اس وقت موبائل فون تھا‘ نہ لینڈ لائن۔ فیکس تھا‘ نہ ای میل۔ انٹرنیٹ تھا‘ نہ ٹیلی ویژن‘ ہوائی جہاز تھے‘ نہ برق رفتار گاڑیاں۔ کچھ بھی نہ تھا۔ بس گھوڑے تھے‘ دوڑتے گھوڑے اور ان پر سوار ایلچی۔ ہاتھی تھے‘ آہستہ رو‘ لیکن تعجب تھا اور معجزہ تھا اور حریت تھی کہ اِدھر قتل ہوتا تھا‘ اُدھر خبر حکمران کو پہنچ جاتی تھی۔ ڈاکہ پڑتا تھا اور ہزاروں کوس دور بیٹھے ہوئے بادشاہ کو معلوم ہو جاتا تھا۔ مُکھیا تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔ بدن کھال سے باہر آتا ہوا محسوس ہوتا۔ ڈاکہ پڑا کیسے‘ مُکھیا تو رات بھر گائوں میں خود پہرا دیتا‘ اس کے بیٹے پہرہ دیتے اس لیے کہ بیٹوں کو معلوم تھا کہ قتل ہوا اور قاتل نہ پکڑا گیا تو مُکھیا‘ اُن کا باپ‘ پھانسی پر چڑھ جائے گا۔ ڈاکہ پڑا‘ ڈاکو نہ پکڑا گیا تو سارا نقصان باپ کو بھرنا پڑے گا۔
شاہراہیں بھی بن رہی تھیں‘ سرائیں بھی تعمیر ہو رہی تھیں‘ شاہراہوں کے کنارے شجرکاری بھی ہو رہی تھی۔ ریونیو بھی اکٹھا ہو رہا تھا۔ مگر یہ سب کچھ ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ اولین ترجیح رعایا کی حفاظت تھی اور رعایا کے مال کی حفاظت۔ یہ واقعہ ہم سب نے بارہا پڑھا ہوا ہے کہ ایک مسافر کے قتل کا علم ہوا تو شیرشاہ سوری سب کچھ چھوڑ کر‘ اکیلا جائے واردات پر پہنچا۔ چہرہ لپیٹا اور درخت کاٹنے لگا۔ درخت شاہراہوں کے کنارے اُس زمانے میں سرکاری تھے۔ شاخ تو درکنار‘ پتہ بھی کوئی نہیں توڑ سکتا تھا۔ ہر مُکھیا اپنا جاسوسی کا نظام رکھتا تھا۔ آگاہ ہوا تو دوڑتا آیا اور درخت کاٹنے والے کو پکڑ لیا۔ سوری نے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا‘ تم درخت تک کاٹے جانے سے باخبر ہو گئے ہو‘ یہ ممکن ہی نہیں کہ مسافر کے قتل کا تمہیں علم نہ ہو۔ چوبیس گھنٹے ہیں۔ ان کے اندر قاتل پیش کرو ورنہ اپنی گردن!
سینکڑوں ہزاروں سال سے یہ بنیادی اصول سب حکمرانوں کو معلوم ہے کہ مقامی پولیس کو‘ اسے پولیس کہیں یا کوتوال‘ نمبردار یا مُکھیا‘ مقدم یا کچھ اور‘ مجرموں کا علم ہوتا ہے۔ پاکستان کی پولیس کے بارے میں یہ حقیقت زبان زدِ خاص و عام ہے کہ وہ مجرم کو پاتال کے نیچے سے بھی نکال لاتی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو‘ غیر سیاسی ہو‘ اُسے اُن مکروہات اور اُن لعنتوں سے پاک رکھا جائے جو اُسے ہیرو سے زیرو بنا دیتی ہیں۔ پولیس کے سربراہ پر دبائو نہ ہو۔ اس پر وہ ماتحت نہ مسلط کیے جائیں جن کے رابطے براہ راست اوپر ہوں۔ اُس پر وہ باس نہ مقرر کیے جائیں جو اُس کے ہاتھ باندھ دیں۔
اگر ایسا نہیں ہوگا تو پھر کوئی بھی محفوظ نہ رہے گا۔ پولیس کو اپنا زرخرید غلام سمجھنے والے بھی ایک نہ ایک دن اُسی لاقانونیت کا شکار ہوں گے جس کا شکار عوام ہو رہے ہیں۔ دارالحکومت میں ایک ایسی بلند جاہ شخصیت کے ایکڑوں پر پھیلے محل میں ڈاکہ پڑا ہے جو سالہا سال تک اقتدارِ اعلیٰ پر فائز رہی۔ آپ گیارہ سال تک ایوانِ بالا کے سربراہ رہے۔ یہ ایوانِ بالا کے کسی بھی سربراہ کا طویل ترین دورانیہ تھا۔ اس منصب پر فائز شخصیت کو حاصل ہونے والی مراعات پر ایک نظر ڈالی جائے تو سر گھوم جاتا ہے! کیا زندگی ہے اور کیا آرام! کیا سہولیات ہیں اور کیا فوائد۔ آپ نے اس منصب پر رہتے ہوئے نیوزی لینڈ‘ ملائیشیا‘ سری لنکا‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ ہسپانیہ‘ پولینڈ‘ آسٹریلیا‘ فرانس‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ جاپان‘ تھائی لینڈ اور چلی کے سرکاری دورے بھی کیے۔ ایوانِ بالا میں وہ 1985ء میں داخل ہوئے۔ پھر 1991ء میں‘ پھر 1997ء میں‘ پھر 2003ء میں‘ ایک بار پھر 2006ء میں۔ وہ قانون اور انصاف کے وزیر بھی رہے۔ ان کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلم دان بھی رہا۔ وہ قائم مقام صدر بھی رہے۔ کاش وہ اس طویل‘ بے حد طویل… عہدِ اقتدار میں‘ پولیس کی خودمختاری کے لیے کوئی بل پیش کر دیتے‘ کاش وہ ایوانِ بالا کے ارکان کو‘ جن کے وہ سردار تھے‘ ایک شام اپنے گھر میں چائے پر مدعو کرتے اور انہیں کہتے کہ
’’ہم اس ملک میں مراعات یافتہ طبقوں کے لیے بھی قابلِ رشک حیثیت رکھتے ہیں لیکن یاد رکھو‘ ہم ہمیشہ ہٹو بچو کے نعروں کے جلو میں نہیں چلیں گے۔ ہمیں یہ قوم اپنے خون پسینے کی کمائی سے وہ معیارِ زندگی بہم پہنچا رہی ہے جس کا مغربی ملکوں میں سوچا بھی نہیں جا سکتا! آئو‘ ہم ایک ایسا کام کر جائیں جس سے اس ملک کی کایا پلٹ جائے۔ ہم پولیس کو برطانیہ یا امریکہ یا سنگاپور یا آسٹریلیا کی پولیس کی طرح خودمختار اور مؤثر بنا جائیں۔ سیاسی مداخلت کا خاتمہ کردیں۔ سفارش اور اقربا پروری کا اس محکمے سے نشان تک ختم کردیں۔ ہم پولیس کو وی آئی پی کی حفاظت سے ہٹا کر عوام کی حفاظت پر مامور کر جائیں!‘‘
کاش وہ اپنے عہدِ صدارت ہی میں یہ کام کر جاتے۔
ہم آج ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ڈاکو ان کے فارم ہائوس میں صبح پو پھٹنے سے پہلے گھُس آئے۔ انہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو رسیوں سے باندھا اور مال و اسباب لے کر چلتے بنے۔ وہ عمر کے جس حصے میں ہیں‘ اس کے پیش نظر یہ واقعہ رُلا دینے والا ہے۔ قابلِ افسوس ہے۔ ہم مذمت کرتے ہیں۔ ہم دُکھ میں ان کے شریک ہیں۔
سابق صدر کی حیثیت میں ان کے گھر پر جو پہریدار مامور تھے‘ مبینہ طور پر وہ ڈاکہ پڑنے کے وقت غیر حاضر تھے اور کچھ سو رہے تھے!
یہ خبر میڈیا میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔ مگر عوام کے ساتھ تو یہ سب کچھ ایک عرصہ سے ہو رہا ہے۔ کاریں اور موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں۔ یہ ’’انڈسٹری‘‘ اس قدر منظم ہو چکی ہے کہ بدطینت ’’خریدار‘‘ ڈاکوئوں کے گروہوں سے فرمائشیں کرتے ہیں کہ انہیں کس ماڈل کی کون سی گاڑی درکار ہے۔ ڈاکوئوں کا راج ہے۔ چور بے خوف پھر رہے ہیں‘ سٹریٹ کرائم عروج پر ہے۔ خواتین کے ہاتھوں سے ہزاروں لاکھوں پرس چھینے جا چکے ہیں۔ لاکھوں موبائل فون جھپٹے جا رہے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر سوار ڈاکو‘ معمر عورتوں کی گردنوں میں پڑے ہار ہاتھوں میں دبوچ کر یوں بھاگتے ہیں کہ معمر عورتیں موٹر سائیکلوں کے ساتھ گھسٹتی جاتی ہیں! معصوم بچیوں کے کان نوچے جا رہے ہیں۔ لڑکیوں کے بازو اور گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ آج اگر کوئی شیر شاہ سوری ہوتا‘ کوئی علائو الدین خلجی ہوتا‘ کوئی ولیم بینٹنک ہوتا تو دن کا کھانا اور رات کا سونا اپنے اوپر حرام کر دیتا اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتا جب تک ڈاکوئوں کا خاتمہ نہ کر لیتا!
بحری جہاز کی نچلی منزل میں سوراخ ہو جائے اور پانی اندر آنا شروع ہو جائے تو اوپر کی منزل والے کتنی دیر محفوظ رہیں گے؟ اللہ کے بندو! یہ سوراخ بند کرو ورنہ کائونٹ ڈائون شروع ہو چکا ہے۔ اُلٹی گنتی کا آغاز ہو گیا ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