اردنی شہزادے کو تاجِ بادشاہی نہ مل سکا
دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے اُن پونے دو سو لوگوں میں مَیں بھی شامل تھا، جنہیں 1997ء میں اقوامِ متحدہ کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر لیڈر شپ پروگرام کے تحت اردن میں اکٹھا کیاگیا تھا۔ ہر شعبہ زندگی کے لوگ تھے، کاروبار، پالیسی ساز، سیاست، سماجی تنظیموں اور حکومتوں سے تعلق رکھنے والے پچاس سال سے کم عمر کے ’’لیڈرز‘‘۔ اس پروگرام کا منتظم ایک مصری پروفیسر عادل الصفتی تھا جو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بطروس غالی کا بھانجا یا بھتیجا تھا، اس پروگرام کو انٹرنیشنل لیڈرشپ اکیڈمی قرار دیا گیا تھا۔ اس پروگرام کی باقاعدہ میزبان، اردن کے شاہ حسین مرحوم کی شریک حیات ملکہ نور تھیں۔ ان دنوں اردن کے شاہ حسین حیات تھے اور انہوں نے شرکا کو باقاعدہ ایک دن لنچ میں شرکت کی دعوت بھی دی ۔ اس لنچ کا اہتمام اس وقت کے اردن کے وزیراعظم عبدالسلام مجالی کے گائوں کرک میں اہتمام کیا گیا تھا۔ اس لنچ کے علاوہ شاہ حسین نے اپنے شاہی محل میں پروگرام کے شرکا کو ایک شام چائے کی دعوت بھی دی۔ چھے میں سے چار ہفتے اردن میں یہ کانفرنس برپا ہوئی۔ باقی ایک ہفتہ سب کو جہاز میں بھر کر مصر لے جایا گیا اور ایک ہفتہ اسرائیل۔ میں نے اور ایک فلپائنی مندوب جس کا نام Judd تھا اور اس کا تعلق فلپائن کی ایک بائیں بازو کی سیاسی جماعت سے تھا، باقاعدہ اعلان کرکے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل جانے سے انکارکردیا تھا۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے لاتعداد لیڈر خطاب کرنے آئے جن میں اسرائیل کے شمعون پیریز اور پاکستان کے صاحبزادہ یعقوب علی خان بھی شامل تھے۔ اس پروگرام میں میری جانب سے فلسطینی حقوق کی بڑھ چڑھ کرآواز بلند کرنے پر لاتعداد فلسطینی شرکا سے گہری دوستی ہوئی جن میں حنان الوزیر بھی شامل ہیں جو فلسطینی جدوجہد آزادی کے بانی ابوجہاد کی بیٹی ہیں اور یاسر عرفات کی صدارتی ترجمان تھیں۔ اس کانفرنس کے دوران پانچ ہفتوں میں دنیا کے کئی معروف لوگوں سے ملنے اور تعلقات بننے کا اتفاق ہوا۔ ان میں ابوجہاد کی بیٹی حنان الوزیر کے علاوہ گھانا کے عظیم انقلابی رہبر نکرومہ کے مسلمان بیٹے جمال نکرومہ اور سوڈان کے جلاوطن لیڈر منصور العجب سرفہرست ہیں۔ اور عرب دنیا کی پہلی خاتون بوئنگ پائلٹ سمر العوران سے بھی دوستی ہوئی جو شاہ حسین کی ذاتی پائلٹ بھی رہی تھیںاور ایک فلسطینی مہاجرہیں جو مستقل اردن میں بس گئے۔
