مجھے رمضان المبارک امارات میں زیادہ اچھا لگتا ہے بنسبت پاکستان کے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو جتنے رمضان دبئی میں گزرے اس سے کم کراچی میں گزرے۔ حالانکہ جب تک ساس حیات تھیں ان کی دلی خواہش ہوتی تھی کہ ہم رمضان اور چھوٹی عید کراچی میں کریں۔ اب بھی امی اور بھائی کی فیملی کا اصرار ہوتا ہے کہ رمضان المبارک اور عید الفطر بلکہ بقرہ عید بھی کراچی میں ہی کروں۔ لیکن مجھے رمضان المبارک امارات میں ہی اچھا لگتا ہے۔
رمضان المبارک سے پندرہ دن پہلے ہی رمدان کریم کے بینر کے ساتھ جگہ جگہ ڈسکاؤنٹ شروع ہوجاتا ہے۔ کھجوریں، چینی، چاول، آٹا، تیل، گھی، میدہ، بیسن، مختلف میٹھے، ڈرائی فروٹس، میکرونی، چاکلیٹس اچھے خاصے ڈسکاؤنٹ پہ آفر میں لگے ہوتے ہیں۔ اور یہ ڈسکاؤنٹس غیر مسلموں نہیں بلکہ مسلمانوں کی سپرمارکیٹس میں ہوتے ہیں( لبرلز زیادہ خوش نہ ہوں )
ایک ماحول سا بنا ہوتا ہے۔ کورونا سے پہلے رمضان ٹینٹس لگتے تھے جہاں بغیر کسی قومیت یا مذہب کی تفریق کے افطار کروایا جاتا ہے۔ مسجدوں میں دسترخوان بچھتے ہیں، جہاں شاہی خاندان کے لوگ لیبرز کے ساتھ بیٹھ کر وہی کچھ کھاتے ہیں جو مسجد کی طرف سے سرو کیا جاتا ہے۔ اکثر شہزادے تو خود ہی سرو کرتے ہیں۔
شاہی خاندان کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ شارجہ کی جس مسجد میں جاتی ہوں وہ شارجہ کی ملکہ کی بھی پسندیدہ ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ ملکہ قریب کھڑی نماز پڑھ رہی ہیں۔ نہ کوئی ہنگامہ نہ پروٹوکول۔ نہ کوئی خاص کپڑے۔ وہی کالا عبایا اور شیلا۔ پتا اس وقت چلتا ہے جب جاتے جاتے مسجد کی خادماؤں کو ہزار ہزار درہم کے نوٹ پکڑا کر جاتی ہیں۔ مسجد کی ایک بنگالی خادمہ کا کہنا ہے کہ شیخا کے رمضان المبارک میں مسجد کے دو چکر میرے دونوں بچوں کی سال بھر کی اسکول فیس اور ہاسٹل کے خرچے کے لیے کافی ہیں۔
جو خواتین مسجد میں تراویح اور قیام الیل کے لیے جانا چاہیں ان کو سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسجد میں عورتوں کے حصے میں باہر کی طرف پلے ایریا بنے ہوتے ہیں۔ بچوں والی مائیں وہاں پڑھ لیتی ہیں۔ جن کے بچے ساتھ نہیں ہوتے وہ مسجد کے اندر۔
خواتین کے مسجد کے حصے میں آخری عشرے کی رونق ہی الگ ہوتی ہے۔ عربی خواتین عشاء سے تہجد تک وہیں ریتی ہیں۔ ساتھ میں گھر سے سحری بنوا کر سب کو کروائیں گی۔ عربی قہوہ اور بہترین کوالٹی کی کھجور آپ کو آفر کرتی رہیں گی۔ میں نے ایک بار کہا کہ میں قہوہ نہیں پیتی۔ دوسرے دن میرے لیے کڑک چائے لے کر آئیں۔ تھرماس پہ اسٹیکر لگایا ہوا تھا "الباکستانیہ"
ہر صاحبِ استطاعت عرب کے گھر کے باہر افطار سے پہلے بریانی اور ہریس( عربی حلیم) کی دیگیں بانٹی جاتی ہیں۔ ہر مسجد میں بغیر کسی مذہبی تفریق کے افطار کا انتظام۔ نہ قیمتوں کو آگ لگی ہوتی ہے اور نہ ہی بازاروں میں نکلنے پہ کوئی ہراسمنٹ۔ بتائیں ایسے پیارے ماحول میں کسے امارات میں رمضان المبارک اچھا نہیں لگے گا؟؟