(Last Updated On: )
جرم و سزا کی دنیا میں ہم ایک سے بڑھ کر ایک شاطر، مکار اور خطرناک مجرموں کے بارے پڑھتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم ہی اس مقام تک پہنچ پاتے ہیں کہ جو مقام Unabomber لقب پانے والے اس دہشتگرد کو حاصل ہے۔۔۔۔۔ جس نے بغیر کسی گروپ یا تنظیم کے محض اپنے بل بوتے پر امریکہ میں 14 بم حملے کرتے ہوئے 17 برس تک خود کو پولیس ، FBI اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس سے بچائے رکھا ۔
2 دہائیوں تک پورا امریکہ اسی خوف میں مبتلا ہوگا کہ "یونابومبر” کا اگلا شکار کب اور کون ہوگا ؟
یونابومبر کی تلاش امریکی تاریخ میں FBI کا سب سے طویل ، وسیع اور مہنگا آپریشن تھا!
تو آئیے جانتے ہیں اس ذہین اور منفرد مجرم کی داستان۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
25 مئی 1978, امریکی ریاست الانوئے کی "نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی” میں ایک انجینئرنگ پروفیسر ‘بکلی کرسٹ’ کو جوتوں کے ڈبے کے سائز کا ایک بند پارسل موصول ہوا ۔۔۔ جسے اس کے ایک کولیگ ٹیری مارکر نے اس کے آفس میں پہنچایا تھا ۔ ابھی کرسٹ اس پارسل کو ہاتھ میں تھامے، اس پر موجود مندرجات پڑھ ہی رہا تھا کہ پارس اس کے ہاتھوں میں ہی بلاسٹ ہوگیا اور دھڑادھڑ جلنے لگا۔۔۔۔اس دھماکے سے اس کے ہاتھ ، کلائیاں اور بازو بری طرح سے جل گئے اور اس کے کپڑوں میں آگ لگتے لگتے بچی۔
پارسل لانے والے کولیگ نے فوراً ایمبولیس، پولیس اور فائر بریگیڈ کو کال کردی۔
کرسٹ بغیر کسی بڑے نقصان کے بچ گیا!
لیکن یہ معمولی حملہ ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ بننے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
9 مئی 1979, کو اسی یونیورسٹی میں نصب کیا گیا ایک اور دیسی ساختہ بم پھٹ جانے کے باعث ایک گریجویشن طالب علم جان ہیرث شدید زخمی ہوگیا ۔ اس بم کا ڈیزائن گزشتہ پارسل بم سے ملتا جلتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
15 نومبر 1979 ، امریکی ائیر لائنز کے ایک بوئنگ-727 طیارے نے شکاگو ائیرپورٹ سے واشنگٹن کے لیے اڑان بھری۔
ابھی جہاز اونچائی پکڑ ہی رہا تھا کہ اچانک جہاز کا کیبن دھویں سے بھر گیا ۔۔۔ مسافر یہ سوچ کر بری طرح سے بوکھلا اٹھے کہ جہاز میں کہیں آگ بھڑک اٹھی ہے۔۔۔۔ جہاز کو فوری طور پر ورجینیاء کے ڈیلس ائیرپورٹ کی طرف موڑ لیا گیا ۔
جہاز کے لینڈ کرتے ہی مسافروں کو فوراً ریسکیو کیا گیا ۔۔۔ 15 کے قریب افراد کو تشویشناک حالت کے پیش نظر قریب ترین ہسپتال منتقل کردیا گیا۔۔۔۔جہاز کے تفصیلی معائنے پر اس کے کارگو ہولڈ سے ایک دیسی ساختہ بم برآمد ہوا ۔ جوکہ کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے بلاسٹ نہ ہوسکا تھا بلکہ صرف دھواں ہی پیدا کر پایا تھا اگر وہ بم فضا میں پھٹ جاتا تو طیارے کو زمین بوس ہونے سے کوئی نہ بچا پاتا۔
جہاز میں تخریب کاری کی وجہ سے یہ کیس FBI کے حوالے کردیا گیا۔۔۔۔ FBI کی لیب میں جہاز سے برآمد ہونے والے بم کا معائنہ کیا گیا تو صاف ظاہر تھا کہ اسے محض لکڑی کے چند ٹکڑوں کو بکسے کی شکل دے کر اس میں بیٹریز، تاریں اور دھماکہ خیز مواد نصب کرکے بنایا گیا تھا ۔
لیکن تشویش کی بات یہ تھی کہ اس بم کو ڈیٹونیٹ کرنے کے لیے اس میں ایک "بیرومیٹرک سوئچ” نصب کیا گیا تھا تاکہ بم خود بخود اس وقت پھٹ جائے کہ جب جہاز ایک خاص بلندی سے اوپر ہو جائے۔۔۔گویا چند عام دستیاب چیزوں کی مدد سے بنایا گیا یہ بم کسی ماہر اور ذہین ٹیکنیشن کا کام تھا۔
اور کسے پتا کہ اگلا بم فیل نہ ہو بلکہ ٹھیک ٹھیک بلاسٹ ہوجائے ؟