اردن اور مصر میں برپا اس کانفرنس میں عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے دانشوروں سے ملنے، اُن کو سننے اور مکالمے کے تجربے سے میرے ’’عرب وژن‘‘ کو نایاب موقع ملا۔ کتابوں کے بعد، مشاہدے اور مکالمے کا علم ،آ پ کو علم و حکمت اور معلومات کے نئے در سے متعارف کرواتا ہے۔ اس پروگرام میں سب سے دلچسپ اور متاثرکن گفتگو پرنس حسن بن طلال سے ہوئی۔ وہ شاہ حسین کے چھوٹے بھائی اور اردن کے ہاشمی سلطنت کے جانشین تھے۔ اُن کی شریک حیات شہزادی ثروت کا تعلق پاکستان سے ہے۔پرنس حسن بن طلال ان چار ہفتوں میں جو اردن کے شہر عمان میں گزرے، ہمارے پروگراموں میں متعدد بار آئے۔ اُن کا طرزِبیان تو متاثرکن تھا ہی، اُن کا بیان اور خطاب علم کا ذخیرہ تھا۔ جب بولتے تو معلوم ہوتا تھا کہ یہ شہزادہ کس قدر وسیع المطالعہ ہے۔ اُن کی گفتگو کے بعد مغربی دنیا کے آزاد اور جرأتِ سوال رکھنے والے مندوبین جس طرح طاقتور سوالات ا ٹھاتے، لگتا کہ وہ جواب نہیں دے پائیں گے، مگر جب یہ ہاشمی شہزادہ جواب دیتا تو مغرب سے تعلق رکھنے والے دبنگ دانشور لاجواب ہوجاتے۔ ایک دن وہ اردن میں کی گئی اصلاحات پر بات کررہے تھے، خواتین کے حقوق، خواتین کی تعلیم، اردن میں روشن خیالی، بوسیدہ اور تنگ نظر روایات کے خلاف شاہی حکومت کے قوانین وغیرہ۔ اُن کی گفتگو کے بعد ایک امریکی نوجوان اٹھا، اور شہزادہ حسن بن طلال کے ساتھ ایسے لہجے میں مخاطب ہوا جیسے مین ہٹن کے کسی بازار میں کوئی امریکی کسی دوسرے امریکی سے بلند آوازاور بے تکلف انداز میں کوئی سوال کرے۔ امریکی نوجوان نے کہا ،’’کہ پرنس حسن آپ جو اس قدر اپنے ملک میں جمہوریت اور روشن خیالی کے حوالے سے کی گئی اصلاحات، اقدامات اور قانون سازی پر بڑھ چڑھ کر بول رہے ہوتو پھر اس بات کا جواب دو کہ تم نے اپنے ملک میں بادشاہت جیسے بوسیدہ ادارے کو کیوںکر جاری رکھا ہوا ہے؟ ‘‘سارا ہال سناٹے میں آگیا۔ شہزادے کے سیکریٹری اور اس کے سیکیورٹی گارڈ شاہی آداب کے سامنے اس عوامی انداز میں کیے گئے سوال پر مضطرب تھے۔ شہزادے نے مسکراتے ہوئے اور بڑے تحمل سے جواب دیا، ’’دوست! مگر میں یہ جاننا چاہوں گا کہ جمہوریت کی ماں برطانیہ میں شاہی ادارہ کیوں ہے، سکینڈے نیویا جیسی شان دار جمہوریتوں میں بادشاہت کیوں؟ اور آپ ایک بات نوٹ کریں، ہمارے ہاں (اُن کے خاندان) بادشاہت ایک ہزار سال کے قریب ہے (حجاز میںسعودی سلطنت کے قیام سے قبل) تو ایسی روایت (بادشاہت) کو قائم رکھتے ہوئے بھی ہم جمہوریت اور روشن خیال اور عوامی اصلاحات کرسکتے ہیں۔‘‘ پرنس حسن بن طلال کے جواب پر ہال تالیوں سے تو گونجا مگر میرے دل میں پرنس حسن بن طلال مزید مقام پاگئے۔
پرنس حسن بن طلال، عرب دنیا میں بحیثیت دانشور اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ تاریخ، سیاست، تہذیب، عالمی سیاست اور علومِ مذاہب پر ان کی گرفت بے مثال تھی۔ ایک میٹنگ کے بعد میں نے انہیں اپنی دو کتابیں پیش کیں تو انہوں نے اپنے سٹاف کو فوراًحکم دیا کہ مسڑ گوئندی کو میری کتاب "Christianity in the Arab World" پیش کرو۔ شام تک اُن کے دستخطوں کے ساتھ اُن کی یہ دلچسپ کتاب شاہی سٹاف میرے ہوٹل کے کمرے کے باہرلیے کھڑا تھا۔