لائیل پور کاٹن مل ،، پاکستان بننے سے پہلے کی ایک مشہور و معروف مل تھی ، خاص طور پہ اس کے تولیے بہت مشہور تھے ، اسکے مالک مورلی دھرم لال اُس وقت کے بہت بڑے سرمایہ دار تھے سارے ہندوستان مین اُنکی کئی ملیں تھیں، مورلی دھرم لال بڑے سرمایہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے دلداد ڈرامہ کے شیدائی اور شاعری پہ جان دینے والوں میں شامل تھے انکی مل میں بیسوں فنکار اور شاعر ملازم تھے جو صرف تنخواہ لینے مل جاتے تھے انکے لیے کام کرنا لازمی نہیں تھا ، صبح جب وہ گھر سے نکل کر مل میں آتے جیسے ہی وہ مل کے گیٹ میں داخل ہوتے بینڈ کی دھونیں بجا کر اُنکا استقبال کیا جاتا، جہاں بینڈ ختم ہوجاتا تو قطار میں کھڑی لڑکیاں بھجن گانے لگتی، مل کے ملازمین پہ مشتعمل ایک ڈرامہ کلب گراونڈ میں بنے سٹیج پہ ڈرامہ پیش کرتی ، وہ سٹیج اس دور کا اتنا جدید سٹیج تھا کہ سارا سٹیج گھوم جاتا تھا اور آسانی سے سارامنظر بدل جاتا ، سال میں ایک دفعہ ،،، دوسہڑا ،،، کا میلہ لگتا تھا ،جو سات یوم چلتا رہتا ۔گراونڈ میں جھولے لگ جاتے،کھانوں کے بازار بن جاتے جن میں بڑے بڑے جلیب ، حلیم ، نہاری ، حلوا پوری ، دھی بلہے ، اور دوسرے کھانوں کی دوکانیں ہوتیں ،، دو تیں راتیں ڈرامہ دیکھا جاتا جس کے مقابلے ہوتے ایک رات ،، رام لیلا ،، سٹیج کیا جاتا اور ایک رات پُتلیوں کا تماشہ دیکھایا جاتا ، بلکہ اس علاقہ کو پہلے ،، پُتلی گھر ہی کہا جاتا تھا ایک رات مشاعرہ ہوتا جس میں سارے ملک کے بڑے بڑے شاعر ، فراق گھورق پوری ، جگر مراد آبادی ، عدم حفیظ جالندھری، احسان دانش ۔ اور بٹے بڑے شاعر اپنا کلام سُناتے ، میلے کے آخری دن محفل ِ موسیقی ہوتی جس میں نصرت فتح علی کے والد فتح علی اور تایا مبارک علی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے مجھے نہیں پتہ مورلی دھرم لال نے کب پاکستان سے ہجرت کی مگر یہ میلہ64,,65 تک لگتا رہا
مل کے سامنے ایک کچھی بستی تھی جس میں ہندوستاں سے ہجرت کرے کے آنے والے بس گئے تھے پورے محلے کے محلے ہندوستاں سے اُٹھ کر یہاں آباد ہوگئے تھے ان میں ایک بہت بڑی تعداد اہلِ زبان کی بھی تھی جن کو پنجابی ،، بھیا لوگ ،،کہتے تھے یہ اہلِ زبان انتہائی غریب غُربا لوگ تھے مگر شاعری ان میں کوٹ کوٹ کے بھری تھی ہر گھر میں کم از کم دو تین شاعر تھے ،، اینٹ اُٹھاو شاعر ،، کا محاورشاید یہں بنا تھا ، ویسے تو بڑے شاعر تھے مگر چند نامور شاعر تھے جن میں ،، جمیل رام پوری ، حکیم ندرت امراہوی بسمل پٹیالوی نصرت زیدی طایر صدیقی ،آس لدھانوی اور بیسوں شاعر تھے بازار میں ہر وقت مصرعے پہ مصرعہ چلتا تھا ، مجھے یاد ہے کبھی کبھار ایک شخص گھنٹی بجھاتا جاتا اور صدا لگاتا جاتا ،، حکیم صاحب کے ہاں غزل ہو گئی ہے ،، پنواڑی ، قصاب، حلیم فروش ، پتنگ فروش ، اور دوسرے دوکان دار اپنی اپنی دوکانیں بند کر کے یا کسی شاگرد کو دوکان پہ بیٹھا کر حکیم صاحب کے دواحانے کی طرف رواں پائےجاتے ، بس کچھ ہی دیر بعد حکیم صاحب کی دوکان سے نکلتی ،، واہ ، واہ ،، کی صدا سارے بازار میں گونجنے لگتی ،