امریکہ میں ایک نیا خوف و ہراس جڑیں پکڑنے لگا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کیس کو ایک ماہر اور تجربہ کار FBI افسر "کرِس رونیل” کے سپرد کردیا گیا ۔
ابتدائی تحقیقات کے بعد جب کرس نے اس بم کے ڈیزائن کی تفصیلات کو شکاگو پولیس کے ساتھ ڈسکس کیا تو پولیس نے اسے مطلع کیا کہ اس سے ملتے جلتے 2 بم "نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی” میں دو تخریبی کارروائیوں میں استعمال ہوچکے ہیں۔۔۔۔صاف ظاہر تھا کہ کوئی واحد شخص یا گروپ الانوئز میں منظم طور پر یہ بم حملے کررہا تھا۔
لیکن کون تھا یہ تخریب کار ؟
کوئی نفسیاتی مریض سیریل کِلر۔۔۔۔؟
یا پھر کوئی عالمی دہشتگرد تنظیم ؟
فی الحقیقت ایسا کچھ بھی نہ تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونابومبر کون تھا ؟ :
ٹیڈ کزنسکی Ted Kaczynski کی پیدائش 22 مئی 1942 کو شکاگو میں ہوئی۔۔۔۔وہ پیدائشی طور پر انتہائی ذہین اور ہونہار بچہ تھا ۔۔۔ طالبِ علمی کے زمانے میں کیمسٹری اور ریاضی اس کے پسندیدہ ترین مضامین تھے۔ ٹیڈ کا IQ دراصل 167 تھا , یعنی البرٹ آئنسٹائن سے بھی زیادہ۔ 15 سال کی عمر میں اس نے گریجویشن ڈگری حاصل کی ۔ 20 برس کی عمر میں اس نے "یونیورسٹی آف مشیگن” سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
اور پھر 1962 میں ہی "یونیورسٹی آف کیلیفورنیا” میں ریاضی کے پروفیسر کے طور پر اپنے کیرئر کا آغاز کیا۔
1969 میں اس نے اپنی جاب اسے استعفیٰ دے دیا۔
1970 تک ٹیڈ نفسیاتی اور جذباتی طور پر بالکل آئسولیٹ ہوچکا تھا اور اس نے معاشرے سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔۔
1971 میں اس نے امریکی ریاست مونٹینا کے الگ تھلگ علاقے "لنکن” کے نزدیک پہاڑی، نیم جنگلی علاقے میں ایک ایکٹر زمین خریدی اور وہاں اپنی رہائش کے لیے ایک چھوٹا سا چوبی کیبن تعمیر کیا۔
یہاں اس نے تنہائی ، مکمل تنہائی میں اپنی چھوٹی سی دنیا بسائی جس میں موجود واحد فرد وہ خود ہی تھا ۔۔۔ اس نے اپنے کیبن کے نزدیک سبزیوں کی کاشت شروع کی اور باقی وقت وہ کیبن میں لکھنے اور پڑھنے میں گزارتا تھا ۔
اس کی پہلی تحریر 23 صفحات پر مشتمل ایک مضمون تھا جو کہ اس نے اپنے بھائی ڈیوڈ کو ارسال کیا ۔۔۔۔ اس مضمون کا موضوع "جدید ٹیکنالوجی اور ترقی کے انسانی معاشرت پر مہلک اور تباہ کن اثرات ” ۔۔۔اس کا موقف تھا کہ جدید دور کی ترقی ایک عرصے بعد دنیا کے ہر انسان کی شخصی آزادی کو سلب کرلینے کا باعث بن جائے گی۔۔۔ ڈیوڈ نے اس کا مضمون پڑھا ، اور اپنے بھائی کو ایک مردم بیزار شخص سمجھتے ہوئے ان صفحات کو ایک ٹرنک میں پھینک دیا۔
لیکن۔۔۔۔ٹیڈ کو اپنا گزارہ کرنے اور اپنے آئیندہ منصوبہ جات کے لیے رقم درکار تھی۔
۔۔۔۔ جون 1978 ، 36 برس کی عمر میں سات برس تنہا زندگی گزارنے کے بعد ٹیڈ الانوئے واپس لوٹا اور اس نے اپنے بھائی کی فون کمپنی میں ایک معمولی جاب اختیار کر لی۔۔۔کیونکہ اب کچھ عرصہ کام کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔لیکن۔۔۔اسے ایک بار پھر معاشرہ راس نہ آیا اور کچھ اختلافات کے چلتے اس کے بھائی نے ایک سال بعد اسے مزید کام پر رکھنے سے معذرت کر لی اور 1979 میں ٹیڈ اپنے خاندان سے قطع تعلق کرتے ہوئے واپس مونٹینا میں اپنے کیبن میں آگیا۔۔اپنے بھائی کے رویے نے اسے گہرا گھاؤ دیا تھا اور اب وہ جدید معاشرے سے مزید سے مزید بد دل ہوتا جارہا تھا۔
ٹیڈ اپنے کیبن سے ، قریب ترین ٹاؤن لنکن میں ہفتے میں دو تین مرتبہ جاتا تھا اور اکثر وقت وہاں کی لائبریری میں سائنس کی کتابوں میں کھوئے ہوئے گزارتا تھا۔
اتنے عرصے میں مونٹینا میں محض گنتی کے چند لوگوں سے ہی اس کی شناسائی ہو پائی تھی۔
اب واپس آتے ہیں اس کے جرائم کی طرف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10 جون 1980 کو شکاگو میں "یونائیٹڈ ائیرلائنز” کے صدر پرسی ووڈ کو ان کی رہائش گاہ پر ایک پارسل موصول ہوا۔
انہوں نے اسے اپنے کچن کے سلیب پر رکھ کے احتیاط سے کھولا تو اس میں ایک کتاب تھی۔۔۔اس کتاب کو اپنے لیے کسی جاننے والے کا تحفہ سمجھتے ہوئے جب انہوں نے کھولا تو ایک زوردار دھماکے کے ساتھ وہ ان کے ہاتھوں میں بلاسٹ ہوگئی۔۔۔۔ پرسی کو شدید زخمی حالت میں قریبی ہسپتال منتقل کردیا گیا ۔
پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ کے موقعے پر پہنچنے اور کتاب میں پوشیدہ بم کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس بم میں استعمال کیے گئے ہرزہ جات ٹھیک اسی نوعیت کے ہیں کہ جیسے گزشتہ 3 بم حملوں میں استعمال بموں میں نصب تھے۔۔۔۔ لیکن اب کی بار انہیں بم۔کے ملبے سے مسطتیل شکل کا ایک چھوٹا آہنی ٹکڑا بھی ملا جس پر "FC” کے حروف کندہ تھے۔۔۔ کیا وہ سیریل مجرم دنیا کو اپنی کوئی نشانی دے رہا تھا ؟
اس حملے کے بعد میڈیا نے اس نامعلوم حملہ اور کو Unabomber کا نام دیا Un بمعنی یونیورسٹی اور A بمعنی ائیرلائن ۔۔۔ کیونکہ یہ شخص بار بار یونیورسٹیز ، ائیرلائنز اور ان سے جڑے افراد کو نشانہ بنا رہا تھا۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کا اگلا حملہ کب اور کہاں ہوگا ۔
اور FBI کے پاس اب تک موجود واحد کلیو بس وہی حروف یعنی FC تھے ۔۔۔۔ چنانچہ انہوں نے انہی حروف کی بنیاد پر پورے امریکہ میں لاکھوں افراد کی اس نیت سے سرچ شروع کردی کہ ان حروف سے شروع ہونے والے نام کے حامل جتنے لوگوں کا بھی کوئی کریمینل ریکارڈ ہے تو ان کی چھان بین کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اکتوبر 1980, یوٹاہ میں ایک یونیورسٹی کی بلڈنگ میں ایک طالب علم نے خاکی لفافے میں لپٹے ایک پارسل کو راہداری میں پڑے دیکھا ۔ اس نے بےخیالی میں یہ سمجھ کر پارسل کو اٹھا لیا کہ شاید کسی طالب علم سے غلطی سے گرگیا ہو۔
پارسل اٹھاتے ہی کلک کی سی آواز آئی اور ایک زوردار دھماکہ۔۔۔۔۔۔اب کی بار نہ ہوا ۔
کلک کی آواز سنتے ہی اس کے پارسل پھینک دیا اور دور بھاگتے ہوئے چیخ چیخ کر سب کو وہاں سے دور رہنے کی تلقین کردی۔۔۔۔ فوراً پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ کو طلب کیا گیا ۔
پارسل کی شکل میں موجود اس بم کو ناکارہ بنانے کے بعد وہ بم جوکہ اب پرفیکٹ شکل میں تھا اسے FBI کے حوالے کردیا گیا۔۔۔۔اب FBI کے پاس تحقیقات کے لیے، جلے ہوئے ٹکڑوں کے بجائے ایک سالم بم موجود تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ 1982 میں Vanderbilt University کو ارسال کیا گیا ایک پارسل جوکہ پروفیسر لیری ووڈ کے نام تھا غلطی سے ایک انجینئرنگ پروفیسر کے ہاتھوں میں بلاسٹ ہوگیا جس سے انہیں سخت چوٹیں آئیں۔
پچھلی واردات 2 وارداتوں کی طرح اب کی مرتبہ بھی بم کے ملبے سے FC کے حروف پر مشتمل ایک آہنی ٹکڑا برآمد ہوا ۔
لیکن۔۔۔۔اب کی بار FBI پر ایک نیا انکشاف ہوا ۔ اور وہ یہ کہ گزشتہ 2 پارسل بم حملوں کا ٹارگٹ جو شخصیات تھیں دونوں کے نام میں Wood کا لفظ آتا تھا۔۔۔۔تو کیا وہ بمبار جان بوجھ کر ووڈ نامی شخصیات کو ٹارگٹ کررہا تھا ؟ کیا یہ کسی طرح کا انتقام تھا ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ووڈ نامی کسی شخص نے کبھی اس کو کسی بھاری نقصان سے دوچار کیا ہو اور وہ بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے اس نام کے ہر شخص کو نشانہ بنانا چاہتا ہو ۔۔۔؟
یہ سوالات بھلے ہی مبہم تھے مگر FBI اب یونابومبر کے خلاف مل رہے کسی چھوٹے سے چھوٹے کلیو کو بھی اگنور نہیں کرنا چاہتی تھی!
لیکن ووڈ کے نام سے کی جانے والی باریک چھان بین بھی ناکام ثابت ہوئی۔
۔۔۔۔۔2 جولائی 1982, یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک معروف پروفیسر Diogenes Angelakos نے ایک خالی کلاس روم کے فرش پے پڑا ٹفن باکس ٹائپ ڈبہ دیکھا جس کی وہاں وجودگی بےجواز تھی ۔۔۔ پروفیسر نے جب اس ڈبے پر ہاتھ ڈالا تو کان پھاڑ دینے والے دھماکے سے یونیورسٹی کی عمارت لرز کے رہ گئی۔ پروفیسر کے ہاتھ کی انگلیاں دھماکے سے اڑ چکی تھیں اور وہ بہت بری طرح سے زخمی تھے۔
پروفیسر کو فوراً ہاسپٹل منتقل کردیا گیا جہاں کئی ماہ تک ان کا علاج چلنا تھا۔
اسی کمرے کے فرش سے پولیس کو ایک نوٹ ملا جس پر لکھا تھا
Wu – it works!
I told you it would.
R.V
اس موقعے پر FBI بھی اب تک شدید تشویش میں مبتلا ہوچکی تھی چنانچہ کوئی سراغ نہ ہونے کی وجہ سے اب انہوں نے پورے امریکہ میں Wu نامی اشخاص اور RV سے شروع ہونے والے ناموں پر مبنی اشخاص کے ریکارڈ کی چھان بین شروع کر دی کہ شاید اس نام کے کسی شخص کا کوئی کریمنل ریکارڈ ہو جس کی مدد سے اس کا پتا لگانے میں کچھ مدد مل سکے اور ظاہر ہے ان محروف سے امریکی میں لاکھوں لوگوں کے نام شروع ہوتے تھے جن میں سینکڑوں کا کوئی کریمنل ریکارڈ تھا لیکن ایسے ریکارڈ کے ایک ایک شخص کی الگ الگ تفصیلی چھان بین ، بیک گراؤنڈ اور سرگرمیوں کی تفتیش کرنے کے بعد بھی ایسا کوئی سراغ نہ مل پایا کہ جو مجرم کی نشاندہی کر پاتا ۔
پورے امریکی کی یونیورسٹیوں میں شدید خوف و ہراس کا سماں تھا اور میڈیا پر بار بار اب اسی مجرم کا ذکر چل رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
مئی 1985 ، اسی یونیورسٹی میں ایک ائیر فورس کیپٹن جان ہاوزر ، جو اسی یونیورسٹی کا طالب علم تھا اس نے ایک دفتر کے بیرونی دروازے کے ساتھ زمین پر ایک فائل پڑی دیکھی جس کے نیچے کوئی اور چیز رکھی ہوئی تھی اور فائل نے اسے ڈھک رکھا تھا ۔۔۔ ہاوزر نے فائل کو اٹھانا چاہا تھا تو ایک خوفناک دھماکے سے راہداری گونج اٹھی۔
پروفیسر انجلاکوس (جو گزشتہ حملے میں زخمی ہوئے تھے ) نزدیک ہی تھے اور وہ فرش پر تڑپ رہے ہاوزر کی مدد کو لپکے ۔
ہاوزر اس حملے میں معزور ہوگیا اور اس کا ائیر فورس کیرئیر اختتام کو پہنچ گیا ۔۔۔۔ FC کے الفاظ پر مبنی آہنی کارڈ اس مرتبہ بھی ملبے سے برآمد ہوا ۔
اس دردناک حملے نے امریکہ پر غم و غصے کی نئی لہر جاری کردی اور امریکہ بھر میں یونیورسٹیوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ATF کے ماہرین کی تعیناتی بھی عمل میں لائی جانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8 مئی 1985, کو واشنگٹن میں "بوئنگ کارپوریشن” کے دفتر کو ایک پارسل موصول ہوا۔۔۔اس پر صرف کمپنی کا نام لکھا تھا وصول کنندہ کا نہیں۔۔۔یہ پارسل اچھا خاصا بھاری تھا۔
کمپنی کے جس ملازم نے اسے موصول کیا اسے یہ پارسل مشکوک لگا اور اس نے پولیس کو کال کر دی ۔۔۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کی مدد سے جب اس پارسل کا ایکسرے معائنہ کیا گیا تو ان کا خدشہ درست ثابت ہوگیا ۔ یہ ایک پائپ بم تھا۔
بم کو ناکارہ بنا دیے جانے کے بعد FBI کے حوالے کردیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
15 نومبر 1985 یونیورسٹی آف مشیگن کے ایک سائیکالوجی پروفیسر ڈاکٹر جیمز کو ایک خط اور ساتھ ایک پارسل موصول ہوا۔
ڈاکٹر جیمز جب خط پڑھنے میں مصروف تھے تو ان کے اسسٹنٹ نے پارسل کو کھولنا شروع کیا اور برسوں سے برپا ہورہے پارسل دھماکوں میں ایک نئے ، تباہ کار دھماکے کا اضافہ ہوگیا ۔
اسسٹنٹ شدید زخمی ہوگیا اور جیمزکے کانوں کے پردے پھٹ گئے۔۔۔
اس شاطر مجرم "یونابومبر” کے بنائے اور بھیجے گئے بم اب پہلے سے بہتر اور زیادہ طاقتور ہوتے جارہے تھے اور ان کے پھٹنے کی شرح بھی اب بڑھتی جارہی تھی۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ جس کا سب کو خوف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
11 دسمبر 1985 کو کیلیفورنیا میں "رینٹیک” نامی ایک کمپیوٹر سٹور کا مالک "ہیو سکروٹن” لنچ کے وقت سٹور سے باہر نکلا تو اس کی نظر قریب کھڑے ایک ٹرک کے نیچے پڑے ایک لکڑی کے باکس پر پڑیں جس سے میخیں باہر جھانک رہی تھیں ۔۔۔ ہیو نے یہ سوچتے ہوئے باکس کو ہٹانا چاہا کہ اگر گاڑی کے کے مالک نے اسے دیکھے بغیر گاڑی نکالنے کی کوشش کی تو میخوں پر ٹائر آجانے سے ٹائر پنکچر ہوسکتا ہے۔
جیسے ہی اس نے بوکس کو ہاتھ لگایا ایک رازدار دھماکے نے پوری مارکیٹ کو ہلا کے رکھ دیا ۔۔۔ جب ریسکیو ٹیم پہنچی تو ایک خوفناک منظر ان کے سامنے تھے ۔۔۔۔ دھماکے سے ہیو کے سینے کا ایک بڑا حصہ اڑ گیا تھا اور ہیو کا دھڑکنیں کھو رہا دل اب ان کے سامنے تھا ۔
کچھ ہی دیر میں ہیو کی موت ہوگئی!
یونا بومبر اب محض ایک حملہ آور نہیں بلکہ ایک قاتل بھی تھا ۔
کیلیفورنیا حملہ ، یونابومبر کا پہلا حملہ تھا کہ جس میں کسی شخص کی موت ہوئی تھی۔
بم کے پارچوں کا معائنہ کرنے پر FBI پر یہ عقدہ کھلا کہ اب کی مرتبہ بم ساز نے دہرے آہنی پائپس کا استعمال کرتے ہوئے نیا ، خطرناک اور جان لیوا بم بنایا ہے۔۔۔اس بم کے ٹکڑوں پر بھی FC کے حروف کندہ تھے۔
۔۔۔۔۔
28 فروری 1987 یوٹاہ کے شہر "سالٹ لیک سٹی” میں ایک کمپیوٹر سٹور کے آفس میں تعینات سیکرٹری نے آفس کی کھڑکی کے باہر کسی شخص کو پارکنگ میں زمین پر کچھ رکھتے دیکھا ۔ لیکن اس وقت اس نے اس بات کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔
کچھ دیر بعد سٹور کا مالک "گیری رائٹ” سٹور تک پہنچا اور اس کی نظر پارکنگ میں پڑے اس لکڑی کے باکس پر پڑی جس سے میخیں جھانک رہی تھیں۔ گیری نے اس بوکس کو پارکنگ سے ہٹانے کی کوشش کی اور اسے چھوتے ہی ایک خونریز دھماکے نے مارکیٹ کے در و دیوار کو لرزا کے رکھ دیا ۔۔۔۔ اس دھماکے میں گیری شدید زخمی ہوگیا لیکن معجزانہ طور پر اس کی زندگی بچ گئی ۔
گیری کی سیکرٹری ، جس نے حملہ آور کی ایک جھلک دیکھی تھی اس نے پولیس کے سامنے اس کا حلیہ بیان کردیا ۔ پولیس نے اپنے ماہر سکیچ آرٹسٹ کی مدد سے مبینہ حملہ آور کا خاکہ بنایا اور اسے میڈیا ، اخبارات کے زریعے ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیا اس استدعا کے ساتھ کہ "اگر کوئی اس شخص کو جانتا ہے یا کسی نے اسے دیکھا ہے تو ہمیں اطلاع کریں”.
لیکن۔۔۔۔۔پورے ملک سے کوئی بھی قابلِ عمل نشاندہی سامنے نہ آسکی ۔
لیکن پھر اچانک۔۔۔۔ بم حملوں کا یہ سلسلہ رک گیا۔
دن ، ہفتے ، مہینے اور پھر سال گزر گئے لیکن یونابومبر نے پھر سے کوئی حملہ نہ کیا ۔۔۔۔ 9 سال کی دہشت کے بعد یونابومبر اچانک منظر عام سے غائب ہوگیا ۔
پولیس ، میڈیا اور عوام کا خیال یہ تھا کہ شاید یہ شخص کسی اور جرم کی پاداش میں کہیں گرفتار ہوکر جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔۔۔۔یا پھر شاید مرچکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1993 میں امریکہ ایک اور بڑے سانحہ سے دوچار ہوگیا۔ فروری 1993 میں ٹیکساس کے علاقے واکو میں ایک عیسائی فرقے "برانچ ڈیوڈینز” کے مرکز پر FBI کے چھاپے میں 4 سکیورٹی اہلکار مارے گئے جبکہ 16 زخمی ہوئے۔ جواب میں امریکی فوج نے مرکز کا محاصرہ کرلیا اور ہر دو فریقین کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد مرکز میں آگ بھڑک اٹھی جس میں 25 بچوں سمیت 76 افراد زندہ جل کے مارے گئے۔
اسی دوران 26 فروری 1993 کو نیویارک میں واقعہ ‘ورلڈ ٹریڈ سینٹر’ پر کار بم حملے میں 6 افراد جاں بحق اور 1042 زخمی ہوگئے۔
دہشت کی اس نئی لہر نے یونابومبر کو پھر سے منظر عام پر لانے کی ترغیب دی جوکہ گزشتہ 6 سال سے منظر عام سے غائب ہوچکا تھا اور نہ صرف اب تک اس کا کیس بند کیا جاچکا تھا بلکہ اسے فراموش بھی کیا جاچکا تھا ۔
اب امریکہ میں چل رہی دہشت کی اس نئی لہر کے چلتے یونابومبر نے بھی واپس میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
22 جون 1993 ، "یونیورسٹی آف سان فرانسسکو” کے جنیٹکس محقق، ڈاکٹر چارلس ایبسٹین کو ان کے گھر پے خاکی لفافے میں بند ایک پیکٹ موصول ہوا ۔ جیسے ہی چارلس نے لفافے کو کھولنے کی کوشش کی ایک زوردار دھماکہ ہوا جس میں چارلس شدید زخمی ہوگئے ۔
2 دن بعد 24 جون 1993 کو Yale university میں معروف کمپیوٹر سائنسداں ڈاکٹر "ڈیوڈ گلنٹر” کو ان کے آفس میں ایک پارسل موصول ہوا ۔ جسے کھولنے کی کوشش میں وہ بلاسٹ ہوگیا ۔ ڈیوڈ کو دائیں آنکھ ، بازو اور پیٹ میں گہرے زخم آئے ۔
جیسے ہی FBI نے ان دو نئے حملوں کی جانچ شروع کی تو بم کا ڈیزائن ، پزرہ جات اور دھماکہ خیز مواد کی نوعیت و مقدار کا اندازہ لگاتے ہی ان کے ذہن میں ایک فراموش کردہ نام گونج اٹھا۔۔۔۔Unabomber.
دہشت کا قاصد یونابومبر 6 سال بعد واپس آچکا تھا۔
اسی دن روزنامہ "نیویارک ٹائمز” کے دفتر کو ایک خط موصول ہوا جس میں FC نامی ایک تنظیم نے ہر دو تازہ بم حملوں کی ذمہ داری قبول کی ۔ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ FC اب وقتاً فوقتاً میڈیا سے رابطے میں رہے گی اور اپنے خطوط کو مستند ثابت کرنے کے لیے خط میں ایک خفیہ نمبر بھی لکھا گیا کہ مستقبل میں آئے خطوط میں بھی یہ نمبر لکھا جائے گا تاکہ ہمارے نام سے کوئی جعلی خط نہ بھیج سکے۔۔۔۔ FBI نے اندازہ لگایا کہ خط میں دیا گیا نمبر دراصل ایک "سوشل سکیورٹی نمبر” بھی ہے جوکہ شمالی کیلیفورنیا میں مقیم ایک 20 سالہ نوجوان کی ملکیت ہے۔۔۔۔ جب اس شخص کو اپروچ کیا گیا تو FBI نے پایا کہ اس شخص کے بازو پر Pure Wood کے الفاظ ٹیٹو کی شکل میں کندہ ہیں ۔۔۔۔ FBI ایجنٹس کو اچانک سے 1985 میں ہوئے وہ 2 حملے یاد آگئے کہ جن میں یکے بعد دیگرے Wood نام کے دو اشخاص کو نشانہ بنایا گیا تھا۔۔۔ ایک لمحے کو تو انہیں لگا کہ وہ اصل مجرم تک پہنچ چکے ہیں۔۔۔۔لیکن ابتدائی تحقیق کے بعد ہی ثابت ہوگیا کہ اس شخص کا یونابومبر یا کسی بم حملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ گویا وہ شاطر حملہ آور ایک مرتبہ پھر FBI کو غلط راستہ دکھا کر خوار کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر FBI کو ایک نیا مگر اہم کلیو ملا ۔۔۔ نیویارک ٹائمز کو بھیجے گئے خط کے لیب معائنے سے پتا چلا کہ اس صفحے پر دباؤ کی صورت میں چند الفاظ کا عکس موجود ہے جوکہ Call Nethan R ہیں ۔
یہ دباؤ اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب آپ کسی پیڈ یا کاپی پر کچھ لکھتے ہیں تو اس سے نچلے صفحے پر ایک معمولی سا عکس رہ جاتا ہے جوکہ پین کی ٹِپ کے دباؤ کی وجہ سے بنتا ہے۔
گویا جس شخص نے یہ خط بھیجا تھا ، یعنی یونابومبر ۔۔۔ اس نے اس صفحے سے پہلے صفحے پر یاداشت کے طور پر یہ لکھا تھا کہ اسے "نیتھن آر” نامی کسی شخص کو کال کرنی ہے ۔
چنانچہ اب FBI نے پورے ملک میں ہر ایسے شخص کی تلاش اور تحقیق شروع کردی کہ جس کا نام Nethan اور سرنیم R سے شروع ہوتا ہو۔۔۔اور اس طرز پر 10 ہزار افراد کی لسٹیں مرتب کی گئیں ۔۔۔۔ اور ایسے ہر شخص کی نگرانی ، پوچھ گچھ اور گزشتہ کئی ماہ کے کال ریکارڈ کی چھان بین شروع کردی گئی۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔اب بھی کچھ نہ سامنے آیا۔
یوں لگتا تھا کہ جیسے FBI کو ذلیل کرکے یونابومبر کو تسکین ملتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔اب حکومت نے "یونابومب ٹاسک فورس” کے نام سے ایک باقاعدہ نئی ایجنسی ترتیب دی جس میں FBI , ATF اور پوسٹل سروس کے سینئیر ممبران شامل تھے۔ اور اس کے سربراہ تھے FBI کے سینئیر آفیسر "جم فری مین”.
