مجھے کچھ یونہی سی باتیں یاد آتی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا لیکن اندر سے کوئی اکساتا ہے کہ جو کچھ دل ودماغ میں چل رہا ہے اسے باہر نکالو۔ شاید ان باتوں کا کوئی مطلب نکل ہی آئے۔
ایسی ہی ایک بات یاد آئی تو نہ جانے کیوں اپنے آپ کو کہیں بہت ہی نیچے، پستی میں پایا۔ دنیا کس طرح رہ رہی ہے اور ہم کیسے جی رہے ہیں ۔ دنیا کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں۔ ہم خود کو کیا سمجھتے ہیں اور دنیا ہمیں کیسے دیکھتی ہے۔
اور یہ بات آج سے کوئی گیارہ بارہ سال پہلے کی ہے جب میں پہلی بار انگلستان گیا۔ اس وقت تک میں نے ہندو پاک اور خلیجی ممالک کے علاوہ کوئی اور ملک نہیں دیکھا تھا۔ خلیجی ممالک میں اور خاص طور پر دوبئی میں تو کبھی گھر سے دوری محسوس ہی نہ ہوئی ۔ ہر طرف اپنے ہی لوگ، اپنی ہی بول چال، اپنا لباس اور اپنا ماحول ہی ملتا ہے۔ انگلستان گیا تو سب سے بڑی خواہش تو یہ تھی انگریز دیکھوں ۔ بقول اکبر الہ آبادی
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
لیکن ہیتھرو ایرپورٹ پر امیگریشن کاؤنٹر پر جن خاتون سے پالا پڑا وہ مدراسن یا ملبارن تھیں جن کی دوبئی میں بھی کوئی کمی نہیں۔ آگے بڑھے تو ایک اور اہلکار خاتون نے پاسپورٹ اور ویزے میں نجانے کیا چیک کیا۔ یہ ایک سردارنی تھیں۔ میں تو یہاں کچھ اور ہی سوچ کر آیا تھا۔ ویسے بھی ان دنوں ہیتھرو ایرپورٹ کوئی ایسا متاثر کن نہیں تھا۔ ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ میں دوبئی کے جگمگاتے، چمچماتے ایرپورٹ سے آرہا تھا جہاں حسینانِ فرنگ تو نہیں البتہ عربی اور فلپائنی خواتین کہیں زیادہ اسمارٹ تھیں۔ ہیتھرو پر جو برطانوی خواتین تھیں وہ بڑی شفیق اور مہربان نظر آئیں ۔ انہیں دیکھ کر اپنی دادی اور نانی کی یاد بے تحاشا آئی۔
ایرپورٹ سے باہر نکل کر ہم ناروچ کے لیے بذریعہ کار روانہ ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوبئی کے صحرا کے بعد انگلش کنٹری سائیڈ کی ہریالی آنکھوں کو بہت بھائی۔ راستے بھر میری نظریں اس سبز نظارے سے ہٹتی ہیں نہیں تھیں ۔ جہاں تک مکانوں اور آبادیوں کا تعلق ہے وہ اجنبی یوں نہیں لگے کہ تصویروں اور فلموں میں انہیں دیکھا ہواتھا۔ اس کے علاوہ انگلستان میں ایسی تو کوئی چیز نہیں تھی جسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھوں ۔
بات لمبی ہوجائے گی قصہ مختصر یہ کہ انگلستان کے شہر دیکھے، لندن کی تاریخی عمارتیں دیکھیں، مادام تساؤ کا مومی میوزیم دیکھا، لیک ڈسڑکٹ میں جھیل ونڈرمیر دیکھی جسے دیکھ کر سمجھ آیا کہ یہاں کے رہنے والے “ولیم وڈزورٹھ” نے اپنی شاعری میں فطرت کو اتنے خوبصورت انداز میں کیسے اور کیونکر سمیٹا۔ غرضیکہ بہت کچھ وہ دیکھا جو اسے دیکھنا چاہئیے جو پہلی بار انگلستان آیا ہو۔