کچھی بستی سے تھوڑی ہی دور ایک نئی بستی بس گئی جو اسی کچھی بستی سے اُٹھ کر جانے والوں نے بسائی تھی پیلے تو اس کا نام ،، لیبر کالونی ،، تھا مگر بعد میں اس کانام سمن آباد پڑ گیا ، وہاں بھی شاعروں کی بھر مار تھی ، حکیم سعید ، حکیم نقیب ، حکیم حبیب العشیی ۔ اور بیت سے تھے ، یہ سب ایک دوسرے کے ہاں مشاعرے منعقد کرتے ایک طرح مصرعہ دے دیا جاتا اور مشقِ سحن شروع ہو جاتی یہ مشقِ سحن خفیہ ہوتی پیلے تو شاگردوں سے قران پہ حلف لیا جاتا کہ وہ اس مشقِ سخن میں لکھی گئی غزلیں اور کوئی شعر یا شعر کے مضمون کو باہر ہوا نہیں لگنے دیں گئے اُستاد پہلے شاگردوں کو غزلیں لکھ کر دیتا یا لکھی غزلوں کی اصلاح کرتا ، پڑھنے کے انداز کی مشق کرائی جاتی ، اگر کوئی شاگرد صیح نہ پڑھتا تو اُستاد آواز لگاتا ، ابے غزل پڑھ ریا یا چورن بیح ریا ،،بعض دفعہ تو باقئیدہ شیشے کا سامنے بیٹھا کر شاگرد کو مشق کرائی جاتی ، اُستاد سب سے آخر میں اپنی غزل لکھتا اور وہ اپنے شاگدوں سے بھی خفیہ رکھتا ، مشاعرے کے دن ہر اُستاد اپنے اپنے شاگردوں کے ہمراہ بغل میں بیاض دابے پانوں کی گھوتلیاں اُٹھائے اور لمبے لمبت پونچوں والے پاجامے پہنے مشاعرے کے طرف قافلے رواں ہو جاتے ، ان سب کی شاعری وہی چوما چاٹی اور گلو و رخسار کے سستے جذبات والی شاعری ہوتی تھی مگر ان روائیتی شاعری کرنے والوں میں جمیل رام پوری ، طایر صدیقی نصرت زیدی آس لدھانوی اچھی شاعر کرنے والوں میں سے تھے
جب تک والد صاحب زندہ تھے میں ان مشاعروں میں جاتا ریا پھر مجھے شہر کی ہوا لگ گئی یعنی اقبال نوید اور مسعود مختار سے ملاقات ہو گئی اور میں نے جانا بند کر دیا ، مسعود مختار ، اقبال نوید علی شوکت خواجہ اور میں شہر میں بیٹھ کر ان کی شاعری کا مذاق اُڑاتے ریتے ، ایک دن ہمیں اطلاح ملی کے کاٹن مل میں ایک بہت بڑا مشاعرہ منعقد ہو رہا ہے ، اقبال نوید نے کہا ، یارو ہم بھی مصرعہ پہ غزل لکھتے ہیں اور مشاعرے میں شرکت کرتے ہیں بس کیا تھا فوری ایک رجسٹرڈ منگوایا گیا ، علی شوکت خواجہ ، اقبال نوید ، افتخار فیصل ، مسعود مختار میں نے اور ریاض مجید نے کوئی گھنٹہ دو گھنٹے بعد کوئی دو تین سو شعروں کی غزل لکھ ماری اور مشاعرہ کی طرف چل پڑے ، انھوں نے ہماری بڑی آؤ بھگت کئ اور ہم سے غزل پڑھنے والوں کے نام پوچھے یم نے کہا جی بس ہم میں سے مسعود مختار ہی پڑھے گا ، جب مسعود مختار کی باری آئی تو مسعود مختار نے کھڑے ہو کر رجسٹر کھولا ار غزل پڑھنی شروع کی
الف سے جو آم تھا وہ آم ہر سو عام تھا
تم کو کیا جانے کی جلدی تھی تجھے کیا کام تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو تو جانے کی جلدی تھی مجھے تو کام تھا
تم کو کیا جانے کی جلدی تھی تجھے کیا کام تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کو بھی جانے کی جلدی تھی مجھے بھی کام تھا
تم کو کیا جانے کی جلدی تھی تجھے کیا کام تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُنھے تو جانے کی جلدی تھی اُنھے تو کام تھا
تم کو کیا جانے کی جلدے تھی تجھے کیا کام تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیل رام پوری کی ایک گونج دار آواز بلند ہوئی ،، بند کرو یہ بکواس ، ہمارے ہوتے ہوئے تم لونڈے غزل کی آبرو نہیں لوٹ سکتے ،، ندرت امرواہوی کی آآنکھ میں آنسو تھے اور کہہ رہے تھے غزل کی عزت لُٹنے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گیا ، مسرور بدایونی نے چیختے ہوئے کہا ، ریاض مجید اپنی جزیات کو سمیٹو اور چلتے بنو یہاں سے ،، اور انوں نے دھکے دے کر ہمیں بار نکال دیا ، ہم بار آکر سڑک پہ بیٹھ گئے لوگ اکٹھے ہو گئے اور مسعود مختار نے سڑک ہہ ساری غزل پڑھی پھر انوں نے بطور سعامین بھی ہم پہ پابندی لگا دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154590568173390
“