عزیزم کبیر علی کا ایک مضمون حال ہی میں ایک ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے ایچ ای سی سے منظور شدہ ایک جریدے میں سرقے اور اس کی نشاندہی کیے جانے کے بعد مذکورہ جریدے کے مدیر صاحب کی جانب سے اختیار کیے گئے رویے کی شرم ناک داستان بیان کی ہے۔ اسی ویب سائٹ پر ہی شائع ہونے والا ایک مضمون ناکافی حوالے کے ساتھ من و عن ایک "تحقیقی" مقالے کا حصہ بنا دیا گیا اور ایک جریدے میں چھاپ دیا گیا ۔ اس کی نشاندہی کرنے پر مذکورہ مجلے کے مدیر صاحب نے پہلے اس عمل کو درست قرار دیا اور پھر چند ہی گھنٹوں میں مضمون بدل کر معذرت شائع کیے یا ترمیم کی وجوہات اور نوعیت کو ظاہر کیے بغیر دوبارہ شائع کردیا اور اس حوالے سے سوال پوچھنے والے احباب کو نیا مضمون بھیج کر انہیں دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ تمام حربے ناکام ہوجانے کے بعد انہوں نے معاملے کو دبانے کیلئے"اخلاقی" حربہ بھی استعمال کیا۔ شرمناک واقعات کے اس پورے سلسلے کو کبیر علی نے بجا طور پر ہماری مجموعی علمی و ثقافتی صورت حال کے ایک عکس سے تعبیر کیا ہے۔ کبیر علی سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے زیر نظر مضمون اس صورت حال کو مزید وسیع تناظر میں دیکھنے کی ایک کوشش ہے۔
ہمارے ہاں تحقیق کے نام پر لایعنی، بے کار، بے مغز، جعلی اور سرقے پر مبنی” تحقیقی مقالوں “ کا جو طوفان آیا ہے اس کی تہہ میں ہمارے اربابِ سیاست اور بارسوخ "مفکرین" کے 'قومیں اعلیٰ تعلیم و تحقیق سے ترقی کرتی ہیں'اور 'یونیورسٹیاں ترقی کا انجن ہیں' جیسے قطعی بے بنیاد عقائد کار فرما ہیں ۔ یہ عقائد ہمارے مفکرین نے استعمار سے لیے ہیں ۔ دنیا بھر کے ممالک پر ناجائز قبضوں ، ان کے رہائشیوں کو غلام بنانے اور ان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کیلئے استعماری طاقتوں نے جو اخلاقی جواز گھڑے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انہیں یہ غلبہ ان کے "علم" کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے ۔ ہمارے مفکرین آج تک استعماری آقاؤں کے دیے ہوئے اس عقیدے کو سینے سے چمٹائے ہوئے "اعلیٰ تعلیم" کی جھاڑی کے گرد ناچ ناچ کر "تحقیق، تحقیق" کا ورد کرتے ہوئے ترقی کے نمودار ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
اول تو کوئی اعتراض کرتا نہیں ۔ لیکن اگر کر دے تو ہمارے مفکرین فوراً ترقی یافتہ ممالک میں یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان ممالک کے معاشی اشاریے گنوانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ عقائد خود ہمارے مفکرین کی افسوس ناک ذہنی استعداد کے آئینہ دار ہیں جو دو اشیاء کے درمیان علت و معلول کا تعلق فرض کرتے ہوئے علیت کی موجوگی کیلئے بنیادی ترین شرط یعنی ان کے درمیان درست زمانی ترتیب کے موجود ہونے تک کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ الف کے ب کی علت ہونے کیلئے ضروری ہے کہ الف پہلے اور ب بعد میں آئے۔ بعد میں آنے والی شےپہلے آنے والی شے کی علت نہیں ہوسکتی۔ ہمارے استعماری آقاوں سے لے کر موجودہ زمانے میں چین تک ہر قوم کی مثال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ" ترقی" پہلے ہوتی ہے اور یونیورسٹیوں کی تعداد بعد میں بڑھتی ہے جب ان کو قائم کرنے اور چلانے کیلئے وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔
تاہم ہمارے مفکرین پہیہ الٹا چلانے پر مصر ہیں اور قوم کے حالات کے مطابق کوئی تعلیمی پالیسی بنانے اور وسائل کا رخ ابتدائی طور پر بنیادی اور فنی و تکنیکی تعلیم کی طرف موڑنے اور یونیورسٹیوں کیلئے بھی اپنی قومی امنگوں کے مطابق کوئی پالیسی بنانے کی بجائے محض مغربی یونیورسٹی سسٹم کی نقالی کے ذریعے ہی "ترقی" کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے مفکرین نے یونیورسٹی کا مقصد بھی "تحقیق کے ذریعے علم کی تخلیق" دریافت فرمایا ہے اور "تحقیق" کا واحد اشاریہ شائع شدہ مقالوں کی تعداد کو ٹھہرایا ہے۔ گڈہارٹ کے قانون کے مطابق جیسے ہی کسی چیز کو کسی سرگرمی کا اشاریہ ٹھہرایا جائے تو وہ چیز اس سرگرمی کا صحیح اشاریہ نہیں رہتی ۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہوا ہے۔ جیسے ہی تحقیقی مقالوں کو تقرری اور ترقی کا پیمانہ ٹھہرایا گیا پوری توجہ کسی بھی طریقے سے مقالوں کی تعداد بڑھانے پرمبذول ہوگئی۔ اس کیلئے جو جو ناجائز حربے اختیار کیے گئے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔
اس وقت ضرورت اس جعلی تحقیق کے کلچر کو روک کر قومی امنگوں اور ضرورتوں کے مطابق کسی تعلیمی پالیسی کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر جو بھی علاج کیا جائے گا وہ مرض کو بڑھائے گا ہی۔
“