یونانی دیومالا میں زیوس کو تمام دیوتاوں کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔زیوس کے ذمے طوفان، آسمانی بجلی اور بادلوں کی گرج و کڑک جیسے طاقتور عوامل کا کنٹرول تھا۔ اس کی عظمت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ زیوس کوہ ِ المپس کا حاکم بھی تھا۔ اولمپس کا پہاڑ یونان کا سب سے بلند پہاڑہے جس کی بلندترین چوٹی کی اونچائی 2919 میٹر ہے۔ اولمپس یونان کے مشہور تاریخی شہر مقدونیہ میں واقع ہے۔ اس لحاظ سے اس تمام خطے میں زیوس کی حکمرانی تھی۔
خاندانی پسِ منظر کو دیکھا جائے تو یہ دیوتا دیوتاوں کی ماں سمجھی جانے والی دیوی ریہہ اور دیوتا کرونس کا بیٹا تھا۔ یونانی دیومالا میں محرم رشتوں کا تصور عنقا ہے یہی وجہ ہے کہ زیوس کی بیوی اس کی بہن دیوی ہیرہ تھی جو خود گھروں کی دیوی تھی جس کے ذمے زچگی، بیاہ اور خواتین سے متعلقہ دوسرے امور تھے۔
زیوس کی پیدائش کا قصہ بہت دلچسپ ہے۔ زیوس کے والد کو دیوتاوں کے ذریعے پیشن گوئی ہوئی کہ اس کے اقتدار کے زوال کا باعث اس کی اولاد میں سے کوئی ایک ہو گا۔ اس پیشن گوئی سے بچنے کے لیے اس نے فیصلہ کیا کہ اس کی جو بھی اولاد پیدا ہو گی وہ اس کو کھا جائے گا۔ چنانچہ اس نے اپنے پیدا ہونے والے پہلے پانچ بچوں کو اپنا لقمہ بنا لیا جس میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔
کرونس ایک عظیم الجثہ دیو تھا۔ اس کے پیٹ میں موجود بچے دیوتا کی اولاد ہونے کے ناطے موت سے محفوظ رہے اور پیٹ کے اندر ہی پرورش پاتے گئے جس سے کرونس کا پیٹ بہت بڑا ہو گیا۔ جب اس کی بیوی چھٹی مرتبہ حاملہ ہوئی تو وہ اس بچے کو اپنے پاگل شوہر کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتی تھی۔ وہ مشورے کے لیے زمین کی دیوی گایا کے مندر میں پہنچی اور سارا قصہ سنادیا۔ گایا دیوی کے مشورے کے مطابق اس نے اپنا محل چھوڑا اور شہر سے بہت دور بحیرہ روم میں یونان کے سب سے بڑے جزیرے کریٹ یا کریتی میں پناہ لی۔ کریٹ جو بحیرہ روم کا پانچواں بڑا جزیرہ ہے کی خوشگوارآب و ہوا میں ریہہ کو بڑا سکون ملا۔ پناہ ڈھونڈتی ڈھونڈتی وہ کوہ ایداجو جزیرے کا سب سے بلند پہاڑ ہے کی ایک تاریک غار میں جا پہنچی۔ اسی غار میں کچھ عرصے بعد اس نے اپنے چھٹے بچے کو جنم دیا جو زیوس دیوتا تھا۔ اب ماں کو واپس گھر بھی جانا تھااور وہ خالی ہاتھ بھی واپس نہ جا سکتی تھی اور نہ بچے کو باپ کے سامنے لا سکتی تھی کیونکہ اس کو خطرہ تھا کہ حسب سابق وہ پہلے پانچ بچوں کی طرح اس کو بھی نگل جائے گا اور اپنے پیٹ میں قید کر لے گا۔
