(Last Updated On: )
ہم کیا ہیں ؟؟ ہم انسان ہیں ایک بہترین تخلیق ہیں۔زمین پر ہم پرتو ہیں اس عظیم خالق کا جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔اس فرش پر ہم اٗس کے نائب ہیں۔اس ہی کے حکم کے مطابق زمین کا نظم و نسق درست رکھنا ہے ۔بطور انسان دنیا اور اس میں بسنے والوں کے لیئے خدمات سرانجام دینی ہیں۔مگر یہ خالق ہے کون ؟؟ یہ خالق وہ ہے جو اپنی تخلیق سے ستر ماوں سےزیادہ پیار کرتا ہے۔جو شہہ رگ سے قریب ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔جو نصف شب کو پہلے آسمان پر آکر ندا دیتا ہے کہ کوئی ہے جو مانگے ، میں اس کو عطا کروں گا۔اس وقت میں وہ قیام کرنے والوں کی خبر رکھتا ہے سجدوں میں کی گئی سرگوشیاں سنتا ہے۔جو ندامت میں بہتے ہوئے آنسووں کے زمین پرگرنے سے پہلے توبہ قبول کرتا ہے۔
رب جو صرف میرے اکیلے کا رب نہی ہے وہ رب کائنات ہے۔اس کی تخلیق کا شرف صرف مجھے حاصل نہیں ہے بلکہ میری بصارت کی حد اوراس حد سے پار بھی جو کچھ ہے اسی کا بنایا ہوا ہے اسی کی تخلیق ہے۔یہ اس کی قدرت کی وسعت ہے کہ اس نے مجھے ارادہ دیا اور ارادے پر عمل کرنے کا اختیار بھی سونپ دیا۔مجھے تخلیق کرکے آزاد کردیا مگرمحبت کا یہ عالم کہ میں راہ سے نا بھٹک جاوں میری رہنمائی کے لیے اپنے برگذیدہ بندوں کو معبوث فرمایا۔ایک وقت ایسا آیا جب اپنے محبوب کو وجہ تخلیق کائنات کو ہماری اصلاح ورہنمائی کے لیے معبوث فرمایا۔ہم پر اپنی حجت تمام کردی اپنی رحمت کی انتہا کردی اور رحمتہ العالمین کو بھیج کر نبوت کا یہ سلسلہ بند کردیا۔
سرزمین حجاز میں آخری پیغمبر نے اپنی حیات مبارکہ میں ایک انقلاب برپا کردیا۔دنیا کا سب سے پرامن کامیاب انقلاب جس میں ہدایت کی گئی کہ عورتوں اور بچوں پر ظلم نہیں کرنا ، جوہتھیار ڈال دے اس کو معاف کردینا۔بوڑھوں کے ساتھ احترام سے پیش آنا ہے۔جو حرم میں یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے اس کو امان حاصل ہوگی۔جو تلوار نکالے اس کو اسلام کی دعوت دو اگر انکار کرے تو باامر مجبوری تلوار نکالو۔کسی بے گناہ کا خون بہانے کی اجازت نہیں ہوگی۔اس کے بعد دنیا نے دیکھا بنا خون بہائے عظیم الشان فتح حاصل ہوئی۔فتح کے بعد عام معافی کا اعلان ہوا۔جس نے تکلیف دی اس کو بھی معاف کردیا جس نے کلیجہ چبایا اس کو بھی معاف کردیا۔
اپنے آبا واجداد کا مذہب چھوڑ کر لوگ جوق در جوق رحمت کے سائے میں آنے لگے ۔قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور رحمت کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا گیا۔دنیا کی تاریخ میں ایک مثالی ریاست قائم ہوگئی۔ایک ایسی ریاست جس کا منشور تھا کہ کسی گورے کو کالے پراور عربی کو عجمی پر برتری نہیں ہوگی۔رنگ ونسل کی برتری کو ختم کرتے ہوے انسانیت کا درس دینے والی ریاست میں اگر کوئی برتر تھا تو اپنے تقویٰ کی بنیاد پر تھا۔عدل وانصاف کاایسا معیار قائم کیا کہ چوری کے ایک مقدمہ میں یہاں تک فرمادیا کہ اگر یہاں میری بیٹی بھی ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیتا۔