چند روز بعد وہ پھر ایک سیشن کی صدارت کررہے تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر سلام کیا اور سیشن کے اختتام پر دیگر مندوبین سے ملاقاتیں کرنا شروع کیں تو خود چل کر میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے پوچھا کہ کتاب مل گئی؟ میں نے عرض کیا کہ جی شکریہ اور پڑھنا بھی شروع کردی ہے۔ اُن کو جو دو کتابیں میں نے پیش کی تھیں، اُن میں سے ایک کتاب ترکی کے رہبر بلندایجوت کی لاہور میں کی گئی تقریر اور اس میں شامل میں میری تحریروں پر مشتمل تھی، "Dynamics of Democracy in Developing Countries"۔ اُنہیں جب جناب بلند ایجوت سے میرے تعلق کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ انہیں میرا سلام کہیے گا۔ اس وقت بلند ایجوت نے ترکی میں ایک دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، جس میں مسعود یلماز وزیراعظم اور بلندایجوت نائب وزیراعظم بنے۔ چند ہفتے بعد جب میں انقرہ میں بلند ایجوت سے ملا اور اُن کا سلام پہنچایا تو انہوں نے میرے بیٹھے بیٹھے حسن بن طلال کو فون ملوایا اور یاددہانی کا شکریہ اداکیا۔ عمان میں برپا ایک سیشن میں اردن کی بادشاہت کے جانشین پرنس حسن بن طلال بولتے بولتے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر بات کرنے لگے تو اُن کی گفتگو میں عراق اور فلسطین بھی موضوع بنے۔ اپنے بڑے جچے تلے اور محتاط الفاظ اور بیان میں اُن کا اشارہ امریکہ اور اسرائیل کے کردار پر تھا، غصے یا جوشیلے انداز میں نہیں اور نہ ہی براہِ راست تنقید، مگر زیر لب پڑھنے کا فن رکھنے والے اُن کی گفتگو سے اندازہ لگا سکتے تھے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے مشرقِ وسطیٰ میں کردار کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے تقریر ختم کی، ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سارا ہال کھڑا ہوکر جانشین شہزادے کی پُر مغز تقریر پر داد دے رہا تھا۔میں نے تالیوں کی گونج میں اپنے ساتھ بیٹھے ایک مندوب دوست جن کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا، سے کہا، ’’دیکھ لینا پرنس حسن بن طلال ، اردن کی بادشاہی کے حق سے محروم کردئیے جائیں گے۔‘‘
چند ہفتوں بعد اردن کے شاہ حسین، امریکہ میں کینسر سے لڑتے لڑتے خصوصی طور پر واپس وطن لوٹے اور انہوں نے اپنا جانشین اپنی دوسری اور برطانوی بیگم مونا الحسین کے بطن سے جنم لینے والے بیٹے عبداللہ دوئم کو نامزد کردیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد شاہ حسین اس دنیا سے کوچ کر گئے اور عبداللہ دوئم، اردن کے بادشاہ بنے تو میرے اس دوست نے نیوزی لینڈ سے فون کیا اور کہا، تمہاری بات درست ثابت ہوئی، مگر یہ بتائو کہ تم نے کیسے طے کرلیاتھا کہ پرنس حسن بن طلال کے سر اردن کا تاج نہیں سجے گا؟ میرا جواب تھا، ’’اُن کا علم کا بے پناہ خزانہ اُن کے اقتدار کے راستے کی رکاوٹ تھا۔بے بہا علم اقتدار کے لیے رکاوٹ ہوتا ہے اور اگر کوئی اہلِ علم اقتدار تک پہنچ جائے تو پھر اس کو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔‘‘