چنانچہ اس نے ایک چال چلی اور ایک چھوٹے سے پتھر کو جس کا وزن ایک نومولود بچے کے برابر تھا کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور گھر پہنچ گئی۔ کرونس نے بچہ مانگا اور بغیر کپڑا کھولے اس کو نگل گیا۔ اب اس کے پیٹ میں گوشت پوست کے بچے کی بجائے ایک بھاری پتھر چلا گیا لیکن اس ظالم دیوتا کو اس کا پتہ بھی نہ چلا۔ یوں زیوس کی جان بچ گئی۔
ماں ننھے زیوس کو ایدا کی غار کے قرب و جوار میں رہنے والے سپاہیوں کے حوالے کر آئی تھی۔ ان لوگوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اس بچے کی پرورش کریں گے۔ وہ لوگ ریہہ کے مرید بن چکے تھے چنانچہ اپنی دیوی کے بچے کی ان لوگوں نے نہایت احتیاط سے پرورش کرنا شروع کر دی۔ بچہ روتا تو وہ پہاڑی سپاہی اپنی برچھیاں اور ڈھالیں بجا بجا کر بچے کو چپ کراتے۔ زیوس نے اسی پہاڑ کی کوکھ میں نہ صرف اپنا بچپن گزارا بلکہ لڑکپن اور جوانی کے ابتدائی ایام بھی ادھر ہی بسر کیے۔ یہیں اس نے ان کوہستانی سپاہیوں کے درمیان پرورش پائی اور جنگی فنون سیکھے۔ جوان ہوتے ہی اس پر اپنے ظالم باپ سے بدلہ لینے کا جنون سوار ہو گیا۔ اس نے سب سے پہلے اپنے باپ کے پیٹ میں قید اپنے پانچ بہن بھائیوں کو آزاد کرانے کا سوچا تاکہ وہ سب مل کر باپ کے مظالم کا بدلہ چکا سکیں۔
ایک دن موقع پا کر اس نے اپنے باپ کی شراب میں ایک دوا ملا دی جس کو پیتے ہی کرونس الٹیاں کرنے لگا۔ سب سے پہلے تو پتھر باہر نکلا۔ پھر ایک ایک کر کے اس کے پیٹ سے اس کے پانچ بچے جو اب جوان ہوچکے تھے نمودار ہوئے۔ قید سے نجات حاصل کرکے انہیں بہت خوشی ہوئی۔ لیکن یہ چھ بہن بھائی مل کر بھی اپنے طاقتور دیوتا والد کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔
زیوس نے اپنی طاقت بڑھانے کے لیے گایا دیوی اور یورینس دیوتا کے بدشکل تین بچوں ہکاتون کائیر کی مدد حاصل کرنے کاسوچا جن کے ہر ایک کے پچاس پچاس سر اور سو سو بازو تھے۔
جب باپ اور بیٹے کی جنگ شروع ہوئی تو دونوں الگ الگ پہاڑوں پر موجود تھے۔ ہکا تون کائر اپنے بازووں کی طاقت کے بل بوتے پر پہاڑ کو اکھاڑ اکھاڑ کر مخالف پہاڑ پر پھینکنے لگے۔ زیوس کے پاس آسمانی بجلی کا چارج بھی تھا۔ اس نے اپنے والد اور اس کے ساتھیوں پر بجلیاں برسانی شروع کر دیں۔ اس لمحے شکست کو سامنے دیکھ کر کرونس نے آخری چال چلی اور خوفناک درندے طائفون کو طلب کر لیاجس کی گردن پر اژدہا نما سو سر تھے۔ یہ کئی پروں کے بل بوتے پر اڑتا تھا۔ اس درندے کا قہر دیکھ کر زیوس کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے لیکن وہ اکیلا ہی جنگ لڑتا رہا اور اس نے ایک کاری ضرب لگا کر سو بجلیوں کے شعلوں کی مدد سے طائفون کے تمام سروں کو جلا ڈالا۔
اس طریقے سے اس نے اپنے پانچ بہن بھائیوں اور ماں کا بدلہ چکا دیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...