دنیا کےاس عظیم رہنما کی صحبت کا اثر تھا کہ قریب ترین اصحاب جب برسراقتدار آئے تو عدل وانصاف ، معاشرے کی فلاح اور اصلاح کے لیئے ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ آج کی جدید دنیا کے غیر مسلم ممالک میں ان کے اقدامات کو قوانین کا درجہ حاصل ہے ۔سچائی کا عالم یہ ہے کہ آخری الہامی کتاب کو چودہ صدیاں گذر گئیں مگر اس پر لوگ آج بھی ایمان لے آتے ہیں۔خدا کا تصور تو کسی نا کسی شکل میں ہر الہامی اور غیرالہامی مذہب میں موجود ہے۔مگر نسل انسانی میں اگر کسی کو عظیم ترین مبلغ اور رہنما کا درجہ دینا ہوتو مائیکل ہارٹ جیسا عیسائی مصنف بھی اپنی کتاب 100 عظیم شخصیات کی ابتدا میرے آقا سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ذکر سے کرتا ہے۔
مائیکل ہارٹ نے تو اپنی کتاب کی ابتدا میرے نبی کے زکر سے کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی ابتدا میرے نبی کے ذکر سے ہوئی اور فرمایا گیا کہ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا۔اس کا عملی ثبوت یہ کہ جب طائف میں پتھر برساے گئے اور غزوہ احد میں عتبہ بن ابی وقاص کے پتھر سے پیشانی مبارک اور دندان مبارک شہید ہوئے تو بارگاہ الہیٰ میں اس کریم ہستی نے دعا مانگی کہ رب اغفرلی قومی فانھم لایعلومون، خدایا! میری قوم کو معاف کر دے کیونکہ یہ جاہل و نادان ہیں۔
اسی لیئے ہمیں حکم دیا گیا کہ اپنے نبی کے نقش قدم پر چلو۔تو اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم چل رہے ہیں۔کیا سیالکوٹ کا واقعہ ہمارے لیئے سوالیہ نشان نہیں ہے۔سیالکوٹ میں ایک سری لنکن نہیں ایک انسان کو بہیمانہ انداز میں قتل کرکے جلا کر خاک کردیا گیا۔کیا میرے نبی کی تعلیمات یہی تھیں؟کیا ہمارا مذہب اس قتل کی اجازت دیتا ہے؟کیا ہمارا قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔اگر اس نے توہین مذہب کی تھی تو اس کے لیئے قانون موجود ہے مگر ایک متشدد ہجوم کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر اپنے فیصلے سڑکوں پر کرنے لگ جائے۔سیالکوٹ سانحہ کے بعد ہم مذہب ہی نہیں بلکہ انسانت کے دائرے سے بھی باہر نکل گئے ہیں۔ہم نے دنیا کو اپنا وہ چہرہ دکھایا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔اس قتل کا دکھ اپنی جگہ تکلیف یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے ہجو م میں ایک بھی انسان ایسا نہیں تھا جو اس ظلم کوروکنے کی کوشش کرتا۔ریاستی ادارے کہاں تھے ، قانون کیوں غفلت کی نیند سورہا تھا۔یہ سلسلہ کب تک چلے گا اور کب اس کا اختتام ہوگا۔کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ریاست اپنی زمہ داریاں ادا کرئے ۔بہرحال جوہوا قابل مذمت اور انتہائی افسوسناک ہے ۔اس طرح کی صورتحال میں افتخار عارف کا شعر یاد آرہا ہے کہ
رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامل ایمان
امتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے