برٹش انڈیا کو تقسیم کرکے 15 اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کی دو خودمختار ریاستیں تشکیل پائیں۔ 17 اگست 1947 کو پنجاب تقسیم کرکے 17 اضلاع پاکستان اور 12 اضلاع ھندوستان میں شامل کردیے گئے۔
پنجاب اور پنجابی قوم کی تقسیم کی وجہ سے پاکستان کو مسلمان پنجابیوں کے مشرقی پنجاب سے جبکہ ھندو پنجابیوں اور سکھ پنجابیوں کے مغربی پنجاب سے منتقل ھونے کی وجہ سے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پنجابی ھندو اور پنجابی سکھ پنجاب کے مغربی علاقے سے پنجاب کے مشرقی علاقے کی طرف منتقل ھونے لگے اور پنجابی مسلمان پنجاب کے مشرقی علاقے سے پنجاب کے مغربی علاقے میں منتقل ھونے لگے۔
1۔ پنجاب کی تقسیم اور 2 کروڑ پنجابیوں کے پنجاب کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ھونے کے دوران شروع ھونے والے فسادات میں 20 لاکھ پنجابی مارے گئے۔
2۔ ستمبر 1947 کے ٹائم میگزین میں 10 لاکھ پنجابیوں کے قتل کے اعداد و شمار دیے گئے تھے۔ یہ ستمبر تک کے اعداد و شمار تھے۔ اکتوبر تک یہ تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ھوگئی تھی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ سب سے بڑی انسانی نسل کشی تھی۔
3۔ یو این ایچ سی آر کا اندازہ ھے کہ؛ پنجاب کی تقسیم کے بعد ایک کروڑ 40 لاکھ مسلمان پنجابی ' ھندو پنجابی ' سکھ پنجابی بے گھر ھوئے۔ یہ ستمبر تک کے اعداد و شمار تھے۔ اکتوبر تک یہ تعداد 2 کروڑ سے زیادہ ھوگئی تھی اور یہ کم وقت میں ھونے والی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی تھی۔
تاھم 25 دسمبر 1948 کو محمد علی جناح کی وفات کے بعد 1949 کے دوران پاکستان کے صوبہ سندھ اور بھارت کے صوبہ اترپردیش میں بھی مذھبی اقلیتوں کا مسئلہ بھڑک اٹھا۔
پاکستان کے اردو بولنے والے ھندوستانی مھاجر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ھوئے بھارت کے صوبہ اترپردیش کی اردو بولنے والی آبادی کی مدد کرنے اور انہیں پاکستان میں آباد کرنے کے لیے ماحول اور حالات پیدا کرنا شروع کردیے۔
لیاقت علی خان نے سرحد کے دونوں اطراف مذھبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے لیاقت نہرو معاھدے پر دستخط کرنے کے لیے 1950 میں بھارت کے وزیر اعظم جواھر لال نہرو سے ملاقات کی۔ لیکن عملی طور پر اس نے بھارت کے صوبہ اترپردیش کی اردو بولنے والی آبادی کی بڑے پیمانے پر پاکستان میں منتقلی کی سرپرستی کرنا شروع کردی۔
1950 میں لیاقت نہرو معاھدے کے بعد بھارت کے صوبہ اترپردیش کے اردو بولنے والوں کو پاکستان میں منتقل کرنا شروع کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے لاھور ' راولپنڈی ' ملتان ' کراچی ' حیدرآباد اور پنجاب و سندھ کے دیگر شھروں میں اردو بولنے والے ھندوستانیوں نے قبضہ کرنا شروع کردیا۔
حقیقت میں لیاقت نہرو معاھدہ پنجاب کی تقسیم کی وجہ سے بے گھر ھونے والے پنجابیوں اور ان کی جائیداد کی منتقلی کے لیے تھا۔ نہ کہ دوسرے علاقوں کی عوام کے لیے تھا۔ پنجاب کو نقل مکانی اور جائیداد کی منتقلی کے لیے "متفقہ علاقہ" اور دیگر علاقوں کو "غیر متفقہ علاقہ" قرار دیا گیا۔ لیکن پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے لیاقت علی خان نے اپنے آبائی صوبہ کے لوگوں کو لاھور ' راولپنڈی ' ملتان ' حیدرآباد اور خصوصا کراچی میں آباد کرنے کے لیاقت نہرو معاھدہ کو غلط طور پر استعمال کیا اور پنجاب و سندھ کے شھروں جبکہ خاص طور پر پاکستان کے دارالحکومت اور بندرگاھی شہر کراچی کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر
اترپردیش کے لوگوں کو قابض کروا دیا۔
1947 میں صرف یوپی ' سی پی کے سیاستدان ' بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ پاکستان کا اقتدار سمبھالنے کے لیے پاکستان کے دارالحکومت کراچی آئے تھے۔ 1948 میں بھارت کے صوبہ اترپردیش کے دار العلوم ندوۃ العلماء ' دارالعلوم دیوبند اور بریلوی مدرسوں کے طلباء اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء اور ان کے اھل خانہ کو خصوصی تارکین وطن قرار دے کر خصوصی ٹرینوں کے ذریعے پاکستان لایا گیا۔ انہیں پاکستان کے تدریسی اداروں اور سرکاری محکموں میں ملازمتیں فراھم کی گئیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کو پاکستان کی بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں اعلی عہدے دیے گئے۔ ان کو آباد کرنے کے لیے پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں پہلی رھائشی کالونی وزیراعلیٰ سندھ پیر الہٰی بخش (3 مئی 1948 سے 4 فروری 1949) نے پی آئی بی کالونی کے نام سے تعمیر کی تھی۔
ستمبر 1948 میں پاکستان کے لیے پہلا کوٹہ سسٹم وزیر اعظم لیاقت علی خان نے متعارف کرایا اور اس نے سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے لیے ایک علاقائی / صوبائی ماڈل متعارف کیا۔ اس کے مطابق بنگال %42 ' پنجاب %23 ' بھارت سے آنے والے خصوصی تارکین وطن %15 اور کراچی کے لیے %2 کوٹہ تھا۔ دوسرے صوبوں (سندھ ' بلوچستان ' صوبہ سرحد) اور پاکستان میں شامل ھونے والی 11 ریاستوں کے لیے %17 کوٹہ تھا۔ بعد ازاں نومبر 49 میں بھارت سے آنے والے خصوصی تارکین وطن کی اصطلاح استعمال کرنے کے بجائے میرٹ کا استعمال کیا گیا اور نیا کوٹہ؛ میرٹ %20 ' کراچی %2 ' بنگال %40 ' پنجاب اور بہاولپور ریاست %23 باقی صوبوں (سندھ ' بلوچستان ' صوبہ سرحد) اور 10 ریاستوں میں %15 کردیا گیا۔
تین مکمل صوبوں سندھ ' بلوچستان ' صوبہ سرحد کو %15 کوٹہ دیا گیا اور اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجروں کو میرٹ کے نام پر %20 کوٹہ جبکہ کراچی کے لیے %2 کوٹہ الگ سے رکھ کر ٹوٹل %22 کوٹہ دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ کہ؛ دیہی سندھ کے شہروں اور قصبوں اور پنجاب کے شہری علاقوں میں 1950 سے آباد ھو جانے کی وجہ سے سندھ ' بلوچستان ' صوبہ سرحد کا %15 کوٹہ اور بہاولپور ریاست سمیت پنجاب کا %23 کوٹہ بھی عام طور پر اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجروں کو دے دیا جاتا تھا۔
بھارت کے صوبہ اترپردیش کی اردو بولنے والی آبادی کے بڑے پیمانے پر پاکستان میں منتقل ھونے کی وجہ سے 1951 میں لاھور ' راولپنڈی ' ملتان ' حیدرآباد ' کراچی اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں کی نصف آبادی اردو بولنے والے ھندوستانی مہاجروں کی تھی۔