(Last Updated On: )
اساطیر کے آغاز پر انسان آسمان سے زیادہ متاثر ہوا ۔
آسمان سے صبح ۔۔
بادل ۔۔سورج ۔
رات کو چاند ۔تارے
پھر آسمان کا پھیلاو اور گھیراو ۔
ان مظاہر کی وجہ سے آسمان کو الوہیت درجہ دے دیا گیا ۔
جہاں تیز دھوپ تھی سورج نمایاں ہو گیا ۔
جہاں سطح مرتفع تھی وہاں پر بادل زیادہ نمایاں ہوگئے ۔
یونان مجموعی طور سطح مرتفع ہے۔
باقی حصہ مختلف سمندروں میں گھرا ہے۔
وہاں بادل چھائے رہتے ہیں ۔بادل ہی سمندر پر گرتے ہیں ۔
بادل سے بجلی کڑکتی ہے۔
بادل بے اعتبارے ہوتے ہیں ۔
بچپن آپ نے دیکھا ہوگا لیٹے لیٹے
آسمان پہ بادل کبھی گھوڑے ۔
کبھی بھیڑ
کبھی اونٹ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
ایسے ہی انسان نے عہد طفولیت میں
آسمان کو جانوروں اور انسانوں سے بھر دیا ۔
یونانی خاص طور ہر مظہر فطرت کو
Personification
سے دیکھتے تھے۔
پھر یہ سادہ فطرت پرستی
Nature worship
سے
مابعد الطبیعاتی علائم کے قائم مقام بن گئے۔
زیوس (آسمان ) سب سے بڑا دیوتا ۔
آسمان سے
بادل
پھر
ناظم وقادر کی علامت پر آگیا ۔
اس کے ہاتھ میں javelin یا
Thunderbolt
بادل کی بجلی کی علامت یے جیسے
اندراکے ہاتھ میں
سامی دیوتا شمشو کے ہاتھ میں اور تھور Thor کے ہاتھ میں ۔
زیوس کی سفید ڈآڑھی بادلوں کی علامت ہے۔
زیوس بہت ٹھرکی اور flirt ہے بلکہ rapist اور بڑا زانی ہے کسی حسین لڑکے اور لڑکی کو نہیں چھوڑتا
یہاں وہ تموز کی طرح مقتدر اور متین نہیں
ایک رنڈی باز لگتا ہے
عربی میں ایک لفظ دیوث ہے جو بے غیرت کو کہتے ہیں ۔یہ یونانی زیوس ہی ہے کیونکہ زیوس کی اپنی بہن سے شادی ہوئی تھی hera سے۔
جدید ماہر نفسیات کے نزدیک
زیوس انسان کے لاشعور idکا نام ہے جہاں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ۔
زیوس ایک طرف مسخرہ ۔پاپی امراء القیس اور راسپوٹین جیسا جنس پرست ہے
دوسری طرف وہ قضا وقدر کا مالک بھی۔
یہ عقل اور جذبے کی تضاد ہے ۔
متانت اور بے ہودگی کا مرکب ہے کیونکہ انسان کی psyche کچھ ایسی ہے۔
ہم پنے خوابون مین سارے ننگے ہیں اساطیر بھی ہمارے خواب ہیں۔
زیوس دراصل کریٹ کا کوئی مقامی چرواہاتھا ۔
قبیلے کے سر براہ سے ہوتا ہوا مقام معبودیت تک چلا گیا ۔ یونانی muscular جسم پسند کرتے تھے
یہی ان مردانہ ideal تھا ۔اونچا ناک متناسب جسم
وہ چپٹے ناک سے نفرت کرتے تھے۔
یونانیون نے خدا انسان میں دیکھا اور انسانوں کو خدا میں ۔