یونابومبر کیس کو پھر سے کھول دیا گیا ۔ آج تک کہ سبھی حملوں کی فائلز اور ہر بم کی باقیات کو پھر سے نکالا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
10 دسمبر 1994 کو نیوجرسی میں ایک ایڈورٹائزمنٹ ایگزیکٹو ، ٹامس موزر کو اس کے گھر میں ایک چھوٹا پارسل موصول ہوا ۔
ٹامس نے جیسے ہی پارسل کو کھولنے کی کوشش کی ایک زوردار دھماکے سے اس کا جسم دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔۔۔ ٹامس موقعے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
19 اپریل 1995 کو اوکلاہوما میں فیڈرل بلڈنگ کو ایک بڑے بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں عمارت تباہ ہوجانے کے ساتھ ساتھ 168 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 680 زخمی ہوئے۔۔۔۔ یہ حملہ دراصل اس "سانحہِ واکو” کے انتقام کے طور پر کیا گیا تھا کہ جس کا ذکر کم کچھ دیر پہلے کرچکے ہیں ۔۔۔ ٹھیک اسی دن یونابومبر بھی اپنی تخریبی سرگرمیوں میں مصروف تھا اور 19 اپریل کو اس نے 5 مختلف پارسل اور 4 خطوط مختلف مقامات پر میل کیے۔
چند روز میں نیویارک ٹائمز کو اس کا دوسرا خط موصول ہوا جس میں اس نے لکھا تھا کہ "جلد ہی وہ ایک تفصیلی مراسلہ ارسال کررہا ہے اور وہ چاہے گا کہ اسے شائع کردیا جائے ۔ اگر اس کی یہ ڈیمانڈ پوری کردی گئی تو وہ بم حملے روک دے گا۔”۔۔۔ ایک اور خط اسی روز Yale university میں ڈیوڈ گلنٹر کو ملا جو کہ ابھی بھی بم حملے سے پوری طرح سے صحتیاب نہیں ہو پائے تھے ۔ اس خط میں یونابومبر نے اسے طعنے دیے اور اس کا مذاق اڑایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
25 اپریل 1995 کو کیلیفورنیا فارسٹری ایسوسی ایشن کے دفتر کو ایک پارسل موصول ہوا ۔
جو کہ ایسوسی ایشن کے صدر "گلبرٹ مری” کے حوالے کردیا گیا ۔ مری نے جوں ہی پارسل کو کھولنے کی کوشش کی۔۔۔۔ایک بھیانک دھماکے نے ان کے جسم کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔
پورا آفس تباہ ہوگیا اور آس پاس کی کئی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ جن میں صرف 4 بلاکس کے فاصلے پر کیلیفورنیا کے گورنر کا آفس بھی شامل تھا اور حملے کے وقت گورنر آفس میں ہی تھے۔
2 ماہ بعد لاس اینجلس حکومت کو ایک نامعلوم خط موصول ہوا جس میں بھیجنے والے نے لکھا تھا کہ "دہشتگرد تنظیم FC اب کی مرتبہ لاس اینجلس ائیرپورٹ پر ایک طیارے کو بم سے اڑانے کی سازش رچ رہی ہے۔”
فوری طور پر کیلیفورنیا کے سبھی ایئرپورٹس کی سکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی۔۔۔ ایک ایک مسافر کو انتہائی تفصیلی تلاشی کے بعد ہی ائیرپورٹ میں داخلے کی اجازت تھی ۔ مسافروں کے سامان کو جدید آلات اور بارود سونگھنے والے کتوں کی مدد سے سرچ کیا جارہا تھا اور اس دھمکی کے بعد لاس اینجلس میں خوف و ہراس کی نئی لہر دوڑ گئی تھی۔
چند روز میں "واشنگٹن پوسٹ” اور "نیویارک ٹائمز” کے دفاتر میں 56 صفحات پر مشتمل ایک ایک مراسلے کا پیکٹ موصول ہوا ۔ جوکہ یونابومبر کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
یہ ایک طویل مضمون تھا جس میں جدید تہذیب اور جدید ترقی کی تباہ کاریوں اور انسان و کرہ ارض پر مرتب ہونے والے اس کے بھیانک اثرات پر بحث کی گئی تھی۔
۔۔۔FBI نے انتہائی تفصیل سے بغور اس مراسلے کا مطالعہ کیا ۔ اور پھر ہر دو اخبارات کو اس کو شائع کردینے کی ترغیب دی اس نیت سے کہ شاید کوئی شخص جوکہ یونابومبر کو جانتا ہو اور وہ اس مراسلے کو پڑھے تو اس کا طرز تحریر پہچان لے اور اس طرح حملہ آور کی نشاندہی ہوجانے کے کچھ امکانات پنپ سکیں۔