لیکن جس چیز نے پورے قیام انگلستان کی گہری یاد دل پر نقش کی جسے میں آج بھی بھلا نہیں پاتا وہ بہت ہی چھوٹی سی، معمولی سی، بلکہ یوں کہیے کہ فضول سی بات تھی اور جسے سن کر شاید دوست کہیں کہ کس بے کار سی بات کے لیے اتنی لمبی تمہید باندھی ہے، لاؤ پیسے واپس کرو۔
یہ قصہ لندن میں پیش آیا۔ ہم ہائیڈ پارک گھوم پھر کر بکنگھم پیلس کی طرف آئے۔ میری بیٹی، داماد اور ان کی چار ماہ کی بیٹی ہمراہ تھے۔ میری نواسی ، میری جگر گوشہ جس کے لیے میں انگلینڈ گیا تھا۔ بکنگھم پیلس دیکھ لیا لیکن کوئی ایسی خاص کیفیت طاری نہیں ہوئی۔ وہاں کے محافظوں Knights کو دیکھنا تھا لیکن وہ اکا دکا مختلف دروازوں پر پہرہ دیتے نظر آئے۔ محل پر یونین جیک اور شاہی پرچم لہرا رہا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ملکہ وہیں قیام پذیر ہیں۔ مرکزی گییٹ سے دائیں جانب ایک گیٹ کھلا اور ایک لمبی کار اندر داخل ہوئی۔ میرے داماد نے توجہ دلائی کہ شہزادی این جارہی ہیں۔ کار کے ساتھ کوئی پروٹوکول نہیں تھا۔ تھوڑی سی حیرت ہوئی لیکن زیادہ نہیں کیونکہ دوبئی میں اکثر حکمراں خاندان کے لوگوں بلکہ حاکم دوبئی کو بھی کبھی کسی پروٹوکول کے ساتھ سفر کرتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
قصر شاہی کی زیارت کے بعد ہم ٹرافلگر اسکوائر آئے۔ امیر البحر نیلسن کا مجسمہ اس ستون پر دیکھا جو چوک کے بیچوں بیچ نصب ہے اور جہاں یہ مو ٹے موٹے کبوتر دانہ چگتے نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے یہاں بھی تصویر بنوائی تصویریں اور فلم بنائی اور آگے چلے۔ لندن برج سے پارلیمنٹ ہاؤس اور بگ بین کا نظارہ کیا۔ پل پر سے پارلیمنٹ ہاؤس کی ویڈیو بناتے ہوئے ایک چیز نے تھوڑا سا چونکایا۔ کیمرہ زوم کرکے اندر کی جانب کی تصویر کشی کرتے ہوئے ایک سائیکل اسٹینڈ کی قطار نظر آئی جسے میں نظر انداز کرنے ہی والا تھا کہ ایک چھو ٹے سے بورڈ پر نظر پڑی” Cycle Stand space for MPs” .
یہ ممبران پارلیمنٹ کے لیے سائیکلیں کھڑی کرنے کی جگہ تھی۔ُاس وقت وہاں سائیکلیں نہیں تھیں لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ کچھ اراکین پارلیمنٹ سائکلوں پر بھی آتے ہونگے۔
“ زیادہ تر ٹیکسی، بس یا انڈرگراؤنڈ (ٹرین) کے زریعے ہی آتے ہیں۔” میرے داماد نے بتایا۔
“ ہونہہ! بڑے انگریز بنے پھرتے تھے جنکی عملداری میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ یہ ہے ان کی اوقات؟ “ میں نے حقارت سے سوچا۔ مجھے اپنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کا کرو فر ، ان کی شان یاد آئی۔
وہاں سے اتر کر نیچے آئے۔ بائیں جانب ویسٹ منسٹر ایبے تھا۔ میرے داماد نے مجھے اس کے بارے میں کچھ بتایا جو مجھے یاد نہیں رہا۔ ہم اس وقت سڑک پار کررہے تھے اور میری توجہ میری گڑیا کی پرام پر تھی جسے میری بیٹی دھکیل رہی تھی۔ دو ادھیڑ عمر گورے، ہاتھوں میں فائلیں لئے تیز قدموں سے چلتے، میرے ساتھ ہی سڑک پار کررہے تھے۔ مجھے ایک کا چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگا کہ اچانک میرے داماد کی آواز آئی
“ انکل! جیک اسٹرا!”
