پانچ سال پہلے میرے ایک بڑے پرانے دوست نے اچانک امریکہ شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا‘ موصوف کا سسرال چونکہ امریکہ میں ہی رہائش پذیر تھالہذا کچھ تگ و دو کے بعد وہ گرین کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ میں نے فون پر پوچھا کہ وہاں کیا کام شروع کرنے کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے ’’یہاں ٹیکسی چلانا بہت منافع بخش کام ہے‘‘۔ میں نے کنپٹی کھجائی’’وہ تو یہاں بھی بڑا منافع بخش ہے‘‘۔انہوں نے پتا نہیں کیوں دانت پیس کر فون بند کردیا حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ جب سے آن لائن ٹیکسی سروس شروع ہوئی ہے ہمارے ہاں بھی پڑھے لکھے لوگ اس کام میں آگئے ہیں ‘ لیکن تباہ کن خبر یہ ہے کہ دوبئی میں اُڑنے والی ڈرون ٹیکسی کا کامیاب تجربہ ہوچکا ہے۔ اب کچھ ہی عرصے میں یہ ٹیکسیاں باقاعدہ مسافروں کو بھی بائی ایئرمنزل پر پہنچایا کریں گی۔ پانچ دس سال بعد یہ کام یہاں بھی شروع ہوجائے گا۔میں شدید پریشان ہوں کہ اگر اڑنے والی ٹیکسیاں چل پڑیں تو ہمارے مسائل یقیناًبڑھ جائیں گے۔
یہ ٹیکسیاں یقیناًگھروں کے اوپر سے بھی گذریں گی اورمیں شرط لگا کرکہہ سکتا ہوں کہ غیرت مند گھروں سے اِن کے اوپر پانچ پانچ کلو کے ’’وٹے‘‘ برسیں گے۔سڑکوں کی بڑھتی ہوئی ٹریفک کا حل تو پُل اور انڈرپاسز بناکر نکالا جاسکتا ہے لیکن ذرا سوچئے کہ اُڑنے والی ٹیکسیوں کی تعداد اگر بڑھ گئی تو یہ ’’ایئرٹریفک‘‘ کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ ممکن ہے اِن کے لیے فضائی انڈر پاسز بنانے پڑیں۔پھر فضا میں بھی ٹریفک سسٹم نافذ ہوجائے گا۔ہزار فٹ کی بلندی پر اشارے نصب ہوں گے‘ وارڈن اتنی ہی بلندی پر ایک طرف چھپ کے کھڑے ہوں گے تاکہ جونہی اُڑن ٹیکسی اشارہ کاٹے‘ جھٹ سے دھر لیں۔سب سے بڑا مسئلہ تنگ گلیوں میں رہنے والوں کو ہوگا‘ اُنہیں ہمیشہ گھر کی چھت پر لینڈ کرنا پڑے گا۔ کیسا منظر ہوگا جب بچے آدھی رات کو چھت پر ’’دھم‘‘ کی آواز سن کر خوشی سے چلایا کریں گے۔۔۔ابو آگئے۔۔۔!!!
اُڑن ٹیکسی کی وجہ سے لوگوں کی دشمنیاں بھی بڑھ جائیں گی‘ لوگ اپنے مخالفین کے گھروں پر تھوکتے ہوئے گذریں گے۔اگر اڑتے ہوئے ٹیکسی اچانک خراب ہوگئی تو ٹیکسی ڈرائیور اور سواری کی اجتماعی نماز جنازہ ادا ہوگی۔ٹیکسیوں میں سیڑھیاں بھی لگیں گی تاکہ کسی مشکل جگہ پر سواریاں فضا میں ہی سوار ہوسکیں۔کیا بھیانک منظر ہوگا کہ بندہ ٹائی کوٹ پہن کر دفتر جانے کے لیے کوٹھے کی چھت پر ہوا میں سیڑھیاں چڑھ رہا ہوگا۔یقیناًاس صورت میں دھوتی پہننے کا رواج بالکل ہی ختم ہوجائے گا۔پھر ایسے سین بھی نظر آئیں گے کہ خراب اُڑن ٹیکسی کو رسی کی مدد سے باندھ کر ورکشاپ لایا جارہا ہے۔پھر یہ جملہ بھی سچ ہوجائے گا کہ ’’میں اُڑ کر آرہا ہوں‘‘۔پھر گھروں کی ڈور بیل باہر کے دروازے کے ساتھ ساتھ چھت پر بھی لگوانی پڑے گی۔مہمانوں کی آمد سے پہلے چھت کی خاص صفائی کی جائے گی تاکہ اچھا امپریشن بنے۔فلیٹوں میں رہنے والوں کے لیے خاص طور پر ’’پھٹے‘‘ بنوائے جائیں گے تاکہ اُڑن ٹیکسی تھرڈ فلور پر اُن کے فلیٹ کی کھڑکی کے بالکل ساتھ رُکے اور وہ پھٹے پر رینگتے ہوئے کھڑکی کے راستے فلیٹ میں داخل ہوجائیں۔پان کھانے والے افراد کو اُڑن ٹیکسیوں میں بیٹھنے سے پہلے خاص احتیاط کرنا ہوگی ‘ ایسا نہ ہو کہ قبلہ کھڑکی کھول کر پان کی پیک تھوکیں اورنیچے اماں جیراں کا شک مزید پختہ ہوجائے کہ اُن کی بہو نے اُن پر تعویز کرائے ہیں جبھی تو آسمان سے خون کی بارش ہوئی ہے۔شوگر کے مریضوں کو بھی ایسی ٹیکسیوں میں بیٹھنے سے گریز کرنا ہوگا ‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ’جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔‘‘چوریوں کی نوعیت بھی بدل جائے گی‘ چور حضرات مضبوط سی ڈوری ساتھ رکھا کریں گے اورگھروں کے صحن اور گیراج وغیرہ سے چیزیں چر ا کر’’لے اُڑیں‘‘ گے۔ اگلی صبح خبر ملے گی کہ گھر کا دروازہ وغیرہ اندر سے لاک تھا اس کے باوجود چچا رفیق کا موٹر سائیکل غائب ہے۔ عینی شاہدین بتایا کریں گے کہ رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب چچا کا موٹر سائیکل شمال کی طرف اُڑتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