چنانچہ ملک بھر کے اخبارات نے یونابومبر کا 56 صفحات پر مشتمل مراسلہ شائع کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1996 کے اوائل میں "ڈیوڈ کزنسکی” جس کی عمر اب 47 ہوچکی تھی، اپنے گھر میں، یونابومبر کی طرف سے شائع کروائے گئے اس مراسلے کو پڑھنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا۔
یہ طرزِ تحریر ، یہ الفاظ ، یہ انداز اور محاوروں کا یوں استعمال اس کے لیے جانا پہچانا تھا ۔
مراسلہ ختم کرتے ہی وہ اٹھا اور اپنے گھر کی تلاشی لیتے ہوئے ہر وہ خط تلاش کرنے لگا کہ جو آج تک اسے اس کے بھائی "ٹیڈ کزنسکی” نے بھیجا تھا۔
اسے اپنے بھائی کے کئی پرانے خطوط تو مل ہی گئے لیکن ایک پرانے ٹرنک میں اسے وہ مضون ملا جو ٹیڈ نے اسے 1971 میں بھیجا تھا ۔۔۔ جس خط میں ٹیڈ نے ڈیوڈ کے سامنے پہلی مرتبہ اس کے جدید معاشرے کا مخالف ہونے کا تفصیل سے اظہار کیا تھا۔
ڈیوڈ نے دوبارہ اس مضمون کا ایک ایک حرف پڑھا اور پھر یونابومبر کے مراسلے کے ساتھ اس کا موازنہ کیا ۔۔۔۔۔۔ اور اس پر یہ انکشاف بجلی بن کے گرا کہ وہ اس کا بھائی ٹیڈ کزنسکی ہی تھا جو 2 دہائیوں سے امریکہ میں دہشت اور وحشت کا نشان بنا ہوا تھا ۔
پہلے تو بھائی کی محبت آڑے آئی اور اس نے چند دن تک کسی سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی۔۔۔۔ لیکن پھر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے انسانیت کو ، خون کے رشتے پر فوقیت دینی ہے ۔
اور اس نے اپنے وکیل کے زریعے FBI سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔
ڈیوڈ نے FBI کو ٹیڈ کے سبھی خطوط اور مضون دیے اور ساتھ ہی انتہائی تفصیل سے ان کے سامنے ٹیڈ کے بچپن سے لے کر مونٹینا میں رہائش اختیار کرنے کے حالات و واقعات کو بیان کیا ۔۔۔۔FBI نے سبھی خطوط اور مضون کو اپنی فرانزک لیب میں بھجوادیا تاکہ ان کا ماہرانہ نظر سے موازنہ کیا جاسکے ۔
فرانزک ماہرین ٹیڈ کے مضمون اور یونابومبر کے مراسلے میں 160 مختلف مطابقتوں کی نشاندہی کی جس میں ایک جیسی سپیلنگ کی غلطیاں ، محاوروں کا خاص طرز میں استعمال اور اس کے بنائے مخصوص الفاظ شامل تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 اپریل 1996 کو FBI نے ٹیڈ کزنسکی کو مونٹینا میں اس کے کیبن کے باہر گرفتار کرلیا۔
ساتھ ہی ملک بھر سے سب سے سینئر اور تجربہ کار بم ڈسپوزل ماہرین کی ٹیم کو کو ٹیڈ کے کیبن کی تلاشی پر معمور کردیا گیا ۔
یہ تلاشی 11 دن تک جاری رہی جس میں کیبن کے ایک ایک انچ کو اور وہاں موجود ایک ایک چیز کا تفصیلاً معائنہ کیا گیا۔۔۔۔اس دوران ماہرین کو وہاں سے بم سازی کا سامان ، بم سازی کے طریقوں پر مشتمل مضامین اور ٹیڈ کی فلاسفی پر مشتملبےشمار تحاریر ملیں ۔
کیبن سے ملنے والے ہزاروں مختلف آئٹمز اور سینکڑوں ثبوتوں سے اس بات میں کوئی شک نہ رہا تھا کہ ٹیڈ کزنسکی ہی دراصل یونابومبر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
12 نومبر 1996 کو عدالت میں ٹیڈ کزنسکی کے خلاف تقریباً 20 مقدمات کی سماعت کا آغاز ہوا۔اور پہلے پیشی کے بعد ہی عدالت نے اسے 8 مرتبہ عمر قید کی سزا سنا دی۔
ٹیڈ کے کیبن کو FBI میوزیم میں منتقل کردیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔
ٹیڈ کی عمر اب 79 برس ہے اور وہ کالوراڈو جیل میں قید ہے۔۔۔۔ ریاضیات کے موضوع پر لکھی اس کی کچھ کتب اب بھی امریکہ میں معروف ہیں۔