جانے پہچانے شخص نے بے ساختہ مڑ کر ہماری طرف دیکھا۔
“ گڈ ایوننگ سر” میرے داماد نے کہا
“ گڈ ایوننگ۔ ہاؤآر یو؟” مانوس چہرے نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور بھیڑ میں گم ہوگیا۔
سامنے کوئن ایلزبتھ کنونشن سنٹر تھا۔ وہ دونوں فائلوں والے وہیں جارہے تھے۔
یہ جیک اسٹرا تھے۔ شاید اس وقت کے وزیر داخلہ یا وزیر انصاف ۔ پہلے کبھی وہ وزیر خارجہ بھی رہے تھے۔ ایک دن پہلے میں ٹی وی پر برطانوی پارلیمنٹ کی کاروائی دیکھ رہا تھا۔ جیک اسٹرا، وزیر اعظم گورڈن براؤن کے دائیں ہاتھ پر بیٹھے تھے۔ یعنی لیبر پارٹی میں وزیراعظم کے بعد سب سے اہم۔ جیسے شوکت عزیز کی حکومت میں چودھری شجاعت، جیسے نواز شریف کی حکومت میں چوہدری نثار یا جیسے اپنے خان صاحب کی حکومت میں شاہ محمود قریشی۔
اور یہ اہم ترین آدمی اس سڑک پر اہم سرکاری کاغذوں کا پلندہ لیے، تن تنہا اپنے ساتھی کے ساتھ گھوم پھر رہا تھا۔ میرا داماد بھی بلیک برن کا رہنے والا ہے، جیک اسٹرا Jack Strawوہیں سے منتخب ہوئے تھے۔ مہینے میں ایک بار ہر ممبر پارلیمنٹ اپنے حلقے کے ٹاؤن ہال میں عوام سے ملتا ہے ( جی ہاں عوام سے، اپنے ووٹروں سے نہیں )۔ پتہ نہیں جیک اسٹرا نے میرے داماد کو پہچانا تھا یا نہیں یا پھر یونہی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا تھا۔
اور یہ وہ چیز تھی جو انگلستان کی سیر میں میرے دل و دماغ پر ایسی چپکی کی میں نے واپسی میں کسی کو بکنگھم پیلس، لیک ونڈرمیر، میڈم تساؤ ، لندن برج، بگ بین وغیرہ کی باتیں نہیں بتائیں۔ مجھے جو بات یاد رہی تھی وہ جیک اسٹرا کا سڑک پار کرنا اور ہمارے سلام کا جواب دینا یاد رہا تھا۔
میرے سامنے ایک فلم سی چلنے لگی۔ مجھے اپنے لیڈروں کی شان و شوکت یاد آئی۔ یاد آیا کہ پہلی بار یحیی خان کو دیکھا تھا جب وہ ہمارے اسکول کے پیچھے سے گذر کر مزار قائد جارہا تھا۔نہ تو وہ عوامی نمائندہ تھا، نہ کسی کو اس سے کوئی خاص محبت تھی۔ لیکن سڑک کے دونوں جانب پولیس کے مسلح سپاہی صبح سے کھڑے تھے اور سہ پہر کو کہیں صدر کی سواری گذری تو ان غریبوں کو فراغت ملی۔
دوسری بار “ قائد عوام” کی سواری کو گذرتے دیکھا۔ حفاظتی انتظامات بالکل ویسے تھے جیسے ڈکٹیٹر یحیی خان کے لیے تھے۔ بھٹو صاحب لاکھ قائد عوام سہی لیکن سربراہ مملکت کی جان سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ بھٹو صاحب کی حکومت گئی تو مرد مومن مرد حق ضیا الحق راج سنگھا سن پر براجمان ہوئے۔ ایک دن انہیں ٹی وی پر دیکھا کہ سائیکل پر دفتر تشریف لے جارہے ہیں۔ انہوں نے عوام کو تلقین کی تھی کہ سائیکل کا استعمال کریں۔ اس سے صحت بھی اچھی رہتی ہے، اور ہمارے دین نے بھی سادگی کی تعلیم دی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ اس کا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے مرد حق سائیکل پر دفتر جارہے تھے۔ ان کے ساتھ کچھ اہم سرکاری لوگ بھی سائیکل پر سوار تھے اور کوئی دو درجن سرکاری اہلکار اور سیکیورٹی والے ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے۔ یہ عبرتناک تماشہ صرف ایک دن نظر آیا۔ اگلے دن سے نہ سائیکلیں نظر آئیں نہ ان کے ساتھ دوڑنے والے۔
اور پھر یہ تماشہ تو ایک معمول بن گیا۔ ایک وزیر اعظم ہوا کرتے تھے میر ظفراللہ خان جمالی کرکے۔ ان کی کوئی ہمشیرہ ہمارے گھر کے قریب کہیں رہتی تھیں۔ جب کبھی یونیورسٹی روڈ، کریم آباد والی سڑک، سبزی منڈی سے جیل روڈ والی سڑک، اسٹیڈیم روڈ، آغا خان ہسپتال، لیاقت ہسپتال، کارساز وغیرہ کی سڑک بند ہوتی ہم سمجھ جاتے کہ آج محترم وزیر اعظم اپنی ہمشیرہ محترمہ کی زیارت کو نکلے ہیں۔ دوتئن گھنٹے بعد عوام الناس کے لیے یہ سڑکیں کھول دی جاتیں۔
اور اسی زمانے میں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ ہمارے کمانڈو صدر جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھے اور جنہوں نے بارہ مئی ۲۰۰۷ کو کراچی کے پچاس لوگوں کی موت کے بعد ہوا میں مکے بنا کر لہرائے تھے، کراچی تشریف لائے۔ گذرنا تو انہیں ائرپورٹ سے کہیں شاہراہ فیصل سے ہوتے ہوئے کلفٹن کی طرف تھا جس کے لیے ان کے حکم سے پہلے ہی سگنل فری کوریڈور بنادیا گیا تھا۔ اتفاق سے میں ان دنوں کراچی میں تھا۔ پولیس اور رینجرز کے جوان یونیورسٹی روڈ، کریم آباد والی روڈ، کارساز، شاہراہ فیصل، شاہراہ قائدین، شہید ملت روڈ، اور گورا قبرستان سے پورے کورنگی روڈ تک چاق و چوبند کھڑے تھے اور نہ جب کب سے کھڑے تھے۔ یہ سڑکیں تو وہ تھیں جہاں میرا اس دن جانا ہوا۔ شہر کے دوسرے علاقوں کا نجانے کیا حال ہوگا۔ بالکل جیسے آج کرونا کے لئے ہر راستہ بند کردیا گیا ہے، صدر مملکت کی قیمتی جان کی حفاظت کے انتظامات کیے گئے تھے۔
میں سوچ میں پڑگیا کہ ہمارے ہاں صدر ، وزیر اعظم، سپہ سالار اعلا کو چھوڑیں، ذرا ذرا سے چھٹ بھئیے اور ٹٹ پونجیے ممبر صوبائی اسمبلی بھی دس بارہ باڈی گارڈ کے بغیر نہیں نکلتے اور یہ برطانیہ جیسے ملک کا اتنا اہم وزیر کھلے عام اتنے دھڑلے سے گھوم رہا ہے۔ اسی یورپ کے ایک ملک میں ایک اولوف پامے ہوا کرتا تھا جو ایک امیر ترین ملک سوئیڈن کا وزیر اعظم تھا، لیکن اس ملک کو توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے وزیراعظم کو سیکیورٹی فراہم کرتا اور ایک رات جب وہ غریب اپنی بیوی کے ساتھ فلم دیکھ کر بس یا ٹرین سے واپسی آرہا تھا تو کسی اٹھائی گیرے نے اسے لوٹنے کی غرض سے گولی مار دی۔ اسی سوئیڈن کے پڑوس کے ملکوں یعنی ڈنمارک اور ناروے بھی بس نام کے ہی خوشحال ملک ہیں۔ ان کے وزیر اعظم اور اراکین مملکت بھی یوں ہی کھلے بندوں سائیکلوں پر پارلیمنٹ آتے جاتے ہیں۔
اور پھر مجھے اپنے “ بڑے “ لوگوں کے حفاظتی قافلے یاد آئے کہ بکتر بند گاڑیوں، چیختی ، سیٹیاں بجاتی جیپوں اور موٹر سائیکلوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے کہ ختم ہی ہونے میں نہیں آتا۔ شہر کے لوگ دبکے کھڑے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ کہیں کوئی سڑک کھلنے کے انتظار میں گھنٹوں کھڑا رہتا ہے کہ محترم وی آئی پی کی سواری ساتھ خیریت سے گذر جائے تو وہ سامنے والے ہسپتال سے اپنے قریب المرگ باپ کے لیے دوائی لے سکے۔ بہت سی بے صبری عورتوں کے قصے بھی سنے کہ ذرا بھی برداشت نہ کرسکیں اور سڑک پر ہی بچے کو جنم دے دیا۔
جب ذرا سر کھپایا تو سمجھ یہی آیا کہ یہ یوروپ اور دوسرے ملکوں کے لوگ دراصل کنگلے ہوتے ہیں۔ ہمارے وڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں ، خانوں، چودھریوں کی طرح انہوں نے بندے نہیں مروائے ہوتے، زمینوں پر قبضے نہیں کئے ہوتے، اپنے کمی کمینوں کی بیٹیوں کو نہیں اٹھوایا ہوتا اور مخالفوں پر جھوٹے مقدمے نہیں بنوائے ہوتے کہ انہیں کسی کا ڈر ہو جس سے بچنے کے لئے حفاظتی جتھے ان کے ساتھ ساتھ سفر کریں۔ اور ہمارے رہنماؤں نے کچھ کیا ہو نہ کیا ہو آخر “ ٹہکا” بھی کوئی چیز ہے کہ پتہ تو چلے کے وزیر باتدبیر صاحب کی سواری گذر رہی ہے۔ با ادب با ملاحظہ ہوشیار۔
اور جس دن جیک اسٹرا صاحب کو مٹر گشتی کرتے دیکھا، برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس، جسے تمام جمہوریتوں کی ماں کہا جاتا ہے، کے دروازے کے پاس اراکین پارلیمنٹ کیے لیے مختص سائیکلوں کے اسٹینڈ دیکھے، اسی دن ایک پررورنق سڑک سے گذرتے ہوئے وہ گلی بھی دیکھی جس کے مکان نمبر دس میں دنیا کے اس نام نہاد چوہدری یعنی برطانیہ کے وزیر اعظم کی رہائشگاہ دیکھی۔ شرم نہیں آتی ، آدھی دنیا پر حکومت کر چکے ہو اور اپنے سربراہ حکومت کے لیے یہ دڑبہ نما رہائش۔ ذرا ہمارے اسلام آباد آکر دیکھو۔
وزیراعظم ہاؤس کیسا ہوتا ہے اور ایوان صدر کیا ہوتا ہے۔ تمہاری آنکھیں پھٹی کی پھٹی نہ رہ جائیں تو میرا نام بدل دینا۔ یہ ہوتی ہے شان و شوکت، ایسے ہوتے ہیں وزیراعظم اور صدر کے گھر۔