اس کے باوجود جہاں ہر چیز کے کچھ نقصانات ہوتے ہیں وہاں فائدے بھی ہوتے ہیں، یقیناًاُڑن ٹیکسی کی بدولت کچھ مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی مثلاًبارش کے دنوں میں ٹیکسی جتنی مرضی تیز چلے‘ کسی پر چھینٹے نہیں پڑیں گے۔سٹپنی نہیں رکھنی پڑے گی۔۔۔بلکہ ٹائرہی نہیں ہوں گے‘ یوں پنکچروں کا خرچہ بھی بچے گا۔لیٹ آنے پر اگر سکول کا گیٹ بند ہوگا تو بچوں کو اوپر سے ہی سکول کے اندر ڈراپ کیا جاسکے گا۔محبوبہ کے گھر کا طواف کرنے کی بجائے اوپر سے ہی پتا چل جایا کرے گا کہ والد محترم گھر میں ہیں یا نہیں۔تاہم اس میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے‘ بعض اوقات والد محترم کمرے میں آرام بھی فرما رہے ہوتے ہیں۔اُڑن ٹیکسی کی وجہ سے اکثر عزیزو اقارب سے ’’بالا بالا‘‘ ہی سلام دُعا ہوجایا کرے گی‘ بندہ اُڑتی ہوئی ٹیکسی کا شیشہ کھول کر نیچے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہہ دے گا’’کیا حال ہے
خالو؟‘‘۔عین ممکن ہے جب یہ اُڑن ٹیکسیاں زیادہ ترقی کرجائیں تو لوگ اپنے رشتہ داروں کو ائیرپورٹ سے رسیو کرنے کی بجائے اپنے گھر کے اوپر سے گذرتے جہاز سے ہی Pick کرلیا کریں۔ اِن ٹیکسیوں میں ایمرجنسی کی صورت میں پیراشوٹ رکھنے کا تو کوئی فائدہ نہیں‘ایک ہزارفٹ کی بلندی سے جتنی دیر میں پیرا شوٹ نے کھلنا ہے‘ بندے کا سر کھل جانا ہے۔میرا خیال ہے ایسے کسی خطرے کی صورت میں مسافروں کو سپرنگ والے جوتے پہن کر چھلانگ مارنے کی ہدایت کی جائے گی۔ پتا چلے مسافر نے ایک ہزارفٹ کی بلندی سے چھلانگ لگائی اورسپرنگ زمین پر لگتے ہی اچھل کر دو ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا۔یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی صورتحال کے لیے گیسی غباروں کی مدد لی جائے، لیکن دھیان رکھنا ہوگا کہ یہ غبارے پرندوں کی چونچوں سے محفوظ رہیں‘ میری تجویز ہے کہ اس مقصد کے لیے پیتل یا تانبے کے غبارے مناسب رہیں گے۔جب ہمارے ملک میں یہ ٹیکسیاں چلیں گی تو شروع شروع میں ان کا حال بھی پتنگوں والا ہوسکتاہے‘ یعنی ممکن ہے اندرون شہر پرواز کرتی ٹیکسی پر اچانک کوئی ’’گاٹی‘‘ مار کر اسے اپنی طرف گھسیٹ لے یا نیچے سے شُرلی چلا دے۔پاکستانی من چلے تو ویسے بھی ایسی دلچسپ چیزوں کا شکار کرنے میں ثانی نہیں رکھتے لہذا کوئی بعید نہیں کہ غلیل میں انڈہ رکھ کر اُڑن طشتری کی ونڈ سکرین پر دے ماریں۔مسافر بھی مختلف طریقے اختیار کرسکتے ہیں مثلاً سفر کے بعد جب کرایہ دینے کی باری آئے تو کھڑکی کھول کرنیچے سے گذرتے ہوئے کسی آٹے کے ٹرک پر چھلانگ لگا دیں۔لیکن کچھ بھی ہو‘ ایک فائدہ تو ضرور ہوگاکہ سڑکوں پر رش کم ہوجائے گا۔باراتیں بھی اُڑن ٹیکسیوں میں آیا کریں گی‘ پھولوں سے سجی ٹیکسی آگے ہوگی‘ پیچھے پیچھے بیس ٹیکسیاں اُڑ رہی ہوں گی او ر بلند آواز میں گانا لگاہوگا۔۔۔’’میں اُڈی اُڈی جاواں ہوا دے نال‘‘۔ انتظار کیجئے کہ کب یہ اُڑن ٹیکسیاں یہاں آتی ہیں لیکن ایک بات ذہن میں رہے‘ جونہی یہ ٹیکسیاں آئیں گی ‘ وہ جملے بھی سننے پڑیں گے جو ہم کبھی بھول کر بھی نہیں کہتے۔۔۔مثلاًاگر شوہر اُڑن ٹیکسی میں بیٹھ کر روانہ ہو گا اور اُسی وقت اُس کا کوئی دوست دروازے پر بیل دے گا تو بیوی کو کہنا ہی پڑے گا کہ ’’وہ تو اوپر چلے گئے‘‘۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“