بار اول، جولائی ۱۹۳۷ء، ص:۲
۷۔ محمد اقبال، علامہ، کلیاتِ اقبال، لاہور: اقبال اکیڈمی، اشاعت ششم، ۲۰۰۴ء، ص:
۸۔ ایضاً
۹۔ ایضاً، ص:۲۹۲
۱۰۔ ایضاً،ص:۱۱۵
۱۱۔ آزاد، محمد حسین، نظم حبِ وطن، ص:۴۱
۱۲۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، معاصر ادب، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۱ء، ص:۲۲۰
۱۳۔ جوش ملیح آبادی، شعلہ و شبنم، ہمالیہ بک ہائوس، س ن، ص:۷۲
۱۴۔ وسیم عباس گُل، تدوین: جوش کی انقلابی نظمیں، اسلام آباد: پورب اکادمی، اگست ۲۰۱۵ء، ص:۳۲۔۳۱
۱۵۔ ایضاً،ص:۴۴
۱۶۔ ایضاً،ص:۳۳
۱۷۔ علی سردار جعفری، دیباچہ : نئی دُنیا کو سلام اور جمہور، نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، طبع سوم، ۲۰۰۳ء، ص:۷
۱۸۔ علی سردار جعفری، نئی دُنیا کو سلام، ص:۱۵
۱۹۔ ایضاً،ص:۲۵
۲۰۔ شہزاد احمد، افکار، جنوری ۱۹۹۱ء، ص:۳۴
۲۱۔ محمد امام الدین گجراتی، مولانا، مرتب: مکمل مجموعہ لیکچر ز و اسپیچز ، لاہور: مطبوعہ مصطفائی پریس، ۱۹۰۰ء، ص:۱۷۵
۲۲۔ بحوالہ اُردو،ماہنامہ، نئی دہلی: اگست ۲۰۰۴ء، ص:۵
٭…٭…٭