پھر ان کی ذاتی راہائشگاہیں دیکھو تو تم یورپ والے شرم سے ڈوب مرو۔ کبھی ذرا آکر ہمارے جاتی امرا، بلاول ہاؤس اور بنی گالہ کے محل دیکھو اور ان سے جڑی داستانیں سنو کہ کیسے ہمارے ابا جی نے محنت کرکے ایک لوہے کی بھٹی سے اتنی بڑی سلطنت کھڑی کی، اور کیسے ملک کے سب سے بڑے ٹھیکیدار نے عقیدت کے مارے یہ عظیم الشان محل نذر کیا اور کیسے دو کمروں کا فلیٹ بیچ کر اس پہاڑ پر یہ محل تعمیر کیا۔ سننے والی کی آنکھوں میں آنسو آجائیں۔
ٹھیک ہے کہ ہمارے اسلاف نے سادگی کی مثالیں قائم کیں اور تم نے وہ باتیں اپنا لیں۔ لیکن ہم بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ ہم نے بہت ترقی کرلی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے تمہارے ہاں بھیجتے ہیں کہ ہمارے یہاں ڈھنگ کے اعلا تعلیمی ادارے نہیں، تمہارے ہاں علاج کے لیے آتے ہیں کہ ہمارے ہسپتال ڈنگر ہسپتال کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ جب تم میں سے کوئی ہمیں دو ارب یا تین ارب ڈالر خیرات یا قرض دیتا ہے تو ہم لڈیاں ڈالتے ہیں اور اپنے سربراہ حکومت پر اس کی معاشی اور خارجہ پالیسی اور دوراندیشی پر داد کے ڈونگرے برساتے ہیں۔
اب یہ مصیبت تم پر بھی آئی ہے اور ہم پر بھی۔ تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے ملک میں کون کس حال میں رہ رہا ہے۔ کس کی کتنی آمدنی ہے اور کون بے روزگار ہے۔ تم بیوقوفوں کی طرح خاموشی سے ان کے گھر مطلوبہ امداد پہنچا دیتے ہو۔ ارے جاہلو! یہی تو وقت ہوتا ہے کہ امداد کے پیکٹ پر اپنی تصویریں چھپواؤ، ضرورتمند کو اپنے محل میں بلا کرپوری کابینہ سمیٹ آٹے کا تھیلا دیتے ہوئے تصویر کھنچواؤ۔ہم تو کسی کے سوگ پر بھی اسے ایوان حکومت بلا کر تعزیت کرکے رخصت کرتے ہیں۔ تم گوروں کو یہ ڈھنگ کہاں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو گٹر کا ایک ڈھکن لگانے پر پوری یونین کونسل اور علاقے کے معززین ڈھکّن پر ہاتھ رکھ کر جب تک تصویر نہ بنوالیں، ڈھکّن اپنی جگہ پر نہیں رکھا جاسکتا۔
تم اسے چھچور پن سمجھتے ہو، گھٹیا پن کہتے ہو۔ ہمارے ہاں یہی سب کچھ تو عظمت اور شان و شوکت کی نشانی ہے۔ ہم ایسے ہی رہتے آئے ہیں ۔ غلام رہتے، اور اپنوں کو غلام رکھتے۔
یار لوگ مجھے گوروں سے مرعوب ہونے کا طعنہ دیں گے۔ مغرب کے سامنے احساس کمتری کا شکار قرار دیں گے۔ یہ سچ ہے کہ میں احساس کمتری کا شکار ہوں۔ اپنے آپ کو بہت کمتر محسوس کرتا ہوں۔
دنیا میں تو ہم ان سے پیچھے ہیں ہی، شرفِ انسانیت میں بھی ہم بہت دور، کوسوں پیچھے ہیں۔
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...